اڑتیسواں سبق

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
اڑتیسواں سبق
[1]: چہرہ کا پردہ بھی ضروی ہے
﴿يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ وَنِسَآءِ الْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّ ۭ﴾
(الاحزاب:59)
ترجمہ: اے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم)! آپ اپنی بیویوں سے اور اپنی صاحبزادیوں سے اورمسلمانوں کی عورتوں سے فرمادیجیے کہ( جب مجبوری کی بنا پر گھر سے باہر جانا پڑے تو)اپنے چہروں کے اوپر( بھی) چادر کا حصہ لٹکالیاکریں۔
فائدہ:
اس آیت سے چند امور ثابت ہوئے:
اول: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں اورصاحبزادیوں کے ساتھ دیگر مسلمان عورتوں کو بھی پورا بدن اورچہرہ ڈھانپ کر نکلنے کے حکم میں شریک فرمایا گیا ہے۔ اس سے بھی ان لوگوں کی خام خیالی کی واضح طور پر تردید ہوتی ہے جو یہ باطل دعوی کرتے ہیں کہ پردہ کا حکم صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کے لیے مخصوص تھا۔
دوم: پردہ کے لیے چہرہ پر چادر لٹکانے کاحکم ہے۔ اس سے ان کم علم اورگمراہ تجددپسندلوگوں کے دعووں کی تردید ہوتی ہے جو کہتے ہیں کہ عورتوں کو چہرہ چھپا کر نکلنے کا حکم اسلام میں نہیں ہے۔
تفسیر ابن کثیر میں آیت بالا کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی االلہ عنہما کا ارشادنقل کیا گیا ہے:
اَمَرَ اللّٰہُ نِسَآئَ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذَا خَرَجْنَ مِنْ بُیُوْتِھِنَّ فِیْ حَاجَۃٍ اَنْ یُّغَطِّیْنَ وُجُوْھَھُنَّ مِنْ فَوْقِ رُؤُ سِھِنَّ بِالْجَلاَبِیْبِ وَیُبْدِیْنَ عَیْناً وَاحِدَۃً․
(تفسیر ابن کثیر:ج6ص482)
ترجمہ: اللہ نے مومنین کی عورتوں کو حکم دیا ہے کہ جب کسی مجبوری سے اپنے گھروں سے نکلیں تو ان چادروں سے چہروں کو ڈھانپ لیں جوسروں کے اوپر بڑی چادر اوڑھ رکھی ہیں اورراہ چلنے کے لیے صرف ایک آنکھ کھلی رکھیں۔
سوم: پردہ کے لیے ’’جلباب‘‘ استعمال کرنے کا حکم ہے۔ عربی زبان میں ’’جلباب‘‘ بڑی چادر کو کہتے ہیں جسے عرب کی عورتیں اپنے پہننے کے کپڑوں کے اوپر لپیٹ کر باہر نکلتی تھیں۔ قرآن شریف کی آیت بالامیں حکم دیاگیا ہے کہ عورتیں جس طرح ’’جلباب ‘‘اعضا جسم پر اور پہنے ہوئے کپڑوں پرلپیٹتی ہیں اس طرح چہروں پر بھی اس کا ایک حصہ لٹکا لیا کریں۔اس طرح چادر لپیٹنے کارواج بعض علاقوں کی عورتوں میں اب تک ہے اور برقع اسی ’’جلباب‘‘ کی ایک ترقی یافتہ شکل ہے۔ برقع کی نسبت یہ کہنا کہ شریعت اسلامیہ میں اس کی کوئی اصل نہیں، سراسر جہالت ہے۔ برقع کا ثبوت
”يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّ ۭ“
سے ہورہا ہے۔
بعض نادان جو یہ کہتے ہیں کہ یہ حکم ہنگامی حالت کے لیے تھا، اس وقت منافقین شرارت کرتے تھے، جب منافقین کی سرکوبی ہوگئی اور ان سے خطرہ نہ رہا تو یہ حکم بھی منسوخ ہوجانا چاہیے۔
جواب اس کا یہ ہے کہ فتنہ وفساد کوروکنے کے لیے یہ حکم دیا گیا تھا اورآج کل کے ماحول میں تو فتنہ وفسادبہت زیادہ ہے، عصمت وعفت کے دشمن بڑھ گئے ہیں، جوبدنظر اور بد نفس ہیں وہ بدباطنی کے باعث عورتوں کوتاکتے جھانکتے اورپریشان کرتے رہتے ہیں تو ان حالات میں اس حکم کی اہمیت اورزیادہ بڑھ جاتی ہے۔ آیت کا سبب نزول جو بھی ہولیکن اس کا حکم عام ہواکرتا ہے۔
[2]: مصیبت کے وقت بھی پردہ لازم
عَنْ قَيْسِ بْنِ شَمَّاسٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ جَاءَتِ امْرَأَةٌ إِلَى النَّبِىِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ يُقَالُ لَهَا أُمُّ خَلَّادٍ وَهِىَ مُنْتَقِبَةٌ تَسْأَلُ عَنِ ابْنِهَا وَهُوَ مَقْتُوْلٌ، فَقَالَ لَهَا بَعْضُ أَصْحَابِ النَّبِىِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: جِئْتِ تَسْأَلِينَ عَنِ ابْنِكِ وَأَنْتِ مُنْتَقِبَةٌ؟! فَقَالَتْ: إِنْ أُرْزَأَ ابْنِيْ فَلَنْ أُرْزَأَ حَيَائِيْ. فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: "إِبْنُكِ لَهُ أَجْرُ شَهِيْدَيْنِ". قَالَتْ: وَلِمَ ذَاكَ يَا رَسُوْلَ اللهِ؟ قَالَ: "لِأَنَّهُ قَتَلَهُ أَهْلُ الْكِتَابِ".
(سنن ابی داؤد:ج1 ص 359 کتاب الجہاد باب فضل قتال الروم علی غیرہم من الامم )
ترجمہ: حضرت قیس بن شماس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک صحابیہ جن کو ”ام خلاد“ کہا جاتا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنے بیٹے کے متعلق معلومات حاصل کرنے کی غرض سے حاضر ہوئیں،ان کا بیٹاکسی غزوہ میں شہید ہوگیا تھا۔ جب وہ آئیں تو اپنے چہرے پر نقاب ڈالے ہوئے تھیں۔ ان کا یہ حال دیکھ کر کسی صحابی نے کہا:’’ تم اپنے بیٹے کاحال معلوم کرنے آئی ہو اورنقاب ڈالے ہوئے ہو؟‘‘ حضرت ام خلاد ؓ نے جواب دیا:’’ اگرچہ میں اپنے بیٹے کے بارے میں مصیبت زدہ ہوگئی ہوں لیکن اپنی شرم وحیا کھوکر ہرگز مصیبت زدہ نہ بنوں گی۔‘‘ (حضرت ام خلاد رضی اللہ عنہا) کے پوچھنے پر) حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا:’’ تمہارے بیٹے کے لیے دوشہیدوں کا ثواب ہے۔‘‘ انہوں نے عرض کیا:’’یارسول اللہ! وہ کیوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’اس لیے کہ اسے اہل کتاب نے قتل کیاہے۔
[3]: علامت قیامت ؛ آگ نکلنےکا بیان
قیامت کی آخری نشانی یہ ہے کہ وسط عدن سے ایک آگ نکلے گی جو لوگوں کو گھیر کر ملک شام کی طرف ہانک کر لائے گی جہاں مرنے کے بعد حشرہوگا(یعنی قیامت میں جو نئی زمین بنائی جائے گی اس کا وہ حصہ جو موجودہ زمین کے ملک شام کے مقابل ہوگا)یہ آگ لوگوں سے دن رات میں کسی وقت جدا نہ ہوگی اور جب صبح ہوگی اور آفتاب بلندہو جائے گاتو یہ آگ لوگوں کو ہانک لے جائے گی۔ جب لوگ ملک شام میں پہنچ جائیں گے تو یہ آگ غائب ہو جائے گی۔
سنن ابی داؤد میں حضرت حذیفہ بن اسید غفاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت کی دس علامتیں بیان فرمائیں، ان میں سے آخری علامت یہ ہے:
"وَآخِرُ ذٰلِكَ تَخْرُجُ نَارٌ مِنَ الْيَمَنِ مِنْ قَعْرِ عَدَنَ تَسُوْقُ النَّاسَ إِلَى الْمَحْشَرِ".
(سنن ابی داؤد:ج 2 ص243 کتاب الملاحم․ باب امارات الساعۃ)
اور آخری علامت یہ ہو گی کہ وسط عدن سے ملک یمن میں ایک آگ ظاہر ہو گی جو لوگوں کو میدانِ حشر (یعنی سر زمین شام) کی طرف ہانک کر لے جائے گی۔
اس کے بعد کچھ عرصہ دنیاوی اعتبار سے نہایت عیش وآرام سے گزرے گا۔کفر اور بت پرستی پھیل جائے گی اورزمین پرکوئی خدا کانام لینے والا باقی نہ ہو گا۔اس وقت قیامت قائم ہو گی اورحضرت اسرافیل کوصور پھونکنے کاحکم ہوگا۔
تنبیہ: اکثر احادیث میں خروج نار کو قیامت کی آخری نشانی بتایا گیاہے لیکن صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ اول نشانی قیامت کی وہ آگ ہو گی جو لوگوں کو مشرق سے مغرب کی طرف نکالے گی۔ ان دونوں روایتوں میں تطبیق یہ ہے کہ گزشتہ علامتوں کے اعتبارسے یہ آخری نشانی ہے لیکن اس اعتبار سے کہ اس علامت کے ظہور کے بعد اب دنیا کی کوئی چیز باقی نہ رہے گی بلکہ اس کے بعد متصل نفخ صور واقع ہو گا اس کو اول نشانی کہا گیا۔
[4]: خواتین کی زینت وآرائش کے احکام
1: ناخن تراشنا ۔
2: زیر ناف اور بغل کے بالوں کی صفائی۔
3: سر اور ابرو کے بالوں کی حفاظت۔
ناخن تراشنے کے مسنون ہونے پر اہل علم کا اجماع ہے۔ اس کا حکم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث مرفوع میں بھی ہے۔ ناخن کاٹنے میں نظافت اور خوبصورتی پائی جاتی ہے جبکہ انہیں بڑھانے میں بدشکل درندوں سے مشابہت پائی جاتی ہے۔ ان کے نیچے وضو غسل کے دوران پانی کا نہ پہنچنا، ان میں غلاظت وگندگی جمع ہونا وغیرہ یہ سب خرابیاں پائی جاتی ہیں۔ سنت سے ناواقفیت اور کافروں کی دیکھا دیکھی میں بعض مسلم خواتین بھی ناخن بڑھانے کے مرض میں مبتلا ہوئی ہیں۔
ناخن کاٹنے سے متعلق آداب:
1: ہر جمعہ کو ناخن تراشنا افضل ہے ورنہ پندرہ دن میں اور عذر کی حالت میں چالیس دن تک گنجائش ہے، چالیس دن کے بعد نہ کاٹنا گناہ ہے۔
2: ناخنوں کی صفائی کا اہتمام کرنا
3: ناخن تراشنے کے بعد انگلیاں دھونا
4: دانت سے ناخن نہ کاٹنا کیونکہ اس سے برص کی بیماری پیدا ہوتی ہے۔
5: ناخن کاٹنے کے بعد اسے دفن کرنا۔ اگر دفن نہ کر سکے تو مناسب جگہ پھینکنا۔
6: ناخن کاٹنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ پہلے ہاتھوں کے ناخن کاٹے پھر پاؤں کے۔ داہنے ہاتھ کی شہادت کی انگلی سے شروع کرے اور داہنے ہاتھ کی چھنگلی تک ترتیب سے کاٹے پھر بائیں ہاتھ کی چھنگلی سے ترتیب سے کاٹ کر دائیں ہاتھ کے انگوٹھے پر ختم کرے اور پاؤں میں دائیں پاؤں کی چھنگلی سے شروع کرکے بائیں پاؤں کی چھنگلی پر ختم کرے۔
زیرناف بال کاٹنے کے متعلق احکام:
1: زیر ناف بال اوربغلوں کی صفائی بھی عورتوں کے لیے مسنون ہے کیونکہ حدیث شریف میں اس کا حکم دیا گیا ہے اور اسی میں خوبصورتی اور جمال ہے۔ ہر ہفتہ صفائی کا اہتمام کیا جائے۔ یہ ممکن نہ ہو تو چالیس دن سے زیادہ انہیں نہ چھوڑاجائے۔
2: مسلم خواتین سے سر اور ابرو کے بالوں کا بڑھانا مطلوب ہے۔ بلا کسی ضرورت کے انہیں منڈوانا حرام ہے کیونکہ سنن نسائی میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو اپنے سر کے بال منڈانے سے منع فرمایا ہے۔ سر کے بالوں کو زیب وزینت کے علاوہ کسی اور مقصد کے لیے چھوٹا کرنا مثلاً ان کی حفاظت سے عورت عاجز ہو جائے یا اتنے ہوجائیں کہ عورت کے لیے تکلیف دہ ثابت ہوں توبقدر ضرورت ان کو چھوٹا کروانے میں کوئی حرج نہیں۔ اگر بالوں کو چھوٹا کرانے میں کافرو ں اورفاسقہ فاجرہ عورتوں یا مردوں سے مشابہت مقصود ہوتوحرام ہے۔ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کافروں کی مشابہت سے اورعورتوں کو مردوں کی مشابہت سے منع فرمایاہے۔
لباس کے متعلق احکام:
بہت باریک کپڑا جیسے ململ، جالی اوروہ کپڑا جس میں جسم جھلکتا ہو پہننا جائز نہیں ہے۔ کیونکہ اس طرح کپڑا پہننا اور نہ پہننا دونوں برابر ہیں۔ حدیث مبارک میں آیا ہے کہ بہت سی کپڑے پہننے والی عورتیں قیامت کے دن برہنہ شمارہوں گی۔ اس سے ایسے کپڑے پہننے والی عورتیں مراد ہیں جو باریک کپڑا پہنتی ہیں یا پھر ان کے کپڑے اس قدر چست اور تنگ ہوتے ہیں کہ جسم نمایاں بھی نظر آتا ہے۔ ہاں! اگر باریک کپڑے کے نیچے شمیض وغیرہ پہن لے کہ جسم نظر نہ آئے تو پھر منع نہیں ہے۔ اسی طرح عورتوں کو مردانہ جوتا، کپڑا وغیرہ پہننا اورمردانہ وضع قطع رکھنا بھی جائز نہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے۔
[5]: آئینہ دیکهنے کی دعا
أَللّٰهُمَّ كَمَا حَسَّنْتَ خَلْقِیْ فَحَسِّنْ خُلُقِیْ․
(اخلاق النبی لابی الشیخ الاصبہانی: ص148 ذكر مرآتہ ومشطہ وتدہین رأسہ صلى الله علیہ وسلم)
ترجمہ: اے اللہ!جس طرح آپ نےمیری شکل اچھی بنائی ہے اسی طرح میرے اخلاق بھی اچھے بنا۔