اڑتیسواں سبق

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
اڑتیسواں سبق
[1]: فرضیت جہاد
﴿كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَّكُمْ ۚ وَعَسٰى اَنْ تَكْرَهُوْا شَيْئًا وَّهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۚ وَعَسٰى اَنْ تُحِبُّوْا شَيْئًا وَّهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ ۭوَاللهُ يَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ﴾
(البقرۃ:216)
ترجمہ: تم پر جہادفرض کیا گیا اور وہ تمہیں ناگوار ہے اور یہ ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو ناگوار سمجھو حالانکہ وہ تمہارے حق میں بہتر ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو پسند کرو حالانکہ وہ تمہارے حق میں مضر ہو اور اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔
فائدہ: جہاد یعنی قتال فی سبیل اللہ مسلمانوں پر فرض ہے۔ چونکہ یہ فریضہ مشکل ہے اس لیے نفس کو طبعی طور پرگراں اوربھاری معلوم ہوتاہے مگر اللہ نے اس میں خیر ہی خیر رکھی ہے اوراللہ جانتا ہے تم نہیں جانتے کہ کس چیز میں خیر ہے اورکس میں شر۔ جہادفرض ہے اوراس کاانکاراورتوہین کرناکفر ہے۔
[2]: شہید کی فضیلت
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "يُغْفَرُ لِلشَّهِيْدِ كُلُّ ذَنْبٍ إِلَّا الدَّيْنَ"․
(صحیح مسلم: ج2 ص135 کتاب الامارۃ باب من قتل فی سبیل الله كفرت خطاياه الا الدين)
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن عمروبن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: قرض کے سوا شہید کے ہر گناہ کومعاف کردیا جاتاہے۔
[3]: جہاد فی سبیل اللہ؛ فضائل واحکام
دین اسلام کی سر بلندی کے لیے دشمنانِ اسلام سے مسلح جنگ کرنا اور اس میں خوب جان ومال خرچ کرنا ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ کہلاتا ہے۔ دین اسلام کی سربلندی،دین کا تحفظ،دین کا نفا ذ، دین کی بقاء، مسلمانوں کی عزت وعظمت، شان وشوکت اورجان ومال کی حفاظت کا واحد ذریعہ’’ جہاد فی سبیل اللہ‘‘ ہے۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
﴿اِنَّ اللهَ اشْتَرٰى مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اَنْفُسَهُمْ وَاَمْوَالَهُمْ بِاَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ ۭ يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللهِ فَيَقْتُلُوْنَ وَيُقْتَلُوْنَ﴾
(التوبہ:111)
ترجمہ: بے شک اللہ نے ایمان والوں کی جان اور مال کو جنت کے بدلے میں خرید لیا ہے، وہ اللہ کے راستے میں لڑتے ہیں (مجرموں کو)قتل کرتے ہیں اور(خود) قتل ہوجاتے ہیں۔
مزید فرماتے ہیں:
﴿اِنَّ اللهَ يُحِبُّ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِهٖ صَفًّا كَاَنَّهُمْ بُنْيَانٌ مَّرْصُوْصٌ﴾
(الصف:4)
ترجمہ: بے شک اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے راستے میں سیسہ پلائی دیوار بن کر لڑتے ہیں۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے:
مَنْ قَاتَلَ فِىْ سَبِيْلِ اللهِ فُوَاقَ نَاقَةٍ فَقَدْ وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ.
(سنن ابی داؤد: ج1 ص367 کتاب الجہاد. باب فیمن سئل اللہ تعالیٰ الشھادۃ)
ترجمہ: جو شخص تھوڑی دیر کے لیے بھی اللہ تعالیٰ کے راستے میں قتال کرتا ہے تو جنت اس کے لیے واجب ہو جاتی ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے 27مرتبہ خود جہاد کا سفر کیا اور اللہ کے راستے میں لڑتے ہوئے شہید ہونے کی تمنا فرمائی ہے۔
جہاد کی اقسام:
جہاد کی دو قسمیں ہیں:
1: اقدامی جہاد 2: دفاعی جہاد
اقدامی جہاد:
کافروں کے ملک میں جا کر کافروں سے لڑنا ”اقدامی جہاد“ کہلاتا ہے۔ اقدامی جہاد میں سب سے پہلے کافروں کو اسلام کی دعوت دی جاتی ہے۔ اگر وہ اسلام قبول نہ کریں تو ان سے جزیہ طلب کیا جاتاہے اور اگر وہ جزیہ دینے سے انکارکردیں تو پھر ان سے قتال کیا جاتا ہے۔ عام حالات میں جہاد اقدامی فرض کفایہ ہے اوراگر امیر المؤمنین نفیر عام( یعنی سب کو نکلنے) کا حکم دے تو اقدامی جہاد بھی فرض عین ہو جاتا ہے۔
دفاعی جہاد:
اگر کافرمسلمانوں کے ملک پر حملہ کردیں تو ان مسلمانوں کا کافروں کے حملے کو روکنا ”دفاعی جہاد“ کہلاتا ہے۔ اگر وہ مسلمان ان کے روکنے کی طاقت نہ رکھتے ہوں اور اگر طاقت رکھتے ہوں مگر سستی کر تے ہوں تو ہمسایہ ممالک کے مسلمان ان کے حملے کو روکیں۔ جہاد دفاعی فرض عین ہے۔
فائدہ:
جہاد کرنے سے پہلے جہاد کی تربیت حاصل کرنا بھی ضروری ہے۔ جہاد کی تربیت حاصل کرنا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایاہے:
﴿وَاَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ﴾
(الانفال:60)
ترجمہ: اور کافروں کے ساتھ لڑنے کے لیے جتنی قوت حاصل کر سکتے ہو، کرو۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو جہادکی توفیق عطا فرمائے اور لڑتے ہوئے میدان جہاد میں شہادت کی موت عطا فرمائے آمین۔
[4]: مجلس میں بیٹھنے سے متعلق سنن وآداب
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اے ایمان والو!جس وقت تمہیں کہا جائے کہ مجلس میں دوسروں کے لیے کشادگی پیدا کرو تو کشادگی پیدا کر لیا کرو، اللہ تعالیٰ تمہارے لیے وسعت پیدا کر دے گا۔
(سورۃ المجادلۃ:11 )
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو لوگ اللہ تعالیٰ کے ذکر کے لیے جمع ہوتے ہیں اور ان کا مقصود صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا ہو تو ایک فرشتہ آسمان سے اعلان کرتا ہے کہ تم بخشے بخشائے یہاں سے اٹھو کہ تمہاری برائیاں نیکیوں سے بدل دی گئی ہیں۔
( مجمع الزوائد للہیثمی:ج10 ص 75 حدیث نمبر16764 )
حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو لوگ کسی مجلس میں بیٹھے اور انہوں نے اس میں اللہ تعالیٰ کا ذکر نہ کیا تو یہ مجلس قیامت کے دن ان کے لیے حسرت کا سبب بنے گی۔
(مجمع الزوائد:ج 10 ص 84 حدیث نمبر 16790)
آداب مجلس:
1: مجلس میں بیٹھنے سے پہلے تمام اہلِ مجلس کو سلام کرنا۔
2: مجلس میں جہاں جگہ ملے وہاں بیٹھنا، لوگوں کے کندھے پھلانگ کر درمیان میں بیٹھنے کی کوشش نہ کرنا۔
3: کسی کو اس کی جگہ سے اٹھا کر خود نہ بیٹھنا۔
4: دوآدمیوں کے درمیان ان کی اجازت کے بغیر نہ بیٹھنا۔
5: مجلس میں قریب قریب بیٹھنا،متفر ق ہو کر نہ بیٹھنا۔
6: مجلس میں قبلہ رو ہو کر بیٹھنے کی کوشش کرنا۔
7: حلقہ نما مجلس کے درمیان نہ بیٹھنا۔
8: مجلس میں جو گفتگو ہو رہی ہو اس میں حصہ لینا اور تکلفاً سنجید ہ ہو کر نہ بیٹھنا کیونکہ یہ غرور کی علامت ہے۔
9: مجلس میں بہت زور سے نہ ہنسنا بلکہ حتی الا مکان مسکر اہٹ سے کام لینا کیونکہ زیادہ زور سے ہنسنے سے آدمی کا وقار ختم ہو جاتا ہے۔
10: حتی الامکا ن اپنی مجلس کو اللہ تعالیٰ یاآخرت کی یاد سے آراستہ رکھنا۔
11: مجلس میں تین آدمی ہوں تو ایک کو چھوڑ کر دو کا آپس میں سر گوشی نہ کرنا اور نہ کسی ایسی زبان میں بات کرنا جس کو تیسراآدمی سمجھ نہ سکے البتہ اگر تین سے زیادہ ہوں تو کوئی حرج نہیں۔
12: اگر مجلس میں اللہ تعالیٰ کی کوئی نافرمانی ہو رہی ہو تو اہلِ مجلس کو منع کرنا۔
13: مجلس میں نئے آنے والے شخص کے اکرام کے لیے ذرا سا کھسکنا اگر چہ پہلے سے جگہ موجود ہو۔
14: مجلس ایک امانت ہے، لہٰذا مجلس میں جو باتیں سنی جائیں ان کو دوسری جگہ نقل نہ کرنا۔
15: نیک لوگوں کی مجلس میں بیٹھنے کی کوشش کرنا۔
16: ہر مجلس اور بالخصوص دینی مجلس میں اپنا موبائل فون بند رکھنا یا کم از کم خاموش (Silent) رکھنا۔
17: مجلس کے اختتام پر مجلس کی دعا پڑھنا۔
[5]: دشمن سے مقابلے کے وقت کی دعا
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا میدانِ جہاد جب دشمن سے مقابلہ ہوتا تو آپ یہ دعائیں پڑھتے تھے:
1: أَللّٰهُمَّ أَنْتَ عَضُدِىْ وَنَصِيْرِىْ، بِكَ أَحُوْلُ وَبِكَ أَصُوْلُ وَبِكَ أُقَاتِلُ.
(سنن ابی داؤد: ج1ص353 کتاب الجہاد. باب ما یُدعیٰ عند اللقاء)
ترجمہ: اے اللہ! تو ہی میرا بازو (قوت) ہے اور تو ہی میرا مددگار ہے، تیری ہی توفیق سے میں برائی سے بچتا ہوں اور تیری ہی مدد سے میں حملہ کرتا ہوں اور تیری ہی مدد سے میں لڑتا ہوں۔
2: أَللّٰهُمَّ مُنْزِلَ الْكِتَابِ وَمُجْرِىَ السَّحَابِ وَهَازِمَ الْأَحْزَابِ! اهْزِمْهُمْ وَانْصُرْنَا عَلَيْهِمْ.
(سنن ابی داؤد: ج1ص353 کتاب الجہاد. باب فى كراہیۃ تمنى لقاء العدو)
ترجمہ: اے کتاب نازل کرنے والے،بادلوں کو چلانے والے اور لشکروں کو شکست دینے والے اللہ! ان (دشمنوں) کو شکست دے اور ہمیں ان پر غالب فرما!