نام مبارک کے ساتھ ”سیدنا“ کا لفظ بڑھا نا

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
نام مبارک کے ساتھ ”سیدنا“ کا لفظ بڑھا نا
درمختار میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام نامی اسم گرامی کے شروع میں لفظ ”سیدنا“ بڑھانا مستحب اور افضل ہے۔
رد المحتار ج 1 ص 513
سوال :
بعض لوگ کہتے ہیں کہ لفظ سیدنا نہیں بڑھانا چاہیے اور بطور دلیل ایک حدیث پیش کرتے ہیں کہ ابو مطرف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں ایک وفد وفد بنی عامر کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی: ”أَنْتَ سَيِّدُنَا“ کہ آپ ہمارے سردار ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اَلسَّيِّدُ اللّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالٰى“یعنی حقیقی سید اور سردار تو اللہ ہی ہے۔
سنن ابی داؤد ج2 ص314 باب فی کراہیۃ التمادح
تو اس سے معلوم ہوا اللہ کے لیے لفظ ”سید“ استعمال کرنا چاہیے اور غیر اللہ کے لیے استعمال کرنا درست نہیں۔
جواب نمبر1:
آپ علیہ السلام کا فرمان
” اَلسَّيِّدُ اللّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالٰى“
بالکل صحیح ہے کہ حقیقی سیادت اور کمال سیادت اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر سیدنا کا لفظ بڑھانا اور استعمال کرنا درست نہیں۔ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لیے یہ لفظ استعمال فرمایا ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:
أَنَا سَيِّدُ النَّاسِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ.
صحیح البخاری باب ذریۃ من حملنا مع نو ح ، صحیح مسلم باب ادنی اھل الجنۃ منزلۃ فیھا
کہ میں قیامت کے دن لوگوں کا سردار ہوں گا۔
ایک اور روایت میں ہے:
أَنَا سَيِّدُ وُلْدِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ.
صحیح مسلم باب تفضیل نبینا
کہ میں قیامت کے دن اولاد آدم کا سردار ہوں گا۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:
أَنَا سَيِّدُ وَلَدِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلاَ فَخْرَ.
جامع الترمذی ج 2 ص 147باب فضل النبی صلی اللہ علیہ وسلم
کہ میں قیامت کے دن اولاد آدم کا سردار ہوں گا اور مجھے اس پر کوئی تکبر یا فخر نہیں ہے۔
جواب نمبر 2:
باقی رہا اس حدیث کا مطلب تو اس سے مراد کمال سیادت ہے اور وہ واقعی صرف خدا کی ذات کے اندر ہے اس نفی سے مطلقا نفی مراد نہیں۔ جیسا کہ حدیث پاک میں آتا ہے ایک صحابی نے آپ علیہ السلام کی پشت مبارک پر مہر نبوت کے بارے میں یہ درخواست کی تھی کہ میں طبیب ہوں، آپ کی پشت مبارک پر جو گوشت ابھرا ہوا ہے مجھے دکھلائیے میں اس کا علاج کروں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا طبیب تو اللہ جلّ شانہ ہی ہے جس نے اس کو پیدا فرمایا۔
سنن ابی داؤد باب فی الخضاب
اس حدیث پاک سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ معالج کو طبیب کہنا درست نہیں کیونکہ طبیب تو خدا کی ذات ہے۔ لیکن یہاں حقیقت کی نفی نہیں بلکہ کمال کی نفی ہے اسی طرح وہاں پر بھی حقیقت کی نفی نہیں بلکہ کمال سیادت کی نفی ہے۔
اسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ آپ علیہ السلام کا ارشاد نقل کرتے ہیں:
لَيْسَ الشَّدِيدُ بِالصُّرَعَةِ إِنَّمَا الشَّدِيدُ الَّذِي يَمْلِكُ نَفْسَهُ عِنْدَ الْغَضَبِ.
صحیح مسلم ج2 ص326 کتاب الآداب باب فضل من یملک نفسہ عند الغضب
کہ پہلوان وہ نہیں جو دوسرے آدمی کو پچھاڑ دےبلکہ پہلوان وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے آپ پر قابو پالے۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ پچھاڑنے والے کو پہلوان کہنا درست نہیں، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پہلوان ہونے کی نفی کردی۔ نہیں! پہلوانی کی نفی نہیں کی بلکہ کمالِ پہلوانی کی نفی کی ہے۔
جواب نمبر3:
علامہ مجد الدین صاحب قاموس تحریر فرماتے ہیں کہ بہت سے لوگ
”اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا محمد“
کہتے ہیں تو اس میں بحث ہے۔ نماز میں یوں کہنا تو درست نہیں البتہ نماز کے علاوہ میں جو چند لوگ روایت پیش کرتے ہیں کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا
”اَلسَّيِّدُ اللّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالٰى“
اس سے معلوم ہوا کہ آپ علیہ السلام کے لیے سیدنا کا لفظ استعمال کرنا درست نہیں۔
آپ علیہ السلام کا یہ فرمان یا تو تواضع کے لیے تھا یا پھر آپ علیہ السلام نے منہ پر تعریف کو پسند نہ فرمایا ہو یا پھر انہوں نے بہت مبالغہ کیا تھا اور زمانہ جاہلیت میں لوگوں کا یہ دستور تھا کہ اپنے سردار کے منہ پر اس قسم کی تعریفیں کرتے تھے۔ انہوں نے کہا آپ ہمارے سردار ہیں آپ ہمارے باپ ہیں آپ ہم سے فضیلت میں بہت بڑے ہوئے ہیں آپ ہم پر بخشش کرنےمیں سب سےبڑھے ہوئے ہیں اور آپ جفنۃ الغرا ءہیں۔ یہ زمانہ جاہلیت کا مشہور مقولہ ہے وہ اپنے سردار کو جو بڑا کہلانے والا ہو اور بڑے بڑے پیالوں میں لوگوں کودنبوں کی چکی اور گھی سے لبریز پیالوں میں کھلاتا ہو۔ ان سب باتوں پرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار فرمایا تھا کہ تم کو شیطان مبالغہ میں نہ ڈال دے۔ ورنہ صحیح احادیث میں ہے کہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لیے لفظ سید کو استعمال فرمایا ہے اور اپنے نواسہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے لیے فرمایا:
ابنی ھٰذَا سیِّدٌ.
صحیح البخاری ج 1ص 530باب مناقب الحسن والحسین
میرا یہ بیٹا سردار ہے۔
حضرت سہل بن حنیف کا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ”یاسیدی“ کے ساتھ خطاب کرنا وارد ہے۔
عمل الیوم والیلۃ ص135
جواب نمبر4:
آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے علاوہ دیگر شخصیات کے لیے لفظ ”سید“ کا استعمال قرآن و حدیث میں کئی مقامات پر ملتا ہے۔ مثلاً:
1: قرآن کریم میں حضرت یحییٰ علیہ السلام کے بارے میں ہے:
سَيِّدًا وَحَصُورًا وَنَبِيًّا مِنَ الصَّالِحِينَ.
سورۃ آل عمران 39
ترجمہ: وہ لوگوں کے پیشوا ہوں گے، اپنے آپ کو نفسانی خواہشات سے مکمل طور پر روکے ہوئے ہوں گے، نبی ہوں گے اور ان کا شمار راست بازوں میں ہو گا۔
2: قرآن کریم میں سورۃ یوسف میں ہے:
وَأَلْفَيَا سَيِّدَهَا لَدَى الْبَابِ.
سورۃ یوسف 25
ترجمہ: دونوں نے اس عورت کے شوہر کو دروازے پر کھڑا پایا۔
3: حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے:
أَبُو بَكْرٍ سَيِّدُنَا وَأَعْتَقَ سَيِّدَنَا يَعْنِي بِلَالًا.
ابو بکر ہمارے سردار ہیں ہمارے سردار بلال کو آزاد کیا ۔
صحیح البخاری ج2 ص 531باب مناقب بلال بن رباح مولی ابی بکر رضی اللہ عنہما
4: حنفیت کے بیباک ترجمان علامہ بدرالدین عینی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انصار کو حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا ”قُومُوا إِلَى سَيِّدِكُمْ“ یعنی اپنے سردار کے لیے کھڑے ہوجاؤ۔ [صحیح البخاری ج2 ص926] اس سے استدلال کیا جاتا ہے کہ اگر کوئی شخص ”سیدی ومولائی“ کہے تو اس کو نہیں روکا جائے گا اس لیے کہ سیادت کا مرجع اور مآل یعنی نتیجہ اپنے ماتحتوں پر بڑائی اور ان کے لیے حسن تدبیر ہے اسی وجہ سے خاوند کو بھی ”سید“ کہا جاتا ہے۔
عمدۃ القاری ج15 ص376
5: آپ علیہ السلام نے بنو سلمہ سے پوچھا:
”مَنْ سَيِّدُكُمْ يَا بَنِي سَلِمَةَ؟“
تمہارا سردار کون ہے؟ انہوں نے کہا: جد بن قیس۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بَلْ سَيِّدُكُمْ عَمْرُو بْنُ الْجَمُوحِ“ بلکہ تمہارا سردار عمر و بن جموح رضی اللہ عنہ ہے۔
شعب الایمان باب الجود والسخاء
6: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:
لَا يَقُلْ أَحَدُكُمْ أَطْعِمْ رَبَّكَ وَضِّئْ رَبَّكَ اسْقِ رَبَّكَ وَلْيَقُلْ سَيِّدِي مَوْلَايَ.
صحیح البخاری ج1 ص346 باب کراہیۃ التطاول علی الرقیق
ترجمہ: کوئی شخص
”أَطْعِمْ رَبَّكَ وَضِّئْ رَبَّكَ اسْقِ رَبَّكَ“
نہ کہے یعنی اپنے آقا کو رب کے لفظ سے تعبیر نہ کرے بلکہ یوں کہے ”سَيِّدِي مَوْلَايَ“ کہ میرا سید میرا مولیٰ۔
جب غیر نبی کے لیے خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ”سید“ کا لفظ استعمال کیا ہے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ناجائز کیسے ہوسکتا ہے؟!