پِِہلی بات قرآن مجید

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
چند ابتدائی باتیں1- قرآن مجید
صراط مستقیم کورس کا ہر سبق ان پانچ اجزاء پر مشتمل ہے:
1: قرآن مجید کی آیت/ آیات 2: حدیث مبارک
3: عقیدہ 4: مسئلہ
5: مسنون دعا
ہر جزء کے متعلق مختصراً چند باتیں پیش کی جاتی ہیں:
﴿قرآن مجید ﴾
اللہ تعالیٰ کے عظیم احسانات میں سے ایک اہم احسان یہ ہے کہ اس نے انسانوں اور جنات کی ہدایت اور رہنمائی کے لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کریم نازل فرمایا۔ اس کتاب کو دیکھنا، اس کی تلاوت کرنا، سیکھنا سکھانا، اس پر عمل کرنا اور کسی بھی طریقے سے اس کی خدمت کرنا (حفظ، تعلیم، نشر و اشاعت وغیرہ) دنیا و آخرت میں کامیابی اور کامرانی کا ذریعہ ہے۔
قرآن مجید کے حوالے سے دو باتیں سمجھ لینی چاہییں:
پہلی بات: قرآن مجید کے متعلق بنیادی معومات
اللہ تعالیٰ نے انسانوں اور جنات کو پیدا فرما کر انہیں حصول علم کے لیے تین چیزیں عطا کی ہیں:
1: حواس ِخمسہ (دیکھنا، سننا، سونگھنا، چکھنا،چھونا )
2: عقل
3: وحی
ان تینوں کی مخصوص حدود اور دائرہ ہائے کار ہیں۔ ایک حد تک حواسِ خمسہ سے علم حاصل کیا جاتا ہے، اس کے بعد عقل سے اور اس کے بعد وحی سے۔ وحی؛ حصول ِعلم کا افضل ترین ذریعہ ہے۔ اس لیے وحی کا معنی و مفہوم، نزول وحی کے طریقے اور قرآن مجید کے متعلق چند بنیادی باتیں ملاحظہ ہوں:
وحی کا لغوی معنی:
أَ لْإِ عْلَامُ الْخَفِیُّ السَّرِیْعُ.
ترجمہ: کسی کو خفیہ طریقے سے اور جلدی سے کوئی چیز بتانا۔
اصطلاحی معنی:
کَلَامُ اللّٰہِ الْمُنَزَّلُ عَلٰی نَبِیٍّ مِنَ الْاَنْبِیَآئِ.
ترجمہ: اللہ تعالیٰ کا کلام جو نبیوں میں سے کسی نبی پر اترا ہو۔
نزول ِ وحی کے مختلف طریقے:
1: ”سَلْسَلَۃُ الْجَرَسِ“ مسلسل گھنٹیوں جیسی آواز۔
2: جبرائیل علیہ السلام کا اپنی اصل شکل میں آنا۔
3: جبرائیل علیہ السلام کا کسی آدمی کی شکل میں آنا جیسے حضرت جبرائیل علیہ السلام عموماًحضرت دِحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کی شکل میں آتے تھے۔
4: بغیر واسطے کے اللہ تعالیٰ کا کلام سننا جیسے معراج کے موقع پر۔
5: القا ء فی القلب یعنی دل میں بات ڈالنا۔
وحی کی اقسام:
وحی کی دو قسمیں ہیں:
1: وحی متلو 2: وحی غیر متلو
وحی متلُوّ:
اس وحی کو کہتے ہیں جس کی نماز میں تلاوت کی جاسکتی ہو یعنی قرآن مجید۔
وحی غیر متلُوّ:
جس کی نماز میں تلاوت نہ کی جا سکتی ہو یعنی احادیث۔
وحی متلو اور غیر متلو میں فرق:
وحی متلو میں الفاظ اور معنی دونوں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتے ہیں جبکہ وحی غیر متلو میں مفہوم یا معنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہو تا ہے اور الفاظ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طر ف سے ہوتے ہیں۔
قرآن کریم کی تعریف:
اللہ تبارک و تعالیٰ کاکلام جو آسمان سے اترا، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا، مصاحف میں لکھا گیا اور ہم تک تواتر کے ساتھ بغیر کسی شبہ کے پہنچا۔
قرآن کریم کی تفسیر کون کر سکتا ہے ؟
کوئی آدمی صرف عربی زبان سیکھ کر یا اپنے ذاتی مطالعہ کے زور پر تفسیر نہیں کر سکتا بلکہ ایسا شخص عین ممکن ہے کہ گمراہ ہو جائے۔ قرآن کی تفسیر صرف راسخ فی العلم یعنی مضبوط علم والے علماء ہی کا کام ہے۔ چنانچہ تفسیر کرنے والے کے لیے درج ذیل علوم کا جاننا ضروری ہے۔
[1]: لغت [2]: علم نحو [3]: علمِ صرف [4]: علم اشتقاق
[5]:علمِ معانی [6]: علمِ بیان [7]: علمِ بدیع [8]: علمِ قرأت
[9]: علمِ عقائد [10]: اصولِ فقہ [11]: اسبابِ نزول [12]: ناسخ و منسوخ
[13]: علمِ فقہ [14]: احادیث [15]: علمِ لدنی
مکی اور مدنی سورتوں سے مراد:
مکی سے مراد وہ سورتیں ہیں جو ہجرت سے قبل نازل ہوئیں اور مدنی سے مراد وہ سورتیں جو ہجرت کے بعد نازل ہوئیں۔
دوسری بات: قرآن مجید کے حقوق
قرآن کریم کے تین حقوق ہیں: پڑھنا، سمجھنا اور عمل کرنا
(1): قرآن کریم کو پڑھنا
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِيْلًا﴾.
(المزمل:4 )
ترجمہ: اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھو!
اس لیے قرآن مجید کو ٹھہر ٹھہر کر خوش الحانی اور آداب کی رعایت کے ساتھ پڑھنا چاہیے۔ چند آداب یہ ہیں:
۱: تلاوت کرنے کےلیے وضوکا ہونا مستحب اور چھونے کےلیے وضو کا ہونا ضروری ہے۔
۲: قرآن مجید کی تعظیم کے خیا ل سے مسواک کرنا۔
۳: پاک اور صاف جگہ پر بیٹھ کر تلاوت کرنا۔
۴: تعوذ پڑھنا۔
۵: تسمیہ پڑھنا۔
۶: ترتیل و تجوید کے ساتھ پڑھنا۔
۷: خوش آوازی اور لب ولہجہ کی درستگی کے ساتھ پڑھنا۔
۸: قرآن مجید رو کر پڑھنا، اگر رونا نہ آئے تو رونے کی کیفیت بنالینا۔
۹: تلاوت کرتے ہوئے معانی پر غور کرنا۔
۱۰: یہ تصور کرنا کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے مخاطب ہیں۔
(2): قرآن کریم کو سمجھنا
قرآن کریم کو سمجھنے کے لیے تین شرائط ہیں:
1: عربی زبان محاوراتِ عرب کے ساتھ آتی ہو جو کہ عربی ادب کے ساتھ آئے گی۔
حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب قرآن کی یہ آیت اتری:
﴿حتّٰى يَتَبَيَّنَ لَكُمْ الْخَيْطُ الْاَبْيَضُ مِنْ الْخَيْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ﴾
کہ رمضان میں کھایا پیا کروجب تک کہ سفید دھاگہ سیاہ دھاگے سے جدا نہ ہو، تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میں نے اونٹ کی ایک سیاہ رسی اور دوسری سفید اپنے تکیے کے نیچے رکھی تاکہ اس کے ذریعے رات اور دن میں امتیاز کر لوں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تمہارا تکیہ تو بہت لمبا چوڑا ہے۔ (کہ اس میں پورا افق سما گیا․․․․․یعنی تم نے سمجھا نہیں) سیاہ اور سفید ڈورے سے قرآن کا مطلب رات کی سیاہی اور دن کی سفیدی ہے۔
(صحیح مسلم:ج1 ص349 باب بيان ان الدخول فی الصوم يحصل بطلوع الفجر ا لخ)
2: قرآنی آیات کا پسِ منظر، شانِ نزول معلوم ہو جو کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے آئے گا۔
حضرت اسلم ابی عمران فرماتے ہیں کہ ہم مدینہ منورہ سے قسطنطنیہ پر حملے کے لیے روانہ ہوئے۔ ہمارے امیر لشکر حضرت عبدالرحمن بن خالد بن ولید رضی اللہ عنہ تھے۔ (لڑائی کے وقت )رومی لشکر اپنے شہر کی دیوار سے چپکا ہوا تھا۔ مسلمانوں میں سے ایک مجاہد نے دشمنوں پر(تنہا)حملہ کردیا۔ یہ دیکھ کر لوگ شور کرنے لگے اور کہنے لگے کہ یہ شخص اپنے ہاتھوں سے خود کو ہلاکت میں ڈال رہا ہے (حالانکہ قرآن مجید میں تو آیا ہے
﴿وَلَا تُلْقُوْا بِاَيْدِيْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ﴾
کہ اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو)۔ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ آیت تو ہم انصار کے بارے میں اس وقت نازل ہوئی تھی جب اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد فرمائی اور اسلام کو غالب فرمادیا تو ہم نے کہا کہ ہم کچھ عرصہ اپنے مال اور کاروبار کی اصلاح کے لیے گھروں میں رک جاتے ہیں، اس پر یہ آیت نازل ہوئی جس میں بتادیا گیا کہ ہاتھوں سے خود کو ہلاک کرنا یہ ہے کہ ہم جہاد چھوڑکر اپنے گھروں میں بیٹھے رہیں اور اپنے اموال کی اصلاح کرتے رہیں۔
(سنن ابی داؤد: ج1 ص340باب فى قولہ تعالىٰ وَلَا تُلْقُوْا بِاَيْدِيْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ)
3: مرادِ خداوندی معلوم ہو جو کہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و سلم سے آئے گی۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ جب آیت کریمہ
﴿اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ يَلْبِسُوْا اِيْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ﴾
کہ جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ مخلوط نہیں کیا، نازل ہوئی تو ہم نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں ایسا کون ہے جس نے اپنے اوپر (گناہ کر کے) ظلم نہیں کیا؟ فرمایا یہ بات تمہارے خیال کے مطابق نہیں ہے بلکہ
"لَمْ يَلْبِسُوْا اِيْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ"
میں ظلم سے مراد شرک ہے۔ کیا تم لوگوں نے حضرت لقمان کی بات جو انہوں نے اپنے بیٹے سے کہی تھی نہیں سنی کہ اے میرے بیٹے! اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا کیونکہ شرک بہت بڑا ظلم ہے۔
(3): قرآن کریم پر عمل کرنا
(صحیح البخاری: ج1 ص474 باب قول الله تعالى وَاتَّخَذَ اللهُ اِبْرَاهِيْمَ خَلِيْلًا)
قرآن کریم پڑھنے اور سمجھنے سے مقصود اس پر عمل کرناہے۔ قرآن کریم کے صحیح مفہوم و مراد کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کے لیے علمائے کرام کی رہنمائی ضروری ہے۔ صحیح العقیدہ عالم دین اور شیخ طریقت کی صحبت اور قلبی توجہات سے انسان میں عمل کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور شریعت پر عمل کرنا آسان ہو جاتا ہے۔