بارھواں سبق

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
بارھواں سبق
[1]: صداقتِ قرآن
﴿قُلْ لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلٰى اَنْ يَّاْتُوْا بِمِثْلِ هٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا يَاْتُوْنَ بِمِثْلِهٖ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيْرًا﴾
(بنی اسرائیل:88)
ترجمہ: آپ فرمادیں کہ اگر تمام انسان وجنات اس جیسا قرآن لانے پر جمع ہوجائیں توبھی اس جیسا قرآن نہیں لاسکتے چاہے وہ اس کے لیے ایک دوسرے کے مددگار بن جائیں۔
[2]: اذان اوراقامت کا مسنون طریقہ
عَنِ الْأَسْوَدِ عَنْ بِلَالٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ أَنَّهُ كَانَ يُثَنِّي الْأَذَانَ وَيُثَنِّي الْإِقَامَةَ․
(شرح معانی الآثار للطحا وی: ج 1ص101 کتاب الصلاۃ باب الاقامۃ کیف ھی؟)
ترجمہ: حضرت اسود (بن یزید النخعی التابعی) رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں حضرت بلال رضی اللہ عنہ اذان اور اقامت کے کلمات کو دودو مرتبہ کہا کرتے تھے۔
[3]: آسمانی کتب کے متعلق عقائد
کتبِ سماویہ:
جس زمانے میں جس نبی پر جوکتاب اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی و ہ برحق اور سچی تھی، جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر تورات، حضرت داود علیہ السلام پر زبور، حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر انجیل اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کریم نازل فرمایا۔ البتہ باقی کتابیں منسوخ ہوچکی ہیں اور اب قیامت تک کے لیے کتب سماویہ میں سے واجب الاتباع اور نجات کا مدار صرف قرآن کریم ہی ہے۔
صداقت ِقرآن:
سورۃ الفاتحہ سے لے کر و الناس تک قرآنِ کریم کا ایک ایک لفظ محفوظ ہے اس میں ایک بھی لفظ بلکہ حرف کے انکا ریا تحریف کا عقیدہ رکھنا کفر ہے۔
[4]: اذان واقامت کے مسائل و احکام
(1): پہلے وضو کیا جائے۔ اگر اسپیکر ہو تو ٹھیک ورنہ بلند مقام پر قبلہ رخ ہو کر شہادت کی انگلیوں سے کانوں کے سوراخوں کو بند کر کے بلند آواز سے اذان کہی جائے۔
(2): اذان اور اقامت کہنےمیں یہ فرق ملحوظ ہوتے ہیں:
٭ اذان ٹھہر ٹھہر کر جبکہ اقامت جلدی جلدی کہی جاتی ہے۔
٭ اذان میں ہر جملہ الگ الگ جبکہ اقامت میں دو دو جملے ملا کر پڑھے جاتے ہیں اور ہر جملے کے آخری حرف کو سکون یعنی جزم کے ساتھ وقف کیے بغیر پڑھا جائے گا۔
(3): اذان کے کل کلمات 15 ہیں جو درج ذیل ہیں:
اَللّٰہُ اَکْبَرْ اَللّٰہُ اَکْبَرْ اَللّٰہُ اَکْبَرْ اَللّٰہُ اَکْبَرْ
اَشْھَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ اَشْھَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ
اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہ
حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃ حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃ
حَیَّ عَلَی الْفَلاَح حَیَّ عَلَی الْفَلاَح
اَللّٰہُ اَکْبَر اَللّٰہُ اَکْبَر لَا اِلٰہَ اِلَّااللّٰہ
فجرکی اذان میں ”حَىَّ عَلَى الْفَلاَح“ کے بعد
”أَلصَّلوٰةُ خَيْرٌ مِّنَ النَّوْم أَلصَّلوٰةُ خَيْرٌ مِّنَ النَّوْم“
کا اضافہ کیاجاتاہے۔
(4): اقامت کے کلمات بعینہ اذان کے کلمات کی طرح ہیں البتہ صرف ”حَىَّ عَلَى الْفَلاَحِ“ کے بعد
”قَدْ قَامَتِ الصَّلوٰةُ قَدْ قَامَتِ الصَّلوٰةُ “
کا اضافہ کیاجاتاہے۔
(5): اذان کہنا سنت مؤکدہ علی الکفایہ ہے۔ محلے میں اگرایک شخص اذان کہے تو یہ سنت سب کی طرف سے ادا ہو جاتی ہے اور اگر بستی والے اذان چھوڑنے کا فیصلہ کر لیں تو امیر المؤمنین ان سے جنگ کر سکتا ہے۔
(6): اذان پانچ فرض نمازوں اور جمعہ کے لیے مسنون ہے، اس کے علاوہ کسی نماز کے لیے اذان کہنا جائز نہیں۔
(7): اذان کے درست ہونے کی شرائط یہ ہیں:
٭: جس نماز کے لیے اذان کہنی ہو اس نماز کا وقت ہو۔
٭: اذان عربی میں کہی جائے۔
٭: مؤذن مسلمان ہو۔
٭: مرد ہو۔
٭: عاقل ہو۔
٭: جنابت سے پاک ہو۔
(8): ان مواقع پر اذان کا جواب نہیں دینا چاہیے :
1: نماز کی حالت میں 2: خطبہ کے دوران
3: دینی اسباق کے دوران 4: کھانے پینے کے دوران
5: پیشاب پاخانہ کے دوران 6: غسل کے دوران
7: حالت حیض میں 8: حالت نفاس میں
9: جماع کے دوران
[5]: اذان کے بعد کی دعا
أَللّٰهُمَّ رَبَّ هٰذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ وَالصَّلوٰةِ الْقَائِمَةِ آتِ مُحَمَّدَ نِ الْوَسِيْلَةَ وَالْفَضِيْلَةَ وَابْعَثْهُ مَقَامًا مَحْمُودَ نِ الَّذِيْ وَعَدْتَهٗ.
(صحیح البخاری:ج1ص86 باب الدعاء عند النداء)
ترجمہ: اے اللہ! اے اس دعوت کاملہ اور اس کھڑی ہو نے والی نماز کے رب! تو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو وسیلہ اور فضیلت عطا فرما اور انہیں اس مقام محمود پر پہنچا دے جس کا تو نے ان سے وعدہ فرمایا ہے۔
نوٹ: ”وَعَدتَّہٗ“ تک صحیح البخاری میں ہے۔بیہقی کی روایت میں
” اِنَّکَ لَا تُخْلِفُ الْمِیْعَادَ“
کے الفاظ بھی قوی سند سے آئے ہیں۔ البتہ
”وَارْزُقْنَا شَفَاعَتَہٗ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ“
کے الفاظ اس موقع پر اپنی طرف سے زائد نہ کیے جائیں کیونکہ صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔