سولھواں سبق

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
سولھواں سبق
[1]: حیاتِ انبیاء علیہم السلام
﴿وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ يُّقْتَلُ فِيْ سَبِيْلِ اللهِ اَمْوَاتٌ ۭ بَلْ اَحْيَاءٌ وَّلٰكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ﴾
(البقرۃ:154)
ترجمہ: اور جو لوگ اللہ کے راستے میں شہید کیے گئے ان کو مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں ( ان کی زندگی کا ) شعور نہیں ہے۔
اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے ایسے شخص کا تذکرہ فرمایا ہے جو راہِ خدا میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کر دے تو بدلہ میں بطور انعام واکرام کے اسے ”حیات“ نصیب ہوتی ہے۔ یہ حیات والا اکرام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی وفات کے بعد نصیب ہوا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ:
1: حدیث پاک کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی شہادت کی موت نصیب ہوئی ہے کہ غزوہ خیبر کے موقع پر یہود نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو زہر دیا تھا تو وفات کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کااثر محسوس فرماتے تھے اور اسی حالت میں آپ کی وفات ہوئی۔
2: شہید کو جو اعزاز ِحیات ملا ہے یہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے صدقے ملا ہے، اگر شہید حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا کلمہ نہ پڑھتا پھر قتل ہوتا تو اسے یہ اعزاز کبھی نہ ملتا، حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا کلمہ پڑھا، قتل ہوا پھر اعزاز ملا۔ اس سے ثابت ہوا کہ اگر شہید زندہ ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم بطریق اولیٰ زندہ ہیں۔ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ (متوفیٰ 1362ھ) فرماتے ہیں:
”اور یہی حیات ہے جس میں حضرات انبیاء علیہم السلام شہداء سے بھی زیادہ امتیاز اور قوت رکھتے ہیں، حتی کہ بعد موت ظاہری کے سلامت جسد کے ساتھ ایک اثر اس حیات کا اس عالم کے احکام میں یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ مثل ازواج احیاء کے ان کی ازواج سے کسی کو نکاح جائز نہیں ہوتا اور ان کا مال میراث میں تقسیم نہیں ہوتا، پس اس حیات میں قوی تر حضرات انبیاء علیہم السلام ہیں۔“
(بیان القرآن: ج1ص97)
[2]: حیات ِانبیاء علیہم السلام
عَنْ اَنَسٍ رَضِیَ اللہُ عَنہُ قَالَ:قَالَ رَسُوَلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: "أَلْاَنْبِیَآءُ أَحْیَائٌ فِی قُبُوْرِھِمْ یُصَلُّوْنَ".
(مسند ابی یعلیٰ الموصلی: ص658 رقم الحدیث 3425 من حدیث انس بن مالک)
ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:انبیا علیہم السلام اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور نمازیں پڑھتے ہیں۔
[3]: عقیدہ حیات ِانبیاء علیہم السلام
تمام انبیاء کرام علیہم السلام اپنی مبارک قبروں میں اپنے دنیاوی جسموں کے ساتھ بتعلق روح بغیر مکلف ہونے اور بغیر لوازم دنیا کے زندہ ہیں اور مختلف جہتوں کے اعتبار سے اس حیات کے مختلف نام ہیں جیسے حیات دنیوی،حیات جسمانی،حیات حسی،حیات برزخی،حیات روحانی۔
[4]: نماز کی شرائط کا بیان
1: جسم کا پاک ہونا۔ 2: لباس کا پاک ہونا۔ 3: ستر کا ڈھانپنا۔
نوٹ: مرد کا ستر ناف کے نیچے سے لے کرگھٹنے کے نیچے تک ہے اورعورت کا ستر چہرے، ہاتھوں اورپاؤں کے سوا سارا بدن ہے۔ اگر نماز شروع کرنے سے پہلے ایک عضوکاچوتھائی حصہ ستر کھلا رہ گیا یا دوران نماز اتنا ستر کھل گیا تو نماز فاسد ہوجائے گی۔
4: جس جگہ نمازپڑھنی ہو اس کاپاک ہونا۔ 5: نماز کا وقت ہونا۔
6: قبلہ رخ ہونا۔ 7: نماز کی نیت کرنا۔
فائدہ: جس عبادت میں نیت کی ضرورت نہیں بلکہ وہ بغیرنیت کے اداہوجاتی ہے وہ عبادت ادا کرتے ہوئے غلطی سے اس کے خلاف نیت کی تو اس سے نقصان نہ ہوگا۔
مفسدات نماز:
ان چیزوں کو کہتے ہیں جن سے نماز ٹوٹ جاتی ہے اور اسے لوٹانا ضروری ہوتاہے۔ چند مفسدات نماز یہ ہیں:
1: نماز میں کلام کرنا چاہے قصداً ہویا بھول کر، تھوڑا ہویا بہت۔ ہر صورت میں نمازٹوٹ جاتی ہے۔
2: سلام کرنا یعنی کسی کو سلام کرنے کے قصدسے سلام یا تسلیم یا السلام علیکم یا اسی جیسا کوئی لفظ کہہ دینا۔
3: سلام کا جواب دینا یا چھینکنے والے کو ’’یرحمک اللہ‘‘ یانمازسے باہر والے کسی شخص کی دعا پر آمین کہنا۔
4: کسی بری خبر پر’’إِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ ‘‘پڑھنا یاکسی اچھی خبر پر الحمد للہ کہنا یا کسی عجیب بات پر سبحان اللہ کہنا۔
5: درد یا رنج کی وجہ سے آہ یا اوہ یا اف کرنا۔
6: اپنے امام کے سواکسی دوسرے کو لقمہ دینا یعنی قرأت بتانا۔
7: نماز میں قرآن کریم دیکھ کر پڑھنا۔
8: قرآن مجید پڑھنے میں ایسی غلطی کرنا جو معنی میں فساد کا سبب بنے۔
9: عمل کثیر کرنا یعنی کوئی ایسا کام کرنا جس سے دیکھنے والے یہ سمجھیں یہ نمازنہیں پڑھ رہی ہے۔
10: کھانا پینا قصداً ہویا بھولے سے۔
11: دوصفوں کی مقداربرابر چلنا۔
12: قبلے کی طرف سے بلا عذر سینہ پھیر لینا۔
13: ناپاک جگہ پر سجدہ کرنا۔
14: ستر کھل جانے کی حالت میں ایک رکن (یعنی تین بار سبحان اللہ کہنے )کی مقدار ٹھہرنا۔
15: دعا میں ایسی چیز مانگنا جو آدمیوں سے مانگی جاتی ہے مثلا ً:یاا للہ! مجھے آج سو روپے دے دے۔
16: دردیا مصیبت کی وجہ سے اس طرح رونا کہ آواز میں حروف ظاہرہوجائیں۔
17: بالغ آدمی کا رکوع وسجود والی نماز میں قہقہے مار کریاآواز سے ہنسنا۔
18: امام سے آگے بڑھ جانا۔
19: تکبیر تحریمہ کہتے وقت لفظ’’ اللہ‘‘ کے الف کو یوں کھینچ کر پڑھا کہ شروع میں الف بڑھادیایعنی’’ آللہ اکبر ‘‘پڑھا اسی طرح اگر’’ اکبر‘‘ کی باء کو بڑھا کر پڑھا اور’’اللہ اکبار‘‘ کہا۔
[5]: مجلس سے اٹھنے کی دعا
سُبْحَانَكَ اللّٰهُمَّ وَبِحَمْدِكَ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوْبُ إِلَيْكَ.
(سنن الترمذی:ج2ص181ابواب الدعوات باب ما یقول اذا قام من المجلس)
ترجمہ: یا اللہ! تیری ذات ہر عیب سے پاک ہے، میں تیری تعریف کرتی ہو ں، میں گواہی دیتی ہو ں کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں، میں تجھ سے مغفرت طلب کرتی ہو ں اور تیرے حضور تو بہ کرتی ہو ں۔