سورۃ الرحمٰن

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
سورۃ الرحمٰن
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿اَلرَّحۡمٰنُ ۙ﴿۱﴾ عَلَّمَ الۡقُرۡاٰنَ ؕ﴿۲﴾ خَلَقَ الۡاِنۡسَانَ ۙ﴿۳﴾ عَلَّمَہُ الۡبَیَانَ ﴿۴﴾﴾
سورۃ القمر میں کفار کے لیے جہنم کے عذاب کا ذکر تھا، اب اس سورۃ میں ایمان والوں کے لیے نعمتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔
لفظ رحمٰن سے سوت کے آغاز کی وجہ:
﴿اَلرَّحۡمٰنُ ۙ﴿۱﴾ ﴾
مشرکینِ مکہ میں رحمٰن کا نام زیادہ معروف نہیں تھا۔ اس لیے اللہ نے رحمٰن کے نام سے پوری سورت نازل فرمائی اور اس کا آغاز بھی لفظ رحمٰن سے کیا ہے۔ مشرکین خود کہا کرتے تھے:
”مَا الرَّحْمٰنُ؟“
کہ رحمٰن کیا ہے؟ تو اللہ نے پوری سورت اسی نام سے نازل فرمائی۔
قرآن سب کو سیکھنا چاہیے:
﴿عَلَّمَ الۡقُرۡاٰنَ ؕ﴿۲﴾ ﴾
رحمٰن نے قرآن سکھایا ہے۔
”عَلَّمَ“
بابِ تفعیل سے ہے جس کے دو مفعول ہوتے ہیں۔ ایک مفعول کا ذکر کیا اور دوسرے کا نہیں۔ مطلب کہ جو سکھایا ہے اس کا ذکر تو ہے اور جس کو سکھایا ہے اس کا ذکر نہیں ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ہر کسی کو پتا ہے کہ قرآن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر اترا ہے۔ تو متعلم اول حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ... یا اس کی وجہ یہ ہے کہ چونکہ قرآن کریم کی تعلیم ہر کسی کو دینی ہے اس لیے اس کا مفعول بہ ذکر نہیں فرمایا، یہ بتانے کے لیے کہ قرآن کریم ہر کسی کو سیکھنا چاہیے۔
اللہ کی نعمتیں:
﴿خَلَقَ الۡاِنۡسَانَ ۙ﴿۳﴾ عَلَّمَہُ الۡبَیَانَ ﴿۴﴾ ﴾
اللہ نے انسان کو پیدا فرمایا، پھر اس کو بولنا سکھایا۔
یہاں پہلے تخلیق کا ذکر ہے اور اس کے بعد تعلیم کا ذکر ہے لیکن جب ذکر فرمایا تو تعلیم پہلے اور تخلیق بعد میں ذکر کی، یہ بتانے کے لیے کہ تخلیق سے مقصود یہ ہے کہ بندہ دین سیکھے اور اس پر عمل کرے۔
﴿اَلشَّمۡسُ وَ الۡقَمَرُ بِحُسۡبَانٍ ﴿۪۵﴾﴾
سورج اور چاند ایک حساب کے ساتھ متعین ہیں۔ صدیوں سے چل رہے ہیں، نہ تھکتے ہیں اور نہ ہی جگہ بدلتے ہیں، یہ ایک انداز سے چل رہے ہیں۔
﴿وَّ النَّجۡمُ وَ الشَّجَرُ یَسۡجُدٰنِ ﴿۶﴾﴾
نجم بھی درخت کو کہتے ہیں اور شجر بھی درخت کو کہتے ہیں لیکن دونوں میں فرق یہ ہےکہ شجر سے مراد ہے ایسا درخت جس کا تنا ہو اور نجم سے مراد ایسا درخت ہے جس کا تنا نہ ہو۔ جس طرح انگور وغیرہ کی بیلیں ہوتی ہیں جن کا تنا نہیں ہوتا۔ تو بغیر تنے اور تنے والے درخت اللہ کو سجدہ کرتے ہیں۔ یہاں سجدے سے مراد حقیقی سجدہ نہیں ہے جیسے انسان کرتا ہے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ یہ تکویناً اطاعتِ خداوندی پر مامور ہیں۔ اسی کو سجدے سے تعبیر کیا گیا ہے۔
﴿وَ السَّمَآءَ رَفَعَہَا وَ وَضَعَ الۡمِیۡزَانَ ۙ﴿۷﴾﴾
آسمان کو اللہ نے بلند کیا۔پھر اللہ نے میزان رکھا ہے۔
میزان سے مراد ظاہری ترازو نہیں ہے بلکہ اس سے مراد ہر وہ آلہ ہے کہ جس سے کسی چیز کو تولا جائے یا ناپا جائے، جس کی ایک صورت ترازوبھی ہوتی ہے۔
﴿اَلَّا تَطۡغَوۡا فِی الۡمِیۡزَانِ ﴿۸﴾﴾
اللہ نے میزان بنایا تاکہ تم تولنے میں کمی بیشی نہ کرو۔
﴿وَ اَقِیۡمُوا الۡوَزۡنَ بِالۡقِسۡطِ وَ لَا تُخۡسِرُوا الۡمِیۡزَانَ ﴿۹﴾﴾
اور انصاف کا خیال کرو ناپ تول میں اور کبھی کمی نہ کرنا۔
یہاں یہ بتانا مقصود ہے کہ اصل ہے عدل۔ عدل سے کبھی نہ ہٹنا اور تمام چیزوں میں عدل بنیاد ہوتا ہے۔عدل سے ہٹ جائیں تو پھر ظلم ہوتا ہے۔
﴿وَ الۡاَرۡضَ وَضَعَہَا لِلۡاَنَامِ ﴿ۙ۱۰﴾ فِیۡہَا فَاکِہَۃٌ ۪ۙ وَّ النَّخۡلُ ذَاتُ الۡاَکۡمَامِ ﴿ۖ۱۱﴾ ﴾
اور خدانے زمین پھیلائی ہے لوگوں کے لیے، اس میں میوے ہیں اور ایسے کھجور کے درخت ہیں جن کا پھل غلاف میں ہوتا ہے۔
﴿وَ الۡحَبُّ ذُو الۡعَصۡفِ وَ الرَّیۡحَانُ ﴿ۚ۱۲﴾﴾
اور کئی طرح کے غلے ہیں جن میں بھوسہ بھی ہوتا ہےاور کھانے کے لیے دانے بھی ہوتے ہیں جیسے گندم، مکئی، چاول وغیرہ۔ اللہ نے کیسا نظام بنایا۔ گندم کا دانہ دیکھ لیں کہ کیسے محفوظ ہوتا ہے؟! چاول دیکھ لیں تو کیسے محفوظ ہے؟ ! مکئی دیکھ لیں کیسے محفوظ ہے؟! اسے محفوظ بنا کر اللہ پھر بندے کے حوالے کر دیتے ہیں۔
﴿فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ ﴿۱۳﴾﴾
تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے؟
﴿خَلَقَ الۡاِنۡسَانَ مِنۡ صَلۡصَالٍ کَالۡفَخَّارِ ﴿ۙ۱۴﴾﴾
صلصال کہتے ہیں اس مٹی کو جو پانی میں ہو اور پھر خشک ہو جائے اور فخار کہتے ہیں کہ مٹی پانی میں ہو اور پھر وہ آگ پر تپا دی جائے۔ تو اللہ پاک نے انسان کو پیدا فرمایا صلصال یعنی ایسی مٹی سے جو پانی میں ملی تھی اور اس کے بعد وہ مٹی ایسی سخت ہوئی جیسے آگ پر پکائی جاتی ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلے نرم ہوتی تھی بعد میں سخت ہو گئی۔
﴿وَ خَلَقَ الۡجَآنَّ مِنۡ مَّارِجٍ مِّنۡ نَّارٍ ﴿ۚ۱۵﴾﴾
اور جنات کو پیدا کیا خالص آگ سے یعنی ایسی آگ سے جس میں دھویں کی آمیزش نہ ہو، اس آگ سے جنات کو پیدا کیا۔
﴿فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ﴿۱۶﴾﴾
تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے؟! اللہ کی کتنی بڑی نعمت ہے کہ خدا نے مٹی سے کتنا خوبصورت انسان بنایا۔
﴿رَبُّ الۡمَشۡرِقَیۡنِ وَ رَبُّ الۡمَغۡرِبَیۡنِ ﴿ۚ۱۷﴾﴾
سورج گرمی میں الگ جگہ سے طلوع ہوتا ہے اور سردی میں الگ جگہ سے طلوع ہوتا ہے۔ تھوڑا تھوڑا جگہوں کا فرق ہے، اس لیے مشرقین اور مغربین فرمایا۔
﴿فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ ﴿۱۸﴾﴾
تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے؟یہ بھی اللہ کی کتنی بڑی نعمت ہے؟!
﴿مَرَجَ الۡبَحۡرَیۡنِ یَلۡتَقِیٰنِ ﴿ۙ۱۹﴾ بَیۡنَہُمَا بَرۡزَخٌ لَّا یَبۡغِیٰنِ ﴿ۚ۲۰﴾﴾
اللہ دو سمندر چلاتے ہیں جو آپس میں ملے ہوتے ہیں اور ان کے درمیان ایک پردہ ہوتا ہے اور پردہ اس طرح ہوتا ہے کہ ایک سمندر دوسرے میں داخل نہ ہو۔
﴿ فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ ﴿۲۱﴾﴾
تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے؟! یہ اللہ کی کتنی بڑی نعمت ہے، آدمی پڑھ تو سکتا ہے لیکن جب تک خود نہ دیکھے صحیح مزا نہیں آتا۔ سمندری سفر نہ کرے، سمندروں میں نہ جائے تو مزا نہیں آتا۔
﴿یَخۡرُجُ مِنۡہُمَا اللُّؤۡلُؤُ وَ الۡمَرۡجَانُ ﴿ۚ۲۲﴾﴾
ان دونوں سمندروں سے موتی اور مونگا نکلتا ہے۔
موتی اور مونگا دونوں قیمتی ہیں جو اس سے نکلتے ہیں۔
﴿فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ ﴿۲۳﴾﴾
تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے؟!
﴿وَ لَہُ الۡجَوَارِ الۡمُنۡشَئٰتُ فِی الۡبَحۡرِ کَالۡاَعۡلَامِ ﴿ۚ۲۴﴾﴾
اور اللہ ہی کے قبضہ قدرت میں وہ بڑے بڑے جہاز ہیں جو سمندروں میں ایسے کھڑے ہوتے ہیں جیسے پہاڑ ہوں۔
﴿فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ ﴿٪۲۵﴾﴾
تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے؟!
سمندر؛ خدائی قدرت کا کرشمہ
اللہ کی کتنی بڑی قدرت ہے !اور آپ یقین فرمائیں کہ جب تک بندہ سمندری سفر نہ کرے ان چیزوں کو مانتا تو ہے لیکن دلی یقین نہیں آتا۔عجیب نعمت ہے۔ پانی کے اوپر انسان تیر رہا ہے، پانی کے اوپر بندہ کھیل رہا ہے اور اتنے بڑے بڑے جہاز ہیں کہ ہمارے گاؤ ں جیسے دس گاؤ ں ہوں تو ایک جہاز میں بیٹھے ہو تے ہیں۔ ایک بحری بیڑا بناتے ہیں جس پر سو سو جنگی جہاز ہوتے ہیں، اترتے ہیں، جاتے ہیں، اترتے ہیں، جاتے ہیں، ایک ایک جہاز میں چھ چھ ہزار بندہ بیٹھا ہوتا ہے اور دو دو ماہ اس نے پانی میں چلنا ہوتا ہے اور پھر چھ ہزار بندوں کی خوراک ساتھ ہے۔ پھر جہازوں میں پورے گراؤنڈ بنے ہوئے ہوتے ہیں، فٹبال اس پر کھیل رہے ہوتے ہیں اور ایک ایک بندے کا الگ الگ کمرہ ہوتا ہے جس میں وہ رہتا ہے۔اب یہاں یہ بات سمجھ نہیں آتی جب تک بندہ سفر نہ کرے۔ دنیا میں بہت سارے لوگ ایسے ہیں جو سمندر میں سیر کے لیے جاتے ہیں، موبائل بند کیا بیوی بچے ساتھ لیے اور سمندر میں چلے گئے، ہفتہ ہفتہ سمندر میں رہتے ہیں اور سیر کرتے رہتے ہیں۔ اللہ پاک آپ کو بھی دین کی وجہ سے ایسے اسفار عطا فرمائیں۔پھر یہ نعمتیں دیکھیں۔ دین کی برکت سے جب یہ چیزیں بندہ دیکھتا ہے تو عجیب سرور محسوس کرتا ہے۔
متکلمِ اسلام کا سمندری سفر:
ابھی ہم ملائیشیا میں تھے۔ میں جب بھی بیرون ملک جاتا ہوں اور اپنے معمولات سے جب فارغ ہوتا ہوں تو پھر خواہش ہوتی ہے کہ سیر کریں۔ اس دفعہ ہم گئے تو ایک سمندر تھا، وہاں ہم گئے، اس کے ساحل کا نام Monkey Beach تھا۔ بندر کو کہتےہیں Monkey اور ساحل کو کہتےہیں Beach۔ وہاں بندر بہت تھے۔ ہم ایک جگہ سے گزرے، آگے جانا تھا تو ہم نے کشتی بک کرائی۔ جب ہم بیٹھے تو ہمارے ساتھ ایک فیملی بھی بیٹھ گئی، وہ غالباً ہندو تھے۔ جب ہم بیٹھے تو ایک عورت تھی اس نے کہا کہ ہم ان کے ساتھ نہیں بیٹھیں گے۔ ہمارے ساتھی سادہ تھے، جلدی سے اتر گئے حالانکہ جو چلانے والا تھا اس نے اس فیملی سے کہا کہ اگر تم ان کے ساتھ نہیں جانا چاہتے تو تم اتر جاؤ کیونکہ یہ لوگ تو پہلے کھڑے تھے لیکن ہمارے ساتھیوں نے جلدی کی۔ اللہ تعالی کے ہر کام میں عجیب حکمت ہوتی ہے۔ جس جہاز میں ہم پہلے جانے لگے تھے وہ جہاز چھوٹا تھا اور اس کی سیٹیں بھی سوزوکی کی سیٹوں کی طرح تھیں، باہر سے پانی آتا تو گندگی وغیرہ اندر آتی۔ خیر ہم اس سے اتر گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد جب ایک اور جہاز آیا تو وہ بڑا تھا اور اس کی سیٹیں بھی کرسیوں کی طرح تھیں اور صاف بھی تھا، بڑا مزا آیا۔ ساتھی مجھے کہنے لگے کہ استاد جی! آپ کے ساتھ اللہ کا عجیب نظام چلتا ہے، چھوٹے جہاز سے اتارا اور بڑے اور اچھے جہاز میں بٹھایا۔ پھر وہاں سے ہم سیر کے لیے گئے۔ یہ میں اس لیے بتاتا ہوں کہ اگر اللہ بندے کو مواقع دے تو بندےکو جانا چاہیے۔
ایک مرتبہ میں کوالاالمپورسے کلِنتَن گیا تو گھر والے میرے ساتھ تھے۔ میں نے میزبانوں سے کہا بھائی! کیا پروگرام بنایا ہے؟ انہوں نے کہا کہ آپ تھوڑی دیر آرام کریں، کھانا کھا لیں تو عصر سے پہلے اٹھیں گے، عصر کی نماز کے بعد جائیں گے ساحل پر سیر کرنے کے لیے۔ میں نے کہا کہ عصر کے بعد کیوں جانا ہے؟صبح چلیں گے! تو انہوں نے کہا کہ عصر کے بعد گیدرنگ ہوتی ہے، بہت مزا آتا ہے۔گیدرنگ رش کو کہتے ہیں۔
وہ تو کہنے لگے رش میں بہت مزا آتا ہے۔ میں نے کہا کہ بھائی! گیدرنگ میں تو وہ جائے جس نے دوسرے کی بیوی دیکھنی ہو، مجھے تو گیدرنگ میں نہیں جانا کیو نکہ میری بیوی میرے ساتھ ہو گی، میں نے تو اپنی بیوی کو دیکھنا ہے۔ وہ لوگ اس پر بہت ہنسے اور ایک دوسرے کو یہ سناتے رہے۔
میں نے کہا: ہم صبح فجر کی نماز کے بعد جائیں گے، فجر کی نماز کے بعد ساحل سمندر پر کوئی شخص نہیں ہوتا، ساحل خالی ہوتا ہے اور ٹھنڈی ہوائیں چلتی ہیں، عصر کے بعد لوگ آتے ہیں سیر کرنے کے لیے تو گناہوں کی ایک دنیا آباد ہوتی ہے اور فجر کے بعد یہ لوگ سو رہے ہوتے ہیں اور سمندر بالکل صاف ہوتا ہے، فضائیں بہت اچھی ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو بھی یہ نعمتیں دکھائے۔ آمین
اللہ کی دو اہم صفات؛ ذو الجلال والاکرام
﴿کُلُّ مَنۡ عَلَیۡہَا فَانٍ ﴿ۚ۲۶﴾ وَّ یَبۡقٰی وَجۡہُ رَبِّکَ ذُو الۡجَلٰلِ وَ الۡاِکۡرَامِ ﴿ۚ۲۷﴾﴾
ہر چیز جو زمین پر ہے وہ ختم ہو جائے گی اور صرف اللہ کی ذات رہ جائے گی۔
”وَجۡہُ رَبِّکَ“
سے مراد اللہ کی ذات ہے۔ زمین وآسمان سب ختم ہو جائیں گے لیکن چونکہ پہلے تذکرہ زمین کا تھا اس لیے فرمایا کہ زمین کی ہر چیز فنا ہو جائے گی۔
”ذُو الۡجَلٰلِ وَ الۡاِکۡرَامِ“...
یہ ذو الجلال اللہ کی ذاتی صفت ہے اور ذو الاکرام اللہ کی اضافت والی صفت ہے۔ ذو الجلال سے مراد ہے عزت والے اور ذو الاکرام سے مراد ہے احسان والے۔ احسان تو دوسروں پر ہوتا ہے اس لیے یہ اضافی صفت ہے۔ اللہ عظمت والے بھی ہیں اور احسان بھی کرتے ہیں... اور یہ دو صفتیں اللہ کی اکٹھی کیوں ہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ عام طور پر جو لوگ عظمت والے ہوتے ہیں وہ احسان کا خیال نہیں کرتے تو یہاں یہ بتانا مقصود ہے کہ اللہ کی ذات وہ ہے جو عظمت والی بھی ہے اور احسان والی بھی ہے۔
عظیم لوگوں کو صاحبِ احسان ہونا چاہیے:
میں نے جب اس آیت کی تفسیر پڑھی تو یقین کریں مجھے بہت مزا آیا۔ ایک بات میں معاشرے میں دیکھتا ہوں کہ وہ لوگ جو شخصیات ہوتی ہیں، جن کا معاشرےمیں قد کاٹھ ہوتا ہے وہ دائیں بائیں کسی کا خیال نہیں کرتے۔ ان کا مزاج ہوتا ہے کہ کسی کو ضرورت ہو تو ہمارے پاس آجائے اور ضرورت نہ ہو تو نہ آئے کیونکہ یہ بہت بڑے آدمی ہیں۔ میں جو بات کہنا چاہتا ہوں اللہ کرے وہ بات آپ کی سمجھ میں آ جائے۔
حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ عام طور پر جو عظمت والے لوگ ہیں وہ احسان نہیں کرتے، اللہ کی ذات ایسی ہے کہ جو عظمت والی بھی ہے اور احسان والی بھی ہے۔
چھوٹوں پر شفقت کریں!
آپ کسی علاقے میں جائیں تو آپ دیکھیں گے کہ جو وہاں بڑے لوگ ہوتے ہیں دین کے اعتبار سےیا دنیا کےاعتبار سے خواہ کسی اور اعتبار سے... مثلاً بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جن میں خاندانی وجاہت ہوتی ہے، پردادا پیر تھا، پھر دادا پیر تھا، پھر باپ پیر تھا، پھر اب بیٹا پیر ہے، یوں ایک نسل آ رہی ہے تو وہ اس علاقے کی روحانی گدی شمار ہوتی ہے، روحانی شخصیت شمار ہوتی ہے، قوم میں ان کا بہت بڑا احترام ہوتا ہے، ان کی عظمت بہت ہوتی ہے... لیکن وہ دوسروں کا خیال نہیں کرتے کہ کوئی اس علاقے میں غریب ہے تو اس کی مدد کر دیں، کوئی بے دین ہے تو اس کو دین پر لائیں، کوئی مصیبت میں ہے تو اس کی مصیبت دور کر دیں! نہیں بس وہ اسی میں مست ہوتے ہیں کہ ہم بہت بڑے لوگ ہیں۔
تو اللہ تو عظمت والے بھی ہیں اور اکرام والے بھی ہیں۔ اگر اللہ پاک دنیا میں کسی کو ظاہری عظمت عطا فرما دیں تو عظمت کے ساتھ پھر احسان والی صفت کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔ ہمیں تو بہت ڈر لگتا ہے کہ جو عظمت والے ہیں ان کا کھانا الگ ہوتا ہے، رہنا الگ ہوتا ہے، پینا الگ ہوتا ہے حتی کہ ان کے ساتھ جو چلنے والے ہیں وہ بھی ان نعمتوں کو نہیں کھا سکتے۔ڈرائیور ساتھ ہو گا، خادم ساتھ ہو گا اور لوگ ساتھ ہوں گے لیکن ہر پل محسوس ہو گا کہ یہ بڑے ہیں اور یہ چھوٹا ہے۔ اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائے، اللہ ہم سب کو محفوظ رکھے۔
متکلمِ اسلام کی شفقت کے چند واقعات:
[۱]: ہمارے ساتھ یہ چلتے ہیں بھائی نعیم اللہ ڈرائیور وغیرہ تو ضرورت ہو تو بتانا پڑتا ہے کہ یہ ڈرائیور ہے لیکن ویسے معمول کے مطابق اتریں تو کئی پوچھتے ہیں کہ یہ آپ کا بیٹا ہے؟ آپ دیکھیں اس کا کپڑا میرے کپڑے سے قیمتی ہوتا ہے، اس کا جوتا میرے جوتے سے قیمتی ہوتا ہے، میں چائے بہت کم پیتا ہوں... مجھے چائے کا شوق نہیں ہے، ہاں اگر مجلس کے لوگ ہیں اور چائے آ گئی تو پی لی،بوتل آ گئی تو پی لی،باقی میرا ذوق چائے کا نہیں ہے... لیکن صرف اپنے ڈرائیور کی وجہ سے میں چار چار مرتبہ چائے بنواتا ہوں اور فون پہ کہتا ہوں کہ بھائی! خالص دودھ ہو، اس میں پتی ڈالو، چینی اور پانی الگ رکھنا ہے... وہ ہم خود ڈالیں گے۔اس کی وجہ کہ یہ ایسی چائے پیتا ہے جس میں دودھ ہو، پتی ہو لیکن چینی نہ ہو، اس کی وجہ سے میں آرڈر دیتا ہوں تو اس کو مزے کی چائے ملتی ہے۔ یہ میں اس لیے نہیں بتا رہا کہ میں بہت اچھا کام کر رہا ہوں بلکہ اس لیے بتا رہا ہوں کہ آپ کو ان باتوں کا خیال رکھنا چاہیے۔
[۲]: ابھی پرسوں ہم ڈیرہ اسماعیل خان سے واپس آ رہے تھے۔ میں نے سِلانوالی جانا تھا۔ میانوالی سے گزر رہے تھے تو راستے میں ہمارے ایک ساتھی تھے خوشاب کے امیر مولانا فیصل صاحب... ان کو میں نے فون کیا۔میں نے کہا کہ وقت بہت کم ہے، مدرسے میں نہیں آ سکتے۔ انہوں نے کہا کہ قریب آ کر رابطہ کریں تو میں سڑک پر آ کر مصافحہ کر لوں گا۔ پھر میں نے بھائی نعیم اللہ سے پوچھا چائے پینی ہے؟ کہا کہ جی! پینی ہے۔ میں نے کہا کہ وقت بہت تھوڑا ہے، کوئی طریقہ ایسے بنائیں کہ چلتے چلتے پی لیں گے! کہا کہ چلیں استاد جی پھر رہنے دیں! میں سمجھ گیا کہ پینی ہے۔بس پھر میں رہنے نہیں دیتا۔ میں نے پھر مولانا فیصل صاحب کو فون کیا کہ ہم نے چائے پینی ہے خالص دودھ میں پتی ڈالنی ہے، چینی نہیں ڈالنی، اس کی کوئی ایسی ترتیب بنائیں کہ وقت بھی بچ جائے اور چائے بھی پی لیں۔ انہوں نے کہا ٹھیک ہے۔
روڈ کے اوپر ان کا مدرسہ ہے، ایک گیٹ روڈ پر ہے اور ایک اندر ہے۔ کہنے لگے کہ سڑک والا گیٹ عموماً نہیں کھلتا، ہم سٹرک والا گیٹ کھول دیں گے، گیٹ کھلتے ہی ساتھ کمرہ ہو گا وہاں بیٹھ کر چائے پی لیں گے۔ میں نے کہا کہ جب میں آؤں تو دستر خوان لگا ہو۔اب دودھ پتی چائے پڑی ہے... چینی ساتھ پڑی ہے... سموسے پڑے ہیں... گجریلا پڑا ہے۔ یہ میں نے اپنے لیے مانگا کیونکہ اگر میں اپنے لیے نہ مانگتا اور کہتا کہ ڈرائیور نے چائے پینی ہے تو کچھ بھی نہ ہوتا۔ ایک کپ چائے ہوتا۔ تو بسا اوقات صرف ان کو چائے پلانے کے لیے اپنے لیے چائے کا آرڈر دیتا ہوں اور پھر اتنی اچھی ہوتی ہے کہ میرا بھی جی چاہتا ہے کہ میں بھی پی لوں۔
تو میں نے اس لیے کہا کہ بندہ عظمت والا تو ہوتا ہے لیکن اکرام والا نہیں ہوتا۔ حدیث پاک میں ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أَلِظُّوْا بِيَا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ.
سنن الترمذی، رقم: 3525
کہ اس لفظ کو لازم پکڑو یعنی جب دعائیں مانگو تو یہ کہا کرو
”یَا ذَاالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ“
اس سے اللہ رب العزت دعائیں قبول فرما لیتے ہیں۔
بس اپنے کام میں برکت چاہتے ہو تو اپنے سے چھوٹوں سے معاملہ ٹھیک رکھو پھر یہ محبتیں دیکھنے والی ہوتی ہیں، بڑاکوئی تمہیں پیار نہیں دے گا، چھوٹے تمہیں پیار دیں گے۔
[۳]: پرسوں جب ہم پہاڑ پور بیان کے لیے گئے تو میرے ساتھ مولانا مصطفیٰ خلیل صاحب تھے۔ وہ کہنے لگے استاذ جی! یہاں لوگ کھڑے ہیں، یہ آپ سے وقت لینا چاہتے ہیں۔ میں نے کہا: گاڑی روکو لیکن وقت نہیں دیں گے کیونکہ ہمارے پاس وقت بہت کم ہے۔ گاڑی روکی تو وہ دوڑ کر آئے، ملے، حال حوال کیا۔ انہوں نے کہا کہ استاد جی! یہاں قریب مسجد ہے تو ہم چاہتے ہیں کہ آپ سنگِ بنیاد رکھیں۔ میں نے کہا کہ وقت بہت کم ہے، میں نے آگے جانا ہے، میرا سفر بہت لمبا ہے، آپ ناراض نہ ہوں، ان شاء اللہ اس سے اگلے سفر میں ملیں گے۔
خیر ہم آگے چلے گئے۔ بیان سے فارغ ہوئے تو مجھے مفتی عبد الواحد قریشی صاحب نے کہا استاد جی! یہاں ایک بہت بڑے عالم تھے فوت ہو گئے ہیں، اب ان کے بچے ہیں وہ مسجد کا سنگِ بنیاد آپ سے رکھوانا چاہتے ہیں۔ پہلے مجھے اس بات کا پتا نہیں تھا۔میں نے کہا چلو! وہاں گئے، والد صاحب ان کے فوت ہو گئے تھے، ان کا بیٹا کوئٹہ میں درجہ سادسہ میں پڑھ رہا تھا، اس سال نہیں گیا کیونکہ مدرسہ سنبھالنا ہے۔ ہم گئے، دعا کی اور پتھر رکھا۔ مفتی صاحب نے انہیں پہلے سے کہا تھا کہ استاد جی رکیں گے نہیں، صرف پتھر رکھیں گے اور فوراً نکلیں گے۔
وہ لڑکا میرے ساتھ چل رہا تھا، بڑی منت کے ساتھ کہہ رہا تھا کہ دو منٹ دو منٹ تشریف رکھیں! کیونکہ اس علاقے میں اہلِ بدعت بہت ہیں، آپ کے یہاں بیٹھنے سے سے میری عزت بڑھے گی۔ مفتی صاحب سے میں نے کہا کہ چلو پانچ منٹ سے کیا ہوتا ہے۔ ہم بیٹھے، تھوڑا سا بیان کیا اور دعا کی۔ انہوں نے دستر خوان پھر بچھا دیا۔ میں نے کہا کہ اب بیٹھ جاؤ یہ خوش ہو جائیں گے۔ جب ہم گاڑی میں بیٹھے تو مجھے مفتی صاحب نے دو ہزار روپے دیے، مجھے یقین ہو گیا کہ ان غریبوں نے دیا ہو گا کہ ان کو ہدیہ دے دو۔
اب یہ چھوٹے تھے تو دیکھو محبت بھی دی ہے، پھل بھی کھلایا ہے، دو ہزار روپے بھی دیے ہیں اور وہ کتنے خوش ہوں گے کہ ہمارے پاس رکے۔ اس لیے اپنے سے چھوٹوں سے محبت کرو، پھر اللہ کی عنایات دیکھو کیسے آتی ہیں؟ !
﴿یَسۡـَٔلُہٗ مَنۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ کُلَّ یَوۡمٍ ہُوَ فِیۡ شَاۡنٍ ﴿ۚ۲۹﴾﴾
اللہ سے آسمان والے اور زمین والے اپنی ضرورتیں مانگتے ہیں، سب اسی کے سائل ہیں ہر دن اللہ کی ایک نئی شان ہے۔
یوم سے مراد وقت ہے کہ اللہ ہرروز اور ہروقت ایک نئی شان میں ہوتے ہیں، کسی کو کچھ دے رہے ہیں کسی کو کچھ دے رہے ہیں۔
﴿سَنَفۡرُغُ لَکُمۡ اَیُّہَ الثَّقَلٰنِ ﴿ۚ۳۱﴾﴾
ایک وقت آئے گا اے جنو اور انسانو! کہ جیسے ہم تمہارے لیے فارغ ہو گئے ہیں... کیا مطلب؟ کہ قیامت کا دن آئے گا، حساب کتاب کا دن آئے گا۔
اللہ رب العزت کو ایک کام کرنے کے لیے دوسرے کام سے فارغ ہونے کی ضرورت نہیں ہے لیکن بندہ جب سارے کام چھوڑ کر ایک کی طرف توجہ کرے تو اس کا معنی یہ ہوتا ہے کہ یہ کام بہت اہم ہے۔ تو یہ بات مخاطب کی عقل کی رعایت رکھتے ہوئے اس انداز میں اس لیے فرمائی ہے کہ تاکہ مخاطب کو بات سمجھ آ جائے کہ ایک وقت آنے والا ہے جس میں حساب کتاب ہو گا اور کوئی کام نہیں ہو گا۔
﴿فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ ﴿۳۲﴾﴾
تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے؟!
یہاں سوال یہ ہے کہ حساب کتاب کی خبر دینا یہ نعمت کیسے ہے؟ جواب یہ ہے کہ نعمت ہی تو ہے کہ اللہ نے آنے والے احوال کی تمہیں خبر دے دی ہے۔ اگر دشمن ہمارے اوپر حملہ کرنے والا ہو اور کوئی بندہ اتنا بتا دے کہ تمہارے اوپر حملہ ہونا ہے تو ہم اس کے کتنے احسان مند ہوتے ہیں کہ یار اس نے ہمیں بتا دیا۔ تو یہاں اللہ بتا رہے ہیں کہ ایسا ہونا ہے کہ تمہارا حساب کتاب ہو گا۔ میں پہلے بتا رہا ہوں تاکہ تم اس کی تیاری کرو۔ تو یہ بہت بڑی نعمت ہے۔
﴿یٰمَعۡشَرَ الۡجِنِّ وَ الۡاِنۡسِ اِنِ اسۡتَطَعۡتُمۡ اَنۡ تَنۡفُذُوۡا مِنۡ اَقۡطَارِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ فَانۡفُذُوۡا ؕ لَا تَنۡفُذُوۡنَ اِلَّا بِسُلۡطٰنٍ ﴿ۚ۳۳﴾﴾
اے جن اور انس! اگر تم آسمان اور زمین کی حدود سے نکل سکتے ہو تو نکل جاؤ، لیکن یہ نکلنا بغیر طاقت کے نہیں ہے اور طاقت تمہارے پاس ہے نہیں تو تم کیسے نکلو گے؟
﴿یُرۡسَلُ عَلَیۡکُمَا شُوَاظٌ مِّنۡ نَّارٍ ۬ۙ وَّ نُحَاسٌ فَلَا تَنۡتَصِرٰنِ ﴿ۚ۳۵﴾﴾
تم پر آگ کا شعلہ بھی چھوڑا جائے گا اور دھواں بھی چھوڑا جائے گا، پھر تم مقابلہ بھی نہیں کر سکو گے!
شواظ کہتے ہیں آگ کے شعلہ کو اور نحاس کہتے ہیں دھویں کو۔ دونوں میں فرق یہ ہے کہ شواظ آگ کا وہ شعلہ ہے جس میں دھواں نہ ہو اورنحاس وہ دھواں ہے جس میں آگ کا شعلہ نہ ہو۔ یہ دونوں قسم کے عذاب ہوں گے، کبھی شعلہ بھی ہو گا اور دھواں بھی ہو گا، کبھی صرف آگ ہو گی اور دھواں نہیں ہو گا اور کبھی صرف دھواں ہو گا اور آگ نہیں ہو گی۔یعنی ہر قسم کے عذاب ہوں گے۔
آسمان سرخ ہو جائے گا:
﴿فَاِذَا انۡشَقَّتِ السَّمَآءُ فَکَانَتۡ وَرۡدَۃً کَالدِّہَانِ ﴿ۚ۳۷﴾﴾
جب آسمان پھٹ جائے گا تو یہ ایسے سرخ ہو جائے گا جیسے سرخ رنگا ہوا چمڑا ہوتا ہے۔ اس لیے اس وقت سے ڈرو۔ یہ ایساسرخ ہو گا جس طرح لوہا تپ کر سرخ ہو جاتا ہے۔
﴿فَیَوۡمَئِذٍ لَّا یُسۡـَٔلُ عَنۡ ذَنۡۢبِہٖۤ اِنۡسٌ وَّ لَا جَآنٌّ ﴿ۚ۳۹﴾﴾
اللہ کو سب چیزیں معلوم ہیں، اللہ تحقیقِ حال کے لیے بندوں سے نہیں پوچھیں گے۔ جو پوچھیں گے وہ صر ف دھمکانے کے لیے تاکہ اپنے اوپر خود گواہی دیں۔ یہ جو معنی کہ اللہ بندوں اور جنات سے ان کے گناہوں کے بارے میں پوچھیں گے ہی نہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پوچھنے کی ضرورت نہیں ہو گی، بغیر پوچھے تمہیں عذاب دے سکتے ہیں لیکن جو پوچھیں گے تو وہ صرف تہدید اور ڈرانے کے لیے اور حجت تام کرنے کے لیے۔
مجرمین کا واصلِ جہنم ہونا:
﴿یُعۡرَفُ الۡمُجۡرِمُوۡنَ بِسِیۡمٰہُمۡ فَیُؤۡخَذُ بِالنَّوَاصِیۡ وَ الۡاَقۡدَامِ ﴿ۚ۴۱﴾﴾
وہاں تو پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں ہو گی، جتنے مجرم ہوں گے ان کی نشانیوں سے پتا چلے گا، پھر ان مجرموں کو سر کے بالوں اور پاؤں سے پکڑا جائے گا۔
فرشتے پیشانی اور قدموں سے گھسیٹ گھیسٹ کر جہنم میں پھینکیں گے۔اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔ آمین
﴿ہٰذِہٖ جَہَنَّمُ الَّتِیۡ یُکَذِّبُ بِہَا الۡمُجۡرِمُوۡنَ ﴿ۘ۴۳﴾ یَطُوۡفُوۡنَ بَیۡنَہَا وَ بَیۡنَ حَمِیۡمٍ اٰنٍ ﴿ۚ۴۴﴾﴾
اور کہا جائے گا کہ یہی وہ جہنم ہے جس کا مجرم انکار کرتے تھے۔ یہ جہنم اور گرم پانی کے درمیان چکر لگاتے ہوں گے۔
﴿وَ لِمَنۡ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتٰنِ ﴿ۚ۴۶﴾ ذَوَاتَاۤ اَفۡنَانٍ ﴿ۚ۴۸﴾ ﴾
جنتی دوقسم کے ہیں؛ ایک ہیں مقربین اور ایک ہیں اصحاب الیمین۔ اصحاب الیمین سے مراد عام جنتی ہیں اور مقربین سے مراد خاص جنتی ہیں۔ خواص و عوام اللہ نے دونوں کے لیے جنت اور باغات کا ذکر کیا ہے۔ پہلے خواص کے باغات کی بات کی ہے پھر عوام کے باغات کی۔ دونوں میں فرق کیا ہے؟وہ بھی ساتھ ساتھ سمجھیں:
مقربین کے انعامات:
﴿وَ لِمَنۡ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتٰنِ﴾
جو لوگ اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرتے ہیں ان کے لیے دو باغات ہوں گے۔کون سے؟
﴿ذَوَاتَاۤ اَفۡنَانٍ﴾
جو بہت شاخوں والے ہوں گے۔ اس کا معنی ہے کہ بہت گھنے ہوں گے۔
﴿فِیۡہِمَا عَیۡنٰنِ تَجۡرِیٰنِ﴾
ان میں جاری چشمے ہوں گے۔
﴿فِیۡہِمَا مِنۡ کُلِّ فَاکِہَۃٍ زَوۡجٰنِ﴾
ان باغوں میں ہر قسم کے پھل ہوں گے اور دو دو قسم کے ہوں گے،
﴿مُتَّکِـِٕیۡنَ عَلٰی فُرُشٍۭ بَطَآئِنُہَا مِنۡ اِسۡتَبۡرَقٍ﴾
اور وہ ایسے بچھونوں پر بیٹھے ہوں گے جو اندر سے ریشم کے ہوں گے۔ اندازہ کریں کہ جب اندر والی طرف ریشم کی ہے تو اوپر والی طرف کیسی ہو گی۔
جب بھی کوئی بندہ فرش پر کوئی چیز بچھاتا ہے تو بیٹھنے کے لیے تو نیچے موٹا کپڑا ہوتا ہے اور اوپر پتلا اور خوبصورت ہوتا ہے۔ اس کی جو اندرونی تہہ ہو گی وہ ریشم کی ہو گی تو اوپر کتنا خوبصورت ہو گا اس کا اندازہ تم خود کرو،
﴿وَجَنَا الۡجَنَّتَیۡنِ دَانٍ﴾
اور ان باغات کے پھل بہت قریب جھکے ہوئے ہوں گے،
﴿فِیۡہِنَّ قٰصِرٰتُ الطَّرۡفِ ۙ لَمۡ یَطۡمِثۡہُنَّ اِنۡسٌ قَبۡلَہُمۡ وَ لَا جَآنٌّ﴾
ان باغات میں حوریں ہوں گی جو آنکھیں جھکائے ہوئے ہوں گی، یہ ایسی ہوں گی کہ کوئی انسان اور جن ان کے قریب بھی نہیں گیا ہو گا،
﴿کَاَنَّہُنَّ الۡیَاقُوۡتُ وَ الۡمَرۡجَانُ﴾
یاقوت اور مرجان کی طرح سرخ ہوں گی، خوب صورت ہوں گی،
﴿ہَلۡ جَزَآءُ الۡاِحۡسَانِ اِلَّا الۡاِحۡسَانُ﴾
ہمارا ضابطہ ہے کہ اچھی چیز کا بدلہ بھی ہم اچھا دیتے ہیں۔
اصحاب الیمین کے انعامات:
﴿ وَ مِنۡ دُوۡنِہِمَا جَنَّتٰنِ ﴿ۚ۶۲﴾ ﴾
اور دو باغات ان سے کم درجے کے ہوں گے۔ دون سے مراد یہ ہے کہ وہ مقربین کے باغات تھے اور یہ اب عام جنت والوں کے باغات ہیں۔
﴿ مُدۡہَآمَّتٰنِ ﴿ۚ۶۴﴾﴾
یہ باغات گہرے سبز ہوں گے۔
﴿مُدۡہَآمَّتٰنِ﴾
کومیں عموماً پیش کرتا ہوں اپنے اوپر ایک اعتراض کے جواب میں۔ ابھی میں ڈی آئی خان میں تھا تو مجھے ایک چٹ آئی کہ پہلے آپ کی ڈاڑھی سفید ہوتی تھی اور اب آپ کی ڈاڑھی سیاہ ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ میں نے کہا کہ سیاہ نہیں ہے تمہیں دیکھنے میں دھوکہ لگ رہا ہے، یہ ڈارک براؤن ہے، ایک ہوتا ہے براؤن جو گہرا نہ ہو اور ایک ہوتا ہے ڈارک براؤن جو گہرا ہو۔
یہ رنگ اتنا گہرا براؤن ہے کہ دیکھنے میں سیاہ لگ رہا ہے۔ جس طرح قرآن کریم میں ہے:
﴿مُدۡہَآمَّتٰنِ﴾
جنت کے یہ دو باغ اتنے سبز ہوں گے کہ دیکھنے میں سیاہ لگیں گے۔ تو جس طرح سبز اتنے ہوں گے کہ دیکھنے میں سیاہ لگیں گے تو یہ بھی براؤن اتنی ہے کہ دیکھنے میں سیاہ لگتی ہے لیکن ہے نہیں۔ اس لیے آپ کی آنکھ کا قصور ہے، ہماری ڈاڑھی کا قصور نہیں ہے۔
﴿فِیۡہِمَا عَیۡنٰنِ نَضَّاخَتٰنِ﴾
ان دو باغات میں دو چشمے ہوں گے جو ابلتے ہوں گے،
﴿فِیۡہِمَا فَاکِہَۃٌ وَّ نَخۡلٌ وَّ رُمَّانٌ﴾
اور ان میں پھل ہو گا،کھجوریں ہوں گی اور انار ہوں گے،
﴿فِیۡہِنَّ خَیۡرٰتٌ حِسَانٌ﴾
ان باغات میں ایسی عورتیں ہوں گی جو سیرت کے اعتبار سے بھی اچھی ہوں گی اور صورت کے اعتبار سے بھی اچھی ہوں گی،
﴿حُوۡرٌ مَّقۡصُوۡرٰتٌ فِی الۡخِیَامِ﴾
حوریں خیموں میں چھپی ہوں گی،
﴿لَمۡ یَطۡمِثۡہُنَّ اِنۡسٌ قَبۡلَہُمۡ وَ لَا جَآنٌّ﴾
یہ حوریں ایسی ہوں گی کہ کوئی انسان اور کوئی جن ان کے قریب بھی نہیں آیا ہو گا۔
﴿مُتَّکِـِٕیۡنَ عَلٰی رَفۡرَفٍ خُضۡرٍ وَّ عَبۡقَرِیٍّ حِسَانٍ﴾
جنتی لوگ سبز رنگ کے رَفْرَف پر اور خوبصورت فرش پر تکیہ لگا کر بیٹھے ہوں گے۔ رَفْرَف کا معنی بھی سبز رنگ کا بچھونا ہوتا ہے اور خُضْر مزید اس کی تاکید کے لیے ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ رَفْرَف کہتے ہیں کہ وہ چیز جس پر نقش ونگار ہومثلاً ایسے بستر پر بیٹھے ہوں گے کہ جو سبز رنگ والے بھی ہوں گے اور نقش ونگار والے بھی ہوں گے۔
﴿عَبۡقَرِیٍّ حِسَانٍ﴾
کا معنی کہ نہایت خوب صورت قسم کے کپڑے ہوں گے جن پر یہ جنتی لوگ بیٹھیں گے۔ عبقری خوب صورت ہی کو کہتے ہیں اور حِسان اس کی مزید تاکید ہے۔
خواص اور عوام کے باغات میں فرق:
[1]: اب دیکھیں جو خواص کے باغات ہیں ان کے ذکر میں فرمایا:
﴿ذَوَاتَاۤ اَفۡنَانٍ﴾
کہ یہ باغات بہت شاخوں والے ہوں گے اور جو اصحاب الیمین یعنی عوام کے باغات ہیں ان کے بارے میں
﴿ذَوَاتَاۤ اَفۡنَانٍ﴾
کا ذکر نہیں ہے۔
[2]: خواص کے باغات کے بارے میں فرمایا:
﴿فِیۡہِمَا عَیۡنٰنِ تَجۡرِیٰنِ﴾
اور عوام کے باغات کے بارے میں فرمایا:
﴿فِیۡہِمَا عَیۡنٰنِ نَضَّاخَتٰنِ﴾
ابلتا تو ہر چشمہ ہے، جو بھی چشمہ ہو گا پانی نکلتا ہے تب ہی تو وہ چشمہ ہوتا ہے لیکن خواص کے چشموں کے بارے میں
﴿تَجۡرِیٰنِ﴾
فرمایا اور اصحاب الیمین جو عام ہیں اس میں
﴿تَجۡرِیٰنِ﴾
کا ذکر نہیں ہے۔ یعنی اِن کے چشمے صرف ابلتے ہوں گے اور اُن کے چشمے ابلیں گے بھی اور ان کا فیض بھی بہت دور تک جائے گا۔
[3]: خواص کے لیے فرمایا:
﴿فِیۡہِمَا مِنۡ کُلِّ فَاکِہَۃٍ زَوۡجٰنِ﴾
کہ ان کے باغات میں ہر پھل دو دو قسم کا ہو گا اور عوام کے لیے فرمایا:
﴿فِیۡہِمَا فَاکِہَۃٌ وَّ نَخۡلٌ وَّ رُمَّانٌ﴾
کہ ان کے باغات میں میوے ہوں گے، انار ہوں گے، کھجور ہوں گی۔ تو خواص کے لیے ہر قسم کے میوے فرما دیے اور عوام کے لیے چند ایک میووں کے نام لیے ہیں۔ پھر خواص کے لیے
﴿زَوۡجٰنِ﴾
جوڑا جوڑا فرمایا اور عوام کے لیے یہ لفظ نہیں فرمایا۔
[4]: خواص کے متعلق
﴿قٰصِرٰتُ الطَّرۡفِ﴾
فرمایا کہ وہ عورت ایسی ہو گی جو اپنی نگاہ جھکا کر رکھے گی، اور عوام کے بارے میں فرمایا:
﴿مَقۡصُوۡرٰتٌ فِی الۡخِیَامِ﴾
کہ وہ خیموں میں بند ہو گی۔ دونوں میں فرق کیا ہے کہ جو عام ماحول میں آنکھیں نیچی رکھتی ہو تو وہ خود کو بچانے کے لیے بند کمروں میں کیوں نہیں ٹھہرے گی؟ تو
”قٰصِرٰتُ“
میں جو مبالغہ ہے وہ
”مَقۡصُوۡرٰتٌ“
میں نہیں ہے۔ ایک عورت اپنا خود خیال کرتی ہے اور ایک عورت کا خیال اس کا شوہر کرتا ہے۔ تو دونوں میں کتنا فرق ہے!
ان وجوہات سے معلوم ہو رہا ہے کہ خواص ؛عوام سے بہتر ہیں۔ اللہ ہمیں بھی ان خواص میں شامل فرمائے۔ اللہ ہم سب کو دنیا اور جنت کی نعمتیں عطا فرمائے۔ آمین
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․