پچیسواں سبق

User Rating: 1 / 5

Star ActiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
پچیسواں سبق
[1]: ائمہ فقہاء کی تقلید کا ثبوت
﴿فَسْئَلُوْا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ﴾
(النحل:43 )
ترجمہ: اگر تم نہیں جانتے تو اہل علم سے پوچھ لو۔
امام فخر الدین محمد بن عمرالرازی (متوفیٰ604ھ) اور علامہ سید محمود آلوسی بغدادی (متوفیٰ1270ھ) نے اس آیت سے تقلید کو ثابت کیا ہے۔
(تفسیرکبیر:ج8 ص 19، روح المعانی:ج14 ص148)
[2]: عظمتِ فقیہ
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "فَقِيْهٌ وَاحِدٌ أَشَدُّ عَلَى الشَّيْطَانِ مِنْ أَلْفِ عَابِدٍ".
(سنن ابن ماجۃ:ص20 باب فضل العلماء والحث علی طلب العلم)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایک فقیہ؛ شیطان پر ایک ہزار عبادت کرنے والوں (عابدین) سے بھاری ہے۔
[3]: اجتہاد وتقلید
اکمال دین کی عملی صورت مجتہد کا اجتہاد اور مجتہد کے اجتہاد پر عمل یعنی تقلید ہے۔ پس مطلق اجتہاد اور مطلق تقلید ضروریات دین میں سے ہے جس کا انکار کفرہے البتہ متعین چار ائمہ (امام اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت، اما م مالک بن انس، امام محمد بن ادریس شافعی اور اما م احمد بن حنبل رحمھم اللہ ) کی فقہ اور تقلید کا انکار کرنا گمراہی ہے۔چونکہ حق اہل السنۃ و الجماعۃ کے مذاہب اربعہ (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) میں بند ہے اس لیے نفس پرستی اور خواہش پرستی کے اس زمانے میں چاروں اماموں میں سے کسی ایک کی تقلید واجب ہے۔
نوٹ: ہم اور ہمارے مشائخ تمام اصول وفروع میں امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمہ اللہ کے مقلد ہیں۔
اعتقادی و اجتہادی اختلاف:
اعتقادی اختلاف امت کے لیے زحمت ہے جبکہ مجتہدین کا اجتہادی اختلاف امت کے لیے رحمت ہے اور مقلدین و مجتہدین دونوں کے لیے باعثِ اجر و ثواب ہے مگر درست اجتہاد پر دو اجر ہیں اور غلط اجتہا د پر ایک اجر، بشرطیکہ اجتہاد کنندہ میں اجتہاد کرنے کی اہلیت ہو۔
اصول ِاربعہ:
دین اسلام کے اعمال و احکام اور جامعیت کے لیے اصول اربعہ؛ کتاب اللہ، سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، اجماع امت اور قیاس شرعی کا ماننا ضروری ہےاوران اصول ِ اربعہ سے ثابت شدہ مسائل کا نا م ”فقہ“ ہے، جس کا انکار حدیث کے انکار کی طرح دین میں تحریف کا بہت بڑا سبب ہے۔
[4]: میت کو غسل دینے کا مسنون طریقہ
سامان غسل:
۱: غسل کا تختہ
۲: قینچی
۳: چھوٹی چادر دو عدد
۴: صابن
۵: تولیہ دو عدد
۶: مشک اور کافور
۷: دستانے یا شاپر
۸: پانی کے 2 ٹب
۹: پانی ڈالنے کے لیے 2 ڈبے
۱۰: بیری کے پتے
۱۱: روئی
۱۲: ٹشوپیپر/ ڈھیلے
۱۳: کفن
۱۴: چارپائی
میت کو سنت کے مطابق غسل دینے میں جو مراحل پیش آتے ہیں انہیں بالترتیب تحریر کیا جاتا ہے:
1: میت کو جس تختہ پر غسل دیا جائے اس کو تین یا پانچ یا سات دفعہ لوبان کی دھونی دینی چاہیے۔ پھر میت کو اس پر اس طرح لٹائیں کہ قبلہ اس کی دائیں طرف ہو۔
2: میت کے بدن کے کپڑے مثلاً شیروانی، بنیان وغیرہ چاک کرلیں اور تہ بند اس کے ستر پر ڈال کر اندر ہی اندر وہ کپڑے اتار لیں۔ یہ تہ بند لمبائی میں ناف سے پنڈلی تک اور موٹے کپڑے کا ہوناچاہیے کہ گیلاہونے کے بعد اندر کا بدن نظر نہ آئے۔
3: ناف سے لے کر رانوں تک میت کا بدن دیکھناجائز نہیں اور ایسی جگہ ہاتھ لگانا بھی جائز نہیں۔ میت کو استنجا کرانے اور غسل دینے میں اس جگہ کے لیے دستانے پہن لینے چاہییں یا کپڑا ہاتھ پر لپیٹ لینا چاہیے کیونکہ جس جگہ زندگی میں ہاتھ لگانا جائز نہیں وہاں مرنے کے بعد بھی دستانوں کے بغیر ہاتھ لگانا جائز نہیں اور نگاہ ڈالنا بھی جائز نہیں۔ غسل شروع کرنے سے پہلے بائیں ہاتھ میں دستانہ پہن کر مٹی کے تین یا پانچ ڈھیلوں یا ٹشو پیپرز سے استنجا کرائیں اور پھر پانی سے پاک کریں۔
4: میت کو وضو کرائیں۔وضو میں گٹوں تک ہاتھ دھلائیں، نہ کلی کرائیں اور نہ ہی ناک میں پانی ڈالیں بلکہ روئی کا پھایا تر کر کے ہونٹوں، دانتوں اور مسوڑھوں پر پھیر کر پھینک دیں۔ اسی طرح یہ عمل تین دفعہ کریں۔ پھر اسی طرح ناک کے دونوں سوراخوں کو روئی کے پھائے سے صاف کریں۔
وضاحت: اگر انتقال ایسی حالت میں ہوا ہو کہ میت پر غسل فرض ہو (مثلاً کسی شخص کا جنابت کی حالت میں یا کسی عورت کا حیض و نفاس کی حالت میں انتقال ہو جائے ) تو بھی منہ اور ناک میں پانی ڈالنا درست نہیں ہے۔ البتہ دانتوں اور ناک میں تر کپڑا پھیردیا جائے تو بہتر ہے مگر ضروری نہیں ہے۔ پھر ناک، منہ اور کانوں میں روئی رکھ دیں تاکہ وضو اور غسل کے دوران پانی اندر نہ جائے۔ پھر منہ دھلائیں، پھر ہاتھ کہنیوں سمیت دھلائیں، پھر سر کا مسح کرائیں، پھر تین دفعہ دونوں پیر دھلائیں۔
5: جب وضو مکمل ہو جائے تو سر کو اور اگر مرد ہو تو ڈاڑھی کو بھی گل خیرو، خطمی،بیسن یا صابن وغیرہ سے مَل کر دھوئیں۔
6: پھر اسے بائیں کروٹ لٹائیں اور بیری کے پتوں میں پکایاہوا نیم گرم پانی دائیں کروٹ پر تین دفعہ سر سے پاؤں تک اتنا ڈالیں کہ نیچے کی جانب بائیں کروٹ تک پہنچ جائے۔
7: پھر دائیں کروٹ لٹا کر اسی طر ح سے سر سے پیر تک تین دفعہ اتنا پانی ڈالیں کہ نیچے کی جانب دائیں کروٹ تک پہنچ جائے۔
8: اس کے بعد میت کو اپنے بدن کی ٹیک لگا کر ذرا بٹھانے کے قریب کردیں اوراس کے پیٹ کو اوپر سے نیچے کی طرف آہستہ آہستہ ملیں اور دبائیں۔ اگر کچھ (پیشاب یا پاخانہ وغیرہ ) خارج ہو تو صرف اسی کو پونچھ کر دھودیں،وضو اور غسل دہرانے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس ناپاکی کے نکلنے سے میت کے وضو اور غسل میں کوئی نقصان نہیں آتا۔
9: پھر اسے بائیں کروٹ پر لٹا کر دائیں کروٹ پر کافور ملا پانی سر سے پیر تک تین دفعہ خوب بہا دیں کہ نیچے بائیں کروٹ بھی خوب تر ہو جائے۔ پھر دوسرا دستانہ پہن کر سارابدن کسی کپڑے سے خشک کر کے دوسرا خشک کپڑالپیٹ دیں۔
10: پھرچارپائی پرکفن کے کپڑے اس طریقے سے اوپر نیچے بچھائیں جو آگے کفن پہنانے کے مسنون طریقہ میں آرہا ہے۔ پھر میت کو آرام سے غسل کے تختے سے اٹھاکر کفن کے اوپر لٹا دیں اور ناک، کان اور منہ سے روئی نکال دیں۔
[5]: نمازکے بعدکی دعا
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز سے فارغ ہوتے تو تین بار استغفار پڑھتے اور یہ دعا پڑھتے:
أَللّٰهُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْكَ السَّلَامُ تَبَارَكْتَ یَا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ․
(صحیح مسلم: ج 1 ص218 باب استحباب الذکر بعد الصلوٰۃ )
ترجمہ: اے اللہ! تو سلامتی والا ہے اور تجھ ہی سے سلامتی ملتی ہے اور تو برکت والا ہے اے عزت والے! شان والے!