بیسواں سبق

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
بیسواں سبق
[1]:صحابیت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ
﴿اِلَّا تَنْصُرُوْهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللهُ اِذْ اَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُوْا ثَانِيَ اثْنَيْنِ اِذْ هُمَا فِي الْغَارِ اِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللهَ مَعَنَا ۚ فَاَنْزَلَ اللهُ سَكِيْنَتَهٗ عَلَيْهِ﴾
(التوبۃ: 40)
ترجمہ: اگر تم ان کی ( یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ) مدد نہیں کروگے تو (ان کا کچھ نقصان نہیں، اس لیے کہ) اللہ نے ان کی مدد اس وقت بھی کی ہے جب ان کو کافروں نے ایسے وقت ( مکہ مکرمہ سے) نکالا تھا جب وہ دو آدمیوں میں سے دوسرے تھے، جب وہ دونوں غار میں تھے، جب وہ اپنے ساتھی کو یہ کہہ رہے تھے کہ غم نہ کرو، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ چنانچہ اللہ نے ان پر اپنی طرف سے سکون قلب نازل فرمایا۔
فائدہ: صحابہ کرام رضی اللہ عنہ میں سے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ وہ واحد صحابی ہیں جن کے لیے قرآن نے لفظ ”صاحب“ (یعنی صحابی) استعمال فرمایا ہے۔ اس لیے جو صدیق اکبررضی اللہ عنہ کی صحابیت کاانکار کرے وہ کافر ہے۔
[2]: سنت نبوی اور سنت خلفاء راشدین کو تھامنے کا حکم
عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ: صَلّٰى بِنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا فَوَعَظَنَا مَوْعِظَةً بَلِيْغَةً ذَرَفَتْ مِنْهَا الْعُيُوْنُ وَوَجِلَتْ مِنْهَا الْقُلُوْبُ فَقَالَ قَائِلٌ: يَا رَسُولَ اللهِ! كَاَنَّ هٰذِهِ مَوْعِظَةُ مُوَدِّعٍ، فَمَاذَا تَعْهَدُ إِلَيْنَا؟ فَقَالَ: "أُوصِيْكُمْ بِتَقْوَى اللهِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ وَإِنْ عَبْدًا حَبَشِيًّا فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ بَعْدِىْ فَسَيَرٰى اخْتِلَافًا كَثِيْرًا فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِىْ وَسُنَّةِ الْخُلَفَآءِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ تَمَسَّكُوْا بِهَا وَعَضُّوْا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الأُمُوْرِ فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ".
(سنن ابی داؤد:ج2 ص290 کتاب السنۃ. باب فی لزوم السنۃ)
ترجمہ: حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک دن نماز پڑھائی پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور ہمیں نہایت موثر انداز میں نصیحت فرمائی جس سے ہماری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور دلوں میں خوف پیدا ہوگیا۔ ایک شخص نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول! معلوم ہوتا ہے کہ یہ الوداعی نصیحت ہے، اس لیے آپ ہمیں کیا وصیت فرماتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشار فرمایا: میں تم کو وصیت کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور تم کو (مسلمان ) امیر کی اطاعت کا حکم دیتا ہوں اور اس کی باتوں کو سن کر بجا لانے کی وصیت کر تا ہوں اگرچہ وہ امیر حبشی غلام ہو۔تم میں سے جو شخص میرے بعد زندہ رہے گاوہ بہت سارے اختلاف دیکھے گا۔ ایسے وقت میں تم میری سنت اور میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑنا اور اس پر مضبوطی سےقائم رہنا اور دین میں نئی نئی باتیں( یعنی نئے عقیدے اور نئے عمل ) پیدا کرنے سے بچتے رہنا، اس لیے کہ ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔
[3]: خلافت ِراشدہ و مقام صحابہ رضی اللہ عنہم
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس امت کے خلیفہ اول بلا فصل حضرت ابوبکر صدیق، دوسرے حضرت عمرفاروق ، تیسرے حضرت عثمان غنی اور چوتھے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہم ہیں۔ ان چاروں کو ”خلفائے راشدین“ اوران کے زمانہ خلافت کو خلافت راشدہ کادور کہتے ہیں۔آیت استخلاف میں جس خلافت کا وعدہ ہے وہ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ سے شروع ہو کر حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ پر ختم ہوگئی۔ لہذا دور خلافت راشدہ سے مراد خلفائے اربعہ(چار خلفاء رضی اللہ عنہم) کادور ہے۔ حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت ؛ خلافت عادلہ ہے۔
مقام صحابہ رضی اللہ عنہم:
انبیاء علیہم السلام کے بعد انسانوں میں اعلیٰ ترین درجہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ہے اور قرآن کریم میں اہل ایمان کی جس قدر صفات کمال کاذکر آیا ہے ان کا اولین اور اعلی ترین مصداق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں۔ پھر صحابہ کرا م میں بھی مراتب کی ترتیب درج ذیل ہے :
1: خلفائے راشدین علی ترتیب الخلافۃ
2: عشرہ مبشرہ
3: اصحاب بدر
4: اصحاب بیعت رضوان
5: شرکاء فتح مکہ
6: وہ صحابہ رضی اللہ عنہم جو فتح مکہ کے بعد اسلام لائے۔
معیار حق وصداقت:
پوری امت کے لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم معیار حق وصداقت ہیں یعنی جو عقائد اور مسائل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عقائد اور مسائل کے مطابق ہوں وہ حق ہیں اور جو ان کے مطابق نہ ہوں وہ باطل اور گمراہی ہیں۔
[4]: خواتین کا مسنون طریقہ نماز
دوسراسجدہ اوراس سے اٹھنا:
1: دوسرے سجدے میں بھی اس طرح جائیں کہ پہلے دونوں ہاتھ زمین پررکھیں، پھرناک، پھر پیشانی۔
2: سجدے کی ہیئت وہی ہونی چاہیے جوپہلے سجدے میں بیان کی گئی۔
3: سجدے سے اٹھتے وقت پہلے پیشانی زمین سے اٹھائیں پھر ناک پھرگھٹنے۔
4: اٹھتے وقت زمین کا سہارا نہ لینابہتر ہے لیکن اگر جسم بھاری ہویا بیماری یا بڑھاپے کی وجہ سے مشکل ہوتوسہارا لینا بھی جائز ہے۔
5: ا ٹھنے کے بعد ہر رکعت کے شروع میں سورہ فاتحہ سے پہلے ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘پڑھیں۔
قعدہ کرنے کا طریقہ:
1: قعدے میں بیٹھنے کا طریقہ وہی ہوگا جوسجدوں کے درمیان میں بیٹھنے کا ذکر کیا گیاہے۔
2: التحیات پڑھتے وقت جب ”اَشْھَدُاَنْ لَّا اِلٰہَ“ پر پہنچیں توشہادت کی انگلی اٹھا کر اشارہ کریں اور ”اِلَّا اللہ“ پر گرادیں۔
3: اشارے کاطریقہ یہ ہے کہ بیچ کی انگلی اورانگوٹھے کو ملا کر حلقہ بنائیں، چھنگلی اور اس کے برابر والی انگلی کو بند کرلیں اورشہادت کی انگلی کو اس طرح اٹھائیں کہ انگلی قبلہ کی طرف جھکی ہوئی ہو، بالکل سیدھی آسمان کی طرف نہ اٹھانی چاہیے۔
4: ”اِلَّا اللہ“کہتے وقت شہادت کی انگلی تو نیچے کر لیں لیکن باقی انگلیوں کی جو ہیئت اشارے کے وقت بنائی تھی اس کو آخر تک برقرار رکھیں۔
سلام پھیرتے وقت:
1: دونوں طرف سلام پھیرتے وقت گردن کو اتنا موڑیں کہ پیچھے کوئی عورت بیٹھی ہو تو اس کو آپ کے رخسارنظر آجائیں۔
2: سلام پھیرتے وقت نظریں کندھے کی طرف ہونی چاہییں، جب دائیں طرف گردن پھیرکر’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ‘‘ کہیں تویہ نیت کریں کہ دائیں طرف جوفرشتے ہیں ان کو سلام کررہی ہوں اوربائیں طرف سلام پھیرتے وقت بائیں طرف والے فرشتوں کوسلام کرنے کی نیت کریں۔
فائدہ:
مذکورہ اعمال میں دونوں سجدے فرض ہیں۔ سجدے میں جانے اور ٹکنے کی کیفیات مسنون ہیں۔ تین مرتبہ تسبیح سنت اورزائدطاق عدد میں مستحب ہے۔ جلسہ (دو سجدوں کے درمیان بیٹھنا)واجب ہے۔ جلسہ میں بیٹھنے، دوسرے سجدے میں جانے اوراٹھنے کی ترتیب وکیفیا ت مسنون ہیں۔قیام میں نظر سجدہ کی جگہ، رکوع میں پاؤں پر،سجدے میں ناک پر،بیٹھنے کی حالت میں گود میں اورسلام پھیرتے وقت کندھے پر ہونا مستحب ہے۔
دعا مانگنے کاطریقہ:
دونوں ہاتھ اتنے اٹھائے جائیں کہ وہ سینے کے سامنے آجائیں اور ان کے درمیان معمولی سافاصلہ ہو۔ دعا کرتے وقت ہاتھوں کے اندرونی حصے کوچہرے کے سامنے رکھیں۔
[5]: بے قراری کی حالت کی دعا
لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ الْعَظِيْمُ الْحَلِيْمُ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيْمِ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ رَبُّ السَّمَوَاتِ وَرَبُّ الْأَرْضِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيْمِ.
( صحیح البخاری:ج2 ص939 کتاب الدعوات. باب الدعاء عند الکرب)
ترجمہ:اللہ کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں جوعظمت والا برد بار ہے، اللہ کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں جوعرش عظیم کا رب ہے، اللہ کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں جوآسمانوں کا رب اور زمین کارب اورعرش کریم کا رب ہے۔