ستائیسواں سبق

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
ستائیسواں سبق
[1]: فرضیت جہاد
﴿كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَّكُمْ ۚ وَعَسٰى اَنْ تَكْرَهُوْا شَيْئًا وَّهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۚ وَعَسٰى اَنْ تُحِبُّوْا شَيْئًا وَّهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ ۭوَاللهُ يَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ﴾
(البقرۃ:216)
ترجمہ: تم پر جہادفرض کیا گیا اور وہ تمہیں ناگوار ہے اور یہ ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو ناگوار سمجھو حالانکہ وہ تمہارے حق میں بہتر ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو پسند کرو حالانکہ وہ تمہارے حق میں مضر ہو اور اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔
فائدہ: جہاد یعنی قتال فی سبیل اللہ مسلمانوں پر فرض ہے۔ چونکہ یہ فریضہ مشکل ہے اس لیے نفس کو طبعی طور پرگراں اوربھاری معلوم ہوتاہے مگر اللہ نے اس میں خیر ہی خیر رکھی ہے اوراللہ جانتا ہے تم نہیں جانتے کہ کس چیز میں خیر ہے اورکس میں شر۔ جہادفرض ہے اوراس کاانکاراورتوہین کرناکفر ہے۔
[2]: جہاد میں خواتین کی شرکت
عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ الْأَنْصَارِيَّةِ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا قَالَتْ: غَزَوْتُ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبْعَ غَزَوَاتٍ أَخْلُفُهُمْ فِيْ رِحَالِهِمْ فَأَصْنَعُ لَهُمُ الطَّعَامَ وَأُدَاوِي الْجَرْحٰى وَأَقُوْمُ عَلَى الْمَرْضٰى.
(صحیح مسلم: ج2 ص117 کتاب الجہاد والسیر. باب النساء الغازیات یرضخ لهن ولا یسهم)
ترجمہ: حضرت ام عطیہ انصاریہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ سات غزوات میں شریک ہوئی۔ میں مجاہدین کے پیچھے ان کے ٹھکانوں میں رہتی تھی، ان کے لیے کھانا تیارکرتی، مریضوں کی دوائی وغیرہ کاانتظام اوربیماروں کی دیکھ بھال کرتی تھی۔
[3]: جہاد فی سبیل اللہ؛ فضائل واحکام
دین اسلام کی سر بلندی کے لیے دشمنانِ اسلام سے مسلح جنگ کرنا اور اس میں خوب جان ومال خرچ کرنا ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ کہلاتا ہے۔ دین اسلام کی سربلندی،دین کا تحفظ،دین کا نفا ذ، دین کی بقاء، مسلمانوں کی عزت وعظمت، شان وشوکت اورجان ومال کا واحد ذریعہ’’ جہاد فی سبیل اللہ‘‘ ہے۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
﴿اِنَّ اللهَ اشْتَرٰى مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اَنْفُسَهُمْ وَاَمْوَالَهُمْ بِاَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ ۭ يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللهِ فَيَقْتُلُوْنَ وَيُقْتَلُوْنَ﴾
(التوبہ:111)
ترجمہ: بے شک اللہ نے ایمان والوں کی جان اور مال کو جنت کے بدلے میں خرید لیا ہے، وہ اللہ کے راستے میں لڑتے ہیں (مجرموں کو)قتل کرتے ہیں اور(خود) قتل ہو جاتے ہیں۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے:
مَنْ قَاتَلَ فِىْ سَبِيْلِ اللهِ فُوَاقَ نَاقَةٍ فَقَدْ وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ.
(سنن ابی داؤد: ج1 ص367 کتاب الجہاد. باب فیمن سئل اللہ تعالیٰ الشھادۃ)
ترجمہ: جو شخص تھوڑی دیر کے لیے بھی اللہ تعالیٰ کے راستے میں قتال کرتا ہے تو جنت اس کے لیے واجب ہو جاتی ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے 27مرتبہ خود جہاد کا سفر کیا اور اللہ کے راستے میں لڑتے ہوئے شہید ہونے کی تمنا فرمائی ہے۔
جہاد کی اقسام:
جہاد کی دو قسمیں ہیں:
1: اقدامی جہاد 2: دفاعی جہاد
اقدامی جہاد:
کافروں کے ملک میں جا کر کافروں سے لڑنا ”اقدامی جہاد“ کہلاتا ہے۔ اقدامی جہاد میں سب سے پہلے کافروں کو اسلام کی دعوت دی جاتی ہے۔ اگر وہ اسلام قبول نہ کریں تو ان سے جزیہ طلب کیا جاتاہے اور اگر وہ جزیہ دینے سے انکارکردیں تو پھر ان سے قتال کیا جاتا ہے۔ عام حالات میں جہاد اقدامی فرض کفایہ ہے اوراگر امیر المؤمنین نفیر عام( یعنی سب کو نکلنے) کا حکم دے تو اقدامی جہاد بھی فرض عین ہو جاتا ہے۔
دفاعی جہاد:
اگر کافرمسلمانوں کے ملک پر حملہ کردیں تو ان مسلمانوں کا کافروں کے حملے کو روکنا ”دفاعی جہاد“ کہلاتا ہے۔ اگر وہ مسلمان ان کے روکنے کی طاقت نہ رکھتے ہوں اور اگر طاقت رکھتے ہوں مگر سستی کر تے ہوں تو ہمسایہ ممالک کے مسلمان ان کے حملے کو روکیں۔ جہاد دفاعی فرض عین ہے۔
فائدہ:
جہاد کرنے سے پہلے جہاد کی تربیت حاصل کرنا بھی ضروری ہے۔ جہاد کی تربیت حاصل کرنا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایاہے:
﴿وَاَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ﴾
(الانفال:60)
ترجمہ: اور کافروں کے ساتھ لڑنے کے لیے جتنی قوت حاصل کر سکتے ہو، کرو۔
[4]: عورت کی تکفین کے مسائل
عورت کا مسنون کفن
1: ازار:سر سے پاؤں تک(مردوں کی طرح)
2: لفافہ:ازار سے لمبائی میں ایک ذراع(ڈیڑھ فٹ)زیادہ
3: کرتہ:بغیر آستین اور کلی کے ایسا کرتہ جو گردن سے پاؤں تک ہو۔
4: سینہ بند:بغل سے رانوں تک ہوتو اچھا ہے ورنہ ناف تک بھی درست ہے اورچوڑائی میں اتنا ہوکہ بندھ جائے۔
5: سربند:اسے خماریااوڑھنی بھی کہتے ہیں،یہ تین ہاتھ لمبا ہوناچاہیے۔
خلاصہ: عورت کے کفن میں تین کپڑے توبعینہ وہی ہیں جومرد کے لیے ہوتے ہیں البتہ دوکپڑے زائد ہیں ؛سینہ بند اورسربند۔
عورت کی تکفین کا مسنون طریقہ:
عورت کے لیے پہلے لفافہ بچھا کراس پرسینہ بند اوراس پر ازار بچھائیں۔ پھر قمیص کا نچلا نصف حصہ بچھا دیں اوراوپر کاباقی نصف حصہ سمیٹ کر سرہانے کی طرف رکھ دیں۔ پھر میت کو غسل کے تختے سے آرام سے اٹھا کر اس بچھے ہوئے کفن پر لٹادیں اورقمیص کا جونصف حصہ سرہانے کی طرف رکھا تھا اس کواس طرح سر کی طرف الٹ دیں کہ قمیض کاسوراخ(گریباں)گلے میں آجائے اورپیروں کی طرف بڑھا دیں۔ جب قمیض پہناچکیں توجو تہبند غسل کے بعد عورت کے بدن پر ڈالا گیا تھا وہ نکال دیں اور اس کے سر پر عطر وغیرہ کوئی خوشبولگادیں۔ عورت کو زعفران بھی لگا سکتے ہیں۔
پھراعضائے سجدہ(پیشانی،،ناک، دونوں ہتھیلیوں،دونوں گھٹنوں اوردونوں پاؤں)پر کافور مل دیں،پھر سر کے بالوں کودوحصے کر کے قمیض کے اوپر سینے کی طرف ڈال دیں، ایک حصہ داہنی طرف اوردوسرا باہنی طرف۔ پھر سر بند یعنی اوڑھنی سر پر اوربالوں پر ڈال دیں۔ ان کوباندھنایا لپیٹنانہیں چاہیے۔
اس کے بعد میت کے اوپر ازار اس طرح لپیٹیں کہ بایاں کنارہ نیچے اوردایاں کنارہ اوپر رہے۔ اس کے بعد سینہ بندسینوں کے اوپر بغلوں سے نکال کرگھٹنوں تک دائیں بائیں باندھیں۔ پھرلفافہ اس طرح لپیٹیں کہ بایاں پلہ نیچے اوردایاں اوپررہے اس کے بعد کپڑے کی کترن سے کفن کو سر اورپاؤں کی طرف سے باندھ دیں اوربیچ میں کمر کے نیچے کوبھی ایک بڑی دھجی نکال کرباندھ دیں تاکہ ہلنے سے کھل نہ جائے۔
[5]: دشمن سے مقابلے کے وقت کی دعا
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا میدانِ جہاد جب دشمن سے مقابلہ ہوتا تو آپ یہ دعائیں پڑھتے تھے:
1: أَللّٰهُمَّ أَنْتَ عَضُدِىْ وَنَصِيْرِىْ، بِكَ أَحُوْلُ وَبِكَ أَصُوْلُ وَبِكَ أُقَاتِلُ.
(سنن ابی داؤد: ج1ص353 کتاب الجہاد. باب ما یُدعیٰ عند اللقاء)
ترجمہ: اے اللہ! تو ہی میرا بازو (قوت) ہے اور تو ہی میرا مددگار ہے، تیری ہی توفیق سے میں برائی سے بچتا ہوں اور تیری ہی مدد سے میں حملہ کرتا ہوں اور تیری ہی مدد سے میں لڑتا ہوں۔
2: أَللّٰهُمَّ مُنْزِلَ الْكِتَابِ وَمُجْرِىَ السَّحَابِ وَهَازِمَ الْأَحْزَابِ! اهْزِمْهُمْ وَانْصُرْنَا عَلَيْهِمْ.
(سنن ابی داؤد: ج1ص353 کتاب الجہاد. باب فى كراہیۃ تمنى لقاء العدو)
ترجمہ: اے کتاب نازل کرنے والے،بادلوں کو چلانے والے اور لشکروں کو شکست دینے والے اللہ! ان (دشمنوں) کو شکست دے اور ہمیں ان پر غالب فرما!