ساتواں سبق

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
ساتواں سبق
[1]: رزق دینے والی ذات صرف اللہ تعالیٰ ہے
﴿اَوَلَمْ يَرَوْا اَنَّ اللهَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَآءُ وَيَقْدِرُ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ﴾
(الروم: 37)
ترجمہ: کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ اللہ جس کے لیے چاہتاہے رزق کشادہ کرتا ہے اور (جس کے لیے چاہتا ہے ) تنگ کرتا ہے، بیشک اس میں ان لوگوں کےلیے نشانیاں ہیں جو ایمان رکھتے ہیں۔
[2]: طلب ِعلم ایک فریضہ
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلٰى كُلِّ مُسْلِمٍ وَوَاضِعُ الْعِلْمِ عِنْدَ غَيْرِ أَهْلِهِ كَمُقَلِّدِ الْخَنَازِيْرِ الْجَوْهَرَ وَاللُّؤْلُؤَ وَالذَّهَبَ."
(سنن ابن ماجۃ:ص20 باب فضل العلماء والحث علی طلب العلم)
ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ علم کو نااہلوں کے سپرد کرنے والاایسے ہی ہے جیسے خنزیروں کو ہیرے،جواہرات اور سونے کے ہار پہنانے والا۔
[3]: خیالات کے درجات
دل میں کسی بات کاخیال آنے کے پانچ درجے ہیں:
1: ہا جس: کسی بات کا خیال دل میں اضطراراً (بے اختیار)آجانا۔
2: خاطر: کسی بات کا خیال دل میں قصداًلانا۔
3: حدیث نفس: تردد کی کیفیت ہونا کہ یہ کام کرو ں کہ نہ کروں؟!
4: ہمّ: اس تردد میں کسی ایک جانب کو ترجیح دینا۔
5: عزم: ایک جانب ترجیح دے کر اسے اتنی تقویت دینا کہ اگر رکاوٹ نہ ہو تو کر گزرے ۔
پہلے تین درجات ہاجس،خاطراورحدیث نفس پرکوئی نتیجہ مرتب نہیں ہوتا، ہمّ(یعنی چوتھے درجے ) میں اگرجانب واحد کی ترجیح خیر اور نیکی کی طرف ہے تو ثواب مرتب ہوگا،اگر ترجیح شر اور گناہ کی طرف ہوگی تو تب تک مواخذہ نہیں جب تک کہ عزم نہ بنے، گو یا نیکی کے ارادے میں ہمّ وعزم(چوتھا اور پانچواں درجہ) دونوں پر ثواب اور عملاً نیکی کرنے پر دس گنا ثواب ہے جبکہ گناہ کے معاملے میں ہمّ (چوتھے درجے ) پرکوئی مواخذہ نہیں البتہ عزم (پانچویں درجے ) پر مواخذہ ہے۔
[4]: مکروہات و نواقضِ وضو
مکروہاتِ وضو
1: وضو کے دوران دنیاوی باتیں کرنا۔
2: چہرہ دھوتے ہوئے زور سے منہ پر ہاتھ مارنا۔
3: چہرہ دھوتے ہوئے زور سے آنکھیں بند کرنا۔
4: پانی استعمال کرنے میں زیادہ کنجوسی کرنا۔
5: پانی ضرورت سے زیادہ استعمال کرنا۔
نواقض وضو:
[1]: پیشاب پاخانہ کرنا
[2]: ہوا خارج ہونا
[3]: خون کا جسم سے نکل کر ایسے حصے کی طرف بہنا جسے وضو یا غسل میں دھونافرض ہو
[4]: قے کرنا
[5]: پاگل ہوجانا
[6]: بے ہوش ہو جانا
[7]: سو جانا
[8]: بالغ مرد یا عورت کا رکوع اور سجدے والی نماز میں بیداری کی حالت میں قہقہہ لگا کر ہنسنا
[9]: خونِ استحاضہ کا جاری ہونا
فائدہ نمبر1: قے تین قسم کی ہوتی ہے:
1: کھانے پینے کی
2: خون کی
3: بلغم کی
ان کا حکم یہ ہے کہ کھانے پینے کی قے اگر منہ بھر کر آئے تو وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ جمے ہوئے خون کی قے اگر منہ بھر کر آئے تو بھی وضو ٹوٹ جاتا ہے، اسی طرح اگر پتلے خون کا ایک قطرہ بھی آجائے تو بھی وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ صرف بلغم کے آنے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔
فائدہ نمبر2: ہنسی کی تین قسمیں ہیں:
1: تبسم .... بغیر آواز کے مسکرانا
2: ضحک .... ایسی آواز سے ہنسنا کہ ساتھ والے کو آواز نہ سنائی دے۔
3: قہقہہ.... ایسی آواز سے ہنسنا کہ ساتھ والا بھی سن لے۔
ان کا حکم یہ ہے کہ ”قہقہہ“ لگانے سے وضو اور نماز دونوں ٹوٹ جاتے ہیں، ”ضحک“ سے نماز تو ٹوٹ جاتی ہے لیکن وضو نہیں ٹوٹتا اور ”تبسم“ سے نہ نماز ٹوٹتی ہے نہ وضو۔
[5]: علم نافع کے حصول کے لیے دعا
أَللّٰهُمَّ انْفَعْنِيْ بِمَا عَلَّمْتَنِي وَعَلِّمْنِيْ مَا يَنْفَعُنِيْ وَزِدْنِيْ عِلْمًا، أَلْحَمْدُ لِلهِ عَلٰى كُلِّ حَالٍ.
(سنن الترمذی:ج2 ص 517 کتاب الدعوات باب العفو والعافیۃ)
ترجمہ: اے اللہ! جو علم تو نے مجھے سکھایا ہے اس سے مجھے فائدہ پہنچا اور مجھے نفع دینے والا علم عطا فرما اور میرے علم میں اضافہ فرما،ہر حال میں تعریف اللہ تعالیٰ ہی کےلیے ہے۔