بِسمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
بِسمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنْ، وَالصَّلوٰۃُ وَالسَّلَامُ عَلَی سَیِّدِ الْاَنْبِیَاءِ وَالْمُرْسَلِیْنْ،وَعَلٰی آلِہِ الطَّیِّبِیْنَ الطَّاہِرِیْنْ، وَاَصْحَابِہِ الْاَکْرَمِیْنَ اَجْمَعِیْنْ،وَعَلٰی مَنْ اَحَبَّہُمْ وَتَبِعَہُمْ بِاِحْسَانٍ اِلٰی یَوْمِ الدِّیْنْ۔ اَمَّا بَعْدُ!
اللہ رب العزت قرآن کریم میں ارشاد فرماتے ہیں:
إِنَّ اللّهَ وَمَلٰئِكَتَهٗ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَآ أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا.
سورۃ الاحزاب:56
ترجمہ:بے شک اللہ تعالیٰ اور اس کےفرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی ان پردرود بھیجواور خوب سلام بھیجاکرو۔
صلوۃ:
لفظ
”صلوٰۃ“
عربی زبان میں کئی ایک معنوں میں استعمال ہوتاہے:
1: رحمت
2: دعا
3: مدح
اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہےکہ اللہ پاک کے درود بھیجنے کا مطلب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مقام محمود تک پہنچانا ہے جو کہ مقام شفاعت ہےاور ملائکہ کے درود بھیجنے کا مطلب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیادتی مرتبہ کے لیے دعا اور آپ علیہ السلام کی امت کے لیے استغفار کرنا ہے اور مؤمنین کے درود بھیجنے کامطلب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت اور آپ علیہ الصلوۃ والسلام کے اوصاف جمیلہ کا تذکرہ اور تعریف کرنا ہے۔
دوسری تفسیر یہ ہےکہ یہ اعزاز واکرام جو اللہ جل شانہ نے حضور علیہ السلام کو عطا فرمایا ہے اس اعزاز سے بہت بڑھا ہوا ہے جو حضرت آدم علیہ السلام کو فرشتوں سے سجدہ کروا کے عطا فرمایا تھا، اس لیے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اعزاز و اکرام میں خود اللہ رب العزت بھی شریک ہیں بخلاف حضرت آدم علیہ السلام کے اعزاز کے کہ وہاں صرف فرشتوں کو حکم فرمایا۔
روح البیان ج7 ص265
امام بخاری رحمہ اللہ نے ابوالعالیہ سے نقل کیا ہےکہ اللہ تعالیٰ کی ”صلوٰۃ“ سے مراد آپ علیہ السلام کی تعظیم اور فرشتوں کے سامنے مدح وثناء کرنا ہے۔
صحیح البخاری ج 2 ص 707کتاب التفسیر
اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیا میں آپ کی تعظیم تو یہ ہے کہ آپ کو بلند مرتبہ عطا فرمایا اور
”وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ“
ارشاد فرماکر ایسامقام عطا فرمایا کہ کلمہ، اذان، اقامت اور نماز میں اللہ تعالیٰ کے ذکر کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر بھی شامل کردیا، آپ علیہ السلام کے لائے ہوئے دین کو دنیا بھر میں پھیلا کر عام اور غالب کردیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت پر عمل کو قیامت تک جاری رکھا اور آخرت میں آپ کی تعظیم یہ ہے کہ آپ کا مقام تمام خلائق سے بلند وبالاکردیااور جس وقت کسی پیغمبر اور فرشتے کوشفاعت کی مجال نہ تھی اس حال میں آپ کو مقام شفاعت عطا فرمایاجس کو ”مقامِ محمود“ کہا جاتا ہے۔
علامہ سخاوی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:
وَالْآیَۃُ بِصِیْغَۃِ الْمُضَارِعَۃِ الدَّالَّۃِ عَلَی الدَّوَامِ وَالْاِسْتِمْرَارِ لِتَدُلَّ عَلٰی اَنَّہٗ سُبْحَانَہٗ وَ تَعَالیٰ وَ جَمِیْعَ مَلَائِکَتِہٖ یُصَلُّوْنَ عَلٰی نَبِیِّنَا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ دَائِمًا اَبَدًا.
القول البدیع ص35
ترجمہ: یہ آیت شریفہ مضارع کے صیغہ کے ساتھ ہے جو کہ ہمیشگی اور تسلسل کے لیے آتا ہے۔ یہ دلیل ہے کہ اللہ اور اس کے فرشتے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ہمیشہ درود بھیجتے رہتے ہیں۔
فائدہ:
اس آیت مبارکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے لفظ ”نبی“ استعمال فرمایا ہے نام مبارک سے نہیں پکارا جیسا کہ دوسرے انبیاء کرام علیہم السلام کو نام سے ذکر کیا، یہ آپ علیہ السلام کی عظمت، مرتبہ اور شان کی وجہ سے ہے۔ ایک اور آیت مبارکہ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ فرمایاتو حضرت ابراہیم علیہ السلام کا نام لیا گیا اور آپ علیہ السلام کے لیے لفظ نبی استعمال فرمایا۔ چنانچہ قرآن کریم میں ہے:
إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْرَاهِيْمَ لَلَّذِيْنَ اتَّبَعُوْهُ وَهٰذَا النَّبِيُّ وَالَّذِيْنَ آمَنُوْا.
سورۃ آل عمران 68
ترجمہ: ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ تعلق کے سب سے زیادہ حق دار وہ لوگ ہیں جنہوں نے ان کی پیروی کی، نیز یہ نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم اور وہ لوگ ہیں جو ان پر ایمان لائے ہیں۔
علامہ سخاوی رحمہ اللہ[ م 902ھ ] فرماتے ہیں:
وَاِنَّ عَلَامَۃَ اَھْلِ السُّنَّۃِ الْکَثْرَۃُ مِنْھَا.
القول البدیع ص43
ترجمہ: آپ علیہ السلام پر کثرت سے درود بھیجنا اہل السنت ہونے کی علامت ہے۔
سلام:
لفظ ”سلام“ مصدر ہے بمعنی سلامتی استعمال ہوتا ہےاور اس سے مراد نقائص و عیوب اور آفتوں سے سلامت رہنا ہےاور ”السلام علیک“ کا معنی ہے کہ آپ نقائص اور آفات سے سلامت رہیں۔
اور بعض حضرات نے ”سلام“ سے مراد اللہ پاک کی ذات مراد لی ہے کیونکہ ”سلام“ اللہ تعالیٰٰ کے اسماء حسنیٰ میں سے ہے۔ تو السلام علیک کی مراد یہ ہوگی کہ اللہ تعالیٰ آپ کی حفاظت فرمائیں۔
”وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا“
سے مراد آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لیے کامل مرتبہ کی دعا کرو، دل وجان سے اتباع کرو، نافرمانی سے اجتناب کرواور سچے فرمانبردار بن جاؤ۔
احادیث مبارکہ:
1: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : مَنْ صَلَّى عَلَيَّ وَاحِدَةً صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ عَشْرًا.
صحیح مسلم: باب صلوۃ النبی بعد التشہد، مسند احمد: ج9 ص24، سنن ابی داؤد: ج2 ص880
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد ہے جو شخص مجھ پر ایک دفعہ درود پڑھےاللہ تعالیٰ اس پر دس مرتبہ رحمت بھیجتے ہیں۔
2: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَاءَ ذَاتَ يَوْمٍ وَالْبُشْرَى فِي وَجْهِهِ فَقُلْنَا إِنَّا لَنَرَى الْبُشْرَى فِي وَجْهِكَ فَقَالَ إِنَّهُ أَتَانِي الْمَلَكُ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ إِنَّ رَبَّكَ يَقُولُ أَمَا يُرْضِيكَ أَنَّهُ لَا يُصَلِّي عَلَيْكَ أَحَدٌ إِلَّا صَلَّيْتُ عَلَيْهِ عَشْرًا وَلَا يُسَلِّمُ عَلَيْكَ أَحَدٌ إِلَّا سَلَّمْتُ عَلَيْهِ عَشْرًا.
سنن النسائی ج1 ص179 المیزان باب فضل التسلیم علی النبی
ترجمہ: حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ایک روز آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام تشریف لائے اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ انور پر خوشی کے آثار تھے۔ فرمایا مجھ سے جبرائیل علیہ السلام نے آکر کہا کہ آپ کا رب فرماتا ہے اےمحمدصلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ اس بات پر خوش نہ ہوں گے کہ آپ کی امت میں سے جو کوئی آپ پر درود پڑھے گا میں اس پر دس رحمتیں نازل کروں گااور آپ کی امت میں سے جوکوئی آپ پر سلام پڑھے گا میں دس بار اس پر سلامتی نازل کروں گا۔
3: عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ صَلّٰى عَلَيَّ صَلَاةً وَاحِدَةً صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ عَشْرَ صَلَوَاتٍ وَحَطَّ عَنْهُ عَشْرَ خَطِيئَاتٍ.
مسند احمد ج10 ص327 رقم الحدیث11937
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہےآپ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا: جو مجھ پر ایک بار درود بھیجے اللہ اس پر دس بار رحمتیں نازل فرمائے گااور اس کی دس خطائیں معاف کرے گا۔
علامہ سخاوی رحمہ اللہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: جو مجھ پر دس بار درود بھیجے گا اللہ پاک اس پرسو دفعہ درود یعنی رحمت بھیجیں گے اور جو سو مرتبہ درود بھیجے گا اللہ جل شانہ اس پر ہزارمرتبہ درود یعنی رحمت بھیجیں گے اور جو عشق و شوق میں اس پر زیادتی کرے گامیں اس کے لیے قیامت کے دن سفارشی اور گواہ بنوں گا۔
القول البدیع ص 110
4: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو يَقُولُ مَنْ صَلَّى عَلٰى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةً صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَمَلَائِكَتُهُ سَبْعِينَ صَلَاةً.
مسنداحمد ج6 ص77
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر ایک بار درود پڑھے گا اللہ اور اس کے فرشتے اس پر ستر رحمتیں نازل کریں گے۔
ان روایات سے یہ بات ثابت ہوتی ہےکہ اگر کوئی شخص آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات گرامی پرصلوٰۃ وسلام پڑھتا ہے اس کافائدہ آپ علیہ السلام کو کتنا ہوتا ہے اللہ بہتر جانتاہےلیکن اس آدمی کو بھی فائدہ پہنچتا ہےاور اللہ رب العزت کی رحمت وسلامتی اس آدمی پر ابر رحمت بن کر برستی ہے اور رب لم یزل کی ایک ہی رحمت کی نظر انسان کی دنیا و آخرت کی کامیابی کے لیے کافی ہے چہ جائیکہ ایک مرتبہ پڑھنے سے دس اور ستر رحمتیں نازل اور متوجہ ہوں۔
سوال:
یہاں بظاہر ایک اشکال ہوسکتاہےکہ آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دو ارشادات کے درمیان تعارض اور ٹکراؤ ہے ایک میں ہے کہ دس بار رحمت ہوتی ہے اور دوسرے میں ہے کہ ستر مرتبہ رحمت نازل ہوتی ہے۔
جواب:
ثواب میں کمی اور زیادتی اخلاص، احوال، اوقات، اور اشخاص کے سبب ہوتی ہے۔ ملاعلی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
وَلَعَلَّ هٰذَا مَخْصُوصٌ بِيَوْمِ الْجُمُعَةِ إِذْ وَرَدَ أَنَّ الْأَعْمَالَ فِي يَوْمِ الْجُمُعَةِ بِسَبْعِينَ ضِعْفًا.
مرقاۃ المفاتیح ج3 ص 18 رقم الحدیث 935 باب الصلاۃ علی النبی وفضلھا
ترجمہ: ستر والی روایت شاید جمعہ کے دن کے ساتھ مخصوص ہے اس لیے کہ ایک روایت میں آتا ہے کہ نیکیوں کا ثواب جمعہ کے دن ستر گنا ہوتا ہے۔
5: عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ صَلَّى عَلَيَّ صَلَاةً وَاحِدَةً صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ عَشْرًا، وَمَنْ صَلَّى عَلَيَّ عَشْرًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ مِائَةً، وَمَنْ صَلَّى عَلَيَّ مِائَةً كَتَبَ اللَّهُ بَيْنَ عَيْنَيْهِ: بَرَاءَةً مِنَ النِّفَاقِ، وَبَرَاءَةً مِنَ النَّارِ، وأَسْكَنَهُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَعَ الشُّهَدَاءِ.
المعجم الاوسط للطبرانی ج5 ص252 رقم الحدیث 7235 باب من اسمہ محمد
ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: جوآدمی مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہےاللہ تعالیٰ اس پر دس دفعہ درودرحمت بھیجتا ہے اور جو مجھ پر دس دفعہ درود بھیجتا ہے اللہ جل شانہ اس پر سو مرتبہ درودرحمت بھیجتا ہے اور جو مجھ پر سو بار درود بھیجتا ہےاللہ تعالیٰ اس کی پیشانی پر لکھ دیتے ہیں کہ یہ شخص نفاق سے بھی بری ہے اور جہنم سے بھی بری ہے اور قیامت کے دن شہیدوں کے ساتھ اس کا حشر فرمائیں گے۔
6: عَنْ اَبِی الدَّرْدَآءِ رَضِیَ اللہُ عَنْہٗ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ صَلّٰی عَلَیَّ حِیْنَ یُصْبِحُ عَشْرًا وَحِیْنَ یُمْسِیْ عَشْرًا اَدْرَکَتْہٗ شَفَاعَتِیْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ.
القول البدیع ص127
ترجمہ: حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا جو شخص مجھ پر دس دس مرتبہ درود پڑھے اس کو قیامت کے دن میری شفاعت ضرور حاصل ہوگی۔
7: عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ قَالَ : أُبَيٌّ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أُكْثِرُ الصَّلَاةَ عَلَيْكَ فَكَمْ أَجْعَلُ لَكَ مِنْ صَلَاتِي فَقَالَ مَا شِئْتَ قَالَ قُلْتُ الرُّبُعَ قَالَ مَا شِئْتَ فَإِنْ زِدْتَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ قُلْتُ النِّصْفَ قَالَ مَا شِئْتَ فَإِنْ زِدْتَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ قَالَ قُلْتُ فَالثُّلُثَيْنِ قَالَ مَا شِئْتَ فَإِنْ زِدْتَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ قُلْتُ أَجْعَلُ لَكَ صَلَاتِي كُلَّهَا قَالَ إِذًا تُكْفَى هَمَّكَ وَيُغْفَرُ لَكَ ذَنْبُكَ
جامع الترمذی ج2 ص72 ابواب صفۃ القیامۃ- باب ما جاء فی صفۃ اوانی الحوض
ترجمہ: حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرما تے ہیں : میں نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! میں آپ پر کثرت کے ساتھ درود پڑھتا ہوں۔ میں اپنی دعا کا کتنا حصہ آپ پر درود کے لیے مقررکروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جتنا تم پسند کرو۔ میں نے عرض کیا : ایک چوتھائی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ٹھیک ہے لیکن اگر کچھ اور بڑھا دو تو بہتر ہے۔ میں نے عرض کیا : کیا آدھا حصہ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ٹھیک ہے لیکن اگر کچھ اور بڑھا دو تو بہتر ہے۔ میں نے عرض کیا : دوتہائی؟ فرمایا : اس میں بھی اضافہ کردو تو بہتر ہے۔ میں نے عرض کیا : میں اپنی ساری دعا کا وقت آپ پر درود کے لیے وقف کر دوں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تب تو تیرا ہر غم دور ہو گا اور ہر گناہ معاف کر دیا جائے گا۔
8: حضرت انس رضی اللہ عنہ آپ علیہ السلام کا ارشاد نقل کرتے ہیں:
ثَلَاثَةٌ تَحْتَ ظِلِّ عَرْشِ اللهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَوْمَ لَا ظِلَّ إلَّا ظِلُّهٗ، قِيْلَ: مَنْ هُمْ يَا رَسُوْلَ اللهِ؟ قَالَ: مَنْ فَرَّجَ عَنْ مَكْرُوْبٍ مِّنْ اُمَّتِيْ وَأَحْيَا سُنَّتِيْ وَأَكْثَرَ الصَّلَاةَ عَلَيَّ.
القول البدیع ص128
ترجمہ: تین آدمی قیامت کے دن اللہ کے عرش کے سایہ میں ہوں گے جس دن اس کے سایہ کے علاوہ کسی چیز کا سایہ نہ ہوگاایک وہ شخص جو کسی مصیبت زدہ کی مصیبت ہٹائےاور دوسرا وہ جو میری سنت کو زندہ کرےتیسرے وہ جو میرے اوپر کثرت سے درود پڑھے۔
9: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَوْلَى النَّاسِ بِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَكْثَرُهُمْ عَلَيَّ صَلَاةً.
جامع الترمذی ج1 ص110 باب ما جاء فی فضل الصلاۃ علی النبی صلی اللہ علیہ و سلم
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: قیامت کے دن سب سے زیادہ میرے قریب وہ شخص ہوگا جو سب سے زیادہ مجھ پر درود پڑھے گا۔
10: عَنْ رُوَيْفِعِ بْنِ ثَابِتٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ صَلَّى عَلَى مُحَمَّدٍ، وَقَالَ: اَللّٰهُمَّ أَنْزِلْهُ الْمَقْعَدَ الْمُقَرَّبَ عِنْدَكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَجَبَتْ لَهُ شَفَاعَتِي.
المعجم الاوسط للطبرانی ج2 ص279 رقم الحدیث3285
ترجمہ: حضرت رویفع بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: جو شخص محمد یعنی مجھ پر درود پڑھتے ہوئے یوں کہے: ” اَللَّهُمَّ أَنْزِلْهُ الْمَقْعَدَ الْمُقَرَّبَ عِنْدَكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ “ اے اللہ! محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو قیامت کے دن اپنے ہاں قربت کا مقام عطا فرما ،تو اس کے لیے میری شفاعت واجب ہوگئی۔
سوال:
بعض حضرات یہ اشکال اٹھاتے ہیں کہ جب اللہ رب العزت خود اپنے نبی و رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتا ہے تو پھر ہمارے درود کی کیا ضرورت ہے؟
جواب:
امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں :
إِذَا صَلَّى اللَّهُ وَمَلَائِكَتُهُ عَلَيْهِ فَأَيُّ حَاجَةٍ إِلَى صَلَاتِنَا؟ نَقُولُ الصَّلَاةُ عَلَيْهِ لَيْسَ لِحَاجَتِهِ إِلَيْهَا وَإِلَّا فَلَا حَاجَةَ إِلَى صَلَاةِ الْمَلَائِكَةِ مَعَ صَلَاةِ اللَّهِ عَلَيْهِ، وَإِنَّمَا هُوَ لِإِظْهَارِ تَعْظِيمِهِ، كَمَا أَنَّ اللَّهَ تَعَالَى أَوْجَبَ عَلَيْنَا ذِكْرَ نَفْسِهِ وَلَا حَاجَةَ لَهُ إِلَيْهِ، وَإِنَّمَا هُوَ لِإِظْهَارِ تَعْظِيمِهِ مِنَّا شَفَقَةً عَلَيْنَا لِيُثِيبَنَا عَلَيْهِ.
تفسیرکبیر ج25 ص196 سورۃ احزاب
ترجمہ: ہم حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر درود اس لیے نہیں پڑھتے کہ آنجناب کو اس کی ضرورت ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو پھر اللہ پاک کے درود کے بعد فرشتوں کے درود کی ضرورت نہ رہتی بلکہ ہمارا درود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کا اظہار کرنے کے لیے ہے جیسا کہ اللہ پاک نے اپنے ذکر کرنے کا حکم فرمایاحالانکہ اللہ رب العزت کی ذات کو اس کی ضرورت نہیں۔
سوال:
بعض حضرات نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ ”صلوٰۃ“ بمعنی مدح وتعظیم کریں تو بعض روایات کے مطابق آپ علیہ السلام کے ساتھ آپ کی آل واصحاب رضی اللہ عنہم کو بھی شامل کیاجاتا ہے اللہ کی تعظیم اور مدح وثناءمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی اور کو شریک کیسے کیا جاسکتا ہے؟
جواب:
علامہ آلوسی رحمہ اللہ نے اس کا جوا ب یہ دیا ہے کہ تعظیم اور مدح وثناء کے درجات بہت ہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا اعلیٰ درجہ حاصل ہےاور ایک درجہ میں آل واصحاب پیغمبر رضی اللہ عنہم اور عام مؤمنین بھی شامل ہیں۔
روح المعانی ج12 ص87
سوال:
قرآن کریم میں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:
مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا
سورۃ الانعام 160
ترجمہ: جو شخص کوئی نیکی لائے گا اس کے لیے اس جیسی دس نیکیوں کا ثواب ہے۔
جب ہر نیکی کا ثواب دس گنا ملتا ہےتو پھر درود پاک کی کیا خصوصیت ہوئی؟
جواب1:
حسب ضابطہ اس کی دس نیکیاں علیحدہ ہیں اور اللہ پاک کا دس دفعہ درودرحمت بھیجنا مزید انعام ہے۔
جواب2:
اللہ پاک کا دس بار درود بھیجنا اس کی اپنی نیکی کے دس گنا ثواب سے کہیں زیادہ ہےاس کے علاوہ دس مرتبہ درود کے ساتھ دس درجوں کا بلند کرنا دس گناہوں کا معاف کرنادس نیکیوں کا اس کے نامہ اعمال میں لکھنا اور دس غلاموں کے آزاد کرنے کے بقدر ثواب ملنا اس پر اضافہ ہے۔
فائدہ:
کثرت سے درود پڑھنا محبت کی علامات میں سے ہے جیسا کہ ضابطہ ہے: ”مَنْ اَحَبَّ شَیْئًااَکْثَرَ مِنْ ذِکْرِہٖ“ جس آدمی کو جس سے محبت ہوتی ہےوہ اس کا ذکر کثرت سے کرتا ہےاسی لیےآپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے امتی ہونے کے ناطےہمارا فرض بنتاہےکہ زیادہ سے زیادہ درود پاک پڑھیں۔
دوسری بات یہ ہےکہ درود پاک پڑھنے میں ہمارا ہی فائدہ ہے اللہ رب العزت کی رحمت موسلادھار بارش بن کربرستی ہے۔