جمعہ کے دن درود پاک کی کثرت

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
جمعہ کے دن درود پاک کی کثرت
عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَكْثِرُوا الصَّلَاةَ عَلَيَّ يَوْمَ الْجُمُعَةِ؛ فَإِنَّهُ مَشْهُودٌ، تَشْهَدُهُ الْمَلَائِكَةُ، وَإِنَّ أَحَدًا لَنْ يُصَلِّيَ عَلَيَّ، إِلَّا عُرِضَتْ عَلَيَّ صَلَاتُهُ، حَتَّى يَفْرُغَ مِنْهَا» قَالَ: قُلْتُ: وَبَعْدَ الْمَوْتِ؟ قَالَ: «وَبَعْدَ الْمَوْتِ، إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ عَلَى الْأَرْضِ أَنْ تَأْكُلَ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ، فَنَبِيُّ اللَّهِ حَيٌّ يُرْزَقُ»
سنن ابن ماجہ ص 119باب ماجاء فی ذکر وفاتہ ودفنہ
ترجمہ: حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ مجھ پر جمعہ کے دن کثرت سے درود پاک بھیجا کرواس لیے کہ ملائکہ اس دن حاضر ہوتے ہیں اور جب کوئی شخص مجھ پر درود بھیجتا ہے تو وہ درود اسی وقت مجھ پر پیش کیا جاتا ہے اور جب تک وہ درود پڑھتا رہے یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ میں نے عرض کیا آپ کی وفات کے بعد بھی؟ آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہاں وفات کے بعد بھی۔ اللہ رب العزت نے زمین پر حرام کردیا ہے کہ وہ انبیاء کے اجسام کو کھائے ۔بے شک اللہ کا نبی زندہ ہوتا ہے اور اسے رزق دیا جاتاہے۔
فائدہ:
1: اس حدیث پاک سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یہ بات سمجھتے تھے کہ صلاۃ وسلام آپ علیہ السلام روح مع الجسد پر پیش ہوتا ہے اس لیے قبل الوفات درودپاک کے پیش ہونے پر کوئی اشکال نہیں ہوا۔ بلکہ بعد از وفات عرض صلوٰۃ وسلام پر اشکال ہوا کہ دفن ہو جانے کے بعد انسانی جسم ریزہ ریزہ ہوجاتا ہے اور اسے زمین کھالیتی ہے، آپ علیہ السلام کے جسد اطہر کے ساتھ بھی یہی معاملہ پیش آئے گا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر صلوٰۃ وسلام کیسے پیش ہوگا؟اس اشکال کو صحابی نے پیش کیا ”وبعد الموت؟“ تو آپ علیہ السلام نے فرمایا جی ہاں انبیاء کرام علیہم السلام کے اجساد مبارکہ مٹی پر حرام ہیں۔
اور یہ شبہ دو وجہ سے پیش آسکتا ہے:
1: صلوٰۃ وسلام روح مع الجسد پر پیش ہو گا کیونکہ نبوت نہ اکیلی روح کا نام ہے اور نہ اکیلے جسم کا بلکہ روح مع الجسد کا نام ہے۔
2: وفات کے بعد عام امتی اور نبی کے جسم میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔
حضور پاک علیہ السلام نے پہلی بات پر سکوت فرمایااور تصدیق کردی کہ آپ کا پڑھا جانے والا صلوٰۃ وسلام روح مع الجسد پر پیش ہوتا ہے اور دوسری بات کی صراحتا تردید کرتے ہوئے فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ عَلَى الْأَرْضِ أَنْ تَأْكُلَ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ
اگر صحابہ کرام کا نظریہ یہ ہوتا کہ صلوٰۃ وسلام صرف روح مقدس پر پیش ہوتا ہے تو ان کو یہ شبہ ہی پیدا نہ ہوتا اور وہ وبعد الموت کا سوال ہی نہ کرتے اور اگر روح مع الجسد پر صلوٰۃ وسلام کا پیش ہونے والا نظریہ غلط ہوتا تو حضور پاک اس کی تردید فرمادیتے کہ تم ”إِنَّ أَحَدًا لَنْ يُصَلِّيَ عَلَيَّ، إِلَّا عُرِضَتْ عَلَيَّ صَلَاتُهُ، حَتَّى يَفْرُغَ مِنْهَا“ کا مطلب غلط سمجھے ہو صلوٰۃ وسلام تو صرف روح پر پیش ہوتا ہے حضور پاک نے ان کے اس نظریہ کی تردید نہیں فرمائی بلکہ فرمایا انبیاء کے جسم بھی محفوظ ہوتے ہیں اور انبیاء کرام کو اپنے رب کی طرف سے رزق بھی دیا جاتا ہے۔
2: اس سے یہ معلوم ہوا کہ صلوٰۃ وسلام کا پیش ہونااس جسد عنصری پر ہوتا ہے جسد مثالی پر نہیں ہوتاکیونکہ اگر جسد مثالی پر پیش ہوتا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو یہ اشکال ہی پیدانہ ہوتا۔اس لیے کہ جسد مثالی کو زمین کھاتی ہی نہیں ہے۔
اہل السنت والجماعت کا عقیدہ:
جو آدمی دور سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی پر صلوٰۃ وسلام پڑھتا ہے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک ملائکہ کے ذریعے پہنچادیا جاتا ہے اور جو آدمی روضہ اطہر پر حاضر ہو کر صلوٰۃ وسلام پڑھے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود سنتے ہیں اور جواب بھی دیتے ہیں۔
دلیل نمبر1:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ صَلّٰى عَلَيَّ عِنْدَ قَبْرِي سَمِعْتُهُ، وَمَنْ صَلَّى عَلَيَّ مِنْ بَعِیْدٍ اُعْلِمْتُہُ.
جلاء الافہام ص 22، الباب الاول الفصل الاول
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص میری قبر کے قریب سے مجھ پر درود پڑھے گا میں اس کو خود سنوں گا اور جو شخص دور سے مجھ پر درود پڑھے گا وہ مجھے پہنچادیاجائے گا۔
فائدہ:
اس حدیث پاک سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر کوئی قریب سے صلوٰۃ وسلام پڑھے توحضور علیہ السلام خود سن لیتے ہیں اگر دور سے پڑھے تو پہنچادیا جاتاہے اس سے آپ علیہ السلام کی حیات فی القبر بھی ثابت ہوتی ہے۔
دوسرا حدیث کاجملہ ”مِنْ بَعِیْدٍ اُعْلِمْتُہُ“ سے عقیدہ حاضر وناظر کی بھی نفی ہوتی ہے کہ آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام ہر جگہ حاضر وناظر ہوں تو پھر صلوٰۃ وسلام پہنچانے کاکیا مطلب ہے؟
دلیل نمبر2:
عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا مِنْ أَحَدٍ يُسَلِّمُ عَلَىَّ إِلاَّ رَدَّ اللهُ عَلَىَّ رُوحِى حَتَّى أَرُدَّ عَلَيْهِ السَّلاَمَ.
سنن ابی داؤد کتاب المناسک باب زیارۃ القبور، مسند احمد رقم الحدیث 10759
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب بھی کوئی آدمی مجھ پر سلام بھیجتا ہے تو اللہ تعالیٰ میری روح مجھ پر لوٹا دیتا ہے یعنی متوجہ کر دیتا ہےیہاں تک کہ میں اس کے سلام کا جواب دیتا ہوں۔
ملاعلی قاری رحمۃ اللہ علیہ اس کی تشریح میں فرماتے ہیں:
حَتّٰى أَرُدَّ عَلَيْهِ السَّلاَمَ اَیْ اَقُوْلُ وَعَلَیْکَ السَّلَامُ.
مرقاۃ المفاتیح ج 3ص 9
ترجمہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد: ”حَتّٰى أَرُدَّ عَلَيْهِ السَّلاَمَ“کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سلام کرنے والے کو ”وعلیک السلام“ کہہ کر جواب عنایت فرماتے ہیں۔
اعتراض:
بعض حضرات فرماتے ہیں کہ اس حدیث پاک سے تو حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی القبر کے عقیدہ کی نفی ہوتی ہے کیونکہ حدیث پاک میں ہے ”رَدَّ اللهُ عَلَىَّ رُوحِى“ رد روح اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک میں پہلے روح مبارک نہیں تھی جب کوئی آدمی سلام کرتا ہے تو لوٹ آتی ہے اس کا مطلب پہلے روح موجودنہیں تھی؟
جواب:
شیخ العرب والعجم حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ م1377ھ فرماتے ہیں:
الف: ابوداؤدکی روایت میں ”رَدَّ اللَّهُ عَلَىَّ رُوحِىْ“ فرمایاگیاہے، حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
” مَا مِنْ مُسْلِمٍ يُسَلِّمُ عَلَىَّ إِلاَّ رَدَّ اللَّهُ عَلَىَّ رُوْحِىْ حَتَّى اُسَلِّمَ عَلَیْہِ اوکما قال“
اگرلفظ
”اِلَیَّ رُوْحِیْ“
فرمایا گیا ہوتا تو آپ کا شبہ وارد ہو سکتا تھا، ”اِلٰی“ اور ” عَلٰی“ کے فرق سے آپ نے ذہول فرمایا، ” عَلٰی“ استعلاء کے لیے ہے اور ”اِلٰی“ نہایتِ طرف کے لیے ہے۔ اس سے تو معلوم ہوتاہے کہ صلوٰۃ وسلام سے پہلے روح کا استعلاء نہ تھا، نہ یہ کہ وہ جسم اطہر سے بالکل خارج ہوگئی تھی اور اب اس کو جسم اطہر کی طرف لوٹایا گیا ہے، چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدارج قرب ومعرفت میں ہر وقت ترقی پذیر ہیں اس لیے توجہ الی اللہ کا انہماک اور استغراق دوسری جانب کی توجہ کو کمزور کر دیتا ہے۔ چونکہ اہل استغراق کی حالتیں روزانہ مشاہدہ ہوتی ہیں مگر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمۃللعلمین بنایا گیا ہے اس لیے بارگاہِ الوہیت سے درود بھیجنے والے پر رحمتیں نازل فرمانے کے لیے متعدد مزایا میں ایک مزیت یہ بھی عطا فرمائی گئی ہے کہ خود سرور کائنات علیہ السلام کو اس استغراق سے منقطع کرکے درود بھیجنے والے کی طرف متوجہ کردیا جاتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے لیے متوجہ ہو کر دعا فرماتے ہیں۔ب: اگر بالفرض وہی معنی لیے جائیں جو آپ سمجھے ہیں اور ” عَلٰی“ اور ”اِلٰی“ میں کوئی فرق نہ کیا جائے تب بھی یہ روایت دوامِ حیات پر دلالت کرتی ہے، اس لیے کہ دن رات میں کوئی گھڑی اور کوئی گھنٹہ بلکہ کوئی منٹ اس سے خالی نہیں رہتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اندورون ِ نماز اور بیرونِ نماز درود نہ بھیجا جاتا ہو، اس لیے دوامِ حیات لازم آئے گا۔
مکتوبات شیخ الاسلام حصہ اول ص248تا 252
مولانا منظور احمد نعمانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
اکثر شارحین نے رد روح کا یہ مطلب بیان کیاہےکہ قبر میں آپ صلی ا للہ علیہ وسلم کی روح پاک کی تمام تر توجہ دوسرے عالم کی طرف اور اللہ تعالی کی جمالی اور جلالی تجلیات کے مشاہدہ میں مصروف رہتی ہے پھر جب کوئی امتی سلام عرض کرتا ہے اور وہ فرشتہ کے ذریعے یا براہ راست آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتا ہے تو اللہ تعالی کے اذن سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح اس طرف بھی متوجہ ہوتی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سلام کا جواب دیتے ہیں پس اس روحانی توجہ والتفات کو رد روح سے تعبیر فرمایاگیا۔
معارف الحدیث ج 5 ص 238+ 239
دلیل نمبر3:
عَن اَوْسِ بْنِ اَوْسٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: اِنَّ مِنْ اَفْضَلِ اَیَّامِکُمْ یَوْمَ الجُمُعَةِ فِیہِ خُلِقَ اٰدَمُ وَفِیْہِ قُبِضَ وَفِیْہِ النَّفْخَةُ وَفِیْہِ الصَّعْقَةُ فَاَکْثِرُوْاعَلَّیَ مِنَ الصَّلٰوْةِ فِیْہِ فَاِنَّ صَلٰوتَکُمْ مَعْرُوْضَةٌ عَلَّیَ قَالَ قَالُوْا: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ وَکَیْفَ تُعْرَضُ صَلاَ تُنَا عَلَیْکَ وَقَدْاَرِمْت قَالَ: یَقُوْلُوْنَ بَلَیْتَ، فَقَالَ: اِنَّ اللہَ عَزَّوَجَلَّ حَرَّمَ عَلَی الْاَرْضِ اَجسَادَالْاَنْبِیَائِ.
سنن ابی داؤ د ج1ص157 باب تفریع ابواب الجمعۃ
ترجمہ: حضرت اوس بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایابے شک تمہارے دنوں میں سے افضل ترین دن جمعہ کا دن ہے اس دن آدم علیہ السلام کی پیدائش ہوئی اسی دن ان کی وفات ہوئی، اسی دن نفخہ اولیٰ ہوگا اسی دن نفخہ ثانیہ ہوگا اس لیے تم اس دن مجھ پر کثرت سےدرود بھیجا کرو اس لیے کہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ہمارا درود آپ پر کیسے پیش کیا جائے گا جبکہ آپ کا جسم مبارک ریزہ ریزہ ہوچکا ہوگا؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا بے شک حق تعالیٰ شانہ نے انبیاء کرام علیہم السلام کے جسموں کو زمین پر حرام کردیا ہے ۔
فائدہ:
اس حدیث سے آپ علیہ السلام کے زندہ ہونے کے ساتھ آپ کے اسی جسم عنصری پر صلوٰۃ وسلام کا پیش ہونا ثابت ہوتا ہے ”فَاَکْثِرُوْاعَلَّیَ مِنَ الصَّلٰوْةِ فِیْہِ“ کا جملہ اس بات کی بالکل واضح دلیل ہے۔
دوسری بات آپ علیہ السلام نے ”فَاِنَّ صَلٰوتَکُمْ مَعْرُوْضَةٌ عَلَّیَ“ جملہ اسمیہ بول کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اس اشکال کو ختم فرمایا جس میں وہ استمرار اور ہمیشگی پر تعجب کرتے ہوئے آپ علیہ السلام سے قبل الوفات اور بعد الوفات میں فرق کرنا چاہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اشکال کو رفع فرماتے ہوئے یہ جملہ ارشاد فرمایا:
”اِنَّ اللہَ عَزَّوَجَلَّ حَرَّمَ عَلَی الْاَرْضِ اَجسَادَالْاَنْبِیَائِ“
کہ انبیاء کرام علیہم السلام کی وفات کے بعد وہ حالت نہیں ہوتی جو عام دوسرے انسانوں کی ہوتی ہے جس طرح قبل الوفات صلوٰۃ وسلام روح مع الجسد پر پیش ہوتا تھا اسی طرح بعدالوفات بھی صلوٰۃ وسلام روح مع الجسد پر پیش ہوتا ہے۔
اور اگر بعد الوفات جسد مثالی پر پیش ہوتاتو آپ علیہ السلام وضاحت فرمادیتے کہ قبل الوفات تو صلوٰۃ وسلام جسد عنصری پر پیش ہوتا ہے اور بعدالوفات جسد مثالی پر پیش ہوگا۔
دوسرا اگر بعد الوفات جسد مثالی پر صلوٰۃ وسلام پیش ہوتا تو صحابہ کرم رضی اللہ عنہم کو یہ اشکال کیوں پیش آتا ”وَقَدْاَرِمْتَ“ کیونکہ جسد مثالی تو ریزہ ریزہ نہیں ہوتا تو معلوم ہوا کہ صلوٰۃ وسلام جسد عنصری پر روح مع الجسد کے پیش ہوتاہے۔
دلیل نمبر4:
عَن عَبْدِاللہِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّ لِلہِ مَلآئِکَةً سَیَّاحِیْنَ فِی الاَرْضِ یُبَلِّغُٓوْنِیْ مِنْ اُمَّتِیَ السَّلاَمَ.
سنن النسائی ص 189ج 1، باب التسلیم علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم
ترجمہ: حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا بے شک اللہ تعالی کے ایسےفرشتےہیں جو زمین پر گھومتے ہیں اور میری امت کا سلام مجھےپہنچاتے ہیں۔
فائدہ:
حدیث پاک کا ٹکڑا ”سَیَّاحِیْنَ فِی الْاَرْضِ“ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ فرشتے زمین پر گھومتے پھرتے ہیں اور زمین سے درود لے کر اسی زمین والی قبر میں پہنچاتے ہیں اور زمینی قبر میں آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کا جسد عنصری موجود ہے نہ کہ جسد مثالی۔
”یُبَلِّغُوْنِیْ“
میں یائے متکلم ضمیر واحد کی ہے جو کہ ذات کے لیے ہے اور آپ علیہ السلام کی ذات گرامی روح مع الجسد کے مجموعے کا نام ہے نہ صرف روح کا اور نہ صرف جسد کا۔تو معلوم ہوا صلوٰۃ وسلام بھی روح مع الجسد پر پیش ہوتا ہے نہ صرف روح پر اور نہ جسد مثالی پر۔