روضہ مبارک پر حاضری کا طریقہ

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
روضہ مبارک پر حاضری کا طریقہ
قرآن کریم میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں:
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَنْ تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تَشْعُرُونَ.
سورۃالحجرات 2
ترجمہ: اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے بلند نہ کرو، اور نہ ان سے بات کرتے ہوئے اس طرح زور سے بولا کرو جیسے تم ایک دوسرے سے زور سے بولتے ہو، ایسانہ ہو کہ تمہارے اعمال برباد ہو جائیں اور تمہیں پتہ بھی نہ چلے۔
اس آیت کریمہ کی تفسیر میں امام ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:
احادیث میں ہے ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے مسجد میں دو آدمیوں کی آواز سنی تو ان کو تنبیہ فرمائی اور پوچھا: تم لوگ کہاں کے ہو؟ معلوم ہوا کہ یہ اہل طائف ہیں۔ تو فرمایا: اگر یہاں مدینے کے باشندے ہوتے تو میں تم کو سزا دیتا تم اپنی آوازیں مسجد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بلند کر رہے ہو۔ اس حدیث سے علماءِ امت نے یہ حکم نکالا ہے کہ جیسا احترام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں تھا اسی طرح کا احترام و توقیر اب بھی لازم ہے کیونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر مبارک میں زندہ ہیں اور جس طرح آپ کی دنیاوی حیات میں
”لَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ“
کی حرمت و ممانعت تھی اسی طرح اب بھی ہے، اس قبر مبارک کے پاس بلند آواز سے بات کرنا اور سخت لب و لہجہ اختیار کرنا ممنوع ہے۔ وقار و سکون اور تعظیم و تکریم ملحوظ رہے۔
تفسیر ابن کثیر ج5 ص136 سورۃ حجرات
علامہ سخاوی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں:
مستحب یہ ہے کہ جب مدینہ منورہ کے مکانات اور درختوں پر نظر پڑے تو درود پاک کثرت سے پڑھے اور جتنا قریب ہوتا جائے اتنا ہی صلوٰۃ وسلام میں کثرت ہو اس لیے کہ یہ وحی اور قرآن پاک کے نازل ہونے کے مقامات ہیں۔
حضر ت جبرائیل علیہ السلام اور حضرت میکائیل علیہ السلام کی بار بار یہاں آمد ہوئی تھی اور اس کی مٹی سید البشر صلی اللہ علیہ وسلم پر مشتمل ہے۔ اسی جگہ سے اللہ کے دین اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک سنتوں کی اشاعت ہوئی ہے۔ یہ فضائل وخیرات کے مناظر ہیں اور جس جگہ سے گزرے یہ خیال دل میں رکھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہاں سے گزرتے، آتے اور جاتے تھے۔ مدینہ منورہ اپنی قیام گاہ پر پہنچ کر غسل کرے، اچھے سے اچھے کپڑے پہنے، ڈاڑھی اوربالوں میں کنگھا کرے، خوشبو لگائے اور مسجد نبوی کی طرف آئے۔ اگر آسانی ہو تو افضل یہی ہے کہ باب جبرائیل سے مسجد میں داخل ہوجائے اور دایاں قدم اندر رکھتے ہوئے دعاء پڑھے:
اَللّٰہُمَّ افْتَحْ لِیْ اَبْوَابَ رَحْمَتِکَ.
[اے اللہ! میرے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے]
اور اعتکاف کی نیت کرتے ہوئے یہ دعا پڑھے:
نَوَیْتُ سُنَّۃَ الْاِعْتِکَافِ.
[میں سنت اعتکاف کی نیت کرتا ہوں]
اس کے بعد اگر موقع مل جائے تو ریاض الجنۃ پہنچ کر محراب میں یا اس کے قریب جگہ میں دو رکعت تحیۃ المسجد ادا کرے اگر وہاں جگہ نہ ملے تو لڑنے جھگڑے اور شور و شغب کرنے کی بجائے جہاں جگہ ملے وہیں پر تحیۃ المسجد کے نوافل ادا کرے۔
یہاں پہنچ کر اپنے دل کو نہایت ادب وتعظیم اور ہیبت سے بھر لے۔ یوں سمجھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کررہاہوں، اور یہ ذہن میں رکھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے صلوٰۃ وسلام کو سن رہے ہیں اور آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں سفارش کی درخواست کررہاہوں اس لیے بلند آواز سے بولنا، لڑنا جھگڑنااس طرح کے تمام امور سے پرہیز کرے۔
اس کے بعد قبلہ کی جانب سے روضہ مبارک پر حاضر ہو اور تھوڑے سے فاصلہ پر کھڑا ہوکر اپنی نگاہوں کو نیچے رکھتے ہوئے نہایت خشوع وخضوع اور ادب واحترام سے یہ پڑھے:
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا سَیِّدِیْ یَارَسُوْلَ اللہِ
آپ پر سلام ہو اے اللہ کے رسول
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَانَبِیَّ اللہِ
آپ پر سلام ہو اے اللہ کے نبی
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا خِیَرَۃَ اللہِ
آپ پر سلامتی ہو اے اللہ کی بر گزیدہ ہستی
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا خَیْرَ خَلْقِ اللہِ
آپ پر سلام ہواے اللہ کی مخلوق میں سب سے بہتر
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا حَبِیْبَ اللہِ
آپ پر سلام ہو اے اللہ کے حبیب
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَاسَیِّدَ الْمُرْسَلِیْنَ
آپ پر سلام ہو اے رسولوں کے سردار
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا خَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ
آپ پر سلام ہو اے خاتم النبیین
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
آپ پر سلام ہو اے رب العالمین کے رسول
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا قَائِدَالْغُرِّ الْمُحَجَّلِيْنَ
آپ پر سلام ہو اے قیامت کے دن روشن چہروں اور ہاتھ پاؤں والوں کے سردار
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا بَشِیْرُ
آپ پر سلام ہو اے جنت کی بشارت دینے والے
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا نَذِیْرُ
آپ پر سلام ہو اے جہنم سے ڈرانے والے
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ وَعَلٰی اَھْلِ بَیْتِکَ الطَّاہِرِیْنَ
آپ پراور آپ کے اہل بیت پر سلام جو طاہر اور پاک ہیں
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ وَعَلٰی اَزْوَاجِکَ الطَّاہِرَاتِ اُمَّہَاتِ الْمُؤْمِنِیْنَ
آپ پر اور آپ کی ازواج پرسلام جو سارے مومنین کی مائیں ہیں
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ وَعَلٰی اَصْحَابِکَ اَجْمَعِیْنَ
آپ پر اور آپ کے تمام اصحاب پرسلام ہو
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ وَعَلٰی سَائِرِ الْاَنْبِیَآءِ وَالْمُرْسَلِیْنَ وَسَائِرِ عِبَادِہٖ الصَّالِحِیْنَ
آپ پر اور تمام انبیاء اور رسولوں پر اور اللہ کے تمام نیک بندوں پرسلام ہو
جَزَاکَ اللہُ عَنَّا یَا رَسُوْلَ اللہِ اَفْضَلَ مَا جَزَیٰ نَبِیًّاعَنْ قَوْمِہٖ وَرَسُوْلًا عَنْ اُمَّتِہٖ
اے اللہ کے رسول اللہ پاک آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے اس بے بھی زیادہ جتنی کسی نبی کو اس کی قوم کی طرف سے اور کسی رسول کو اس کی امت کی طرف سے عطا کی ہو
وَصلَّی اللہُ عَلَیْکَ کُلَّمَا ذَکَرَکَ الذَّاکِرُوْنَ وَ کُلَّمَا غَفَلَ عَنْ ذِکْرِکَ الْغَافِلُوْنَ
اللہ پاک آپ پر رحمت بھیجے جب بھی آپ کا کوئی ذکر کرے اور جب بھی غافل لوگ آپ کے ذکر سے غافل ہوں
وَصَلّٰی عَلَیْکَ فِی الْاَوَّلِیْنَ
اللہ پا ک آپ پر اولین میں رحمت بھیجے
وَصَلّٰی عَلَیْکَ فِی الْآخِرِیْنَ
اللہ پاک آپ پر آخرین میں رحمت بھیجے
اَفْضَلَ وَاَکْمَلَ وَاَطْیَبَ مَاصَلّٰی عَلٰی اَحَدٍ مِّنَ الْخَلْقِ اَجْمَعِیْنَ
اس سب سے افضل، اکمل اور پاکیزہ جو اللہ نے اپنی ساری مخلوق میں سے کسی پر بھیجی ہو
كَمَا اسْتَنْقَذَنَا بِكَ مِنَ الضَّلَالَةِ
جب کہ اس نے ہمیں آپ کی برکت سے گمراہی سے نجات دی
وَبَصَّرَنَا بِکَ مِنَ الْعُمْیِ وَالْجَھَالَۃِ
اور آپ کی وجہ سے جہالت اور اندھے پن سے نجات دی
اَشْھَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّااللہُ وَاَشْھَدُ اَنَّکَ عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ وَاَمِیْنُہٗ وَخِیَرَتُہٗ مِنْ خَلْقِہٖ واَشھَدُ اَنَّکَ قَدْ بَلَّغْتَ الرِّسَالَۃَ وَاَدَّیْتَ الْاَمَانَۃَ وَنَصَحْتَ الْاُمَّۃَ وَجَاھَدْتَّ فِی سَبِیْلِ اللہِ حَقَّ جھَادِہٖ اَللّٰہُمَّ آتِہٖ نِہَایَۃَ مَا یَنْبَغِیْ اَنْ یَّاْمَلَہٗ الْآمِلُوْنَ.
میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپ اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ اس کے امین ہیں، ساری مخلوق میں سے اس کے برگزیدہ ذات ہیں۔ اور اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے اللہ کے پیغام کو پہنچا دیا اور اس کی امانت ادا کردی۔ امت کے ساتھ پوری پوری خیر خواہی کی اور اللہ پاک کے راستے میں کوشش کا حق ادا کر دیا۔ اللہ پاک آپ کو اس سے زیادہ دے جس کی امید کرنے والے امید کر سکتے ہیں۔
اس کے بعد اپنے لیے اور پوری امت مسلمہ کے لیے دعا کرے۔
القول البدیع ص747 ملخصاً
اس کے بعد حضرات شیخین یعنی سیدنا ابوبکر صدیق اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہما پر سلام پیش کرے اور ان کے لیے بھی دعا کرے۔
روضہ مبارک پر دعا مانگنے کا طریقہ:
دعا قبلہ نہیں بلکہ روضہ انور کی طرف رخ کرکے مانگے۔
حضرت ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب
”اَلْمَسْلَكُ الْمُتَقَسِّط“
میں فرماتے ہیں:
رَوٰى أَبُوْ حَنِيْفَةَ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا أَنَّهُ قَالَ: مِنَ السُّنَّةِ أَنْ تَأْتِيَ قَبْرَ رَسُوْلِ اللهِ صَلَى اللهُ عَلَيْهِ وَ سَلَمَ فَتَسْتَقْبِلَ الْقَبْرَ بِوَجْهِكَ ثُمَّ تَقُوْلُ: اَلسَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَ رَحْمَةُ اللهِ وَ بَرَکَاتُهٗ۔۔۔ عَنِ الاِمَامِ ابْنِ الْمُبَارَكِ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا حَنِيْفَةَ يَقُوْلُ: "قَدِمَ أَبُوْ أَيُّوبَ السَّخْتِيَانِيُّ وَ أَنَا بِالْمَدِيْنَةِ فَقُلْتُ: لَأَنْظُرَنَّ مَا يَصْنَعُ فَجَعَلَ ظَهْرَهٗ مِمَّا يَلِي الْقِبْلَةَ وَ وَجْهَهٗ مِمَّا يَلِيْ وَجْهَ رَسُوْلِ اللهِ صَلَّى اللہِ عَلَيْهِ وَ سَلَمَ وَ بَكٰى غَيْرَ مُتَبَاكٍ فَقَامَ مَقَامَ فَقِيْهٍ وَ فِيْهِ تَنْبِيْهٌ عَلٰى أَنَّ هٰذَا هُوَ مُخْتَارُ الْإِمَامِ ۔
المسلک المتقسط ص514 باب زیارۃ سید المرسلین
ترجمہ: امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے نقل کیا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: سنت یہ ہے کہ جب تمہاری حاضری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر ہو تو قبر مبارک کی طرف چہرہ کرکے اس طرح کہو: اے نبی! آپ پر سلام ہو اور اللہ کی رحمت و برکات نازل ہوں۔ حضرت ابن المبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ”میں نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب حضرت ابو ایوب سختیانی رحمہ اللہ مدینہ منورہ تشریف لائے تو میں وہیں موجود تھا، میں نے پختہ ارادہ کیا کہ دیکھوں تو سہی آپ کیا کرتے ہیں؟ چنانچہ دیکھا کہ انہوں نے قبلہ کی طرف پشت کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ انور کی طرف اپنا منہ کیا اورایک فقیہ کی شان کے مطابق بغیر کسی تکلف اور تصنع کے روئے ۔“ اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہی صورت امام صاحب رحمہ اللہ کے ہاں پسندیدہ ہے ۔
ابن وہب رحمہ اللہ نے امام مالک رحمہ اللہ سے نقل کیاہے:
إِذَا سَلَّمَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ يَقِفُ وَوَجْهُهٗ إِلَى الْقَبْرِ لَا إِلَى الْقِبْلَةِ وَيَدْنُوْ وَيُسَلِّمُ وَيَدْعُوْ.
اقتضاء الصراط المستقیم ج 2 ص269
ترجمہ: یعنی جب کوئی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں سلام عرض کرلے تو اس طرح کھڑا ہوکہ منہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف ہو نہ کہ قبلہ کی طرف اور قریب ہوجائے اور سلام عرض کرلے اور دعا کرے ۔
امام ابو عبداللہ محمد بن عبداللہ الحنبلی تحریر فرماتے ہیں:
روضہ مبارک کی طرف منہ کرکے منبر کو اپنی بائیں جانب کرکے کھڑا ہو اور دعا مانگے۔
خلاصۃ وفاء الوفاء ج1 ص45
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا عمل:
علامہ سمہودری رحمہ اللہ نقل کرتے ہیں:
وَقَالَ أَبُوْ بَكْرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهٗ: لَا يَنْبَغِيْ رَفْعُ الصَّوْتِ عَلٰى نَبِيٍّ حَيًّا وَّلَا مَيِّتًا.
وفاء الوفاء: ج2 ص122
ترجمہ: حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر آواز کو بلند کرنا جائز نہیں، نہ زندگی میں نہ موت کے بعد۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کاعمل:
عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ كُنْتُ قَائِمًا فِي الْمَسْجِدِ فَحَصَبَنِي رَجُلٌ فَنَظَرْتُ فَإِذَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فَقَالَ اِذْهَبْ فَأْتِنِي بِهَذَيْنِ فَجِئْتُهُ بِهِمَا قَالَ مَنْ أَنْتُمَا أَوْ مِنْ أَيْنَ أَنْتُمَا قَالَا مِنْ أَهْلِ الطَّائِفِ قَالَ لَوْ كُنْتُمَا مِنْ أَهْلِ الْبَلَدِ لَأَوْجَعْتُكُمَا تَرْفَعَانِ أَصْوَاتَكُمَا فِي مَسْجِدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
صحیح البخاری: ج1ص67 باب رفع الصوت فی المساجد
ترجمہ: حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں مسجد میں کھڑا تھا کہ کسی شخص نے مجھے کنکری ماری، میں نے دیکھا تو وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تھے، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جاؤ اور ان دونوں آدمیوں کو میرے پاس لے آؤ۔ میں انہیں آپ رضی اللہ عنہ کے پاس لے آیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اُن سے پوچھا: تم کن لوگوں میں سے ہو؟ یعنی کس قبیلے سے تمہارا تعلق ہے؟ انہوں نے کہا: ہم اہل طائف میں سے ہیں۔اس پرحضرت عمررضی اللہ عنہ نے فرمایا :اگر تم اہل مدینہ میں سے ہوتے تو میں تمہیں سزادیتا اس لیے کہ تم مسجد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنی آوازیں بلند کررہے ہو۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا عمل:
علامہ تقی الدین سبکی رحمہ اللہ تعالی اپنی معروف کتاب شفاء السقام میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وَ مَا عَمِلَ عَلِىُّ بْنُ اَبِیْ طَالِبٍ مِصْرَاعَيْ دَارِهٖ إِلَّا بِالْمَنَاصِعِ تَوَقِّيًا لِّذٰلِكَ.
شفاء السقام: ص432
ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے گھر کے دروازے مدینہ میں ایک باہر کی جگہ میں بنوائے تاکہ کواڑ بننے کا شور پیدا نہ ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو تکلیف نہ ہو۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا عمل:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں مروی ہے:
اَنَّھَا کَانَتْ تَسْمَعُ صَوْتَ الْوَتْدِ یُوْتَدُ وَالْمِسْمَارُ یُضْرَبُ فِی بَعْضِ الدُّوَرِ الْمُطِیْفَۃِ لِمَسْجِدِ رَسُوْلِ اللہِ صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتُرْسِلُ اِلَیْہِمْ لَا تُؤْذُوْا رَسُوْلَ اللہِ صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
شفاء السقام للسبکی: ص432
ترجمہ: آپ جب کبھی ان گھروں میں جو مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سےمتصل تھے، کسی میخ لگنے یا کیل لگانے کی آواز سنتی تھیں تو یہ حکم بھیجتی تھیں کہ خبردار! حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ا س آواز سے اذیت نہ دو۔
فائدہ:
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ علیہ السلام کی وفات کے بعد بھی روضہ مبارک اور مسجد نبوی میں بلند آواز سے بات نہیں کرتے تھے کہ کہیں ہماری اس گفتگو کی وجہ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف نہ ہو اور دروازےبنانے کی آواز بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم تک نہیں پہنچنے دیتے تھے۔