چھتیسواں سبق

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
چھتیسواں سبق
[1]: حقوق والدین
﴿وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا ۭ اِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَآ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَآ اُفٍّ وَّلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا ؁ وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيٰنِيْ صَغِيْرًا؁﴾
(بنی اسرائیل:23، 24)
ترجمہ: اور تمہارے رب نے یہ حکم دیا ہے کہ اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو، اگر والدین میں سے کوئی ایک یا دونوں تمہارے پاس بڑھاپے کی حالت کو پہنچ جائیں تو انہیں اف تک نہ کہو اور نہ انہیں جھڑکو، بلکہ ان کے ساتھ ادب سے بات کیا کرو اور ان کے سامنے شفقت سے انکسار ی کے ساتھ جھکے رہو اور دعاکیا کرو کہ اے پروردگا ر! ان دونوں پر رحمت فرما جس طرح انہوں نے مجھے بچپن میں پالا ہے۔
[2]: فضیلتِ دعا
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "ألدُّعَاءُ مُخُّ الْعِبَادَةِ․" وَفِی رِوَایَۃٍ أَنَّہٗ قَالَ: "ألدُّعَاءُ هُوَ الْعِبَادَةُ"
(سنن الترمذی:ج 2ص 175ابواب الدعوات باب ما جاء فی فضل الدعاء)
ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: دعا عبادت کامغز ہے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ دعا بذات خود عبادت ہے۔
[3]: دآبۃ الارض کانکلنا
قیامت کی ایک بڑی نشانی زمین سے دآبۃالارض کانکلناہے، جونص قرآنی سے ثابت ہے:
﴿وَاِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ اَخْرَجْنَا لَهُمْ دَآبَّةً مِّنَ الْاَرْضِ تُكَلِّمُهُمْ ۙ اَنَّ النَّاسَ كَانُوْا بِاٰيٰتِنَا لَا يُوْقِنُوْنَ﴾
(النمل:82)
ترجمہ: اورجب ہماری بات پوری ہونے کا وقت ان لوگوں کے پاس آ پہنچے گا (یعنی قیامت قریب ہو گی) تو ہم ان کے لیے زمین سے ایک جانور نکالیں گے جو ان سے باتیں کرے گا (یہ جانور ہم اس لیے نکالیں گے) کہ لوگ ہماری آیتوں پر یقین نہیں رکھتے تھے۔
جس روز آفتاب مغرب سے طلوع ہو گااسی دن یہ عجیب الخلقت جانور زمین سے نکلے گا۔مکہ مکرمہ کا ایک پہاڑ جس کو’’ صفا‘‘ کہتے ہیں، وہ پھٹے گا اوراس میں سے یہ عجیب الخلقت جانور نکلے گا۔
جس طرح اللہ نے اپنی قدرت سے حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کو پتھر سے نکالا تھا اسی طرح اپنی قدرت سے قیامت کے قریب زمین سے یہ جانور نکالیں گے جولوگوں سے کلام کرے گا اورقیامت کی خبردے گا۔مومنین کے چہروں پر ایک نورانی نشانی لگائے گا جس سے ان کے چہرے روشن ہوجائیں گے اورکافروں کی آنکھوں کے درمیان ایک مہر لگائے گاجس سے ان کے چہرے سیاہ ہوجائیں گے۔ حسب ارشاد باری تعالیٰ
﴿وَامْتَازُوا الْیَوْمَ اَیُّھَا الْمُجْرِمُوْنَ﴾
( اے مجرم لوگو!آج الگ ہوجاؤ)مسلم اور مجرم کا امتیازاس طرح شروع ہوجائے گا اورپورا امتیاز حسا ب وکتاب کے بعدہوگا۔
[4]: والدین کے ساتھ برتاؤ کے آداب
حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ جس گناہ کے بارے میں چاہتے ہیں اس کی سزا کو قیامت تک موخر فرما دیتے ہیں سوائے والدین کی نافرمانی کے گناہ کے، اس کی سزا انسان کو دنیا میں ہی مل جاتی ہے۔
( المستدرک علی الصحیحین للحاکم:ج5 ص 217 حدیث نمبر7345)
آداب:
1: والدین کی دل وجان سے اطاعت کرنااگرچہ وہ زیادتی بھی کرتے ہوں اور ان کے عظیم احسانات کو پیش نظر رکھ کر ان کے وہ مطالبے بھی خوشی خوشی سے پورے کرنا جو آپ کے ذوق اور مزاج پر گراں ہوں بشرطیکہ وہ دین کے خلاف نہ ہوں۔
2: جو کام شرعا ًواجب ہوں اور والدین ان سے منع کریں تو ان کی اطاعت جائز نہیں۔ مثلاً فرض علم کے لیے یا فرض حج کے لیے والدین نہ جا نے دیں تو ان کی اطاعت جائز نہیں البتہ اگر والدین کی خدمت کے لیے کوئی نہ ہو تو حج کو مؤخر کرنے کی گنجائش ہے۔
3: جو کام شرعاً نا جائز ہو اور ماں باپ ان کے کرنے کا حکم دیں تو بھی ان کی اطاعت جائز نہیں مثلا ًناجائز ملازمت اختیا ر کرنے کا حکم دیں۔
4: والدین کے ساتھ عاجزی اور انکساری سے پیش آنا۔
5: والدین کے رشتہ داروں کے ساتھ برابر نیکی کا سلوک کرتے رہنا۔
6: والدین کو نام لے کر نہ پکارنا۔
7: والدین پر دل کھول کر خرچ کرنا۔
8: ان سے پہلے نہ بیٹھنا۔
9: ماں باپ کے لیے برابر دعائیں کرتے رہنا۔
10: والدین کو برابھلا نہ کہنا، ان کی شان میں گستاخی نہ کرنا۔
11: کسی کے والدین کو گالی نہ دینا کیونکہ یہ اپنے والدین کو گالی دینے کے مترادف ہے اورگناہ کبیرہ ہے۔
12: اگر کوئی و الدین کے مرنے بعد ان کے ساتھ اچھا سلو ک کرناچاہتا ہو تو ان کے حق میں استغفار کرے اور ان کے رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرے جن کے ساتھ رشتہ داری صرف انہی کی وجہ سے ہو۔
13: بڑے بھائی اور چچا کے ساتھ باپ کی طرح اور چھوٹے بھائی کے ساتھ اولاد کی طرح سلو ک کرنا۔ ایسے ہی بڑی بہن کا والدہ کی طرح احترام کرنا اور چھوٹی بہن پر اولا د کی طرح شفقت کرنا۔
14: اگر کسی وجہ سے والدین ناراض ہو جائیں توا ن سے معافی مانگ کر ان کوراضی کرنے کی کوشش کرنا۔
15: سفر کے دوران ان کے پیچھے پیچھے چلنا، ہاں اگر کوئی خطرہ ہو تو ان سے آگے چلنا چاہیے۔
[5]: شیطانی وسوسوں کی زیادتی کے وقت کی دعا
آمَنْتُ بِاللهِ وَرُسُلِهٖ.
(صحیح مسلم: ج1 ص 79 کتاب الایمان․ باب بیان الوسوسۃ فی الایمان وما یقولہ من وجدھا)
ترجمہ: میں اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائی۔