پانچویں بات مسنون دعا

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
﴿5- مسنون دعا﴾
اللہ تعالیٰ ہی سے اپنی تمام تر حاجات اور ساری ضروریات (خواہ ان کا تعلق دنیا سے ہو یا آخرت سے) مانگنا شریعت میں ”دعا“ کہلاتا ہے۔ اسلامی تعلیمات میں دعا کے فضائل و احکام بہت زیادہ ہیں۔
اللہ تعالیٰ جب کسی پر اپنا کرم فرماتے ہیں تو اس کو اپنی ذات سے دعا مانگنے کی توفیق نصیب فرماتے ہیں۔ دنیا میں کوئی شخص ایسا نہیں جو ضروریا ت سے بے نیاز ہو ان کا تعلق خواہ دنیا کی ضروریات سے ہو یا آخرت کی ضروریات سے ہو۔
انسان کو ہدایت، نعمت، عزت، رزق، شہرت، مال و دولت اور وسائل درکار ہوتے ہیں جن کی وجہ سے وہ دنیا کی خوشیاں حاصل کر سکے اور ایسے اسباب سے بچاؤ کی بھی ضرورت ہوتی ہے جن کی وجہ سے خوشیاں برباد ہو جاتی ہیں۔ بالکل اسی طرح آخرت میں اللہ کے انعام و اکرام، ابدی کامیابی، دائمی خوشیاں، جنت اور رضائے الہی کی ضرورت ہو گی جومحض اس کے فضل و احسان، شفاعت اور ایمان کی سلامتی کے ساتھ نیک اعمال کی کثرت سے نصیب ہو گی اور یہ سب خرانے اللہ تعالیٰ کے پاس موجود ہیں۔ اس لیے اسی ذات سے مانگنے کا حکم قرآن کریم اور متعدد احادیث مبارکہ میں موجود ہے۔ ایک حدیث مبارک میں ہے :
عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ لَمْ يَسْأَلِ اللهَ يَغْضَبْ عَلَيْهِ"․
(جامع الترمذی: ابواب الدعوات باب ماجاء فی فضل الدعاء )
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اللہ سے نہیں مانگتا تو اللہ تعالیٰ اس شخص پر ناراض ہوتے ہیں۔
یہ دستورِ دنیا کے بالکل برعکس ہے کیونکہ دنیا والوں سے مانگو تو ناراض اور نہ مانگو تو خوش ہوتے ہیں۔ اس لیے اللہ رب العزت کے لطف و کرم کے استحضار، قبولیت کے یقین اور اپنی عاجزی و نیاز مندی کا احساس کرتے ہوئے دعا مانگنی چاہیے۔
شریعت مطہرہ میں مختلف مواقع کی دعائیں منقول ہیں۔ انسان کو چاہیے کہ ان کا خصوصی اہتمام کرے۔ اس کے علاوہ اپنی ضرورت و حاجت کے پیش نظر موقع بہ موقع دعائیں کرتے رہنا چاہیے۔
یہ بات اچھی طرح ذہن نشین فرمائیں کہ مختلف حالتوں میں دعا مانگنے کے طریقے بھی مختلف ہیں :
ان مواقع پر ہاتھ اٹھائے بغیر دعا مانگیں:
بعض مقامات ایسے ہیں کہ جہاں ہاتھ اٹھائے بغیر دعا مانگی جاتی ہے جیسے صبح اٹھتے وقت کی دعا، بیت الخلاء جاتے وقت کی دعا، وہاں سے نکلتے وقت کی دعا، وضو شروع کرتے وقت اور وضو کے بعد کی دعا، اذان کے بعد کی دعا، گھر سے نکلنے کی دعا، گھر میں داخل ہونے کی دعا، مسجد داخل ہونے کی دعا، مسجد سے باہر نکلنے کی دعا، بازار میں داخل ہونے کی دعا، کھانا کھانے کی دعا، دودھ پینے کی دعا، میاں بیوی کے ملاپ کے وقت کی دعا، رات کو سوتے وقت کی دعا وغیرہ وغیرہ۔
اسی طرح حالتِ نماز میں کی جانے والی دعا میں بھی ہاتھ نہیں اٹھائے جاتے۔ قیام میں سورۃ فاتحہ پڑھی جاتی ہے جو ایک دعا ہے لیکن اس میں بھی ہاتھ نہیں اٹھائے جاتے۔
نفل نماز کے سجدوں میں اگر دعا کرنی ہو تو ہاتھ اٹھائے بغیر کرنی ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"أَقْرَبُ مَا يَكُونُ الْعَبْدُ مِنْ رَبِّهِ، وَهُوَ سَاجِدٌ، فَأَكْثِرُوا الدُّعَاءَ"
(صحیح مسلم : باب ما یقال فی الرکوع و السجود )
ترجمہ: بندے کو اپنے رب کی اس وقت زیادہ قربت نصیب ہوتی ہے جب وہ سجدے کی حالت میں ہو اس لیے (اس حالت میں) کثرت کے ساتھ دعا مانگو۔
اسی طرح دو سجدوں کے درمیانی وقت میں بھی دعا کے مختلف الفاظ احادیث مبارکہ میں موجود ہیں۔ مثلاً
"اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَارْحَمْنِي وَاجْبُرْنِي وَاهْدِنِي وَارْزُقْنِي"
[ترجمہ: اے اللہ!میری مغفرت فرما، مجھ پر رحم فرما، میرے نقصان کو پورا فرما، مجھے عافیت نصیب فرما، مجھے ہدایت نصیب فرمااور مجھے رزق عطا فرما]
(جامع الترمذی : باب ما یقول بین السجدتین)
لیکن یہاں بھی ہاتھ اٹھائے بغیر دعا مانگنی ہے، ہاتھ اٹھا کر نہیں مانگنی۔ سجدوں میں اور سجدوں کے درمیان جو دعائیں منقول ہیں وہ نفلی نمازوں میں پڑھی جائیں۔
اسی طرح تشہد کے بعد پڑھی جانے والی دعا میں بھی ہاتھ نہیں اٹھائے جاتے۔
ان مواقع پر ہاتھ اٹھا کر دعا مانگیں:
بعض مقامات ایسے ہیں جہاں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنی چاہیے۔ جیسے فرض نمازوں کے بعد(سوائے جنازہ کے)، میت کوقبر میں دفن کرنے کے بعد، دینی مجالس کے اختتام پر، حادثات سے حفاظت کے لیے، خیر وبرکت کےلیے، اپنی حاجات کو مانگنے کے لیے دن رات کے کسی بھی حصے میں وغیرہ۔چنانچہ احادیث مبارکہ میں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے کا بھی ثبوت موجود ہے۔
فائدہ: عموماً ہر وہ مقام جہاں پر دعا کے الفاظ متعین ہیں وہاں پر ہاتھ اٹھائے بغیر دعا مانگنا ثابت ہے اور جہاں دعا کے الفاظ متعین نہیں وہاں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا ثابت ہے۔