سورۃ القمر

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
سورۃ القمر
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿اِقۡتَرَبَتِ السَّاعَۃُ وَ انۡشَقَّ الۡقَمَرُ ﴿۱﴾ وَ اِنۡ یَّرَوۡا اٰیَۃً یُّعۡرِضُوۡا وَ یَقُوۡلُوۡا سِحۡرٌ مُّسۡتَمِرٌّ ﴿۲﴾﴾
واقعہ شقِ قمر:
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ میں تھے اور رات کا وقت تھا۔ مشرکینِ مکہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کی نبوت پر معجزہ طلب کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر معجزہ اور نشانی دکھا دوں تو تم کلمہ پڑھ لو گے؟ کہا پڑھ لیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ فرمایا، اللہ کے حکم سے چاند دو ٹکڑے ہوا۔ ایک ٹکڑا مشرق اور ایک مغرب میں اور درمیان میں غار حراء والی پہاڑی حائل ہو گئی۔ اس پر مشرکین کہنے لگے کہ ابھی تو ہم اس پر یقین نہیں کرتے، ہو سکتا ہے کہ جادو سے آپ نے دو ٹکڑے کیے ہوں، اس لیے کل دن کا انتظار کرتے ہیں، باہر سے جو لوگ کل مکہ مکرمہ آئیں گے تو ان سے پوچھیں گے کہ کیا انہوں نے بھی ایسا دیکھا ہے؟ اگر دیکھا ہو تو پھر ہم مان لیں گے۔ دوسرے دن جب لوگ باہر سے آئے، ان سے پوچھا تو وہ بھی کہتے تھے کہ ہم نے بھی دو ٹکڑے دیکھے لیکن ان لوگوں نے پھر جادو کہہ کر اس کو ماننے سے انکار کر دیا۔ تو اللہ رب العزت نے بات سمجھائی۔
﴿اِقۡتَرَبَتِ السَّاعَۃُ وَ انۡشَقَّ الۡقَمَرُ ﴿۱﴾ وَ اِنۡ یَّرَوۡا اٰیَۃً یُّعۡرِضُوۡا وَ یَقُوۡلُوۡا سِحۡرٌ مُّسۡتَمِرٌّ ﴿۲﴾﴾
قیامت قریب آ گئی ہے، اس کی ایک نشانی یہ ہے کہ چاند دو ٹکڑے ہو گیا ہے۔ یہ لوگ کوئی بھی نشانی دیکھتے ہیں تو اعراض کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ یہ تو جادو ہے جو تھوڑے وقت کے بعدختم ہو جائے گا۔
”مُّسۡتَمِرٌّ“
کا معنی کبھی دائمی ہوتا ہے اور کبھی اس کا معنی عارضی ہوتا ہے۔ ”مَرَّ“ یہ مُرور سے ہے بمعنی گزرنے والا۔ تو جب کوئی چیز گزرتی ہے تو ختم ہو جاتی ہے۔ تو انہوں نے بھی یہی کہا کہ یہ جادو ہے جو بہت جلد ختم ہو جائے گا کیونکہ یہ عارضی چیز ہے۔
﴿وَ کَذَّبُوۡا وَ اتَّبَعُوۡۤا اَہۡوَآءَہُمۡ وَ کُلُّ اَمۡرٍ مُّسۡتَقِرٌّ ﴿۳﴾﴾
انہوں نے جھٹلایا اور اپنی خواہشات کے پیچھے پڑے، ہر کام نے آخر کار ایک انجام کو پہنچنا ہوتا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے دنیا میں ہر کام کا کوئی نہ کوئی انجام ہوتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم توحید کا درس دے رہے ہیں اور اپنی رسالت پر معجزات بھی پیش فرما رہے ہیں جیسے یہ معجزہ شقِ قمر ہے۔ادھر کافر لوگ اس کو جھٹلا رہے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنا کام کر رہے ہیں اور منکرین اپنا کام کر رہے ہیں۔
﴿کُلُّ اَمۡرٍ مُّسۡتَقِرٌّ﴾
ہر کام نے انجام کو پہنچنا ہے۔ یعنی تمہیں جلد ہی انجام معلوم ہو جائے گا کہ پیغمبر سچ فرما رہے ہیں اور تم انکار کر کے غلط انجام کو پہنچ رہے ہو۔
یہ جو فرمایا :
﴿وَ کَذَّبُوۡا﴾
کہ ان لوگوں نے جھٹلایا، جہاں تک چاند کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا تعلق ہے اس کو تو نہیں جھٹلایا اور جھٹلا بھی کیسے سکتے تھے کیونکہ یہ تو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا، تو پھر جھٹلایا کس کو تھا؟ اس نشانی کا جو مقتضیٰ تھا یعنی توحید اور نبوت ... ان لوگوں نے اس کو جھٹلایا تھا۔
﴿وَ لَقَدۡ جَآءَہُمۡ مِّنَ الۡاَنۡۢبَآءِ مَا فِیۡہِ مُزۡدَجَرٌ ۙ﴿۴﴾ حِکۡمَۃٌۢ بَالِغَۃٌ فَمَا تُغۡنِ النُّذُرُ ۙ﴿۵﴾﴾
ان کے پاس بہت ساری نشانیاں آئیں جن میں ان کے لیے خبردار کرنے کا سامان تھا، کامل حکمت اور دانائی کی باتیں تھیں مگر ان کو ڈرانے سے کوئی فائدہ نہ ہوا۔
﴿فَتَوَلَّ عَنۡہُمۡ ۘ یَوۡمَ یَدۡعُ الدَّاعِ اِلٰی شَیۡءٍ نُّکُرٍ ۙ﴿۶﴾ خُشَّعًا اَبۡصَارُہُمۡ یَخۡرُجُوۡنَ مِنَ الۡاَجۡدَاثِ کَاَنَّہُمۡ جَرَادٌ مُّنۡتَشِرٌ ۙ﴿۷﴾ مُّہۡطِعِیۡنَ اِلَی الدَّاعِ ؕ یَقُوۡلُ الۡکٰفِرُوۡنَ ہٰذَا یَوۡمٌ عَسِرٌ ﴿۸﴾ ﴾
آپ ان کو چھوڑ دیں، ایک وقت آئے گاکہ پکارنے والا ایک ناگوار چیز کی طرف پکارے گا۔
”الدَّاعِ“
سے مراد ہے فرشتہ اور
”نُّکُرٍ“
ایسی چیز کو کہتے ہیں جو مزاج کے موافق نہ ہو، یعنی جب قیامت آئے گی تو ان کو پھر سمجھ آئے گی۔ آنکھیں ان کی جھکی ہوئی ہوں گی، قبروں سے ایسے نکلیں گے جیسے ٹڈیاں منتشر ہوتی ہیں۔ پھر یہ سر جھکا کر چلیں گے اس فرشتے کی طرف اور کہیں گے کہ آج کا دن بہت مشکل ہے۔
قوم نوح پر طوفان:
﴿کَذَّبَتۡ قَبۡلَہُمۡ قَوۡمُ نُوۡحٍ فَکَذَّبُوۡا عَبۡدَنَا وَ قَالُوۡا مَجۡنُوۡنٌ وَّ ازۡدُجِرَ﴿۹﴾ فَدَعَا رَبَّہٗۤ اَنِّیۡ مَغۡلُوۡبٌ فَانۡتَصِرۡ ﴿۱۰﴾ ﴾
صرف انہوں نے نہیں جھٹلایا بلکہ ان سے پہلے قوم نوح نے بھی ہمارے بندے حضرت نوح علیہ السلام کو جھٹلایا تھا، ہمارے بندے کو کہتے تھے کہ یہ مجنون ہے، پھر انہیں دھمکیاں دیں۔ تو نوح علیہ السلام نے اپنے رب کو پکارا کہ اللہ! میں بہت بے بس ہو چکا ہوں، میری مدد فرما۔
حضرت نوح علیہ السلام کے بارے میں آتا ہے کہ ان کی قوم والے بسا اوقات ان کے گلے کو دباتے، نوح علیہ السلام بے ہوش ہو جاتے لیکن پھر بھی اللہ سے دعا مانگتے کہ اللہ! ان کو ہدایت دے دیں، ان کو پتا نہیں کہ میں ان کا کتنا خیر خواہ ہوں۔ ساڑھے نو سو سال اس تکلیف میں گزارے اور بالآخر اللہ سے مدد مانگی کہ اے اللہ! میری مدد فرما۔
﴿ فَفَتَحۡنَاۤ اَبۡوَابَ السَّمَآءِ بِمَآءٍ مُّنۡہَمِرٍ ﴿۫۱۱﴾ وَّ فَجَّرۡنَا الۡاَرۡضَ عُیُوۡنًا فَالۡتَقَی الۡمَآءُ عَلٰۤی اَمۡرٍ قَدۡ قُدِرَ ﴿ۚ۱۲﴾ ﴾
تو ہم نے آسمان سے زور دار پانی برسایا اور زمین سے چشمے نکالے۔ یوں آسمان اور زمین کا سارا پانی آپس میں ملا اور بالآخر جو فیصلہ ہو چکا تھا اس کے نتیجے میں یہ لوگ تباہ وبرباد ہو گئے۔
﴿وَ حَمَلۡنٰہُ عَلٰی ذَاتِ اَلۡوَاحٍ وَّ دُسُرٍ ﴿ۙ۱۳﴾ تَجۡرِیۡ بِاَعۡیُنِنَا ۚ جَزَآءً لِّمَنۡ کَانَ کُفِرَ ﴿۱۴﴾ وَ لَقَدۡ تَّرَکۡنٰہَاۤ اٰیَۃً فَہَلۡ مِنۡ مُّدَّکِرٍ ﴿۱۵﴾ ﴾
ہم نے ان کو تختوں اور میخوں سے بنی ایک کشتی پر سوار کیا جو ہماری نگرانی میں چلتی رہی، یہ عذاب دراصل سزا تھی ان لوگوں کی جو کافر تھے۔ ہم نے اس کو عبرت کے آثار کے طور پر باقی رکھا، کوئی ہے نصیحت حاصل کرنے والا؟
﴿فَکَیۡفَ کَانَ عَذَابِیۡ وَ نُذُرِ ﴿۱۶﴾﴾
دیکھو! پھر ہمارا عذاب اور ہمارا ڈر سنانا کیسا تھا؟
قرآن کے آسان ہونے کا معنی:
﴿وَ لَقَدۡ یَسَّرۡنَا الۡقُرۡاٰنَ لِلذِّکۡرِ فَہَلۡ مِنۡ مُّدَّکِرٍ ﴿۱۷﴾﴾
ہم نے قرآن کو بہت آسان کر دیا ہے نصیحت حاصل کرنے کے لیے، تو کوئی ہے اس سے نصیحت حاصل کرنے والا۔
یہاں
”لِلذِّکۡرِ “
سے مراد یا تو نصیحت حاصل کرنے والا ہے یا اس سے مراد ہے ”حفظ کرنا“ کہ ہم نے قرآن کو آسان کر دیا ہے حفظ کرنے کے لیے، تو ہے کوئی اس کو حفظ کرنے والا، اس کو یاد کرنے والا۔
میں اس کو پہلے بھی کئی بار بیان کر چکا ہو ں کہ قرآن کریم کی ایک حیثیت ہے واعظ اور ناصح ہونے کی اور قرآن کریم کی ایک حیثیت ہے شارع ہونے کی۔ یہ جو قرآن کی حیثیت ہے کہ یہ وعظ ونصیحت ہے تو اس اعتبار سے یہ بہت آسان ہے اور جو قرآن کریم کی حیثیت ہے احکامات اور عقائد کی اس اعتبار سے قرآن آسان نہیں ہے، اس اعتبار سے محنت کرنی پڑتی ہے، پوری زندگیاں کھپانی پڑتی ہیں اور پھر بھی آدمی سمجھتا ہے کہ شاید مجھ سے کہیں غلطی نہ ہو گئی ہو۔
آیاتِ قیامت کو سن کر ڈر جانا یہ تو آسان ہے، آیاتِ جنت کو سن کر خوش ہو جانا بھی آسان ہے، گزشتہ قوموں کے حالات کو سننا اور عبرت حاصل کرنا بھی آسان ہے لیکن اس سے عقائد و مسائل کا استباط کرنا بہت مشکل کام ہے۔
قوم عاد کی تباہی:
﴿کَذَّبَتۡ عَادٌ فَکَیۡفَ کَانَ عَذَابِیۡ وَ نُذُرِ ﴿۱۸﴾ اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنَا عَلَیۡہِمۡ رِیۡحًا صَرۡصَرًا فِیۡ یَوۡمِ نَحۡسٍ مُّسۡتَمِرٍّ ﴿ۙ۱۹﴾ تَنۡزِعُ النَّاسَ ۙ کَاَنَّہُمۡ اَعۡجَازُ نَخۡلٍ مُّنۡقَعِرٍ ﴿۲۰﴾﴾
قوم عاد نے بھی تکذیب کی تو دیکھو! ہمارا عذاب اور ہمارا ڈر سنانا کیسا تھا؟ ان پر عذاب یہ تھا کہ ہم نے ان پر سخت ہوا بھیجی مسلسل نحوست والے دن میں جو ان لوگوں کو اکھاڑ کے پھینک رہی تھی اور پھر وہ ایسے پڑے ہوئے تھے جیسے اکھڑی ہوئی کھجور کے تنے ہوں۔
﴿فَکَیۡفَ کَانَ عَذَابِیۡ وَ نُذُرِ ﴿۲۱﴾﴾
دیکھو! کیسے ان پر عذاب آیا، ہم ان کو ڈراتے رہے لیکن یہ باز نہیں آتے۔
﴿وَ لَقَدۡ یَسَّرۡنَا الۡقُرۡاٰنَ لِلذِّکۡرِ فَہَلۡ مِنۡ مُّدَّکِرٍ ﴿٪۲۲﴾﴾
ہم نے قرآن کو نصیحت حاصل کرنے کے لیے آسان کر دیا ہے، تو ہے کوئی نصیحت حاص کرنے والا۔
قوم ثمود کا انجام:
﴿کَذَّبَتۡ ثَمُوۡدُ بِالنُّذُرِ ﴿۲۳﴾ فَقَالُوۡۤا اَبَشَرًا مِّنَّا وَاحِدًا نَّتَّبِعُہٗۤ ۙ اِنَّاۤ اِذًا لَّفِیۡ ضَلٰلٍ وَّ سُعُرٍ ﴿۲۴﴾﴾
قوم ثمود نے نبیوں کو جھٹلا دیا۔ ایک نبی کی تکذیب چونکہ تمام انبیاء علیہم السلام کی تکذیب ہوتی ہے اس لیے یہاں
”نُذُر“
جمع لائے ہیں، اور وہ کہتے تھے کہ کیا ہم ایک بشر کی پیروی کریں؟ اگر ہم اس کی پیروی کریں گے تو ہم گمراہی میں ہوں گے اور جنون میں ہوں گے۔
”ضَلٰلٍ“
سے مراد ہے گمراہی اور
”سُعُرٍ“
سے مراد ہے جنون اور آگے جو
”اِنَّ الۡمُجۡرِمِیۡنَ فِیۡ ضَلٰلٍ وَّ سُعُرٍ “
آ رہا ہے تو اس
”سُعُرٍ“
سے مراد جہنم ہے۔
مطلب ان کا یہ تھا کہ دیکھو! جب بھی کسی شخص کی اتباع کرتے ہیں تو کوئی نہ کوئی وجہ ہوتی ہے۔ اگر ہم اتباع ان کی کریں کہ ان سے دنیا ملے گی تو وہ تو تب ہو گا کہ جس کی اتباع کریں وہ صاحبِ ثروت ہو،دولت والا ہو، یہ تو صاحبِ ثروت آدمی نہیں ہیں تو دنیا کے امور میں ان کی اتباع کیوں کریں؟ اور اگر اتباع کرتے ہیں شریعت میں اور امورِ دین میں تو وہ فرشتہ ہونا چاہیے تھا کہ اس کی بات مانیں، یہ تو ہماری طرح کا بشر ہے۔ تو خلاصہ ان کی بات کا یہ تھا کہ یہ نہ تو فرشتہ ہے کہ ہم اس کی اتباع دینی امور میں کریں اور نہ ہی یہ صاحبِ طاقت ہے کہ ہم دنیاوی امور میں اس کی اتباع کریں۔
﴿ءَاُلۡقِیَ الذِّکۡرُ عَلَیۡہِ مِنۡۢ بَیۡنِنَا بَلۡ ہُوَ کَذَّابٌ اَشِرٌ ﴿۲۵﴾﴾
وہ یہ بھی کہتے تھےکہ کیا اسی پر وحی آنی تھی، یہ تو کذاب ہے، جھوٹ بولتا ہے اور شیخی مارتا ہے العیاذباللہ۔
﴿سَیَعۡلَمُوۡنَ غَدًا مَّنِ الۡکَذَّابُ الۡاَشِرُ ﴿۲۶﴾﴾
اللہ فرماتے ہیں کہ ان کو عنقریب پتا چل جائے گا کہ جھوٹا کون ہے اور شیخی کون مارتا ہے؟
﴿اِنَّا مُرۡسِلُوا النَّاقَۃِ فِتۡنَۃً لَّہُمۡ فَارۡتَقِبۡہُمۡ وَ اصۡطَبِرۡ ﴿۫۲۷﴾ وَ نَبِّئۡہُمۡ اَنَّ الۡمَآءَ قِسۡمَۃٌۢ بَیۡنَہُمۡ ۚ کُلُّ شِرۡبٍ مُّحۡتَضَرٌ ﴿۲۸﴾﴾
ہم ان لوگوں کی آزمائش کے لیے اونٹنی بھیج رہے ہیں اس لیے اے پیغمبر!آپ صبر کریں اور بیٹھ کر انہیں دیکھیں اور یہ بات ان کو بتائیں کہ پانی ان لوگوں کے درمیان تقسیم کر دیا گیا ہے۔ ہر کسی کو اپنی باری پر حاضر ہونا چاہیے۔
یہ واقعہ تو آپ کے ذہن میں ہے، اس لیے تفصیل بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔
﴿فَنَادَوۡا صَاحِبَہُمۡ فَتَعَاطٰی فَعَقَرَ ﴿۲۹﴾ فَکَیۡفَ کَانَ عَذَابِیۡ وَ نُذُرِ ﴿۳۰﴾﴾
تو ان لوگوں نے اپنے ایک آدمی کو بلایا۔ اس کا نام ”قدار“ تھا۔ اس نے اونٹنی پر حملہ کر دیا اور اس کے پاؤں کاٹ دیے جس سے وہ بیچاری مر گئی۔ دیکھو! ہمارا عذاب اور ہمارا ڈر سنانا کیسا تھا؟! ان پر عذاب کیا تھا؟ فرمایا:
﴿اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنَا عَلَیۡہِمۡ صَیۡحَۃً وَّاحِدَۃً فَکَانُوۡا کہہشِیۡمِ الۡمُحۡتَظِرِ ﴿۳۱﴾﴾
ہم نے ان پر سخت قسم کی چیخ بھیجی جس کی وجہ سے یہ باڑ کے چورے کی طرح ہو گئے۔
کھیتوں کے باہر کانٹوں کی باڑ لگاتے ہیں جو سال چھ مہینے کے بعد بالکل چُورا سا بن جاتا ہے۔ تو اس چیخ کی وجہ سے ان پر ایسا عذاب آیا کہ وہ بھی اس چُورے کی طرح بن کر رہ گئے، ایسے کہ ہاتھ لگاؤ تو ختم ہو جاتے تھے۔
قومِ لوط کی پکڑ:
﴿کَذَّبَتۡ قَوۡمُ لُوۡطٍۭ بِالنُّذُرِ ﴿۳۳﴾ اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنَا عَلَیۡہِمۡ حَاصِبًا اِلَّاۤ اٰلَ لُوۡطٍ ؕ نَجَّیۡنٰہُمۡ بِسَحَرٍ ﴿ۙ۳۴﴾ نِّعۡمَۃً مِّنۡ عِنۡدِنَا ؕ کَذٰلِکَ نَجۡزِیۡ مَنۡ شَکَرَ ﴿۳۵﴾﴾
قوم لوط نے نبیوں کو جھٹلایا۔ ہم نے ان پر پتھروں کی بارش برسائی، ہاں جو حضرت لوط علیہ السلام کو ماننے والے تھے صرف ان کو نجات ملی۔ہم نے ان کو سحری کے وقت اس عذاب سے بچا لیا تھا۔ یہ ان کے لیے ہماری طرف سے ایک نعمت تھی۔یہ صرف ان کے ساتھ نہیں ہے بلکہ جو بھی پیغمبر کی بات مانتا ہے ہم اس کو عذاب سے بچا لیتے ہیں۔
﴿وَ لَقَدۡ اَنۡذَرَہُمۡ بَطۡشَتَنَا فَتَمَارَوۡا بِالنُّذُرِ ﴿۳۶﴾﴾
حضرت لوط علیہ السلام نے ان کو ہماری پکڑ سے ڈرایا لیکن وہ پھر بھی ہماری تنبیہات اور ڈرانے میں شک کرتے رہے۔
﴿وَ لَقَدۡ رَاوَدُوۡہُ عَنۡ ضَیۡفِہٖ فَطَمَسۡنَاۤ اَعۡیُنَہُمۡ فَذُوۡقُوۡا عَذَابِیۡ وَ نُذُرِ ﴿۳۷﴾﴾
انہوں نے حضرت لوط علیہ السلام کو ان کے مہمانوں کے بارے میں پھسلانا چاہا۔ وہ فرشتے تھے جو بےریش لڑکوں کی صورت میں مہمان بن کر آئے لیکن یہ ظالم وہاں پہنچے۔ لوط علیہ السلام نے دروازے بند کیے تو وہ چھتوں کے اوپر سے آئے۔ ان مہمانوں نے کہا کہ ہم تو بے ریش لڑکے نہیں ہیں، ہم تو اللہ کے فرشتے ہیں اور ان کو عذاب دینے کے لیے آئے ہیں۔ پھر لوط علیہ السلام کی گھبراہٹ ختم ہو گئی۔
آل فرعون کی سرکشی اور اس کا انجام:
﴿وَ لَقَدۡ جَآءَ اٰلَ فِرۡعَوۡنَ النُّذُرُ ﴿ۚ۴۱﴾ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَا کُلِّہَا فَاَخَذۡنٰہُمۡ اَخۡذَ عَزِیۡزٍ مُّقۡتَدِرٍ ﴿۴۲﴾ ﴾
اور فرعونیوں کے پاس ڈر سنانے والی کچھ چیزیں آئی تھیں لیکن ان لوگوں نے ہماری ساری نشانیوں کو جھٹلا دیا تھا تو ہم نے ان کو ایسے عذاب دیا جیسے طاقت والا اور قدرت والا عذاب دیتا ہے۔
”النُّذُرُ“
سے مراد وہ نو نشانیاں ہیں جو حضر ت موسیٰ علیہ السلام نے پیش کی تھیں۔
پانچ بڑی اقوام عالم:
پورے قرآن کریم میں بار بار ان پانچ قوموں کا بہت ذکر کیا گیا ہے: قومِ لوط، قومِ عاد،قومِ ثمود،قومِ نوح اور قومِ فرعون۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ بہت طاقت والے لوگ تھے، پوری دنیا میں ان کی طاقت کی مثال نہیں تھی۔ تو ان اقوام کا ذکر کر کے یہ بتایا ہے کہ جب ان طاقت وروں کو ہم نے نہیں چھوڑا تو کمزورں کو مارنا ہمارے لیے کیا مشکل ہے؟!
﴿اَکُفَّارُکُمۡ خَیۡرٌ مِّنۡ اُولٰٓئِکُمۡ اَمۡ لَکُمۡ بَرَآءَۃٌ فِی الزُّبُرِ ﴿ۚ۴۳﴾ اَمۡ یَقُوۡلُوۡنَ نَحۡنُ جَمِیۡعٌ مُّنۡتَصِرٌ ﴿۴۴﴾ ﴾
آپ ان سے پوچھیں کہ کیا تمہارے کافر اُن گزشتہ لوگوں سے بہتر ہیں؟ یا تمہارے بارے میں کسی آسمانی کتاب میں لکھا ہوا ہےکہ تمہیں عذاب نہیں ہو گا؟ یا ان لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ ہم طاقت والے ہیں، ہم اپنا بچاؤ کر لیں گے؟!
تو کیا تمہارے اندر کوئی خاص فضیلت کی چیز ہے کہ ان قوموں کو تو ہلاک کیا لیکن تمہیں ہلاک نہیں کریں گے؟!
﴿سَیُہۡزَمُ الۡجَمۡعُ وَ یُوَلُّوۡنَ الدُّبُرَ ﴿۴۵﴾﴾
ایک وقت آئے گا کہ ان کی پوری جماعت کو شکست ہو گی، اور یہ غزوہ بدر اور احزاب میں ہوا تھا، اور یہ لوگ پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے۔
﴿بَلِ السَّاعَۃُ مَوۡعِدُہُمۡ وَ السَّاعَۃُ اَدۡہٰی وَ اَمَرُّ ﴿۴۶﴾﴾
صرف یہی نہیں ہو ا کہ ان کو دنیا میں شکست کا سامنا کرنا پڑے گا بلکہ ان کے وعدے کا وقت تو قیامت ہے اور قیامت بہت زیادہ خوفناک بھی ہےاور بہت کڑوی بھی ہے۔
﴿یَوۡمَ یُسۡحَبُوۡنَ فِی النَّارِ عَلٰی وُجُوۡہِہِمۡ ؕ ذُوۡقُوۡا مَسَّ سَقَرَ ﴿۴۸﴾﴾
جس دن ان کو منہ کے بل آگ میں گھسیٹا جائے گا اور ان سے کہا جائے گا کہ اب جہنم کا عذاب چکھو!
﴿اِنَّا کُلَّ شَیۡءٍ خَلَقۡنٰہُ بِقَدَرٍ ﴿۴۹﴾ وَ مَاۤ اَمۡرُنَاۤ اِلَّا وَاحِدَۃٌ کَلَمۡحٍۭ بِالۡبَصَرِ ﴿۵۰﴾﴾
ہم نے ہر چیز کو ناپ تول کر پیدا کیا ہے اور ہم جب فیصلہ کرتے ہیں تو ہمارا حکم ایسے ہوتا ہے کہ پلک جھپکنے میں عمل میں آ جاتا ہے۔
”قَدَرٍ“
سے مراد تقدیر ہے۔ تقدیر علمِ الہی اور امرِ الہی دونوں کے مجموعے کا نام ہے۔
﴿وَ لَقَدۡ اَہۡلَکۡنَاۤ اَشۡیَاعَکُمۡ فَہَلۡ مِنۡ مُّدَّکِرٍ ﴿۵۱﴾﴾
ہم نے تم جیسے کئی لوگ پہلے ہلاک کر دیے تھے۔ کیا اس سے عبرت حاصل والا کوئی ہے؟
﴿ وَ کُلُّ شَیۡءٍ فَعَلُوۡہُ فِی الزُّبُرِ ﴿۵۲﴾ وَ کُلُّ صَغِیۡرٍ وَّ کَبِیۡرٍ مُّسۡتَطَرٌ ﴿۵۳﴾﴾
اوران کافروں نے جو جو کام کیے ہیں یہ سب کام اعمال نامے میں لکھے ہوئے ہیں، ہر چھوٹی بڑی بات سب لکھی ہوئی ہے۔
﴿اِنَّ الۡمُتَّقِیۡنَ فِیۡ جَنّٰتٍ وَّ نَہَرٍ ﴿ۙ۵۴﴾ فِیۡ مَقۡعَدِ صِدۡقٍ عِنۡدَ مَلِیۡکٍ مُّقۡتَدِرٍ ﴿٪۵۵﴾ ﴾
اور متقین باغات اورنہر وں میں ہوں گے، طاقت والے بادشاہ کے ہاں اچھے مقامات پر ہوں گے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو بھی انہیں میں شامل فرما لے۔ آمین
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․