سورۃ الفتح

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
سورۃ الفتح
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿ اِنَّا فَتَحۡنَا لَکَ فَتۡحًا مُّبِیۡنًا ۙ﴿۱﴾ لِّیَغۡفِرَ لَکَ اللہُ مَا تَقَدَّمَ مِنۡ ذَنۡۢبِکَ وَ مَا تَاَخَّرَ وَ یُتِمَّ نِعۡمَتَہٗ عَلَیۡکَ وَ یَہۡدِیَکَ صِرَاطًا مُّسۡتَقِیۡمًا ۙ﴿۲﴾ وَّ یَنۡصُرَکَ اللہُ نَصۡرًا عَزِیۡزًا ﴿۳﴾ ﴾
شانِ نزول:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں ایک خواب دیکھا کہ آپ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ مسجد حرام میں داخل ہوئے اور عمرہ فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سامنے اس کا تذکرہ فرمایا۔ ہرایک کا شوق بڑھا کہ ہمیں عمرے کے لیے جانا چاہیے۔ فطری شوق تو تھا کیونکہ مہاجرین صحابہ کو مکہ مکرمہ سے نکالا گیا تھا تو ان کا شوق زیادہ تھا۔ انصارِ مدینہ کا بھی شوق تھا کہ ہمیں بھی جانا چاہیے۔ تو سب پر شوق غالب آیا۔ آخر کار فیصلہ ہوا سن 6 ہجری کو مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ کے سفر کا۔ تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ سے باہر جو دیہات تھے وہاں بھی آواز لگوائی کہ سب سے کہو کہ ہمیں چلنا چاہیے۔اس کی وجہ ان کے ذہن میں تھی کہ ہم عمرہ کرنے کے لیے جائیں گے تو مشرکینِ مکہ رکاوٹ پیدا کریں گے اور ممکن ہے کہ جنگ تک نوبت پہنچ جائے، اس لیے ہمیں اپنی طاقت کے ساتھ جانا چاہیے، مکمل تو نہیں لیکن تلواریں وغیرہ ساتھ لے لیں اور چودہ سو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا لشکر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بغرضِ عمر ہ مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوا۔
ادھر جب مشرکینِ مکہ کو اطلاع ملی تو ان لوگوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ ان کو عمرہ کرنے دینا چاہیے یا نہیں؟ بالآخر انہوں نے یہ مشورہ کیا کہ ان کو عمرہ نہیں کرنے دینا چاہیے اور ان کو روکنا چاہیے، اگر ویسے نہیں رکتے تو ان کوطاقت کے ساتھ روکیں گے۔ خالد بن ولید ابھی صحابی نہیں بنے تھے یہ کام ان کے ذمے لگا کہ قریش کا ایک گروہ لے کر باہر نکلیں۔ جب یہ نکلے تو اور دیگر لوگوں نے بھی ان کا ساتھ دیا۔ مکہ مکرمہ سے باہر بَلْدَحْ ایک جگہ کا نام تھا وہاں پر حضرت خالد بن ولید اور ان ساتھ جو لشکر تھا ان لوگوں نے وہاں پڑاؤ ڈالا اور آپس میں عہد کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے۔
عمرہ کا قصد اور مشرکینِ مکہ کی مزاحمت:
ادھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اطلاع ملی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قافلہ بھی گیا۔ تو ایک ایسی جگہ پر پہنچ گئے کہ ان کا اور خالد بن ولید کے قافلہ کا آمنا سامنا ہو گیا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بندے کو بھیجا اور ان سے بات چیت ہوئی کہ ہم صرف بغرض عمرہ آئے ہیں، ہمیں عمرہ کرنے دو، ہم واپس چلے جائیں گے لیکن انہوں نے کہا کہ یہ نہیں ہو سکتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بات سمجھائی کہ دیکھو! جنگیں کر کر کے تم تھک گئے ہو، مجھے چھوڑ دو، میں عمرہ کروں گا اور واپس جاؤں گا۔ باقی عرب قبائل سے مجھےنمٹنے دو، اگر وہ مجھ پر غالب آ گئے اور میں قتل ہو گیا تو تمہارا مدعا پورا ہو جائے گا اور اگر میں زندہ رہا تو تمہیں مزید موقع مل جائے گا تیاری کرنے کا، تم اپنی بھڑاس نکال لینا، فی الحال ہمیں کچھ نہ کہو لیکن وہ پھر بھی آمادہ نہ ہوئے۔
حضور علیہ السلام کا معجزہ:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو لیا اور خالد بن ولید کے لشکر کے دوسری جانب آپ نے پڑاؤ ڈال دیا۔ قریش کے لشکر نے پانی کی جو جگہ تھی اس پر بھی قبضہ کر لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جگہ وہ آئی جہا ں پانی نہیں تھا، بس وہاں پانی کا ایک کنواں تھا وہ بھی تقریباً خشک ہو چکا تھا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا لعاب مبارک اس میں ڈالا اور ایک تیر بھی دیا کہ اس کو اس کنویں میں گاڑ دو۔ تیر کا گاڑنا تھا کہ کنویں کے اوپر کے کنارے تک پانی امڈ آیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے پاس پانی جمع ہو گیا۔ انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک واضح معجزہ دیکھا۔
اہلِ مکہ کو سمجھانے کی کوششیں:
خیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ والوں کو کوشش کی سمجھانے کی لیکن وہ نہیں مانے۔ اہلِ مکہ میں سے ایک شخص تھے بدیل بن ورقاء جو بعد میں مسلمان بھی ہو گئے تھے، وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور انہوں نے کہا کہ آپ واپس چلے جائیں، عمرہ نہ کریں! رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بھی بات سمجھائی کہ ہم عمرے کے لیے آئے ہیں، ہماری کوئی اور غرض نہیں ہے، ہم لڑائی کے لیے نہیں آئے، جنگ ہمارا مقصد نہیں ہے۔ یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو پوری سمجھائی جو بات حضرت خالد بن ولید کو سمجھائی تھی وہ بات پوری دوہرا دی۔
بدیل بن ورقاء نے بات سمجھی اور واپس جا کر قریش کو بات سمجھائی لیکن قریش نے کہا کہ ہم تو لڑیں گے۔ پھر عروہ بن مسعود ثقفی یہ اپنے طور پر آئے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے اور بات کی۔ یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بھی سمجھائی تو ان کو بھی سمجھ آ گئی۔ انہوں نے واپس جا کر اہلِ مکہ کو سمجھایا لیکن وہ اپنی ضد پر اڑے رہے اور کہا کہ ہم تو لڑیں گے، ہم تو قتل کریں گے۔ جب قریش نے عروہ بن مسعود کی بات نہ مانی تو وہ اپنی جماعت کو لے کر ان سے الگ ہوگئے۔
پھر حلبیس بن علقمہ جو اَعراب کے سردار تھے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اپنے کچھ آدمی لے کر، انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بھی پوری بات سمجھائی جو بدیل بن ورقاء اور عروہ بن مسعود کو سمجھائی تھی، ان کو بھی سمجھ آ گئی۔ انہوں نے بھی واپس جا کر قریش مکہ سے بات کی لیکن وہ تو ضد پر اڑے ہی رہے اور کہا کہ ہم تو لڑیں گے۔ جب حلبیس بن علقمہ کی بات بھی انہوں نے نہ مانی تو وہ بھی اپنی جماعت لے کر قریش سے الگ ہو گئے۔
ایک شخص اور بھی آیا، اس نے بھی بات کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بھی یہی بات سمجھائی۔ اس کو بھی بات سمجھ آ گئی۔ اس نے بھی جا کر قریش کو سمجھایا لیکن وہ ضد پر اڑےرہے۔ یہ بھی اپنی جماعت لے کر ان سے الگ ہو گیا۔
مکہ کے جو قریشی تھے ان کے ذہن میں یہ تھا کہ اگر یہ لوگ آئے، عمرہ کیا اور عمرہ کر کے واپس چلے گئے تو ہمیں باقی عرب کہے گاکہ مسلمان تم پر غالب آ گئے ہیں۔ طاقت کے بل بوتے پر آئے ہیں اور عمرہ کر کے واپس چلے گئے ہیں، اس سے تو ہماری عزت خاک میں مل جائے گی، اس لیے ہم انہیں کسی بھی صورت میں عمرہ نہیں کرنے دیں گے۔
حضرت عثمان؛ نمائندہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تم خود مکہ میں جاؤ اور ان کو سمجھاؤ! حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ حضور! میری خود ان سے جنگ ہے، میرے مزاج کی شدت کو بھی وہ لوگ سمجھتے ہیں، میرا وہاں پر کوئی حامی بھی نہیں کہ بات ان کو سمجھا ئے، اس لیے بہتر ہے کہ آپ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو بھیجیں، ان کاوہاں قبیلہ بھی ہےاور وہاں ان کی خاص عزت بھی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو بھیجا، وہ چلے گئے۔ جب مکہ مکرمہ پہنچے تو ابان بن سعید سے ملے، ابان بن سعید بعد میں مسلمان بھی ہو گئے تھے، انہوں نے حضرت عثمان کو پناہ دی اور پھر ان کو لے کر تین دن تک قریش کے جتنے بڑے بڑے سردار تھے سب سے ملاقاتیں کیں، حضرت عثمان نے قریشی سرداروں کو بہت سمجھایا کہ ہم عمرے کے لیے آئے ہیں، لڑائی ہمارا مقصد نہیں ہے لیکن انہوں نے کہا کہ کچھ بھی ہو جائے ہم ایسانہیں کرنے دیں گے۔ تین دن تک آپ وہاں ٹھہرے رہے۔ ان لوگوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اگر آپ طواف کرنا چاہیں تو کر لیں، فرمایا کہ میں تو حضور کے بغیر طواف نہیں کر سکتا۔ بعض صحابہ نے کہا کہ عثمان کے تو مزے ہیں، وہ تو طواف کر رہے ہوں گے۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عثمان میرے بغیر طواف نہیں کرے گا۔ اب دیکھو! اعتماد کی فضا کتنی ہے!
ادھر مشرکینِ مکہ نے اپنے پچاس آدمی بھیجے کہ جاؤ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جو محافظ ہیں ان سے بچ کے ان کا کام تمام کرو۔ جب یہ لوگ آئے تو محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پہرے پر مامور تھے انہوں نے ہمت کی، کچھ اور صحابہ ساتھ لیے اور مشرکین کے ان پچاس افراد کو گرفتار کر کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے۔ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تو ان کو قتل بھی کر سکتے تھے لیکن آپ نے ان کو قتل نہیں کیا۔ جب مسلمانوں نے ان کے پچاس بندے قید کر لیے تو انہوں نے حضرت عثمان کو وہاں روک لیا اور کہا کہ تم ان کو مارو گے تو ہم ان کو بھی قتل کر دیں گے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پچاس کو چھوڑ دیا تاکہ وہاں پر قتل نہ ہو۔ انہوں نے بھی حضرت عثمان کو چھوڑ دیا لیکن ادھر خبر پہنچی کہ حضرت عثمان کو شہید کر دیا گیا ہے۔
قتلِ عثمان کا بدلہ لینے پر بیعت:
اس پر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم حضرت عثمان کا بدلہ لیں گے اور واپس نہیں جائیں گے۔ دیکھو ہم نے ان کے پچاس بندے چھوڑ دیے اور انہوں نے قتل کر دیا۔ تو یہ ہمارے ساتھ زیادتی ہوئی ہے، اس لیے ہم بدلہ لیں گے۔ اس پر چودہ سو کے لگ بھگ جو صحابہ تھے ان سب نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ مبارک پر بیعت کی بدلہ لینے کے لیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نیچے اپنا دایاں ہاتھ رکھا اور اس پر اپنا بایاں ہاتھ رکھا اور فرمایا کہ اگر عثمان یہاں پر ہوتے تو وہ بھی موت کی بیعت کرتے۔ یہ میرا ہاتھ عثمان کا ہاتھ سمجھو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف سے بھی بیعت کر لی۔
مشرکینِ مکہ سے مذاکرات:
جب یہ خبر وہاں مکہ مکرمہ میں مشرکینِ مکہ کے پاس پہنچی تو ان کے ذہن کی فضا تو بالکل بدل گئی۔ وہی مشرکینِ مکہ جو بات ماننے کی لیے تیار نہیں تھے اللہ رب العزت نے ایسا رعب ان کے دلوں میں ڈالا کہ وہاں سے تین آدمیوں کا قافلہ سہیل بن عمر و کی قیادت میں آیا کہ ہم آپ سے مذاکرات کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بتاؤ! تم کیا چاہتے ہو؟ سہیل بن عمرو پہلے بھی مذکرات کے لیے آئے تھے اس وقت صرف اتنی بات تھی کہ پچاس بندے رہا کروا کر لے گئے تھے اور اب جب دوبارہ آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھتے ہی فرمایا کہ مجھے لگتا ہے کہ مکہ والے مذاکرات کے لیے آمادہ ہو گئے ہیں۔ سہیل کے آنے سے محسوس کیا۔ جب وہ آیا تو پھر مذاکرات شروع ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ جی! آپ اس سال واپس چلے جائیں اور آئندہ سال آپ عمرے کے لیے آئیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ٹھیک ہے، ہمیں یہ شرط منظورہے، ہم اس سال واپس جاتے ہیں اور ہم آئندہ سال پھر آئیں گے عمرہ کے لیے۔ دوسری شرط یہ ہے کہ اگر ہم میں سے کوئی شخص مسلمان ہو اور آپ کے پاس چلا جائے تو آپ لوگ اسے واپس کرنے کے پابند ہوں گےاور اگر آپ کاکوئی شخص ہمارے مذہب کی طرف واپس آ جائے -جس کو ہم مرتد کہتے ہیں- تو ہم اسے واپس نہیں کریں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہمیں منظور ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی شرائط تھیں جو آپ نے پڑھی ہیں۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ اس پر بہت رنج ہوا کہ یہ آپ کیا فرما رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہمیں منظور ہے اور ایک روایت میں ہے کہ جب صحابہ رضی اللہ عنہم نے اصرار کیا کہ حضور! آپ کس بات پر معاہدہ فرما رہے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو ہمیں چھوڑ کر ان کے پا س چلا جائے گا تو اس کی ہمیں ضرورت ہی نہیں ہے، اس کو کیا کرنا ہے واپس لا کر، بس اسے جانے دو اس کو! صحابہ رضی اللہ عنہم کو یہ بات سمجھ میں آ گئی۔
معاہدہ کی شقوں پر فریقین کی گفتگو:
اسی طرح سہیل بن عمرو نے یہ بات بھی رکھی کہ ہمارا دس سال کا آپس میں معاہدہ ہے، ہم آپ سے جنگ نہیں کریں گے اور آپ بھی ہم سے جنگ نہیں کریں گے، جو قبیلہ آپ کے ساتھ ملنا چاہے اسے اختیار ہے کہ آپ کے ساتھ ملے اور جو ہمارے ساتھ ملنا چاہے وہ ہمارے ساتھ ملے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہمیں منظور ہے۔ ان شرائط پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے معاہدہ فرما لیا۔
جب معاہدہ لکھا جانے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بلایا کہ لکھو! ”بسم اللہ الرحمٰن الرحیم“
یہ سہیل بن عمرو اور محمد کے درمیان ہے تو آپ نے حضرت علی سے فرمایاکہ لکھو حضرت علی رضی اللہ عنہ نےلکھا
اس پر سہیل نے کہا کہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم نہ لکھیں، کیونکہ الرحمٰن اور الرحیم ہمارے ہاں نہیں لکھا جاتا، جو پہلے آپ لکھتے تھے ”بِاسْمِکَ اللّٰھُمَّ“ اب بھی وہی لکھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: علی! یہی لکھو۔یہ لکھ دیا گیا۔ پھر فرمایا: لکھو کہ یہ وہ معاہدہ ہے جس کا فیصلہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے۔اس پر بھی سہیل بن عمرو نے کہا کہ اگر ہم آپ کو رسول اللہ مان لیں تو جھگڑا ہی ختم ہو جائے گا، یہی بات تو ہم نہیں مانتے اور معاہدے میں ایسی باتیں نہیں لکھتے جو فریقین میں اختلافی ہوں بلکہ وہ لکھتے ہیں جو اتفاقی ہوں، ”رسول اللہ “ یہ اختلافی نکتہ ہے اس لیے محمد بن عبد اللہ لکھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: علی! یہ ”رسول اللہ“ کا لفظ کاٹ دو اور ”محمد بن عبد اللہ“ کا لفظ لکھو! انہوں نے عرض کیا:حضور! اسے کاٹنا میرے بس میں نہیں ہے۔ انہوں نے نہیں کاٹا۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کاغذ مجھے دو! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کاغذ خود لے کر معاہدہ اپنے ہاتھ سے لکھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تو امی تھے لیکن عجیب بات یہ ہے کہ امی ہونے کے باوجود یہ تحریر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود لکھی ہے:
”هٰذَا مَا قَاضٰى مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّهِ وَسُهَيْلُ بْنُ عَمْرو وَأَصْلَحَا عَلٰى وَضْعِ الْحَرْبِ عَنِ النَّاسِ عَشَرَ سِنِيْن يَاْمَنُ فِيْهِ النَّاسُ وَيَكُفُّ بَعْضُهُمْ عَنْ بَعْضٍ“
التفسیر المظہری: ج9 ص15
کہ یہ معاہدہ محمد بن عبد اللہ اور سہیل بن عمرو کے درمیان ہے، دونوں فریقوں نے اس بات پر صلح کی ہے کہ دس سال تک ایک دوسرے سے جنگ نہیں کریں گے، اس دوران سب لوگ امن کے ساتھ رہیں گے اور ایک دوسرے پر چڑھائی کرنے سے رکے رہیں گے!
معاہدہ کی شرائط طے ہوئی ہی تھیں کہ ابو جندل؛ سہیل بن عمرو کے بیٹے کسی طریقے سے اپنی بیڑیاں کھلوا کر یہیں حدیبیہ ہی میں پہنچ گئے۔ ابو جندل مسلمان ہو چکے تھے تو ان کے والد سہیل بن عمرو نے ان کو بیڑیاں لگا دیں تھیں۔ تو وہ کسی طرح وہاں سے نکل کر یہاں آ گئے۔ سہیل نے کہا کہ یہ تو ہمارا معاہدہ ہے کہ اگر ہمارا بندہ ہمارے دین کو چھوڑ کر آپ کےپاس آ جائے تو آپ واپس کرنے کے پابند ہیں، اس لیے ابو جندل کو واپس کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابو جندل! واپس چلے جاؤ۔ انہوں نے کہا کہ حضور !یہ بہت ظلم کرتے ہیں۔ فرمایا کہ بہت جلد اللہ اسباب عطا فرما دیں گے، تم واپس چلے جاؤ۔ یوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو واپس کر دیا۔
تو یہ تھا صلحِ حدیبیہ کا پس منظر جس پر معاہدہ ہوا تھا۔
حضرت عمر کی دربارِ نبوت میں حاضری:
جب وہاں سے واپس آنے لگے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے رہا نہ گیا۔ آپ رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا: حضور! کیا آپ اللہ کے سچے نبی نہیں ہیں؟ فرمایا کہ سچا نبی ہوں۔ کہا کہ ہم حق پر اور وہ باطل پر نہیں؟فرمایا: ہم حق پر اور وہ باطل پر ہیں۔ کہا کہ کیا ہمارے مقتول جنت میں اور ان کے مقتول جہنم میں نہیں؟ فرمایا: کیوں نہیں! کہا: یا رسول اللہ! پھر آپ اتنا دب کے کیوں معاہدہ کرتے ہیں؟! حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اللہ کا بندہ اور اللہ کا رسول ہوں، میں اللہ کے حکم کے خلاف نہیں کروں گا، اللہ میری مدد ضرور کرے گا۔ عمر! اسی میں خیر ہے۔ حضرت عمر عرض کرنے لگےکہ یا رسول اللہ! آپ نے ہمیں تو فرمایا تھا کہ ہم بیت اللہ میں جائیں گے، طواف کریں گے، عمرہ کریں گے! فرمایا کہ میں نے کہا تھا لیکن کیا یہ بھی کہا تھا کہ اسی سال کریں گے؟ عرض کیا جی نہیں۔ فرمایا کہ میں نے جس طرح کہا تھا ان شاء اللہ ایسے ہی ہو گا، ہم بیت اللہ کا طواف ضرور کریں گے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس وقت خاموش تو ہو گئے۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس گئے کہ کیا حضور سچے نبی نہیں ہیں؟ حق پر نہیں ہیں؟ انہوں نے فرمایا: بالکل سچے ہیں، حق پر ہیں۔ کیا مشرکین باطل پر نہیں ہیں؟ فرمایا: باطل پرہیں۔ تو پھر یہ معاہدہ ہم کیوں کرتے ہیں؟ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے وہی جواب دیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں، اللہ کے حکم کے خلاف کبھی نہیں کریں گے اور اللہ ان کی مدد فرمائے گا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ خود ارشاد فرماتے ہیں کہ اس کے بعد میں برابر صدقہ کرتا رہا، غلام آزاد کرتا رہا، توبہ واستغفار کرتا رہا کہ یا اللہ! یہ میں نے کیا کیا؟ میں کیوں جذبات میں آ کر یہ بات کہتا تھا۔
اصل یہ تھا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب دیکھا کہ میں صحابہ کے ساتھ بیت اللہ گیا ہوں اور ہم نے عمرہ کیا ہے لیکن اس میں وقت کا تعین نہیں تھا کہ اب کریں گے یا آئندہ سال کریں؟ شوق غالب تھا تو اسی سال روانہ ہو گئے۔ مقدر میں آئندہ سال لکھا تھا۔ جب وہاں سے واپس لوٹے تو پھر یہ سورت نازل ہوئی۔ ایک روایت میں ہے کہ مکمل سورت نازل ہوئی اور ایک روایت میں ہے کہ سورت کا کچھ حصہ ابھی نازل ہوا اور کچھ حصہ بعد میں نازل ہوا۔
”لِيَغْفِرَ لَكَ اللهُ“ کا معنی:
﴿اِنَّا فَتَحۡنَا لَکَ فَتۡحًا مُّبِیۡنًا ۙ﴿۱﴾ لِّیَغۡفِرَ لَکَ اللہُ مَا تَقَدَّمَ مِنۡ ذَنۡۢبِکَ وَ مَا تَاَخَّرَ ﴾
ہم نے آپ کو کھلی فتح عطا کی ہے۔
کھلی فتح کیوں عطا کی ہے؟ اس کی ایک حکمت جو عام مفسرین نے تحریر فرمائی ہے وہ یہ ہے کہ کھلی فتح اس لیے عطا کی ہے تاکہ آپ کی جو اجتہادی خطائیں ہیں، خلافِ اولیٰ کام ہیں ہم ان کو معاف کر دیں،
”مَا تَقَدَّمَ“
یعنی اعلانِ نبوت سے پہلے والی اور
”وَ مَا تَاَخَّرَ“
یعنی اعلانِ نبوت کے بعد والی۔ اب اس کا تعلق فتح کے ساتھ کیا ہو گا؟ تو حضرت تھانوی رحمہ اللہ کی رائے یہ ہے کہ اس کا فتح سے تعلق یہ ہے کہ جب ہم آپ کو فتح دیں گے، آپ کی فتح کو دیکھ کر لوگ مسلمان ہوں گے اور لوگوں کے اسلام میں آنے کی وجہ سے آپ کو ثواب ملے گا، ثواب اتنا زیادہ ملے گا کہ اس سے اجتہادی خطاؤں کا تدارک ہو جائے گا۔ تو
”لِّیَغۡفِرَ لَکَ اللہُ مَا تَقَدَّمَ مِنۡ ذَنۡۢبِکَ وَ مَا تَاَخَّرَ“
کا معنی یہ ہے۔
اور میں کئی بار کہہ چکا ہو ں -شاید آپ کے علم میں ہو- کہ یہاں ذنب کا معنی اگر ”گناہ“ کریں گے تو آیت میں جوڑ ہی نہیں رہے گا کیونکہ اب معنی یہ ہو گا: ”ہم نے آپ کو فتح دی تاکہ آپ کے گناہ معاف کر دیں“تو سوال یہ ہو گا کہ فتح سے گناہ کی معافی کا کیا تعلق ہے؟ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم آپ کو فتح دیں گے تاکہ آپ ریاست قائم کریں، فتح دیں گے تاکہ آپ ظلم کا بدلہ لیں، فتح دیں گے تاکہ آپ احکام نافذ کریں، فتح دیں گے تاکہ اسلام کی عظمت نظر آئے... یہ بات تو سمجھ آتی ہے لیکن فتح دیں گے تاکہ آپ کے گناہ معاف کر دیں تو فتوحات کا گناہوں کی معافی سے کیا تعلق ہے؟
مثال کے ذریعے وضاحت:
جیسے آپ کے علاقے میں کوئی بندہ الیکشن لڑے اور ایم این اے بنے تو آپ کہیں مبارک ہو! وہ کہے کیوں؟ اس لیے کہ اللہ نے آپ کے گناہ معاف کر دیے؟ وہ پوچھے: کیوں گناہ معاف کر دیے؟ آپ فاتح نہیں ہوئے،آپ غالب نہیں آ گئے؟ تو غلبہ کے ساتھ گناہو ں کی معافی کا اعلان تو نہیں ہوتا۔
ہاں اگر یہ ہوتا کہ ہم نے آپ کو توبہ کی توفیق دی تاکہ آپ کے گناہ معاف ہو جائیں تو یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے! لیکن ہم نے آپ کو فتح دی تاکہ آپ کے گناہ معاف ہو جائیں، بظاہر اس میں کوئی ربط محسوس نہیں ہوتا۔ اس لیے ہم کہتے ہیں کہ یہاں تین باتیں سمجھنا ضروری ہے:
1:
”غَفَرَ... یَغْفِرُ... غُفْرَانًا وَ مَغْفِرَۃً“
کا معنی
2:
”مَا تَقَدَّمَ “
اور
”وَ مَا تَاَخَّرَ“
کا معنی۔
3: ذنب کا معنی۔
• غفران کا معنی ہوتا ہے ڈھانپ لینا۔ اس لیے میدان جنگ میں جو لوہے کی ٹوپی سر پر پہنی جاتی ہے جسے اردو میں خَوْد کہتے ہیں،اسے عربی میں
”مِغْفَرْ“
کہتے ہیں یعنی ڈھانپ لینے والی چیز، ڈھانپ لینے والا آلہ۔ تو مغفرت کا معنی ہوا ڈھانپ لینا۔
”مَا تَقَدَّمَ “
سے مراد ہے مکی زندگی اور
”وَ مَا تَاَخَّرَ“
سے مراد ہے مدنی زندگی۔
• اور ذنب کا معنی صرف گناہ نہیں ہوتا بلکہ ذنب کا معنی الزام بھی ہوتا ہے۔ عربی میں ذنب کہتے ہیں دم کو، جس طرح دم جانور کے پیچھے ہوتی ہے اسی طرح الزام لگانے والے بھی عموماً الزام بندے کے پیچھے لگاتے ہیں۔ تو ذنب محاوراتِ عرب میں الزام کو بھی کہتے ہیں۔
اب اس کا مطلب یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر مکی زندگی اور مدنی زندگی میں لوگ الزام لگاتے تھے۔ مکی زندگی میں الزام یہ تھے کہ آپ شاعر ہیں، مجنون ہیں، ساحرہیں.... اور مدنی زندگی میں الزام کیا تھے کہ آپ کو اقتدار کا شوق ہے، حکومت کا شوق ہے، لیڈر بننے کا شوق ہے.. . اور الزام کون لگاتا ہے جو مخالف ہو، وہ نہیں لگاتا جو عقیدت مند ہو۔ تو اللہ پاک فرماتے ہیں کہ ہم نے اتنی کھلی اور شاندار فتح آپ کو دی
﴿اِذَا جَآءَ نَصۡرُ اللہِ وَ الۡفَتۡحُ ۙ﴿۱﴾ وَ رَاَیۡتَ النَّاسَ یَدۡخُلُوۡنَ فِیۡ دِیۡنِ اللہِ اَفۡوَاجًا ۙ﴿۲﴾﴾
اب اس فتح کے نتیجے میں آپ کے جو مخالف تھے وہ موافق اور معتقد بنے ہیں، جو گالیاں دیتے تھے ...الزام لگاتے تھے مخالفت کی وجہ سے وہ جب آپ کے غلام بن کر عقیدت مند ہو گئے تو اب یہ الزام نہیں لگائیں گے بلکہ آپ کی مدح کریں گے، آپ کی تعریف کریں گے۔ تو ہم نے فتح عطا فرما کر مکی اور مدنی زندگی میں جو لگنے والے الزامات تھے وہ سارے ہم نے صاف کر دیے ہیں، اب آپ پر الزام نہیں لگیں گے بلکہ اب آپ کی مدح ہو گی۔
اب اس تقریر کے بعد بات ایسی واضح ہو جاتی ہے کہ اب کوئی اشکال رہتا ہی نہیں ہے اور نہ ذنب کا معنی گناہ کرنا پڑتا ہے بلکہ بلاتاویل بات بالکل کھل کر سامنے آتی ہے، اس لیے بہتر ہے کہ تقریر یہاں پر یہ کر لی جائے۔
فتحِ مبین؛ اتمامِ نعمت کا ذریعہ
﴿وَ یُتِمَّ نِعۡمَتَہٗ عَلَیۡکَ وَ یَہۡدِیَکَ صِرَاطًا مُّسۡتَقِیۡمًا ۙ﴿۲﴾﴾
اللہ نے آپ کو نبوت بھی دی ہے، قرآن بھی دیا ہے اور ہم مزید لوگ حلقہ اسلام میں داخل کر کے آپ پر اپنی نعمت کو مزید مکمل کریں گے اور آپ پہلے بھی صراط مستقیم پر ہیں لیکن راستے میں رکاوٹیں ہیں، اب بغیر رکاوٹوں کے ہم آپ کو دین کے راستے پر چلا دیں گے۔اب ہم نے کفر کی رکاوٹیں ختم کر دی ہیں، اب سہولت کے ساتھ ہم آپ کو اس راستے پر چلائیں گے۔
﴿ہُوَ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ السَّکِیۡنَۃَ فِیۡ قُلُوۡبِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ﴾
یہاں
”السَّکِیۡنَۃَ “
سے مراد تحمل ہے۔ فرمایا: اللہ کی ذات وہ ہے جس نے مؤمنین کے دلوں میں تحمل پیدا فرما دیا۔ اگر اللہ کی طرف سے تحمل نہ ہوتا تو اس بات کو برداشت کرنا کتنا مشکل تھا! ان شرائط کے ساتھ معاہدہ کرنا کتنا مشکل تھا! اللہ نے تحمل کی طاقت دی ہے۔
﴿لِیَزۡدَادُوۡۤا اِیۡمَانًا مَّعَ اِیۡمَانِہِمۡ﴾
پہلے ایمان سے مراد ہے اصلِ ایمان اور مزید ایمان سے مراد ہے نور ایمان کہ ہم اس ایمان کے ساتھ مزید ایمان بڑھاتے ہیں، یوں وہ نورِ ایمان آپ پر آتا ہے۔
﴿وَ لِلہِ جُنُوۡدُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ وَ کَانَ اللہُ عَلِیۡمًا حَکِیۡمًا ۙ﴿۴﴾﴾
آسمان اور زمین کے سارے لشکر اللہ ہی کے ہیں، اللہ جانتا بھی ہے اور حکمت والا بھی ہے۔ وہ جانتا ہے کہ فتح کس کو دینی ہے اور حکمت والا بھی ہے کہ یہ فتح کس وقت دینی ہے!
﴿لِّیُدۡخِلَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ الۡمُؤۡمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا وَ یُکَفِّرَ عَنۡہُمۡ سَیِّاٰتِہِمۡ ؕ وَ کَانَ ذٰلِکَ عِنۡدَ اللہِ فَوۡزًا عَظِیۡمًا ۙ﴿۵﴾﴾
یہ ہم نے جو آپ کوفتح عطا فرمائی اور ایمان والوں کو تحمل دیا یہ اس لیے دیا تاکہ یہ آپ کی بات کو مانیں تو اللہ اس کے بدلے میں ان ایمان والے مردوں اور عورتوں کو جنت میں داخل کریں جن میں نہریں جاری ہیں، ان میں ہمیشہ رہیں گے، اللہ ان کے گناہو ں کو معاف کر دیں گے۔ اللہ کے ہاں یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔
﴿وَّ یُعَذِّبَ الۡمُنٰفِقِیۡنَ وَ الۡمُنٰفِقٰتِ وَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ وَ الۡمُشۡرِکٰتِ الظَّآنِّیۡنَ بِاللہِ ظَنَّ السَّوۡءِ ؕ عَلَیۡہِمۡ دَآئِرَۃُ السَّوۡءِ ۚ وَ غَضِبَ اللہُ عَلَیۡہِمۡ وَ لَعَنَہُمۡ وَ اَعَدَّ لَہُمۡ جَہَنَّمَ ؕ وَ سَآءَتۡ مَصِیۡرًا ﴿۶﴾﴾
اور اللہ نےیہ فتح اس لیے دی ہےتاکہ منافق مردوں اور منافق عورتوں کو اللہ عذاب دیں، مشرک مردوں اور مشرک عورتیں کو بھی عذاب دیں، ان منافقوں اور مشرکوں کا بدعقیدہ ہونے کی وجہ سے اللہ کے بارے میں گمان اچھا نہیں تھا۔ انہی پر عذاب ہو گا، انہی پر اللہ کا غضب ہو گا، اللہ کی لعنت ہو گی اور پھر آخرت میں اللہ نے ان کے لیے جہنم کا عذاب بھی تیار کیا ہوا ہے اور جہنم واقعی بہت برا ٹھکانہ ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تین صفات:
﴿اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ شَاہِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیۡرًا ۙ﴿۸﴾﴾
یہاں اللہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تین صفتیں بیان فرمائی ہیں :
[1]: آپ شاہد ہیں۔ شاہد کا معنی کہ آپ قیامت کے دن گواہی دیں گے۔ اللہ کے دربار میں گزشتہ انبیاء علیہم السلام کہیں گے یا اللہ! ہم نے اپنی امتوں کو آپ کی بات پہنچائی ہے لیکن ان کی امتیں کہیں گی کہ انہوں نے ہم تک دین کی بات نہیں پہنچائی۔اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کے خلاف گواہی دیں گے کہ یا اللہ! انبیاء علیہم السلام نے دین کی بات پہنچائی تھی اور ان امتوں نے مانا نہیں تھا۔ تمہارے پاس کیا دلیل ہے؟ میرے پاس دلیل قرآن کریم ہے۔
یا اپنی امت پر گواہی دینا مراد ہے چونکہ ہر پیر اور جمعرات کو امت کے اعمال آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش ہوتے ہیں۔ تو قیامت کو اللہ کے نبی گواہی دیں گے۔
[2]:
”وَمُبَشِّرًا“
مؤمنین کو خوشخبری دیتے ہیں جنت کی۔
[3]:
وَنَذِيرًا
" کفار کو ڈراتے ہیں جہنم سے۔
﴿لِّتُؤۡمِنُوۡا بِاللہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ تُعَزِّرُوۡہُ وَ تُوَقِّرُوۡہُ ؕ وَ تُسَبِّحُوۡہُ بُکۡرَۃً وَّ اَصِیۡلًا ﴿۹﴾﴾
ہم نے تم لوگوں کو فتح اس لیے دی تاکہ تم اللہ کی ذات پر ایمان لاؤ، اللہ کے رسول پر ایمان لاؤ۔ اللہ اور رسول پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ تمہارا یقین اور بڑھ جائے اللہ کے رسول پر۔
”وَ تُعَزِّرُوۡہُ“
اور تم ان کی مدد کرو،
”وَ تُوَقِّرُوۡہُ“
اور تم ان کی عظمت کے قائل ہو جاؤ یعنی ان کی مزید عظمت کرو، عزت کرو۔
یہاں دیکھو!
”وَ تُعَزِّرُوۡہُ“
کا لفظ یہ تعزیر سے ہے۔ اس کا معنی ہے مدد کرنا اور جو مجرم کو سزا دیتے ہیں ا س کو بھی تعزیر کہتے ہیں۔ جس جرم کی شریعت میں سزا متعین ہے اسے حد کہتے ہیں اور جس جرم کی سزا متعین نہیں ہے بلکہ حاکم یا قاضی کی صوابدید پر ہو اسے تعزیر کہتے ہیں۔ تو تعزیر میں مدد کیسے ہوتی ہے؟ اس کی وجہ لغات وغیرہ میں یہ لکھی ہے کہ اس سزا کو تعزیر اس لیے کہتے ہیں کہ یہ مجرم کے ساتھ مدد ہے کہ آئندہ وہ یہ جرم نہیں کرے گا۔ یہ مجرم کی مدد کی جا رہی ہے تاکہ وہ نیکیوں پر آئے اور گناہوں سے بچے۔ اس لیے اس سزا کو تعزیر کہتے ہیں۔
”ید“ صفت متَشابہ ہے:
﴿اِنَّ الَّذِیۡنَ یُبَایِعُوۡنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوۡنَ اللہَ ؕ یَدُ اللہِ فَوۡقَ اَیۡدِیۡہِمۡ﴾
جو لوگ آپ کی بیعت کرتے ہیں تو یہ دراصل اللہ کی بیعت کر رہے ہیں۔ ان کے ہاتھوں پر اللہ کا ”ید“ ہے۔
”ید“اللہ کی صفت ہے جس کا معنی ہم نہیں جانتے اور”ید“متَشابہات میں سے ہے۔ اصل معنی یہی ہے لیکن متأخرین حضرات فرماتے ہیں کہ”ید“ کا معنی یہاں قدرت ہے لیکن درجہ گمان میں ہے، درجہ یقین میں نہیں ہے۔ معتزلہ کہتےہیں کہ ”ید“ کا معنی قدرت ہے اور درجہ یقین میں ہے۔ اس لیے معتزلہ کا مذہب الگ ہے اور متاخرین کا مذہب الگ ہے۔
متقدمین اور متاخرین کے مذہب میں کوئی خاص فرق نہیں ہے، یہ نزاعِ لفظی ہے نزاعِ حقیقی نہیں ہے۔ متقدمین کہتے ہیں کہ ”ید“ کا معنی حقیقی اللہ کو معلوم ہے اور متأخرین کہتے ہیں کہ ”ید“ کا معنی ہمیں معلوم ہے لیکن حقیقی نہیں بلکہ درجہ گمان میں۔ تو یہ نزاعِ لفظی ہوا، نزاعِ حقیقی نہ ہوا۔
﴿فَمَنۡ نَّکَثَ فَاِنَّمَا یَنۡکُثُ عَلٰی نَفۡسِہٖ ۚ وَ مَنۡ اَوۡفٰی بِمَا عٰہَدَ عَلَیۡہُ اللہَ فَسَیُؤۡتِیۡہِ اَجۡرًا عَظِیۡمًا ﴿٪۱۰﴾﴾
جو شخص اس عہد کو توڑے گا تو اس عہد کے توڑنے کا نقصان اسی پر ہی ہو گا اور جو شخص اس عہد کو پورا کرے گا جو اس نے اللہ سے کیا ہے تو اللہ اس کو اجر عظیم دے گا۔
حدیبیہ سے پیچھے رہ جانے والوں کی عذر خواہی:
﴿سَیَقُوۡلُ لَکَ الۡمُخَلَّفُوۡنَ مِنَ الۡاَعۡرَابِ شَغَلَتۡنَاۤ اَمۡوَالُنَا وَ اَہۡلُوۡنَا فَاسۡتَغۡفِرۡ لَنَاۚ یَقُوۡلُوۡنَ بِاَلۡسِنَتِہِمۡ مَّا لَیۡسَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ﴾
فرمایا کہ جب آپ واپس جائیں گے تو وہ دیہاتی لوگ جو تمہارے ساتھ نہیں گئے تھے وہ اب اپنے عذر پیش کریں گے کہ ہمارے مال اور گھر کی کچھ مصروفیت تھی کہ ہم ساتھ نہیں جا سکے، اس لیے اے پیغمبر! آپ ہمارے لیے اللہ سے معافی مانگیں۔ یہ لوگ اپنی زبانوں سے وہ باتیں کہہ رہے ہیں جو اِن کے دلوں میں نہیں ہیں۔
ان کے دل میں یہ تھا کہ اگر ہم عمرہ کے لیے مکہ گئے تو قتل ہو جائیں گے، واپس نہیں آ سکتے اور زبان سے یہ کہتے ہیں کہ ہماری مجبوری تھی، کچھ مصروفیت تھی اس لیے ہم نہیں جا سکے۔ تو ان کی زبان پر کچھ ہے اور دل میں کچھ اور ہے۔
﴿قُلۡ فَمَنۡ یَّمۡلِکُ لَکُمۡ مِّنَ اللہِ شَیۡئًا اِنۡ اَرَادَ بِکُمۡ ضَرًّا اَوۡ اَرَادَ بِکُمۡ نَفۡعًا ؕ بَلۡ کَانَ اللہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرًا ﴿۱۱﴾﴾
اے پیغمبر! آپ فرما دیجیے کہ اگر اللہ تعالیٰ تمہیں کو ئی نقصان پہنچانا چاہے یا تمہیں کوئی نفع دینا چاہے تو وہ کون ہے جو اللہ کے سامنے تمہارے لیے کسی چیز کا اختیار رکھتا ہو؟ بلکہ اللہ تمہارے اعمال کو جانتا ہے۔
یہ اعراب جو سوچ رہے تھے کہ ہم اگر اپنے گھروں میں رہیں گے تو نفع میں ہوں گےا ور اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جائیں گے تو نقصان میں ہوں گے تو ان کی یہ بات غلط ہے۔ نفع نقصان کا مالک اللہ ہے۔ جب اللہ تمہیں نفع یا نقصان دینے کا ارادہ کر لے تو کون بچا سکتا ہے؟! اس لیے تمہارے یہ عذر فضول ہیں۔
﴿بَلۡ ظَنَنۡتُمۡ اَنۡ لَّنۡ یَّنۡقَلِبَ الرَّسُوۡلُ وَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ اِلٰۤی اَہۡلِیۡہِمۡ اَبَدًا وَّ زُیِّنَ ذٰلِکَ فِیۡ قُلُوۡبِکُمۡ وَ ظَنَنۡتُمۡ ظَنَّ السَّوۡءِ ۚۖ وَ کُنۡتُمۡ قَوۡمًۢا بُوۡرًا ﴿۱۲﴾﴾
اللہ فرماتےہیں کہ تمہارے عذر فضول ہیں، اصل بات یہ ہے کہ تمہارا خیال یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنین کبھی بھی مکہ سے واپس نہیں لوٹیں گے اور یہ بات تمہارے دل کو اچھی بھی لگتی تھی اور تم نے برے گمان قائم کیے تھے اور تم ہو ہی ایسی قوم جو تباہ اور برباد ہو جائے گی۔
منافقین کے خیبر جانے پر اصرار کی وجہ:
﴿سَیَقُوۡلُ الۡمُخَلَّفُوۡنَ اِذَا انۡطَلَقۡتُمۡ اِلٰی مَغَانِمَ لِتَاۡخُذُوۡہَا ذَرُوۡنَا نَتَّبِعۡکُمۡ ۚ﴾
جب تم مالِ غنیمت کی طرف جاؤ گے تو وہ لوگ جو پیچھے رہ گئے تھے وہ کہیں گے کہ ہم بھی تمہارے ساتھ چلنا چاہتے ہیں۔
اللہ رب العزت نے مسلمانوں سے وعدہ کیا تھا -جیسا کہ آگے آ رہا ہے
”کَذٰلِکُمۡ قَالَ اللہُ مِنۡ قَبۡلُ“ -
کہ اللہ عنقریب تمہیں ایک فتح دیں گے اور اس فتح سے مراد فتح ِ خیبر تھی تواللہ تعالیٰ نے پہلے بتا دیا کہ جب تم واپس جاؤ گے تو یہ منافقین کہیں گے کہ ہم نے خیبر میں تمہارے ساتھ جانا ہے۔
منافق یہ بات کیوں کہہ رہے ہیں؟ حالانکہ وہ تو جہاد سے ڈرتے ہیں اسی وجہ سے تو مکہ نہیں جا رہے تھے تو پھر یہ لوگ خیبر جانے کی بات کیوں کرتے ہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے مکہ سے مسلمانوں کو صحیح سلامت واپس ہوتے ہوئے دیکھا تو ان کو اندازہ تھا کہ خیبر بھی ایسے ہو گا، مسلمانوں کو فتوحات ملنے والی ہیں، لہذا وہاں سے غنیمت ملے گی۔ اس لیے ہم کہیں گے کہ جی ہم بھی خیبر میں ساتھ جائیں گے۔
﴿قُلۡ لَّنۡ تَتَّبِعُوۡنَا کَذٰلِکُمۡ قَالَ اللہُ مِنۡ قَبۡلُ ۚ فَسَیَقُوۡلُوۡنَ بَلۡ تَحۡسُدُوۡنَنَا ؕ بَلۡ کَانُوۡا لَا یَفۡقَہُوۡنَ اِلَّا قَلِیۡلًا ﴿۱۵﴾ ﴾
فرمایا کہ آپ ان سے کہہ دیجیے کہ تم ہمارے ساتھ نہیں جا سکتے کیونکہ اللہ کا فیصلہ یہی ہے کہ جو لوگ بیعتِ رضوان میں شریک تھے غزوہ خیبرمیں وہی شرکت کریں گے اور جو شریک نہیں تھے تو وہ یہاں بھی شرکت نہیں کریں گے۔ وہ کہیں گے کہ یہ اللہ کا فیصلہ نہیں ہے بلکہ تم تو ہم سے جلتے ہو کہ کہیں ان کو مالِ غنیمت نہ مل جائے، حسد کی وجہ سے ایسی باتیں کرتے ہو۔ فرمایا کہ حسد نہیں ہے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ تم بات کو سمجھتے نہیں ہو۔
حدیث حجت ہے:
اب سورۃ الفتح جو آپ نے دیکھی ہے اس میں تو یہ بات نہیں ہے کہ خیبر فتح ہو گا اور مال غنیمت ہو گا اور جو حدیبیہ والے ہیں صرف وہی اس میں جائیں گے۔ تو یہ بات کیسے فرما دی کہ
﴿کَذٰلِکُمۡ قَالَ اللہُ مِنۡ قَبۡلُ﴾
اس کا جواب یہ ہے کہ ایک ہے وحیِ متلو اور ایک ہے وحیِ غیر متلو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ جو بات اللہ نے فرمائی تھی یہ قرآن کریم میں تو نہیں فرمائی بلکہ اللہ نے بات اپنے نبی کو بذریعہ وحیِ غیر متلو بتا دی یعنی یہ بات حدیث پاک میں تھی۔تو اس سے حدیث پاک کا حجت ہونا معلوم ہوتا ہے۔اگر وہی بات جو صرف قرآن کریم میں ہو اور حدیث حجت نہ ہو تو پھر جب قرآن کریم کے اند ر یہ بات موجود ہی نہیں ہے کہ جو حدیبیہ والے ہیں صرف وہی جائیں گے تو کیسے کہہ دیا کہ اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ حدیبیہ والے جائیں گے اور کوئی نہیں جائے گا، یہ قرآن میں تو نہیں ہے۔
تو اس سے ثابت ہوا کہ حدیث پاک حجت ہے۔ جس طرح قرآن کریم کو ماننا ضروری ہے اسی طرح حدیث پاک کو ماننا بھی ضروری ہے۔
پیچھے رہ جانے والوں کو خطاب:
﴿قُلۡ لِّلۡمُخَلَّفِیۡنَ مِنَ الۡاَعۡرَابِ سَتُدۡعَوۡنَ اِلٰی قَوۡمٍ اُولِیۡ بَاۡسٍ شَدِیۡدٍ تُقَاتِلُوۡنَہُمۡ اَوۡ یُسۡلِمُوۡنَ ۚ فَاِنۡ تُطِیۡعُوۡا یُؤۡتِکُمُ اللّٰہُ اَجۡرًا حَسَنًا ۚ وَ اِنۡ تَتَوَلَّوۡا کَمَا تَوَلَّیۡتُمۡ مِّنۡ قَبۡلُ یُعَذِّبۡکُمۡ عَذَابًا اَلِیۡمًا ﴿۱۶﴾﴾
حدیبیہ سے پیچھے رہ جانے والوں کو یہ بات فرمائی کہ دیکھو! یہ طے شدہ بات ہے کہ تم غزوہ خیبر میں تو شرکت نہیں کر سکتے۔ اس سے یہ ہوا کہ منافقین کو تو افسوس صرف یہ تھا کہ ہمیں مالِ غنیمت نہیں ملا اور جو منافقین نہیں بلکہ مخلص صحابہ تھے اور ان کی باتوں میں آ کر وہ حدیبیہ میں شرکت نہیں کر سکے اب ان کو بہت دکھ ہو رہا تھا کہ ہم حدیبیہ میں بھی نہیں جا سکے اور اس کے بعد ہم غزوہ خیبر میں بھی شرکت نہیں کر سکے، ہمارا کیا بنے گا؟ تو ان صحابہ سے فرمایا کہ ایک اور وقت آنے والاہے اللہ تمہیں اس میں شرکت کی اجازت دیتے ہیں، تم وہاں پر اپنے جوہر دکھا لینا۔
اور اگر اس سے منافقین مراد ہوں تو پھر ان کو یہ کہا جا رہا ہے کہ تم خیبرکے لیے پریشان کیوں ہو، یہ تو خدا کا فیصلہ ہے کہ جو حدیبیہ میں شریک تھے خیبر میں وہی جائیں گے، اس کے بعد آنے والی جنگیں ہیں تم ان میں شرکت کر لینا، وہاں پتا چل جائے گا کہ تم جاتے ہو یا نہیں جاتے!
﴿قُلۡ لِّلۡمُخَلَّفِیۡنَ مِنَ الۡاَعۡرَابِ﴾
ان پیچھے رہ جانے والےدیہاتیوں سے کہہ دو کہ عنقریب تمہارا واسطہ ایسی قوم سے پڑے گا جو سخت جنگجو ہے، تم ان سے لڑو گے حتی کہ وہ مسلمان ہو جائیں- جب تک کلمہ نہیں پڑھیں گے تمہاری لڑائی ان سے جاری رہے گی- اگر تم اللہ کی بات مانو گے تو اللہ بہترین اجر دیں گے اور اگر نہیں مانو گے جیسے تم نے پہلے نہیں مانی تو خدا درد ناک عذاب دیں گے۔
﴿سَتُدۡعَوۡنَ اِلٰی قَوۡمٍ اُولِیۡ بَاۡسٍ شَدِیۡدٍ﴾...
اس کا مصداق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کے بعد کی جنگیں ہیں؛ خواہ وہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے دور کا جہاد ہو جو مسیلمہ کذاب کے خلاف تھا خواہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور کا جہاد ہو جو ایرانیوں کے خلاف تھا۔ بہرحال یہ جنگیں بعد کی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دورمیں اس کے بعد کوئی ایسی جنگ پیش نہیں آئی کہ جس میں طاقت ور قوم سے واسطہ پڑا ہو اور جنگ میں بڑی مشکل ہوئی ہو۔
پیچھے رہ جانے والے مخلصین کا حکم:
﴿لَیۡسَ عَلَی الۡاَعۡمٰی حَرَجٌ وَّ لَا عَلَی الۡاَعۡرَجِ حَرَجٌ وَّ لَا عَلَی الۡمَرِیۡضِ حَرَجٌ ؕ وَ مَنۡ یُّطِعِ اللہَ وَ رَسُوۡلَہٗ یُدۡخِلۡہُ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ ۚ وَ مَنۡ یَّتَوَلَّ یُعَذِّبۡہُ عَذَابًا اَلِیۡمًا ﴿٪۱۷﴾﴾
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں جو مخلص تھے اور معذور تھے ان کو اور دکھ ہوا کہ ہمارا کیا بنے گا؟ ہم حدیبیہ میں بھی نہیں جا سکے، خیبر جانے پر بھی پابندی لگا دی گئی، آئندہ جب جنگیں ہوں گی تو ہم تو لڑ نہیں سکتے، ہمارا عذر ہے، اب ہمارا کیا بنے گا؟ فرمایا کہ اگر کوئی شخص نابینا ہو، لنگڑا ہو یا بیمار ہو اور وہ سفر جہاد کے لیے نہ جا سکے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ جو اللہ کی اطاعت کرے اور اللہ کے رسول کی اطاعت کرے تو اللہ اسے ان باغات میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت سے منہ موڑے گا تو اللہ اسے درد ناک عذاب دے گا۔
بیعت رضوان:
﴿لَقَدۡ رَضِیَ اللہُ عَنِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اِذۡ یُبَایِعُوۡنَکَ تَحۡتَ الشَّجَرَۃِ فَعَلِمَ مَا فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ فَاَنۡزَلَ السَّکِیۡنَۃَ عَلَیۡہِمۡ وَ اَثَابَہُمۡ فَتۡحًا قَرِیۡبًا ﴿ۙ۱۸﴾﴾
جن لوگوں نے اس درخت کے نیچے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی تھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے لیے رضا کا اعلان ہو گیا۔
اللہ ان ایمان والوں سے راضی ہے جب وہ درخت کے نیچے آپ سے بیعت کر رہے تھے۔ اللہ ان کے دل کے اخلاص کو جانتے ہیں۔ اللہ نے ان پر اطمینان نازل فرما دیا یعنی وہ مطمئن ہو کر بیعت کر رہے تھے۔ اور اس کے بعد اللہ بہت جلد انہیں فتح عطا کرنے والے ہیں۔
اس فتح کا مصداق غزوہ خیبرہے۔ یہاں ایک اشکال اور اس کا جواب سمجھیں۔ ہم نے ابھی کہا تھا کہ غزوہ خیبر میں وہی جائیں گے جو حدیبیہ میں شریک تھے، جو حدیبیہ میں نہیں تھے وہ اس میں نہیں جائیں گے یہ بات قرآن کریم میں نہیں ہے بلکہ حدیث میں ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ حدیث حجت ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ
﴿وَ اَثَابَہُمۡ فَتۡحًا قَرِیۡبًا﴾
کے بارے میں تمام مفسرین کا اتفاق ہے کہ فتحِ قریب سے مراد فتحِ خیبر ہے۔ تو اس کا تذکرہ تو قرآن میں آ گیا۔ تو یہ کیسے کہا کہ اس کا ذکر قرآن میں نہیں ہے؟
اس کے دو جواب سمجھیں:
[1]: اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ قرآن کریم نے یہ تو بتایا کہ اس کے بعد عنقریب ایک جہاد ہو گا جس میں اللہ تمہیں فتح نصیب فرمائے گا لیکن یہ تو نہیں بتایا کہ اس میں شریک کون ہوں گے اور کون نہیں ہوں گے؟ اس میں یہ تو ہے کہ اس جہاد میں حدیبیہ والے شریک ہوں گے لیکن جو حدیبیہ والے نہیں تھے وہ اس میں شریک نہیں ہوں گے، یہ بات تو اس میں نہیں ہے۔
[2]: دوسرا جواب یہ ہے کہ یہاں یہ تو فرمایا کہ فتح قریب ہو گی لیکن فتح قریب سے مراد خیبر کی فتح ہونا یہ تو قرآن کریم میں نہیں ہے، یہ تو احادیث سے پتا چل رہا ہے کہ فتحِ قریب سے مراد فتح خیبر ہے۔ تو اس سے پھر حدیث کا حجت ہونا ثابت ہو جائے گا۔
﴿وَعَدَکُمُ اللہُ مَغَانِمَ کَثِیۡرَۃً تَاۡخُذُوۡنَہَا فَعَجَّلَ لَکُمۡ ہٰذِہٖ وَ کَفَّ اَیۡدِیَ النَّاسِ عَنۡکُمۡ ۚ وَ لِتَکُوۡنَ اٰیَۃً لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ یَہۡدِیَکُمۡ صِرَاطًا مُّسۡتَقِیۡمًا ﴿ۙ۲۰﴾﴾
اور اس فتح خیبر کے بعد اور بھی جہاد ہوں گے۔ اب فتوحات کا دور شروع ہو گیا ہے۔ فرمایا: اللہ نے تم سے اور بھی غنیمتوں کا وعدہ کیا ہے جو تم حاصل کرو گے اور اللہ نے فوری طور پر یہ فتح تمہیں دی ہے اور اللہ نے دشمن کے ہاتھ کو تم سے روک دیا ہے تاکہ یہ بات مومنوں کے لیے تسلی کا سامان بن جائے اور اللہ تمہاری مزید رہنمائی فرمائیں گے اور مزید ہدایت کا اعلیٰ مقام عطا فرمائیں گے۔
یہ خیبر کا موقع ہے کہ یہودی طاقت میں بھی تھے، ان کے پاس وسائل بھی تھے، اسباب بھی تھے لیکن ان کے باوجود مرحب کا قتل ہونا تھا کہ خدا نے ان کے دلوں میں مسلمانوں کا اتنا رعب ڈال دیا کہ مسلمانوں کو زیادہ ہاتھ نہیں چلانے پڑے، بغیر لڑے خیبر مسلمانوں کے ہاتھ میں آ گیا۔
﴿وَّ اُخۡرٰی لَمۡ تَقۡدِرُوۡا عَلَیۡہَا قَدۡ اَحَاطَ اللہُ بِہَا ؕ وَ کَانَ اللہُ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرًا ﴿۲۱﴾﴾
ابھی کتنی ہی جنگیں باقی ہیں جن کو کنٹرول کرنا تمہارے بس میں نہیں ہے لیکن اللہ نے ان کا احاطہ کیا ہوا ہے یعنی اللہ تعالی آنے والی جنگوں میں تمہیں مزید فتوحات عطا فرمائیں گے۔ اللہ رب العزت ہر چیز پر قدرت رکھنے والے ہیں۔
﴿وَ لَوۡ قٰتَلَکُمُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَوَلَّوُا الۡاَدۡبَارَ ثُمَّ لَا یَجِدُوۡنَ وَلِیًّا وَّ لَا نَصِیۡرًا ﴿۲۲﴾ سُنَّۃَ اللہِ الَّتِیۡ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلُ ۚۖ وَ لَنۡ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللہِ تَبۡدِیۡلًا ﴿۲۳﴾﴾
اور اگر کفار تم سے جنگ کرتے تو کافر ہی پیٹھ پھیر کر دوڑ جاتے، پھر ان کا کوئی ولی اور مدد گار نہ ہوتا۔ یہی خدا کا طریقہ ہے جو پہلے تھا اور اللہ کا یہی طریقہ آئندہ بھی ہے جس کو کوئی بدل نہیں سکتا۔
اب یہاں ایک بات سمجھیں۔ حدیبیہ کے موقع پر صلح ہوئی، جنگ نہیں ہوئی اور قرآن کہہ رہا ہے کہ اگر جنگ ہو جاتی تو شکست کفارکو ہوتی اور مسلمان جیت جاتے تو سوال یہ ہے کہ پھر جنگ کیوں نہیں ہوئی؟ پھر صلح کی کیا ضرورت تھی؟
اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر جنگ ہوتی تو فتوحات تو مسلمانوں کو ہی ہوتیں لیکن فتوحات کے ساتھ ساتھ نقصانات بھی ہوتےکہ مکہ میں بعض مسلمان ایسے تھے جو کفار سے الگ نہیں تھے اور ایسے موقع پر الگ ہونا ان کے لیے ممکن نہیں تھا۔ اگر مسلمان مکہ پر چڑھائی کرتے تو کفر کی کمر تو ٹوٹتی لیکن بہت سارے مسلمان بھی ساتھ شہید ہو جاتے اور بعد میں مسلمانوں کو دکھ ہونا تھا کہ یہ ہمارے ہاتھوں کیا ہو گیا ہے؟
اسی طرح اگر اس موقع پر جنگ ہوتی تو جنگ میں مسلمانوں کو فتح ہو بھی جاتی لیکن مسلمانوں کا بھی نقصان ہوتا،ا ن کے بھی بہت سارے افراد شہید ہو جاتے۔ لیکن اس صلح کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان سارے محفوظ ہوئے اور دعوت کے دروازے کھل گئے، باقی قبائل تک جانا آسان ہو گیااور آئندہ پھر فاتح ہو کر مکہ میں داخل ہوئے ہیں۔ تو مسلمانوں کی طاقت بھی کمزور نہیں ہوئی اور اللہ نے مزید فتوحات کا دروازہ بھی کھول دیا۔ جنگ ہو کر اگرچہ فتح ہوتی لیکن جنگ نہ ہونے پر جو فتوحات ہیں وہ جنگ کی فتوحات سے بھی زیادہ ہیں۔
﴿وَ ہُوَ الَّذِیۡ کَفَّ اَیۡدِیَہُمۡ عَنۡکُمۡ وَ اَیۡدِیَکُمۡ عَنۡہُمۡ بِبَطۡنِ مَکَّۃَ مِنۡۢ بَعۡدِ اَنۡ اَظۡفَرَکُمۡ عَلَیۡہِمۡ ؕ وَ کَانَ اللہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرًا ﴿۲۴﴾﴾
یہ جو میں نے پہلے کہا تھا کہ پچاس مشرک آئے تھے کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کریں، آپ کو معاذ اللہ قتل کریں تو صحابی رسول محمدبن مسلمہ رضی اللہ عنہ کی قیاد ت میں ان کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ یہ آیت ان کے بارے میں ہے کہ اللہ نے ان کے ہاتھ تم سے روک دیے کہ وہ لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل نہیں کر سکے اور تمہارے ہاتھ ان سے روک دیے کہ تم نے ان کو قتل نہیں کیا۔
﴿بِبَطۡنِ مَکَّۃَ ﴾....
اب بطنِ مکہ کا معنی یہ ہے کہ مکہ میں کا واقعہ ہے حالانکہ یہ مکہ میں کا واقعہ تو نہیں ہے، حدود حرم سے باہر کا واقعہ ہے لیکن حدودِ حرم کے قریب ہونے کی وجہ سے بطن ِ مکہ کہہ دیا۔
احناف کی رائے یہ ہے کہ حدیبیہ کا کچھ حصہ حدودِ حرم میں شامل ہے اور اس آیت سے احناف کے موقف کی تائید ہوتی ہے۔
﴿ہُمُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ صَدُّوۡکُمۡ عَنِ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ وَ الۡہَدۡیَ مَعۡکُوۡفًا اَنۡ یَّبۡلُغَ مَحِلَّہٗ ؕ وَ لَوۡ لَا رِجَالٌ مُّؤۡمِنُوۡنَ وَ نِسَآءٌ مُّؤۡمِنٰتٌ لَّمۡ تَعۡلَمُوۡہُمۡ اَنۡ تَطَـُٔوۡہُمۡ فَتُصِیۡبَکُمۡ مِّنۡہُمۡ مَّعَرَّۃٌۢ بِغَیۡرِ عِلۡمٍ ۚ لِیُدۡخِلَ اللہُ فِیۡ رَحۡمَتِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ ۚ﴾
یہی لوگ کافر ہیں جنہوں نے تمہیں مسجد حرام سے روکا اور اس ھدی کو بھی روکا جس نے اپنے ذبح ہونے کی جگہ پر جانا تھا۔ اگر ایسے ایمان والے مرد اور ایسی ایمان والی عورتیں نہ ہوتیں جن کو تم نہیں جانتے، اور تمہیں یہ خطرہ بھی نہ ہوتا کہ تم ان پر چڑھائی کر دو گے تو تمہارے اور مشرکین کے درمیان جنگ بپا ہو جاتی اور تمہاری فتح ہو جاتی لیکن بعد میں تمہیں افسوس ہونا تھا اس لیے اللہ نے جنگ کی نوبت آنے ہی نہیں دی۔ ایسا کیوں ہوا تاکہ یہ لوگ قتل نہ ہوں بلکہ زندہ رہیں اور اللہ کی رحمت میں داخل ہوں۔ اللہ جس کو چاہتا ہے اپنی رحمت میں داخل فرماتا ہے۔
﴿ لَوۡ تَزَیَّلُوۡا لَعَذَّبۡنَا الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡہُمۡ عَذَابًا اَلِیۡمًا ﴿۲۵﴾﴾
ہاں اگر مکہ میں رہنے والے مسلمان کفار سے بالکل الگ تھلگ ہوتے تو ہم کفار کو درد ناک عذاب دیتے لیکن چونکہ مسلمان کفار کے ساتھ مکس تھے تو درمیان میں شہید ہو جاتے۔
﴿اِذۡ جَعَلَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا فِیۡ قُلُوۡبِہِمُ الۡحَمِیَّۃَ حَمِیَّۃَ الۡجَاہِلِیَّۃِ فَاَنۡزَلَ اللہُ سَکِیۡنَتَہٗ عَلٰی رَسُوۡلِہٖ وَ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ اَلۡزَمَہُمۡ کَلِمَۃَ التَّقۡوٰی وَ کَانُوۡۤا اَحَقَّ بِہَا وَ اَہۡلَہَا ؕ وَ کَانَ اللہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمًا ﴿٪۲۶﴾﴾
جب کفارنے اپنے دلوں میں جاہلیت والی حمیت کو جگہ دی تو اللہ نے کرم یہ کیا کہ اطمینان اور سکون اپنے رسول اور ایمان والوں کے دل میں ڈال دیا۔ مشرکین کتنی ضدی باتیں کر رہے ہیں کہ”بسم اللہ الرحمٰن الرحیم“ نہیں لکھنا! ”رسول اللہ“ نہیں لکھنا! اس سال واپس چلے جاؤ آئندہ سال آنا! اللہ فرماتے ہیں کہ وہ جاہلیت کی باتیں کرتے ہیں اور خدا نے مسلمانوں کو تحمل عطا فرمایا کہ تم نے برداشت کرنا ہے۔
﴿وَ اَلۡزَمَہُمۡ کَلِمَۃَ التَّقۡوٰی﴾
اور مسلمانوں کو خدا نے کلمہ تقویٰ یعنی کلمہ توحید عطا کیا اور دنیا میں مستحق بھی اس کے مسلمان ہی تھے، اور اس کے بدلے میں اللہ جو اجر دے گا یہ مسلمان اہل بھی اس کے ہیں۔
عمرہ کا خواب سچا ہے:
﴿لَقَدۡ صَدَقَ اللہُ رَسُوۡلَہُ الرُّءۡیَا بِالۡحَقِّ﴾
اللہ نے اپنے پیغمبر کے خواب کو سچا کر دکھایا.
میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ ماضی تحقق کے لیے آتا ہے۔ یعنی جس بات کا آئندہ زمانے میں وقوع یقینی ہو تو اس بات کو ماضی کے صیغہ سے تعبیر کرنا یہ بلاغت اور کلام عرب کا تقاضا ہے۔ تو چونکہ خواب نے سچا ہونا تھا تو فرمایا:
﴿ لَقَدۡ صَدَقَ اللہُ﴾
کہ اللہ نے اپنے پیغمبر کے خواب کو سچ کر دکھایا یعنی ضرور سچا ہو گا۔
﴿لَتَدۡخُلُنَّ الۡمَسۡجِدَ الۡحَرَامَ اِنۡ شَآءَ اللہُ اٰمِنِیۡنَ ۙ مُحَلِّقِیۡنَ رُءُوۡسَکُمۡ وَ مُقَصِّرِیۡنَ ۙ لَا تَخَافُوۡنَ ؕ﴾
تم مسجدحرام میں ضرور داخل ہو گے امن کے ساتھ، اپنے سروں کا حلق کراؤ گے یا سروں کا قصر کر ا ؤ گے۔ اور تمہیں کوئی خطرہ نہیں ہو گا۔
ا س موقع پر یعنی سن 7ہجری عمرۃ القضا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حلق نہیں کروایا تھا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قصر کروایا تھا۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے آپ کے بال مبارک قینچی سے کاٹے تھے۔
﴿فَعَلِمَ مَا لَمۡ تَعۡلَمُوۡا فَجَعَلَ مِنۡ دُوۡنِ ذٰلِکَ فَتۡحًا قَرِیۡبًا ﴿۲۷﴾﴾
جو کچھ تم نہیں جانتے وہ اللہ جانتے ہیں اس لیے اللہ نے خواب پورا ہونے سے پہلے ہی ایک قریب کی فتح تمہیں عطا فرما دی ہے۔
غلبہ برہانی اور غلبہ عملی:
﴿ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰۦ وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ ؕ وَ کَفٰی بِاللہِ شَہِیۡدًا ﴿ؕ۲۸﴾﴾
وہی ہے جس نے اپنے پیغمبر کو ہدایت اور دین حق دےکر بھیجا تاکہ اس دین کو تمام ادیان پر غالب کر دے اور اس کی گواہی کے لیے اللہ ہی کافی ہے۔
غلبہ کی دوقسمیں ہیں : ایک ہے غلبہ برہانی اور ایک ہے غلبہ عملی۔ غلبہ برہانی یعنی تمام ادیان پر دینِ محمد کا غالب ہونا یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ہو چکا ہے اور غلبہ عملی یہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے دور میں ہو چکا ہے اور پورے کرہ ارض پر غلبہ عملی یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دور میں ہو گا ان شاء اللہ العزیز۔
اگر ہمارے دور میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام آئیں تو یہ دعا کرویں کہ اللہ ہمیں ان کا ساتھی بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین۔ سامعین) فتنوں کا دور ہے اور ایمان ہمارا بہت ضعیف ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ آ جائیں اور ہم ڈگمگا جائیں۔ یہ جو عموماً ہمارے ہاں روزانہ بحث ہوتی ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام آنے والے ہیں، امام مہدی کے ظہور کی ساری نشانیاں پوری ہو گئی ہیں، آج آئے اور کل آئے۔ میں بیانات پر جاتا ہوں تو بعض لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ آپ کا کیا خیال ہے؟ میں کہتا ہوں کہ آدمی اپنی اوقات کے مطابق خیال ظاہر کرے، میں اوقات سے بڑھ کر خیال کو ظاہر نہیں کرتا! بس میں کہتا ہوں کہ آپ اس بات کو چھوڑیں! جو ہمارے ذمہ کام ہے ہم وہ کریں۔ بسا اوقات انسان اپنے کاموں سے ہاتھ کھینچ کر بیٹھ جاتا ہے، اپنے ذمہ جو کام ہے وہ بھی چھوڑ دیتا ہے، کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آنے والے ہیں، بس آج نہیں تو اگلے سال یا اس سے اگلے سال ،بس دو چار سال ہیں جب وہ آئیں گے تو پھر کام کریں گے۔
میں کہتا ہوں کہ وہ نہ آئے تو پھر کیا ہو گا؟! بھائی! حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آنے سے پہلے بھی تو ہماری ذمہ داریاں ہیں، تو ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی ذمہ داریاں نبھاتے رہیں، وہ آ جائیں گے تو ہم ان کے سپاہی ہیں اور اگر ہماری زندگی میں نہ آئے تو ہماری نیت تو ہےکہ ہم ان کے سپاہی ہیں، اس لیے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہ بیٹھیں، بس اپنے ذمہ جو کام ہے اسے جاری رکھیں۔
﴿مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللہِ ؕ﴾ حضرت محمد اللہ کے رسول ہیں۔یہاں دیکھیں کہ اللہ نے محمدکے ساتھ”رسول اللہ“ کی وضاحت کی ہے۔ اس لیے کہ سہیل بن عمرو نے کہا تھاکہ محمد بن عبداللہ لکھو، محمد رسول اللہ نہ لکھو! اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کاٹ دو۔ حضور نے اس پر تحمل کیا، ضبط کیا اور اس معاہدے کی وجہ سے ”رسول اللہ“ کا لفظ کاٹا ہے تو اللہ نے ہمیشہ کے لیے قرآن کا حصہ بنا کر نازل فرما دیا کہ اب قیامت تک محمد کے ساتھ ”رسول اللہ“ پڑھا جائے گا، لکھا جائے گا۔ انہوں نے وقتی طور پر کٹوایا تھا لیکن اللہ نے مستقل حصہ بنا دیا۔
صحابہ کرام کی صفات:
﴿وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَی الۡکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمۡ تَرٰىہُمۡ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّبۡتَغُوۡنَ فَضۡلًا مِّنَ اللہِ وَ رِضۡوَانًا﴾
جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی ہیں وہ کفار کے مقابلے میں سخت ہیں، آپس میں نرم ہیں، تم دیکھو گے کہ وہ رکوع کرتے ہیں، سجدے کرتے ہیں، اللہ کا فضل اور اللہ کی خوشنودی تلاش کرتے ہیں۔
﴿سِیۡمَاہُمۡ فِیۡ وُجُوۡہِہِمۡ مِّنۡ اَثَرِ السُّجُوۡدِ﴾
کثرتِ سجود کی وجہ سے ان کے چہرے پر نشان نظر آتے ہیں۔
اس نشانی سے مراد وہ ظاہری نشان نہیں ہے جو سجدہ کی وجہ سے پیشانی پر پڑ جاتا ہے بلکہ اس سے مراد نورِ تقویٰ ہے جو تہجد والے شخص کے چہرے پر نظر آتا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے چہرے پر یہ نور نظر آتا ہے۔ اگر کسی تہجد گزار کے چہرے پر نور نظر نہ آئے تو اپنی آنکھ کا قصور سمجھا کریں، ایسے نہیں کہ کوئی شخص تہجد بھی پڑھے او ر آپ کہیں کہ یار! اس کے چہرے پر نور تو نظر نہیں آ رہا بلکہ یوں سمجھنا کہ نور تو ہے لیکن مجھے نظر نہیں آ رہا۔ آدمی کو بخار ہو تو میٹھا انگور بھی آدمی کو موافق نہیں آتا۔ اب یہ نہ کہو کہ انگور کھٹا ہے، یہ کہو کہ انگور تو ٹھیک ہے لیکن میری زبان کا ذائقہ ٹھیک نہیں ہے۔ بالکل اسی طرح پانی بالکل صاف ہوتا ہے لیکن جس بوتل میں ہوتا ہے اس کا رنگ کالا ہو تو صاف پانی بھی کالا نظر آتا ہے۔ تو تمہاری آنکھوں کے شیشے چونکہ کالے ہیں اس لیے ہر چیز کالی نظر آتی ہے۔
﴿ ذٰلِکَ مَثَلُہُمۡ فِی التَّوۡرٰىۃِ وَ مَثَلُہُمۡ فِی الۡاِنۡجِیۡلِ﴾
اللہ نے فرمایا کہ صحابہ کے اوصاف تورات میں بھی بیان کیے گئے ہیں اور انجیل میں بھی بیان کیے گئے ہیں۔ وہ کیا ہیں؟ فرمایا:
﴿کَزَرۡعٍ اَخۡرَجَ شَطۡـَٔہٗ فَاٰزَرَہٗ فَاسۡتَغۡلَظَ فَاسۡتَوٰی عَلٰی سُوۡقِہٖ یُعۡجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیۡظَ بِہِمُ الۡکُفَّارَ﴾
ان کی مثال ایسے ہے جیسے کھیتی ہو، جس نے پہلے تو اپنی کونپل نکالی ہو، پھر اس کو مضبوط کیا ہو، پھر تھوڑی سی موٹی ہوئی ہو، پھر اپنے تنے کے سہارے کھڑی ہوئی ہو کہ کسان اس کو دیکھ کر خوش ہوتا ہے۔ یہ اللہ کیوں کرتے ہیں تاکہ اس سے کافر وں کا دل جلے۔
اللہ نے صحابہ رضی اللہ عنہم کی مثال کیوں دی ہے؟ اس لیے کہ ایک وقت وہ تھا کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم تنہا تھے۔ پھر آپ کے ساتھ حضرت خدیجہ، حضرت علی، حضرت زید بن حارثہ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہم؛ یہ تھوڑے سے افرادتھے، پھر چند ایک غلام ملے، یوں آہستہ آہستہ ایک وقت آیا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ دنیا میں اس قدر قوت والے ہوئے کہ ان کو دیکھ کر جلنے والا کافر ہی ہو سکتا ہے، مسلمان نہیں ہو سکتا۔
البتہ اس آیت کی بنیاد پر یہ نتیجہ نکالنا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی قوت کو دیکھ کر جلنے سے بندہ کافر ہو جاتا ہے یہ نتیجہ ٹھیک نہیں ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ طاقت کو دیکھ کر جلنے والا یہ کافروں والا کام کرتا ہے، صحابہ رضی اللہ عنہم کو دیکھ کر جلنا مسلمانوں کا کام نہیں ہے یہ کافروں کا کام ہے۔ تو کافر ہونا اور ہے اور کافروں کا طرز اختیار کرنا اور ہے۔جیسے حدیث میں ہے:
مَنْ تَرَكَ الصَّلَاةَ مُتَعَمِّدًا فَقَدْ کَفَرَ.
المعجم الاوسط للطبرانی: ج2 ص 299 رقم الحدیث 3348
اب دیکھو! یہاں بالکل صریح ہے کہ جو جان بوجھ کر نماز چھوڑتا ہے تو اس نے کافروں والا کام کیا۔ جو شخص صحابہ رضی اللہ عنہم کو دیکھ کر خوش نہیں ہوتا بلکہ پریشان ہوتا ہے وہ کافروں والا کام کرتا ہے۔ لہذا اس بنیاد پر کفر کا فتویٰ نہیں دیتے۔
﴿وَعَدَ اللہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنۡہُمۡ مَّغۡفِرَۃً وَّ اَجۡرًا عَظِیۡمًا﴿۲۹﴾﴾
اللہ نے ایمان والوں اور نیک اعمال کرنے والوں سے وعدہ کیا ہے کہ ان کی مغفرت کرے گا اور ان کو اجر عظیم دے گا۔
اللہ پاک ہمیں قرآن سمجھنے کی اور سمجھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․