سورۃ الواقعۃ

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
سورۃ الواقعۃ
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿ اِذَا وَقَعَتِ الۡوَاقِعَۃُ ۙ﴿۱﴾ لَیۡسَ لِوَقۡعَتِہَا کَاذِبَۃٌ ۘ﴿۲﴾ خَافِضَۃٌ رَّافِعَۃٌ ۙ﴿۳﴾﴾
فضائل سورت:
امام بیہقی رحمہ اللہ کی کتاب شعب الایمان میں ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جب مرض الوفات میں تھے تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ان کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ آپ نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے پوچھا:
مَا تَشْتَكِيْ؟
آپ کس چیز کا درد محسوس کرتے ہیں؟ فرمایا:
ذُنُوْبِيْ.
کہ میں گناہوں کا درد محسوس کرتا ہوں۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اس امت کے متواضع ترین شخص ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جنات کو دعوت دینے کے لیے تشریف لے گئے تو فرمایا اپنے ساتھ اس شخص کو لے کر جاؤں گا جس کے دل میں ذرہ برابر بھی کبر نہیں ہے۔ ہر صحابی کی نظر تھی کہ کس کو بلائیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عبداللہ بن مسعود کو بلاؤ، اور اس امت کا متکبر ترین شخص ابو جہل ہے۔ اللہ رب العزت نے متکبر ترین شحص کو متواضع ترین شخص سے جہنم واصل کروایا ہے۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے پوچھا:
مَا تَشْتَكِيْ؟
آپ کس چیز کا درد محسوس کرتے ہیں؟ فرمایا:
ذُنُوْبِيْ.
گناہوں کا درد محسوس کرتا ہوں۔ فرمایا: کوئی چیز چاہیے آپ کو؟ جیسے بندہ بیمار سے پوچھتا ہے، تو ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
”رَحْمَةَ رَبِّيْ“
مجھے اپنے رب کی رحمت چاہیے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ
”أَلَا نَدْعُوْ لَكَ الطَّبِيْبَ“
کہ ہم کسی طبیب کو بلائیں؟ فرمایا:
”الطَّبِيْبُ أَمْرَضَنِيْ“
مجھے تو میرے طبیب نے ہی بیمار کیا ہے۔ حضرت عثمان نے کہا
”أَلَا اٰمُرُ لَكَ بِعَطَائِكَ؟ “
میں بیت المال سے کچھ رقم بھجوا دوں؟ فرمایا:
” فَلَا حَاجَةَ لِيْ فِيْهِ“
کہ مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔حضرت عثمان نے کہا کہ آپ کی بچیاں ہیں، آپ کے بعد آپ کی اولاد کے کام آئے گا۔ فرمایا کہ مجھے اولاد کے لیے بھی پیسے نہیں چاہئیں، اس لیے کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ قَرَأَ الْوَاقِعَةَ كُلَّ لَيْلَةٍ لَمْ يَفْتَقِرْ.
شعب الایمان للبیہقی : ج 2 ص491رقم الحدیث 2497
کہ جو شخص رات کو سورت الواقعہ پڑھتا ہے اس پر فاقہ کبھی نہیں آتا۔
اور یہ میں نے اپنی بچیوں کو سکھا دیا ہے، اس لیے مجھے ان کے فاقہ کے بارے میں کوئی خوف اور ڈر نہیں ہے۔
تو سورۃ الواقعہ کے بہت سے فضائل ہیں۔ اس لیے اہتمام کے ساتھ سورت الواقعہ پڑھا کریں۔
قیامت کی ہولناکی کا بیان:
﴿ اِذَا وَقَعَتِ الۡوَاقِعَۃُ ۙ﴿۱﴾ لَیۡسَ لِوَقۡعَتِہَا کَاذِبَۃٌ ۘ﴿۲﴾ خَافِضَۃٌ رَّافِعَۃٌ ۙ﴿۳﴾ اِذَا رُجَّتِ الۡاَرۡضُ رَجًّا ۙ﴿۴﴾ وَّ بُسَّتِ الۡجِبَالُ بَسًّا ۙ﴿۵﴾ فَکَانَتۡ ہَبَآءً مُّنۡۢبَثًّا ۙ﴿۶﴾ ﴾
جب قیامت آئے گی اور قیامت کے واقع ہونے میں کوئی شک نہیں ہے، یہ سچی بات ہے۔ متکبرین کو، کفار کو جھکا کے رکھ دے گی اور ایمان والوں کو بلند کر دے گی۔ جب زمین میں زلزلہ آجائے گا اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں گے اور پراگندہ غبار کی طرح اڑنا شروع ہو جائیں گے۔
لوگوں کی تین اقسام:
﴿وَّ کُنۡتُمۡ اَزۡوَاجًا ثَلٰثَۃً ؕ﴿۷﴾﴾
یہ سب انسانوں کو خطاب ہے جو گزر چکے ہیں، جو موجود ہیں یا جو آئندہ آنے والے ہیں کہ تمہاری تین قسمیں ہیں:
1: ایک قسم ہے ”مقربین“ کی جو خواص ہیں۔
2: ایک قسم ہے ”اصحاب الیمین“ کی جو عام مؤمنین ہیں۔
3: ایک قسم کفار کی ہے۔
یہ تین قسم کے طبقات ہیں اور تینوں کا ذکر آگے فرمایا ہے کہ مقربین کو یہ ملے گا... اصحاب الیمین کو یہ ملے گا... اور کفار کو یہ ملے گا۔
دائیں ہاتھ میں اعمال نامہ مقربین کو بھی ملے گا اور عام مؤمنین کو بھی ملے گا لیکن اصطلاح میں ”مقربین“ ان کو کہتے ہیں جو اللہ کے مزید خاص ہوں اور ”اصحاب الیمین“ سے مراد وہ ہیں جن کو نامہ اعمال دائیں ہاتھ میں ملے گا لیکن یہ بڑے درجے کے لوگ نہیں ہوں گے بلکہ عام ایمان والے ہوں گے۔
﴿فَاَصۡحٰبُ الۡمَیۡمَنَۃِ ۬مَاۤ اَصۡحٰبُ الۡمَیۡمَنَۃِ ؕ﴿۸﴾ وَ اَصۡحٰبُ الۡمَشۡـَٔمَۃِ ۬ مَاۤ اَصۡحٰبُ الۡمَشۡـَٔمَۃِ ؕ﴿۹﴾ وَ السّٰبِقُوۡنَ السّٰبِقُوۡنَ ﴿ۚ۱۰﴾ اُولٰٓئِکَ الۡمُقَرَّبُوۡنَ ﴿ۚ۱۱﴾ فِیۡ جَنّٰتِ النَّعِیۡمِ ﴿۱۲﴾ ﴾
دائیں ہاتھ والے! سبحان اللہ وہ تو کیا ہی اچھےہیں، اور بائیں ہاتھ والے کیا ہی بدتر ہیں، اور جو اعلیٰ درجے کے ہیں وہ تو اعلیٰ درجے کے ہیں! یہی لوگ اللہ کے خواص ہیں۔ وہ تو نعمتوں کے باغات میں ہوں گے۔
پہلی قسم؛ مقربین
﴿ ثُلَّۃٌ مِّنَ الۡاَوَّلِیۡنَ ﴿ۙ۱۳﴾ وَ قَلِیۡلٌ مِّنَ الۡاٰخِرِیۡنَ ﴿ؕ۱۴﴾ ﴾
پہلے مقربین کی بات کی ہے کہ مقربین پہلےکے لوگوں میں بہت زیادہ ہیں اور بعد کے لوگوں میں کم ہوں گے۔ اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک یہ زمانہ اولین کا ہے۔ مقربین ان میں زیادہ تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر قیامت تک اس امت کے مقربین کم ہیں یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے سارے انبیاء اور ان کی امتیں ... اور تنہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی امت ... تو اُن میں مقربین زیادہ ہیں اور اِن میں کم ہیں۔
اُن میں زیادہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ مقربین میں انبیاء علیہم السلام، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، اولیاء اللہ اور شہداء سب شامل ہیں جو بڑے درجے کے ہیں۔ اب ان میں سوا لاکھ تو صرف انبیاء علیہم السلام ہی ہیں، بعد والوں میں سوا لاکھ انبیاء تو نہیں ہیں، اب ہر نبی کےساتھ ایک صحابی بھی ہو تو پھر بھی وہ اڑھائی لاکھ بن جاتے ہیں، اس لیے مقربین پہلوں میں زیادہ ہیں اور عام جنتی اس امت میں زیادہ ہیں۔
حدیث پاک میں ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
أَهْلُ الْجَنَّةِ مِائَةٌ وَعِشْرُوْنَ صَفًّا...
کہ اہل جنت کی ایک سو بیس صفیں ہوں گی۔ ان میں فرمایا کہ
هٰذِهِ الْأُمَّةُ مِنْهَا ثَمَانُوْنَ صَفًّا...
کہ اَسی صفیں تو ا س امت کی ہیں اور
”وَالنَّاسُ سَائِرُ ذٰلِكَ“
اور چالیس صفیں ساری امتوں کی ہیں۔
جامع الاحادیث للسیوطی: جزء 10 ص231 رقم الحدیث9495
فرقہ جماعت المسلمین کا دعویٰ:
میں نے آپ کو سنایا تھا کہ فرقہ جماعت المسلمین کا ایک آدمی جن کا دعویٰ یہ ہے کہ صرف ہم مسلمان ہیں، باقی سارے کافر ہیں۔ تو ان سے ایک آدمی نے کہا کہ اگر باقی سارے کافر ہیں تو قیامت کے دن ایک سو بیس صفیں اہلِ جنت کی ہوں گی، ان میں اَسی صفیں صرف اسی امت محمدیہ کی ہوں گی اور چالیس صفیں باقی ساری امتوں کو ملا کر ہوں گی۔ اگر صرف تم مسلمان ہو اور باقی سارے کافر ہیں تو تم تو صرف ایک صف بھی پوری نہیں کر سکتے، باقی صفیں تمہارے باپ نے پوری کرنی ہیں؟! اب دیکھیں بعض لوگ کتنے حاضر جواب ہوتے ہیں کہ مخالف بندہ خاموش ہو جاتا ہے۔
تو مقربین تو پہلوں میں زیادہ ہیں اور اصحاب الیمین اس امت میں زیادہ ہیں۔اور بعض حضرات کہتے ہیں اور اس پر بعض روایات بھی ہیں کہ دونوں اِسی امت کے افراد ہیں، نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سے مقربین پہلے طبقے میں زیادہ ہیں یعنی قرون اولیٰ میں اور اصحاب الیمین بعد کے زیادہ ہیں۔
مقربین کے انعامات:
﴿عَلٰی سُرُرٍ مَّوۡضُوۡنَۃٍ ﴿ۙ۱۵﴾ مُّتَّکِـِٕیۡنَ عَلَیۡہَا مُتَقٰبِلِیۡنَ ﴿۱۶﴾ یَطُوۡفُ عَلَیۡہِمۡ وِلۡدَانٌ مُّخَلَّدُوۡنَ ﴿ۙ۱۷﴾ بِاَکۡوَابٍ وَّ اَبَارِیۡقَ ۬ۙ وَ کَاۡسٍ مِّنۡ مَّعِیۡنٍ ﴿ۙ۱۸﴾﴾
سونے کی تاروں سے بُنے ہوئے تختوں پر آمنے سامنے بیٹھے ہوئے ہوں گے، اور چھوٹے بچے جو ہمیشہ بچے ہی رہیں گے ان کی خدمت کے لیے متعین ہوں گے۔ وہ بچے گلاس، جگ اور صاف شفاف شراب کے جام لے کر پھر رہے ہوں گے۔
جس طرح حوریں ہیں اسی طرح
﴿وِلۡدَانٌ مُّخَلَّدُوۡنَ﴾
ہیں۔ یہ وہ مخلوق ہے جو اللہ جنت سے پیدا فرمائیں گے۔ اس سے مراد دنیا کے بچے نہیں ہیں جو بلوغ سے پہلے فوت ہو جاتے ہیں، کیونکہ وہ تو اپنے والدین کے پاس ہی ہوں گے بلکہ ان سے مراد وہ چھوٹے بچے ہیں جو جنت میں خدمت کے لیے ملیں گے، یہ جنت ہی کی مٹی سے پیدا ہوں گے۔ اللہ پاک خدمت کے لیے جنتیوں کو دیں گے۔
﴿ لَّا یُصَدَّعُوۡنَ عَنۡہَا وَ لَا یُنۡزِفُوۡنَ ﴿ۙ۱۹﴾ ﴾
اس شراب کے جام پینے سے نہ ان کے سر میں درد ہو گا، نہ ان کی عقل میں فتور آئے گا۔
نزف اس کنویں کو کہتے ہیں کہ جس کا پانی نکال دیا جائے۔ تو یہاں مراد یہ ہے کہ وہ شراب ایسی نہیں ہو گی جس سے آدمی کی عقل ختم ہو جائے۔
﴿وَ فَاکِہَۃٍ مِّمَّا یَتَخَیَّرُوۡنَ ﴿ۙ۲۰﴾ وَ لَحۡمِ طَیۡرٍ مِّمَّا یَشۡتَہُوۡنَ ﴿ؕ۲۱﴾ ﴾
اور ان کے لیے پسندیدہ پھل ہوں گے اور پرندوں کا گوشت ہو گا جو ان کو پسند ہو گا۔
جس طرح کا گوشت کھانے کی دل میں خواہش پیدا ہو گی اسی طرح کا گوشت پرندے کا کھانے کو تیارہو گا۔ یہ چاہیں گے تو تکے بن کر آئیں گے،چاہیں گے تو کباب بن کر آئیں گے،یہ چاہیں گے کہ کڑاہی ہو تو کڑاہی بن کر آئے گی۔ خدا نے کیا نعمتیں رکھی ہیں! بس تھوڑی سی زندگی ہے، اس کو حرام سے بچا لو، آخرت کی نعمتیں ہماری منتظر ہیں ان شاء اللہ۔
﴿وَ حُوۡرٌ عِیۡنٌ ﴿ۙ۲۲﴾ کَاَمۡثَالِ اللُّؤۡلُؤَ الۡمَکۡنُوۡنِ ﴿ۚ۲۳﴾﴾
حوریں ہوں گی سفید رنگ کی اور بڑی بڑی آنکھوں والی جس طرح کوئی موتی چھپا کے رکھتے ہیں تو اس طرح وہ صاف شفاف ہوں گی۔
﴿ جَزَآءًۢ بِمَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ ﴿۲۴﴾ لَا یَسۡمَعُوۡنَ فِیۡہَا لَغۡوًا وَّ لَا تَاۡثِیۡمًا﴿ۙ۲۵﴾ اِلَّا قِیۡلًا سَلٰمًا سَلٰمًا ﴿۲۶﴾ ﴾
یہ ان کے اعمال کا بدلہ ہے۔ جنت میں وہ کوئی لغو اور بے ہودہ بات نہیں سنیں گے اور نہ وہاں کوئی گناہ کی بات ہو گی بلکہ سلامتی ہی سلامتی کی باتیں ہوں گی۔
دوسری قسم؛ اصحابِ یمین
﴿وَ اَصۡحٰبُ الۡیَمِیۡنِ ۙ مَاۤ اَصۡحٰبُ الۡیَمِیۡنِ ﴿ؕ۲۷﴾﴾
اور دائیں ہاتھ والے کیا ہی اچھے ہیں دائیں ہاتھ والے!
اصحابِ یمین کے انعامات:
﴿ فِیۡ سِدۡرٍ مَّخۡضُوۡدٍ ﴿ۙ۲۸﴾ وَّ طَلۡحٍ مَّنۡضُوۡدٍ ﴿ۙ۲۹﴾ وَّ ظِلٍّ مَّمۡدُوۡدٍ ﴿ۙ۳۰﴾ وَّ مَآءٍ مَّسۡکُوۡبٍ ﴿ۙ۳۱﴾ ﴾
یہ دائیں ہاتھ والے کون ہیں؟ فرمایا: وہ ایسی بیریوں میں عیش کر رہے ہوں ہوں گے جن پر کانٹانہیں ہو گا، اور کیلے ہوں گے تہہ بہ تہہ، لمبے سائے ہوں گے، پانی چلتا ہو گا۔کھڑا پانی بھی ٹھیک ہے لیکن چلتا پانی ذرا زیادہ اچھا لگتا ہے۔
﴿ وَّ فَاکِہَۃٍ کَثِیۡرَۃٍ ﴿ۙ۳۲﴾ لَّا مَقۡطُوۡعَۃٍ وَّ لَا مَمۡنُوۡعَۃٍ ﴿ۙ۳۳﴾ وَّ فُرُشٍ مَّرۡفُوۡعَۃٍ ﴿ؕ۳۴﴾ ﴾
اس کے علاوہ بہت سارے پھل ہوں گے، نہ تو ختم ہوں گے اور نہ ہی کوئی رکاوٹ ہو گی اور ان کے لیے اونچی نشستیں ہوں گی۔
ظاہر ہے کہ جب جنت بلند ہو گی تو اس میں جو بچھونا ہے وہ بھی بلند ہو گا اور بعض کہتے ہیں کہ بلند ہونے کا معنی یہ ہے کہ وہ چونکہ موٹا ہو گا جیسے ہمارے ہاں گدے ہوتے ہیں اس لیے اس کو
”فُرُشٍ مَّرۡفُوۡعَۃٍ“
کہتے ہیں، اور ایک تفسیر یہ بھی ہے کہ
”فُرُشٍ مَّرۡفُوۡعَۃٍ“
سے مراد عورتیں ہیں۔ چونکہ عورت کو فراش کہتے ہیں تو وہاں عورتیں ہوں گی اور مرفوعہ سے مراد ظاہری مرفوعہ مراد نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ بلند درجے والی ہوں گی۔
﴿ اِنَّاۤ اَنۡشَاۡنٰہُنَّ اِنۡشَآءً ﴿ۙ۳۵﴾ فَجَعَلۡنٰہُنَّ اَبۡکَارًا ﴿ۙ۳۶﴾﴾
ہم ان عورتوں کو ایک انداز سے بنائیں گے اور ان کو باکرہ رکھیں گے۔ باکرہ بنائیں گے نہیں بلکہ باکرہ رکھیں گے۔ جنت میں جانے کے بعد عورت کی خاصیت ہو گی کہ آدمی اگر اس سے مباشر ت کرے گا تو اس کے بعد پھر باکرہ، پھر جائے گا تو پھر باکرہ،ہر بار ایسا ہو گا جیسے پہلی بار اس کے پاس جا رہا ہو۔
یا تو اس سے جنت کی حوریں مراد ہیں یا مراد دنیاکی عورتیں ہیں جنہیں جنت میں ان کے خاوندوں کے لیے خوبصورت بنا دیا جائے گا۔
﴿عُرُبًا اَتۡرَابًا ﴿ۙ۳۷﴾ لِّاَصۡحٰبِ الۡیَمِیۡنِ ﴿ؕ٪۳۸﴾﴾
”عُرُبًا“
کہتے ہیں محبوبہ کویعنی یہ ایسی عورتیں ہوں گی جو محبوبہ کی طرح ہوں گی، پیار ان سے بہت زیادہ ہو گا۔
”اَتْرَابًا“
کہ یہ ہم عمر ہوں گی۔ ہم عمر ہونے کا معنی یا تو شوہر اور بیوی کی عمریں برابر ہوں گی جیسا کہ بعض روایات میں ہے کہ جنتی مرد اور عورتیں دونوں کی عمریں 33 سال کی ہوں گی۔ اب اس میں مرد او رعورت کی عمر برابر ہو تو آپس میں اُنس بہت زیادہ ہوتا ہے۔
اور دوسرا معنی یہ ہے کہ عورتیں آپس میں ہم عمر ہوں گی۔ اگر عورتیں آپس میں ہم عمر ہوں اور ان کا مزاج ملتا تو تو سوکن پن بہت کم ہوتا ہے۔ ایک دوسرے کے ساتھ دوستوں کی طرح چلتی ہیں۔ میں نے چونکہ دونوں منظر دیکھے ہیں اس لیے اچھی طرح احساس ہے۔اللہ یہ باتیں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
بیوی اور شوہر کی عمر کا قریب قریب ہونا اچھا ہوتا ہے۔ اس میں فائدہ بہت ہوتا ہے لیکن اگر شوہر کی عمر زیادہ ہو اور بیوی کی عمر کم ہو تو پھر شوہر کو اس طرح رہنا چاہیے کہ اس کو محسوس نہ ہو کہ یہ بوڑھا ہے، پھر اس کو بڑھاپے کا احساس ختم کرنا چاہیے۔ میں اس لیے بات سمجھاتا ہوں کہ عام بندے کے بڑھاپے کا احساس کا معنی صرف جنس اور شہوت ہوتی ہے... یہ معنی قطعاً نہیں ہے بلکہ شوہر کا اٹھنا، بیٹھنا، سونا، بات کرنے کا طرز ایسا ہو جیسے جوانوں کا ہوتا ہے۔ اس بات کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔
﴿لِّاَصۡحٰبِ الۡیَمِیۡنِ ﴿ؕ٪۳۸﴾ ثُلَّۃٌ مِّنَ الۡاَوَّلِیۡنَ ﴿ۙ۳۹﴾ وَ ثُلَّۃٌ مِّنَ الۡاٰخِرِیۡنَ ﴿ؕ۴۰﴾﴾
یہ ساری نعمتیں اللہ تعالیٰ اصحاب الیمین کو دیں گے۔ اصحاب الیمین کون ہیں؟ فرمایا کہ یہ پہلوں میں بھی بہت ہیں اور بعد والوں میں بھی بہت ہیں۔
مقربین پہلوں میں زیادہ ہیں اور بعد والوں میں کم ہیں اور اصحاب الیمین یہ پہلوں میں بھی بہت ہیں اور بعد والوں میں بھی بہت ہیں۔ اس سے مراد عام جنت والے لوگ ہیں۔
دیہاتی اور شہری مزاج کی رعایت:
حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ بیان القرآن میں لکھتے ہیں کہ اللہ نے مقربین کے لیے جو نعمتیں بیان فرمائی ہیں یہ تمام نعمتیں وہ ہیں جو اصحابِ شہر کی پسندیدہ ہوتی ہیں اور اصحاب الیمین کے لیے جو نعمتیں بیان فرمائی ہیں یہ تمام نعمتیں وہ ہیں جو اہلِ دیہات کی پسندیدہ ہوتی ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مقربین کا مزاج کیا ہو گا اور اصحاب الیمین کا مزاج کیا ہو گا؟ اب ذرا دیکھیں کہ مقربین کی نعمتیں کیا ہیں؟
[1]:
”عَلٰی سُرُرٍ مَّوۡضُوۡنَۃٍ“
سونے کی تاروں کے تختوں پر بیٹھنا
[2]:
”وِلۡدَانٌ مُّخَلَّدُوۡنَ“
چھوٹے چھوٹے بچے خدمت پر الگ رکھے ہوئے ہیں
[3]:
”بِاَکۡوَابٍ وَّ اَبَارِیۡقَ ۬ۙوَ کَاۡسٍ مِّنۡ مَّعِیۡنٍ“
گلاس، جگ اور جامِ شراب کا دور چل رہا ہے
[4]:
”وَ لَحۡمِ طَیۡرٍ مِّمَّا یَشۡتَہُوۡنَ“
پرندوں کا گوشت اور تِکے چل رہے ہیں
[5]:
”وَ حُوۡرٌ عِیۡنٌ“
حوریں خدمت کر رہی ہیں
تو یہ شہریوں کا مزاج ہوتا ہے اور جب دیہاتیوں کی باری آئی تو فرمایا:
[1]:
”فِیۡ سِدۡرٍ مَّخۡضُوۡدٍ“
بیریاں ہوں گی، یہ بیرکھائیں گے
[2]: اور
”وَّ طَلۡحٍ مَّنۡضُوۡدٍ“
تہ بہ تہ کیلے کھائیں گے
[3]:
”وَّ ظِلٍّ مَّمۡدُوۡدٍ“
لمبے سایہ دار درخت ہوں گے
[4]:
”وَّ مَآءٍ مَّسۡکُوۡبٍ“
اور جاری پانی ہو گا۔ چشمے شہروں میں ہوتے ہیں یا دیہاتوں میں ہوتے ہیں؟ (دیہاتوں میں۔ سامعین) یہ دیہاتی مزاج ہے۔
[5]:
” وَّ فَاکِہَۃٍ کَثِیۡرَۃٍ ﴿ۙ۳۲﴾ لَّا مَقۡطُوۡعَۃٍ وَّ لَا مَمۡنُوۡعَۃٍ ﴿ۙ۳۳﴾ “
اور پھل ہوں گے جو ختم نہیں ہوں گے اور نہ کوئی روک ٹوک ہو گی۔ پھلوں کا ماحول دیہاتوں میں ہوتا ہے۔ دیہاتیوں کو خوف ہوتا ہے کہ فلاں پھل کا سیزن ختم ہو گیا، تو فرمایا کہ جنت میں نہ سیزن ختم ہو گا اور نہ پھل پر پابندی ہو گی۔ شہروں میں تو پھل کا سیزن ختم بھی ہو جائے تب بھی کولڈ اسٹور سے مل جاتا ہے لیکن دیہاتوں میں نہیں ملتا۔ اس لیے یہ جملے شہریوں سے زیادہ دیہاتیوں کے مناسب ہوتے ہیں۔
تیسری قسم: اصحاب الشمال
﴿وَ اَصۡحٰبُ الشِّمَالِۙ مَاۤ اَصۡحٰبُ الشِّمَالِ ﴿ؕ۴۱﴾ فِیۡ سَمُوۡمٍ وَّ حَمِیۡمٍ ﴿ۙ۴۲﴾ وَّ ظِلٍّ مِّنۡ یَّحۡمُوۡمٍ ﴿ۙ۴۳﴾ لَّا بَارِدٍ وَّ لَا کَرِیۡمٍ ﴿۴۴﴾﴾
اور بائیں ہاتھ والے کتنے بدتر ہوں گے بائیں ہاتھ والے! یہ لوگ آگ اور کھولتے ہوئے پانی کے عذاب میں گرفتار ہوں گے، سیاہ دھویں کے سائے میں پڑے ہوں گے جو نہ ٹھنڈا ہو گا اور نہ ہی عزت وخوشحالی کا ذریعہ ہو گا۔
﴿اِنَّہُمۡ کَانُوۡا قَبۡلَ ذٰلِکَ مُتۡرَفِیۡنَ ﴿ۚ۴۵﴾ وَ کَانُوۡا یُصِرُّوۡنَ عَلَی الۡحِنۡثِ الۡعَظِیۡمِ ﴿ۚ۴۶﴾﴾
یہ لوگ دنیا میں بہت خوشحال تھے اور بڑے بڑے گناہوں پر اصرار کرتے تھے۔ خوشحال ہونا برا کام نہیں ہے، یہ اللہ کی نعمت ہے لیکن ان کی خوش حالی کا اثر یہ تھا کہ یہ لوگ بڑے بڑے گناہوں پر اصرار کرتے تھے۔ یہ غلط بات ہے۔
یہاں دیکھو:
﴿یُصِرُّوۡنَ﴾
فرمایا کہ یہ لوگ گناہوں پر اصرار کرتے ہیں، کیونکہ متقین کے اوصاف میں سے ہے:
﴿وَ لَمۡ یُصِرُّوۡا عَلٰی مَا فَعَلُوۡا﴾
آل عمران 3: 135
کہ وہ اصرار نہیں کرتے۔متقی وہ نہیں ہوتا جس سے گناہِ کبیرہ نہ ہو، اس سے گناہِ کبیرہ بھی ہوتا ہے لیکن فوراً توبہ کرتا ہے۔ بس تقاضائے بشریت غالب آیا اور اس نے گناہ کر لیا، پھر فوراً توبہ کرتا ہے۔
﴿وَکَانُوۡا یَقُوۡلُوۡنَ اَئِذَا مِتۡنَا وَ کُنَّا تُرَابًا وَّعِظَامًا ءَاِنَّا لَمَبۡعُوۡثُوۡنَ﴿ۙ۴۷﴾ اَوَ اٰبَآؤُنَا الۡاَوَّلُوۡنَ ﴿۴۸﴾ ﴾
یہ لوگ کہتے تھے کہ جب ہم مر جائیں گے اور مٹی ہو جائیں گے پھر ہڈیاں ہو جائیں گے تو کیا ہمیں پھر اٹھایا جائے گا؟ اور کیا ہمارے آباء واجداد بھی اٹھائے جائیں گے؟
﴿قُلۡ اِنَّ الۡاَوَّلِیۡنَ وَ الۡاٰخِرِیۡنَ ﴿ۙ۴۹﴾ لَمَجۡمُوۡعُوۡنَ ۙ اِلٰی مِیۡقَاتِ یَوۡمٍ مَّعۡلُوۡمٍ﴿۵۰﴾﴾
اللہ نے فرمایا کہ اے پیغمبر! آپ ان سے فرمائیں کہ پہلے والے بھی اور بعد والے بھی سب لوگ وقت مقرر پر اٹھائے جائیں گے۔
﴿ثُمَّ اِنَّکُمۡ اَیُّہَا الضَّآلُّوۡنَ الۡمُکَذِّبُوۡنَ ﴿ۙ۵۱﴾ لَاٰکِلُوۡنَ مِنۡ شَجَرٍ مِّنۡ زَقُّوۡمٍ ﴿ۙ۵۲﴾ فَمَالِـُٔوۡنَ مِنۡہَا الۡبُطُوۡنَ ﴿ۚ۵۳﴾ فَشٰرِبُوۡنَ عَلَیۡہِ مِنَ الۡحَمِیۡمِ ﴿ۚ۵۴﴾ فَشٰرِبُوۡنَ شُرۡبَ الۡہِیۡمِ ﴿ؕ۵۵﴾ ہٰذَا نُزُلُہُمۡ یَوۡمَ الدِّیۡنِ ﴿ؕ۵۶﴾﴾
پھر اے گمراہ جھوٹے لوگو! تم زقوم کے درخت کو کھاؤ گے، اسی سے پیٹ بھرو گے، پھر اس کے اوپر گرم پانی پیو گے جیسے پیاسا اونٹ پیتا ہے۔قیامت کے دن تمہاری یہی مہمانی ہے۔
اللہ کی چار عظیم نعمتیں:
[1]: تخلیق انسانی
اللہ آگے چار چیزیں بیان فرماتے ہیں:
﴿اَفَرَءَیۡتُمۡ مَّا تُمۡنُوۡنَ ﴿ؕ۵۸﴾ ءَاَنۡتُمۡ تَخۡلُقُوۡنَہٗۤ اَمۡ نَحۡنُ الۡخٰلِقُوۡنَ ﴿۵۹﴾﴾
یہ بتاؤ! کہ تم جو نطفہ ٹپکاتے ہو کیا تم پیدا کرتے ہو یا ہم پیدا کرتے ہیں؟!
تم تو نطفہ رکھ کے چھوڑ دیتے ہو، باقی اس سے انسان کو پیدا کرنا یہ تم نہیں کرتے، یہ ہم بناتے ہیں۔
﴿ نَحۡنُ قَدَّرۡنَا بَیۡنَکُمُ الۡمَوۡتَ وَ مَا نَحۡنُ بِمَسۡبُوۡقِیۡنَ ﴿ۙ۶۰﴾ عَلٰۤی اَنۡ نُّبَدِّلَ اَمۡثَالَکُمۡ وَ نُنۡشِئَکُمۡ فِیۡ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۶۱﴾ ﴾
پھر ہم نے ہی تمہارے درمیان موت رکھی ہے، اور کوئی طاقت ایسی نہیں جو ہمیں عاجز کر دے! ہم عاجز نہیں ہیں کہ تم جیسے اور بندے پیدا نہ کر سکیں اور تمہیں ایسی مخلوق بنا دیں جس کو تم جانتے نہ ہو! یعنی تمہاری خلقت تبدیل کر دیں۔
﴿وَ لَقَدۡ عَلِمۡتُمُ النَّشۡاَۃَ الۡاُوۡلٰی فَلَوۡ لَا تَذَکَّرُوۡنَ ﴿۶۲﴾﴾
اور تمہیں خوب معلوم ہے کہ پہلے بھی ہم نے تم کو پیدا کیا ہے، تو اس بات سے تم نصیحت کیوں نہیں لیتے؟!
[2]: کھیتی اگانا
﴿اَفَرَءَیۡتُمۡ مَّا تَحۡرُثُوۡنَ ﴿ؕ۶۳﴾ ءَاَنۡتُمۡ تَزۡرَعُوۡنَہٗۤ اَمۡ نَحۡنُ الزّٰرِعُوۡنَ ﴿۶۴﴾ لَوۡ نَشَآءُ لَجَعَلۡنٰہُ حُطَامًا فَظَلۡتُمۡ تَفَکہہوۡنَ ﴿۶۵﴾ اِنَّا لَمُغۡرَمُوۡنَ ﴿ۙ۶۶﴾ بَلۡ نَحۡنُ مَحۡرُوۡمُوۡنَ ﴿۶۷﴾﴾
یہ بتاؤ! کہ جو کھیتی تم بوتے ہو کیا اسے تم اگاتے ہو یا ہم اگاتے ہیں؟! اگر ہم چاہیں تو پورا پودا ختم کر دیں اور تم حیرت سے باتیں ہی بناتے رہ جاؤ کہ ہم پر تو تاوان پڑ گیا ہے، ہم تو محروم ہو گئے ہیں۔
[3]: پانی کی فراہمی
﴿اَفَرَءَیۡتُمُ الۡمَآءَ الَّذِیۡ تَشۡرَبُوۡنَ ﴿ؕ۶۸﴾ ءَاَنۡتُمۡ اَنۡزَلۡتُمُوۡہُ مِنَ الۡمُزۡنِ اَمۡ نَحۡنُ الۡمُنۡزِلُوۡنَ ﴿۶۹﴾ لَوۡ نَشَآءُ جَعَلۡنٰہُ اُجَاجًا فَلَوۡ لَا تَشۡکُرُوۡنَ ﴿۷۰﴾﴾
یہ بتاؤ! جو پانی تم پیتے ہو کیا تم اس کو بادلوں سے اتارتے ہو یا ہم اتارتے ہیں؟ اگر ہم چاہیں تو اس کو کڑوا بنا دیں، تو پھر تم شکر کیوں نہیں کرتے؟!
حدیث پاک میں ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب پانی پیتے تو پانی پینے کے بعد یہ دعا فرماتے تھے:
"اَلْحَمْدُ لِلهِ الَّذِيْ سَقَانَا عَذْبًا فُرَاتًا بِرَحْمَتِهٖ وَلَمْ يَجْعَلْهٗ مِلْحًا أُجَاجًا بِذُنُوْبِنَا."
کنزالعمال: ج7 ص42 رقم الحدیث 18222
تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمیں اپنی رحمت سے میٹھا پانی پلایا جس سے ہماری پیاس بجھ گئی اور ہماری بداعمالیوں کی وجہ سے اس پانی کو کڑوا نہیں بنایا۔
جس کویہ دعا یاد ہے تو وہ اس کو پڑھاکرے، نہیں یاد تو اس کو یاد کرے۔
[4]:آگ کی نعمت
﴿اَفَرَءَیۡتُمُ النَّارَ الَّتِیۡ تُوۡرُوۡنَ ﴿ؕ۷۱﴾ ءَاَنۡتُمۡ اَنۡشَاۡتُمۡ شَجَرَتَہَاۤ اَمۡ نَحۡنُ الۡمُنۡشِـُٔوۡنَ ﴿۷۲﴾ نَحۡنُ جَعَلۡنٰہَا تَذۡکِرَۃً وَّ مَتَاعًا لِّلۡمُقۡوِیۡنَ ﴿ۚ۷۳﴾ فَسَبِّحۡ بِاسۡمِ رَبِّکَ الۡعَظِیۡمِ ﴿٪ؓ۷۴﴾﴾
اچھا یہ بتاؤ! یہ جو آگ تم جلاتے ہو اس کا درخت تم اگاتے ہو یا ہم اگا رہے ہیں؟ ہم نے اس کو سامانِ نصیحت بنایا ہے اور جو لوگ صحرا کا سفر کرتے ہیں ہم نے اس درخت کو ان لوگوں کے لیے نفع مند چیز بنایا ہے۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب ہے کہ آپ اپنے رب کے نام کی تسبیح کیجیے!
﴿فَلَاۤ اُقۡسِمُ بِمَوٰقِعِ النُّجُوۡمِ ﴿ۙ۷۵﴾﴾
یہ جو قسم کے شروع میں
”لا“
آتا ہے تو بعض کہتے ہیں کہ یہ
”لا“
زائدہ ہوتا ہے۔ یہ عرب کا دستور ومزاج ہے کہ
”لا“
زائدہ کے بعد
”اُقسِمُ“
کا لفظ لاتے ہیں۔
اور بعض کہتے ہیں کہ لا زائد ہ نہیں ہوتا بلکہ یہ محاورات میں استعمال ہوتا ہے جیسے ہمارے ہاں بندہ عام بات کہتا ہے کہ”نہیں! بات تو آپ نے ٹھیک کی ہے“ حالانکہ لفظ نہیں کا کلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اسی طرح عرب کی بھی عادت تھی، ان کے یہ محاورات تھے جیسے ہمارے ہاں ایسے محاروات میں استعمال ہوتا ہے۔
یا
”لا“
کے ذریعے مخاطب کے گمان کی نفی کرتے ہیں پھر قسم کھاتے ہیں۔
”لَا...
وہ بات نہیں جو تم کہتے ہو!،
اُقْسِمُ...
قسم ہے میں یہ بات کہتا ہوں۔“
اور یہاں قسم ہےستارے کے ڈوبنے کی جگہ کی اور بتانا یہ مقصود ہے کہ جو چڑھتا ہے اس نے ڈوب جانا ہے، ڈوبتے ستارے کو دیکھ کر بندے کو عبرت حاصل کرنی چاہیے۔
بلا طہارت قرآن چھونا جائز نہیں:
﴿وَ اِنَّہٗ لَقَسَمٌ لَّوۡ تَعۡلَمُوۡنَ عَظِیۡمٌ ﴿ۙ۷۶﴾ اِنَّہٗ لَقُرۡاٰنٌ کَرِیۡمٌ ﴿ۙ۷۷﴾ فِیۡ کِتٰبٍ مَّکۡنُوۡنٍ ﴿ۙ۷۸﴾ لَّا یَمَسُّہٗۤ اِلَّا الۡمُطَہَّرُوۡنَ ﴿ؕ۷۹﴾﴾
یہ قسم ہے اگر تم سمجھو تو بہت بڑی قسم ہے کہ یہ قرآن عظمت والاہے، ایک محفوظ کتاب میں ہے جس کو وہی چھو سکتے ہیں جو پاک کیے گئے ہیں۔
﴿لَّا یَمَسُّہٗۤ﴾
میں ”ہ“ضمیر کا مرجع کیا ہے؟ اگر کتاب ہے تو اس سے مراد لوحِ محفوظ ہے اور
﴿الۡمُطَہَّرُوۡنَ﴾
سے مراد ملائکہ ہیں، دوسری کوئی تفسیر ہو ہی نہیں سکتی۔ قرآن کریم لوحِ محفوظ میں ہے تو لوحِ محفوظ کو کون چھوتا ہے؟ انسان یا فرشتے؟ (فرشتے۔ سامعین) تو انسان تو چھو ہی نہیں سکتا۔
یا ”ہ“ ضمیر کا مرجع قرآن ہے،
﴿لَقُرۡاٰنٌ کَرِیۡمٌ﴾۔
اب یہاں قرآن کریم سے خاص قرآن نہیں ہے بلکہ قرآن کریم سے مراد وہ تمام صحیفے ہیں
﴿فِیۡ صُحُفٍ مُّکَرَّمَۃٍ ﴿ۙ۱۳﴾ مَّرۡفُوۡعَۃٍ مُّطَہَّرَۃٍۭ ﴿ۙ۱۴﴾﴾
عبس 80: 13، 14
تو قرآن سے مراد مصحف ہے، وہ تمام کتابیں جو صحیفوں میں ہیں۔ اس کا معنی کہ کسی بھی آسمانی کتاب کو آسمان سے زمین پر لانے والے ملائکہ ہوتے ہیں، ملائکہ کے بغیر کوئی اس کو چھو نہیں سکتا، تو پاکیزہ ہاتھ ہی اس کو لگتے ہیں۔
اور بعض کہتے کہ ”ہ“ ضمیر کا مرجع تو قرآن ہے لیکن اس سے مراد صحف نہیں ہیں بلکہ خاص قرآن کریم ہے اور
”الۡمُطَہَّرُوۡنَ“
سے مراد ہے انسان۔ مطلب یہ ہو گا کہ انسان پاک ہو تو قرآن کو چھوئے اور ناپاک ہو تو قرآن کو چھو نہیں سکتا۔
بعض حضرات کہتے ہیں کہ قرآن کریم کو چھونا جنبی اور مُحدِث (بے وضو) کے لیے جائز نہیں ہے اس کی بنیاد یہ نہیں ہے بلکہ اس کی بنیاد المعجم الکبیر میں حدیث ہے:
لَایَمَسُّ الْقُرْآنَ اِلَّاطَاہِرٌ.
المعجم الکبیرللطبرانی:ج6 ص185 رقم الحدیث13039
قرآن کریم کو پاک بندہ چھوئے، ناپاک بندہ قرآن کو ہاتھ نہ لگائے۔
اب یہاں یہ بات سمجھنا کہ اختلاف اس میں نہیں ہے کہ قرآ ن کریم کو چھونے کے لیے پاک ہونا ضروری ہے یا نہیں؟ اس پر تو ائمہ اربعہ رحمہم اللہ کا اتفاق ہے کہ ناپاک آدمی قرآن کو ہاتھ نہیں لگا سکتا، خواہ محدث ہو یا جنبی ہو، اس میں حائضہ وغیرہ سب شامل ہیں۔ اس میں تو اتفاق ہے۔ اختلاف اس بات میں ہے کہ یہ آیت دلیل بن سکتی ہے یا نہیں؟ تو بعض کہتے ہیں کہ ا س آیت کو بطورِ دلیل پیش کرنا ٹھیک نہیں ہے کیونکہ
”الۡمُطَہَّرُوۡنَ“
سے مراد ملائکہ ہیں۔ باقی ناپاک آدمی قرآن کو ہاتھ نہیں لگا سکتا، اس کی دلیل حدیث ہے
”لَایَمَسُّ الْقُرْآنَ اِلَّاطَاہِرٌ“،
یہ آیت دلیل نہیں ہے۔
تو اختلاف مسئلے میں نہیں ہے، اختلاف اس بات میں ہے کہ یہ آیت اس مسئلے کے لیے دلیل ہے یا نہیں ہے؟ بعض کہتے ہیں کہ اس کو بطورِ دلیل پیش کر سکتے ہیں اور بطورِ دلیل پیش کیا ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بہن فاطمۃ بنت خطاب رضی اللہ عنہا نے جب حضرت عمر آئے تھے تو بہن کی پٹائی کے بعد کہا کہ فاطمہ! لاؤ کیا پڑھ رہی تھیں؟اس وقت انہوں نے کہا تھا کہ نہیں! اس قرآن کو ناپاک بندہ ہاتھ نہیں لگا سکتا،
”إِنَّكَ رِجْسٌ وَ لَا يَمَسُّهٗ إِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَ“
غسل کر کے آؤ، پھر تمہیں دکھاتی ہوں، وہ غسل کر کے آئے تو پھر وہ اوراق ان کو دیے جن پر قرآن کریم لکھا ہوا تھا۔
المستدرک علی الصحیحین للحاکم : ج5ص79 رقم6981
ورق اس دور کا جو بھی ہوتا ہو گا۔ تو انہوں نے بطورِ دلیل اس آیت کو پیش کیا ہے۔
تو بسا اوقات مسئلہ میں اختلاف نہیں ہوتا، اختلاف اس میں ہوتا ہے کہ یہ دلیل بن سکتی ہے یا نہیں؟ اس لیے جب بھی آپ دلیل پیش کریں کہ ناپاک مرد یا ناپاک عورت قرآن کو ہاتھ نہیں لگا سکتا تو اس آیت کے بجائے دلیل میں حدیث پیش کریں
” لَایَمَسُّ الْقُرْآنَ اِلَّاطَاہِرٌ “
اور اگر اس آیت کو بطور دلیل پیش کرنا ہو تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بہن والا حوالہ بھی پیش کریں کہ انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو غسل کروایا اور بنیاد یہ آیت تھی۔
حائضہ قرآن نہیں پڑھ سکتی․․․ دلیل:
ایک تو مسئلہ ہے مرد کا۔ اب مسئلہ ہے عورت کا کہ عورت اگر حائضہ ہو تو اس حالت میں قرآن کو چھو نہیں سکتی یہ تو نص آ گئی
”لَایَمَسُّ الْقُرْآنَ اِلَّاطَاہِرٌ“
اب قرآن پڑھ سکتی ہے یا نہیں؟ تو ہم کہتے ہیں کہ قرآن نہیں پڑھ سکتی اور آج غیر مقلدین نے مسئلہ چھیڑا ہوا ہے کہ حائضہ عورت قرآن پڑھ سکتی ہے، نفاس والی عورت قرآن پڑھ سکتی ہے کیونکہ اس کے قرآن پڑھنے کی ممانعت پر کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔
حائضہ اور نفاس والی عورت اور حالت جنابت میں قرآن کریم کو نہ پڑھ سکنے پر احادیث مبارکہ موجود ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَا تَقْرَأُ الْحَائِضُ وَلَا الْجُنُبُ شَيْئًا مِنَ الْقُرْآنِ
جامع للترمذي رقم 131
حائضہ عورت اور حالت جنابت والا مرد یا عورت قرآن کریم نہیں پڑھ سکتا۔
﴿تَنۡزِیۡلٌ مِّنۡ رَّبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۸۰﴾ اَفَبِہٰذَا الۡحَدِیۡثِ اَنۡتُمۡ مُّدۡہِنُوۡنَ ﴿ۙ۸۱﴾﴾
یہ کتاب اللہ رب العالمین کی طرف سے نازل کردہ ہے، کیا تم اس کتاب کو سرسری اور معمولی سی بات سمجھتے ہو؟!
لفظ
مُدہِنون
یہ
دُہْن
سے ہے
، دُہن
کہتے ہیں تیل کو،
اِدْھان
کا معنی ہوتا ہے تیل نکالنا۔ جب کسی چیز پر تیل لگائیں تو وہ بہت نرم ہو جاتی ہے۔فرمایا تم قرآن کریم کو معمولی چیز سمجھتے ہو کہ جیسے چاہا موڑ لیا، چاہا تو مان لیا،چاہا تو نہیں مانا! ایسی بات نہیں ہے۔
﴿وَ تَجۡعَلُوۡنَ رِزۡقَکُمۡ اَنَّکُمۡ تُکَذِّبُوۡنَ ﴿۸۲﴾﴾
اور تم نے قرآن کو جھٹلانا اپنی خوراک بنا رکھا ہے کہ بس تم نے ضرور ہی جھوٹ بولنا ہے۔جیسے ہمارے محاورات میں کہتے ہیں نا کہ جب تک فلاں شخص جھوٹ نہ بولے اس وقت تک اس کا کھانا ہضم نہیں ہوتا! یہ ہمارے محاورات ہیں۔ تو یہاں عرب کے محاورات پر بات کی جا رہی ہے کہ جب تک تم جھوٹ نہ بولو تو تمہارا کھانا ہضم نہیں ہوتا۔
﴿فَلَوۡ لَاۤ اِذَا بَلَغَتِ الۡحُلۡقُوۡمَ ﴿ۙ۸۳﴾ وَ اَنۡتُمۡ حِیۡنَئِذٍ تَنۡظُرُوۡنَ ﴿ۙ۸۴﴾ وَ نَحۡنُ اَقۡرَبُ اِلَیۡہِ مِنۡکُمۡ وَ لٰکِنۡ لَّا تُبۡصِرُوۡنَ ﴿۸۵﴾ ﴾
یہ ان کو دھمکایا جا رہا ہے جو کہتے ہیں کہ ہم کیسے پیدا ہوں گے؟ ہم نہیں اٹھیں گے! تو فرمایا کہ تم اٹھنے کو روک سکتے ہو؟ تمہارے بس میں ہوتا تو تم تو بندے کو مرنے بھی نہ دیتے۔تم نکلتی روح کو نہیں روک سکتے تو جب روح دوبارہ ڈالی جائے گی تو تم کیا کر سکتے ہو؟ جب حلقوم تک روح نکل آتی ہے تم دیکھ بھی رہے ہوتے ہو اور ہم تم سے بھی زیادہ قریب ہوتے ہیں لیکن تمہیں پتا نہیں چلتا۔
﴿فَلَوۡ لَاۤ اِنۡ کُنۡتُمۡ غَیۡرَ مَدِیۡنِیۡنَ ﴿ۙ۸۶﴾ تَرۡجِعُوۡنَہَاۤ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ﴿۸۷﴾ ﴾
اگر دوبارہ تم نے نہیں اٹھنا تو اس روح کو تم لوٹا لو اگر تم سچے ہو!
تین گروہوں کا اجمالی بیان:
﴿فَاَمَّاۤ اِنۡ کَانَ مِنَ الۡمُقَرَّبِیۡنَ ﴿ۙ۸۸﴾ فَرَوۡحٌ وَّ رَیۡحَانٌ ۬ۙ وَّ جَنَّتُ نَعِیۡمٍ ﴿۸۹﴾﴾
اب پھر مقربین کی بات فرمائی ہے کہ جو مقربین خواص ہیں ان کو راحت ہو گی اور ان کے لیے خوشبوئیں ہوں گی اور نعمتوں والے باغات ہوں گے!
﴿وَ اَمَّاۤ اِنۡ کَانَ مِنۡ اَصۡحٰبِ الۡیَمِیۡنِ ﴿ۙ۹۰﴾ فَسَلٰمٌ لَّکَ مِنۡ اَصۡحٰبِ الۡیَمِیۡنِ ﴿ؕ۹۱﴾ ﴾
اور جو اصحاب الیمین ؛ دائیں ہاتھ والے ہیں ان کے لیے فرمایا: اگر کوئی شخص اصحاب الیمین میں سے ہو گا تو ان سے کہا جائے گا کہ تمہارے لیے سلامتی ہی سلامتی ہے!یہاں اصحاب الیمین کے ساتھ ان نعمتوں کا تذکرہ نہیں کیا جو مقربین کے ساتھ کیا تھا، اس لیے کہ یہ خواص نہیں ہیں، یہ عوام ہیں۔ خواص کی بات الگ ہوتی ہے اور رعوام کی بات الگ ہوتی ہے۔
اصحاب الیمین میں صرف وہ لوگ شامل نہیں ہیں جو نیک اعمال کریں اور گناہ کبھی نہ کریں بلکہ جو نیک اعمال کریں وہ بھی اصحاب الیمین میں شامل ہیں اور جو گناہ کریں اور توبہ کر لیں تو وہ بھی اصحاب الیمین میں شامل ہیں اور جو لوگ اپنی بد اعمالیوں کی وجہ سے جہنم میں چلے جائیں گے پھر جہنم سے نکل کر جنت میں جائیں تو وہ بھی اصحاب الیمین میں شامل ہیں، اور یہ بات میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ مسلمان اگر اپنے اعمالِ بد کی وجہ سے جہنم میں جائے گا تو یہ عذاب نہیں ہو گا یہ تزکیہ ہو گا البتہ صورت عذاب کی ہوتی ہے۔ اس لیے بسا اوقات لفظ عذاب کا اس پر اطلاق ہو جاتا ہے ورنہ حقیقتاً وہاں تزکیہ ہوتا ہے گناہوں سے پاک کرنے کے لیے۔ اس مقام پر قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ نے تفسیر مظہری میں لکھا ہے کہ ان کو پاک کر کے جنت میں داخل کیا جائے گا۔
التفسیر المظہری: ج 9ص 171
میں ایک بات کہتا ہوں کہ بسا اوقات شیطان یہاں پر انسان کو دھوکہ دیتا ہے کہ یار مقربین نہ سہی... بڑی جنت نہ سہی... چھوٹی ہی سہی، اس لیے زیادہ اعمال نہ کریں تو کیا ہوا! یہ آج کہہ رہا ہے لیکن وہاں جا کر بندہ کہے گا کہ بڑی جنت ہی ملے ... یہ الگ بات ہے کہ جنت میں حسد، بغض اور کینہ نہیں ہو گا، اللہ دل کو صاف فرما دیں گے اور چھوٹی جنت پر انسان راضی ہو جائے گا لیکن دل تو یہی چاہے گا کہ مجھے بڑی جنت ہی ملے۔
﴿وَ اَمَّاۤ اِنۡ کَانَ مِنَ الۡمُکَذِّبِیۡنَ الضَّآلِّیۡنَ ﴿ۙ۹۲﴾ فَنُزُلٌ مِّنۡ حَمِیۡمٍ ﴿ۙ۹۳﴾ وَّ تَصۡلِیَۃُ جَحِیۡمٍ ﴿۹۴﴾ اِنَّ ہٰذَا لَہُوَ حَقُّ الۡیَقِیۡنِ ﴿ۚ۹۵﴾ فَسَبِّحۡ بِاسۡمِ رَبِّکَ الۡعَظِیۡمِ ﴿۹۶﴾﴾
اور اگر بندہ ان لوگوں میں سے ہوا جو جھٹلانے والےہیں، گمراہ ہیں تو گرم پانی سے اس کی مہمانی ہو گی، جہنم میں داخل ہو گااور یہ بات حق ہے، یقینی ہے اور ہو کر رہے گی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ جو تمہارا رب ہے اس کی تسبیح بیان کیا کرو۔
اللہ ہم سب کو مقربین میں شامل فرمالیں۔ اللہ ہم سب کی خطاؤں سے درگزر فرما دیں، دعاؤں کا سلسلہ مسلسل بندے کو جاری رکھنا چاہیے اور گناہوں سے بچنے کا پورااہتمام کرنا چاہیے۔ اگر کبھی گناہ ہو جائے تو فوراً اللہ سے توبہ کرنی چاہیے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․