تینتیسواں سبق

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
تینتیسواں سبق
[1]: حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان کی طرف اٹھا یا جانا
﴿وَقَوْلِهِمْ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُوْلَ اللهِ ۚ وَمَا قَتَلُوْهُ وَمَا صَلَبُوْهُ وَلٰكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ ۭ وَاِنَّ الَّذِيْنَ اخْتَلَفُوْا فِيْهِ لَفِيْ شَكٍّ مِّنْهُ ۭ مَا لَهُمْ بِهٖ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ ۚ وَمَا قَتَلُوْهُ يَقِيْنًا ؁ بَلْ رَّفَعَهُ اللهُ اِلَيْهِ ۭ وَكَانَ اللهُ عَزِيْزًا حَكِيْمًا؁﴾
(النساء: 157، 158)
ترجمہ: (یہود اس لیے ملعون ہوئے کہ) انہوں نے کہا تھا کہ ہم نے اللہ کے رسول مسیح عیسیٰ بن مریم کو قتل کر دیا تھا حالانکہ نہ انہوں نے عیسیٰ کو قتل کیا تھا اور نہ ہی انہیں صلیب پر لٹکا پائے تھے بلکہ انہیں اشتباہ ہوگیا تھا۔ جن لوگوں نے اس بارے میں اختلاف کیاہے وہ دراصل شک کا شکار ہیں، ان کے پاس اس معاملہ میں کوئی (یقینی) علم نہیں ہے بلکہ یہ لوگ محض گمان کی پیروی کر رہے ہیں۔ یقیناً انہوں نے عیسیٰ کو قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے انہیں اپنے پاس اٹھا لیا تھا اور اللہ غالب، بڑی حکمت والا ہے۔
فائدہ:
یہ بات مسلَّم ہے کہ یہود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جانی دشمن تھے اور انہوں نے آپ کو قتل کرنے کی سازش کی لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی سازش کو نا کام بنا دیا۔ وہ نہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کرسکے اور نہ ہی صلیب پر لٹکاسکے۔یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ ”صلیب پر لٹکایا گیا ہو لیکن قتل نہ کر پائے ہوں“ کیونکہ اس دور میں صلیب پر ہی لٹکا کر قتل کیا جاتا تھا۔ جب قرآن نے قتل کی نفی کی تو معلوم ہوا کہ صلیب پر قتل نہیں کیے گئے اور جب صلیب کی نفی کی تو معلوم ہو اکہ صلیب پر لٹکائے بھی نہیں گئے۔
[2]: حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان سے نزول
عَنْ أَبِیْ هُرَيْرَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: "كَيْفَ أَنْتُمْ إِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْيَمَ مِنَ السَّمَاءِ فِيْكُمْ وَإِمَامُكُمْ مِنْكُمْ."
(کتاب الاسماء والصفات للبیہقی: ج2 ص166 باب قول الله عز وجل "إني متوفيك ")
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری خوشی کا اس وقت کیا عالم ہوگا جب حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام تم میں آسمان سے نازل ہوں گے اور تمہاراامام تم میں سے ہوگا۔(یعنی امام مہدی کی اقتداء کریں گے)
تنبیہ1: اس حدیث میں لفظ ”مِنَ السَّمَآءِ“ کی صراحت ہے یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نازل ہوں گے۔
تنبیہ2: اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت مہدی علیہ الرضوان دو الگ الگ شخصیتیں ہیں۔
[3]: نزول عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کا عقیدہ
قیامت کی علامات کبریٰ میں سے تیسری علامت قیامت کے قریب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان سے نازل ہونا اور دجال کو قتل کرنا ہے۔ یہ عقیدہ حق اور سچ ہے اور قرآن کریم، احادیث متواترہ اور اجماع امت سے ثابت ہے۔ اس کی تصدیق کرنا اور اس پر ایمان لانا فرض ہے۔
کانے دجال کا خروج ہو چکا ہوگا اور امام مہدی دمشق کی جامع مسجد میں نماز فجر کے لیے تیاری میں ہوں گے۔ یکایک عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے دمشق کی جامع مسجد کے شرقی منارہ پر دو فرشتوں کے بازوؤں پر ہاتھ رکھے ہوئے نزول فرمائیں گے اورنماز سے فراغت کے بعد امام مہدی کی معیت میں دجال پر چڑھائی کریں گے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے سانس میں یہ تاثیر ہو گی کہ کافر اس کی تاب نہ لا سکے گا۔ اس کے پہنچتے ہی مر جائے گا اور دجال حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دیکھتے ہی ایسا پگھلنے لگے گا جیسے نمک پانی میں پگھل جاتا ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام دجال کا تعاقب کریں گے اور ’’باب لد ‘‘پر جا کر اس کواپنے نیز ہ سے قتل کریں گے اور اس کا خون مسلمانوں کو دکھائیں گے۔ اس کے بعد لشکر اسلام دجال کے لشکر کا مقابلہ کرے گا۔ جو یہودی ہوں گے ان کو خوب قتل کرے گا اور اس طرح زمین دجال اور یہود کے ناپاک وجود سے پاک ہوجائے گی جن کا دعویٰ یہ تھا کہ ہم نے اللہ کے رسول حضرت عیسی ابن مریم علیہ السلام کو قتل کردیا تھا۔اب وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اب تک آسمان پر زندہ تھے اور اب آسمان سے ہمارے قتل کے لیے زمین پر اتر ے ہیں۔
فائدہ:
حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور امام مہدی دو الگ الگ شخصیات ہیں:
ظہور مہدی اور نزول عیسیٰ بن مریم کے بارہ میں جو احادیث آئی ہیں ان سے یہ امر روزروشن کی طرح واضح ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور امام مہدی دو علیحدہ علیحدہ شخصیتیں ہیں۔ صحابہ کرام اور تابعین عظام کے وقت سے لے کر اس وقت تک کوئی اس کا قائل نہیں ہوا کہ نازل ہونے والا مسیح اورظاہر ہونے والا مہدی ایک ہی شخص ہوں گے۔ کیونکہ …
1: حضرت عیسی ابن مریم نبی اور رسو ل ہیں اور امام مہدی امت محمدیہ کے خلیفہ ہو ں گے، نبی نہ ہوں گے۔
2: حضرت مسیح بن مریم حضرت مریم کے بطن سے بغیر باپ کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے تقریباً چھ سو(600) سال پہلے بنی اسرا ئیل میں پیدا ہوئے اور امام مہدی قیامت کے قریب مدینہ منورہ میں پیدا ہوں گے، ان کے والد کا نام عبداللہ ہوگا۔
3: حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام بنی اسرا ئیل میں سے ہیں اور امام مہدی حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کی اولا د سے ہوں گے۔
شبہ:
ایک روایت میں آیا ہے کہ
”لَا مَھْدِیَّ اِلَّا عیسی ابن مَرْیَمَ“
کہ حضرت عیسی ابن مریم علیہ السلام کے علاوہ کوئی مہدی نہیں۔
اس روایت سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام اور حضرت مہدی دونوں ایک ہی شخص ہیں۔
جواب:
اولاً․․․ یہ روایت محدثین کے نزدیک ضعیف اور غیر مستند ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر نے فتح الباری شرح البخاری (ج 6 ص 385 ) میں اس کی تصریح کی ہے۔
ثانیاً․․․ یہ روایت ان بے شماراحادیث صحیحہ اور متواترہ کے خلاف ہے جن سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور امام مہدی کا دو شخص ہونا خوب ظاہر ہے اور متواتر کے مقابلہ میں ضعیف اور منکر روایت معتبر نہیں ہوتی۔
[4]: گفتگو سے متعلق سنن وآداب
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا﴾
(البقرۃ:83)
ترجمہ: لوگوں سے اچھے طریقے سے بات کیا کرو۔
حضرت عبدالرحمن بن ابی قراد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جوشخص اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسو ل (صلی اللہ علیہ وسلم) سے محبت کرے یا اللہ تعالیٰ اوراس کا رسو ل (صلی اللہ علیہ وسلم) اس سے محبت کریں تو اسے چا ہیے کہ جب با ت کر ے تو سچ بولے، جب اس کے پاس کوئی امانت رکھے توا س کو (واپس مانگنے پر اسے) اداکرے اور اپنے پڑوسی کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔
(شعب الایمان:ج2 ص201حدیث نمبر1533)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ سب سے بہتر شخص کون ساہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کا دل مخموم ہواور زبان سچ بولتی ہو۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ سچی زبان والا تو ہمیں معلوم ہے لیکن یہ مخموم دل والے سے کیا مراد ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مخموم دل والے سے مراد ایسا پرہیز گار اور پاک صاف شخص ہے جس کے دل میں نہ گناہ ہو، نہ بغاوت، نہ کسی سے کینہ اور نہ کسی کے ساتھ حسد۔
(سنن ابن ماجۃ:ص311کتاب الزہد․ باب الورع والتقویٰ)
حضرت سفیان بن عبداللہ الثقفی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میرے بارے میں آپ کو کس چیز کا زیادہ ڈر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ز بان مبارک پکڑکر فرمایا:’’اس کا۔‘‘ (یعنی انسان کو اپنی گفتگو میں بہت زیادہ محتاط رہنا چاہیے)
(سنن الترمذی:ج2 ص 66 ابواب البر والصلۃ․ باب ما جاء فی حفظ اللسان)
بات کرنے کے آداب:
1: ضرورت کے وقت بات کرنا۔
2: ہمیشہ سچ بولنا۔
3: مختصر بات کرنا۔
4: دوسروں کی زیادہ سننا۔
5: پست آوازمیں بولنا، زیادہ بلند آواز سے نہ بولنا۔
6: بات نرمی سے کرنا۔
7: عورت کو کسی غیر محرم سے بات کرنے کی ضرورت پیش آئے تو نرم لہجہ اختیار نہ کرنا۔
8: بات کرنے سے پہلے اس کا انجام سوچنا۔
9: سوال غور سے سن کر سوچ سمجھ کرجواب دینا یعنی جواب دینے میں جلد بازی نہ کرنا۔
10: فضول سوالا ت سے پرہیز کرنا۔
11: بری باتیں نہ کرنا۔
12: گفتگو میں اپنی بڑائی نہ جتانا۔
13: بات بات پر قسم نہ کھانا۔
14: جھوٹ نہ بولنا۔
15: جھوٹا وعدہ نہ کرنا۔
16: دوسروں کی برائی بیان نہ کرنا چغلی نہ کھانا، شکا یتیں نہ کرنا، دوسروں کی نقلیں نہ اتارنا۔
17: خوشامد اور چاپلوسی کی باتیں نہ کرنا۔
18: کسی کے سامنے اس کی تعریف نہ کرنا۔
19: کسی کوگالی نہ دینا۔
20: بات بات پر نہ لڑنا۔
21: کسی جاہل سے پالا پڑجائے تو خاموشی سے وہاں سے رخصت ہو نا۔
22: کسی کو ذلت کے نام سے نہ پکارنا،کسی کا مذاق نہ اڑانا۔
23: بات کرتے ہوئے کسی کے لیے ملعون، فاسق اوربے ایمان کے الفاظ استعمال نہ کرنا۔
24: غصے کی حالت میں خاموشی اختیار کرنے کی کوشش کرنا کہ بسااوقات ایسی حالت میں زبان بے قابوہوجاتی ہے۔
25: غصہ آنے پر
”اعوذباللہ من الشیطن الرجیم“
پڑھنا اور اپنی ہیئت کوبدلنا یعنی اگر کھڑے ہیں تو بیٹھ جائیں اور بیٹھےہوئے ہیں تو لیٹ جائیں اور اگر اس سے بھی با ت نہ بنے تو وضو کرلیں۔
26: گفتگو کرتے ہوئے کسی طرف اشارہ نہ کرناکہ اس سے دوسروں کو بدگمانی پیدا ہوتی ہے۔
[5]: اچھا سلوک کرنے والے کے لیے دعا
جَزَاکِ اللہُ خَیْراً․
(سنن الترمذی: ج2 ص23 کتاب البر والصلۃ․ باب ما جاء فی المتشبع بما لم یعطہ)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ تجھے (اس سلوک کا) اچھا بدلہ دے۔