المہند علی المفند“ کا پس منظر

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
”المہند علی المفند“ کا پس منظر
الحمد للہ وحدہ لاشریک لہ والصلوۃ والسلام علیٰ من لا نبی بعدہ اما بعد!
اللہ تعالیٰ ہر دور میں اپنے دین کو پھیلانے کے لیے اپنے مخصوص بندوں کا انتخاب فرماتے ہیں۔ اس دور میں براعظم ایشیاء میں خصوصاًاور پوری دنیا میں عموماً علماء حق علماء اہل السنۃ والجماعۃ دیوبند کا انتخاب فرمایا جنہوں نے اپنا سب کچھ اللہ تعالیٰ کے دین کی سر بلندی کے لیے لگا دیا ہے۔ ” علماء اھل السنۃ ولجماعۃ دیوبند“ دار العلوم دیوبند ہندو ستان سے منسوب ان علماء حق کا نام ہےجنہوں نے اس دار العلوم کی بنیاد رکھی، دارلعلوم دیوبند میں پڑھا، دار العلوم دیوبند میں پڑھایا یا دار العلوم دیوبند کے نظریات کو اپنایا۔ علماء حق علماء اھل السنۃ ولجماعۃ دیوبند نے کوئی نیا دین پیش نہیں فرمایا بلکہ جس دین کو اللہ رب العزت نے حضرت پاک حضرت محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرماکر مکمل فرمایا، جس دین کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے ذریعے دنیا میں پھیلایا اور مضبوط فرمایا اور جس دین کو فقہا ء کرام اور محدثین عظام کے ذریعے عموماً اور چاروں ائمہ رحمہم اللہ کے ذریعہ خصوصاًلکھوایا اسی دین کو اللہ رب العزت نے انہی علماء حق علماء اھل السنۃ والجماعۃ دیوبند کے ذریعے فتنوں سے بچایا اور اہل الحاد و اہل بدعت کی نجاسات وآلائشوں سے پاک کر وایا۔
دوسرے لفظوں میں یوں سمجھیں کہ اللہ رب العزت نے اپنے محبوب حضرت محمد مصطفی احمد مجتبیٰ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے تکمیل دین، حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے ذریعے تمکین دین اور حضرات محدثین اور فقہاء کرا م رحمہم اللہ تعالیٰ کے ذریعہ تدوین دین، علماء اھل السنۃ والجماعۃ دیوبند کے ذریعہ تطہیر دین فرمائی۔
جس طرح دین دشمن افراد اور جماعتوں نے حضرت محمد مصطفی احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ان کی، حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے زمانے میں ان کی اور حضرات محدثین وفقہاء عظام کے وقت میں ان کی ہر طرح سے مخالفت کی، ان پر بہتان باندھے، الزام تراشیاں کیں، اسی طرح علماء اہل السنۃ والجماعۃ دیوبندکے دور میں بعض لوگوں نے ان نورانی صفات اور اخلاص و عاجزی کے پیکر بندگانِ خدا کی مخالفت کی، الزامات لگائے حتیٰ کہ ان دین کے خد مت گار وں کو دین دشمن او ر بے دین تک قرار دے کر ان پر کفر تک فتوے لگائے جس کی مثال ہندوستان کے معروف شحص مولوی احمد رضا خان صاحب کی کتاب” حسام الحرمین“ ہے جس کا پورا نام ہے
” حُسَامُ الْحَرَمَیْنِ عَلیٰ مَنْحَرِ الْکُفْرِ وَالْمَیْنِ“
یعنی فسق اور کفر کی گردن پر حرمین کی تلوار۔
مولوی احمد رضاخان صاحب (متوفیٰ1340ھ) 1323 ھ مطابق 1906ء حج کے لیے مکہ مکرمہ گئے۔ علماء حرمین یعنی مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ (زاد ھما اللہ شرفاً وکرماً) کے سامنے علماء اہل السنۃ والجماعۃ دیوبند کے چار اکابر علماء کی عبارات کو غلط انداز میں پیش کیا۔ ان میں حضرت اقدس مولا نا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ (م1297ھ) پر الزام لگایا کہ انہوں نے” تحذیر الناس“ میں لکھا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی زمانہ میں کوئی نبی آسکتا ہے یعنی حضرت نانوتوی علیہ الرحمۃ نے ختم نبوت زمانی کا انکار کیا ہے حضرت اقدس مفتی رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ (م1323ھ) پرالزام لگایا کہ انہوں نے” فتاویٰ رشیدیہ“ میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ جھوٹ بولتے ہیں حضرت اقدس مولاناخلیل احمد سہارنپوری رحمۃ اللہ علیہ (م1346ھ) پر الزام لگایا کہ انہوں نے” براہین قاطعہ“ میں لکھا ہے کہ ابلیس کا علم اللہ تعالیٰ کے علم سے زیادہ ہے اور حضرت اقدس مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ (م1362ھ) پر الزام لگایا کہ انہوں نے” حفظ الایمان“ میں لکھاہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جتنا علم تھا اتنا علم تو ہر آدمی حتیٰ کہ پاگل اور جانور کے پاس بھی ہے۔
ادھر معاملہ یہ تھا کہ علماء حرمین اردو نہیں جانتے تھے کہ اصل کتاب دیکھ لیتے اور ان حضرات سے متعارف بھی نہ تھے کہ ان سے براہ راست معلوم فرمالیتے۔ لہٰذا انہوں نے لکھ دیا کہ انہوں نے اگریہ لکھاہے تو یہ کافر ہیں۔
بس مولوی احمد رضاخان نے یہ فتویٰ لیا اور” حسام الحرمین“ کے نام سے ہندوستان میں چھاپ دیا۔ جب اس ساری صورت حال کا علم حضرت اقد س شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ (م1377ھ) کو ہوا تو حضرت نے علماءِ حرمین سے اس پر تفصیلی گفتگو فرمائی۔ علماء حرمین نے چھبیس سوالا ت لکھ کردیے کہ آپ علماء دیوبند اس بارے میں اپنا نقطہ نظر واضح کریں۔ ان چھبیس سوالات کے جوابات حضرت اقدس مولانا خلیل احمد سہارنپوری رحمۃ اللہ علیہ نے زیرِ نظر کتاب
”اَلْمُہَنَّدْ عَلَی الْمُفَنَّدْ“
کی صورت میں تحریر فرمائے۔ ”المہند“ کا معنی ہے ”ہندی تلوار“ اور ”المفند“ کا معنی ہے ” خطا کار اور جھوٹا“ ۔ گویا کتاب کے نام کا مطلب ہوا ”جھوٹے آدمی پر ہندی تلوار“
اس وقت حضرت اقدس مولانا رشید احمد گنگوہی اور حضرت اقدس مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہما انتقال فرماچکے تھے اس لیے ان دونوں حضرات کی تصدیقات ان جوابات پر نہیں ہیں البتہ ان کے صاحبزادوں؛ مولانا محمد احمد فرزندِ حضرت نانوتوی اور مولانا محمد مسعود احمد گنگوہی فرزندِ حضرت گنگوہی کی تصدیقات موجود ہیں۔ دیگر جن اکابرین نے تصدیقات فرمائیں وہ مندرجہ ذیل ہیں:
(1)شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن .... م1339ھ
(2)حضرت مولانا میر احمد حسن صاحب امروہی.... م1330ھ
(3)حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمٰن عثمانی .... م1347ھ
(4)حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی .... م1362ھ
(5)حضرت مولانا شاہ عبدالرحیم رائے پوری .... م1337ھ
(6) حضرت مولانا حکیم محمد حسن (برادر حضرت شیخ الہند ) .... م1345ھ
(7)حضرت مولانا قدرت اللہ مراد آبادی
(8)حضرت مولانا حبیب الرحمٰن عثمانی (برادر علامہ شبیر احمد عثمانی) .... م1348ھ
(9)حضرت مولانا محمد احمد (فرزندِ حضرت نانوتوی) .... م1347ھ
(10)حضرت مولانا غلام رسول مدرس دارالعلوم دیوبند.... م1337ھ
(11)حضرت مولانا محمد سہول .... م1367ھ
(12) حضرت مولانا عبد الصمد
(13)حضرت مولانا حکیم محمد اسحاق نہوڑی دہلی
(14)حضرت مولانا ریاض الدین مدرسہ عالیہ میرٹھ
(15)حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ دہلوی.... م1372ھ
(16)حضرت مولانا ضیا ء الحق دہلی
(17)حضرت مولانا محمد قاسم دہلی
(18)حضرت مولانا عاشق الٰہی میرٹھی .... م1360ھ
(19)حضرت مولانا سراج احمد سردھنہ میرٹھ
(20)مولانا قاری محمد اسحاق مدرسہ اسلامیہ میرٹھ
(21)مولانا حکیم محمد مصطفٰی بجنوری
(22)حضرت مولانا محمد مسعود احمد گنگوہی (فرزندِ حضرت گنگوہی)
(23)حضرت مولانا محمد یحییٰ سہارنپوری.... م1334ھ
(24)حضرت مولانا کفایت اللہ گنگوہی مدرس مظاہر العلوم سہارنپور
ہندوستان کے ان چوبیس اکابر علماء کے علاوہ ا لمہند علی المفند کی تصدیق مکہ مکرمہ، مدینہ منورّہ، مصر اور شام کے کئی مشہور علماء نے بھی فرمائی جن کے نام یہ ہیں:
مکہ مکرمہ کے علماء:
(1) حضرت مولانا شیخ محمد سعید بابصیل الشافعی.... م1330ھ
(2) شیخ احمد رشید الحنفی
(3) شیخ محب الدین المکی الحنفی
(4) شیخ محمد صدیق افغانی المکی
(5) شیخ محمد عابد مفتی المالکیہ.... م1340ھ
(6) شیخ محمد علی بن حسین المالکی.... م1367ھ
علماءمدینہ:
(1) شیخ مولانا مفتی سید احمدبرزنجی شافعی
(2) شیخ رسوحی عمر
(3) شیخ ملا محمد خان البخاری الحنفی
(4) شیخ خلیل بن ابراہیم
(5) شیخ السید احمد الجزائری
(6) شیخ عمر بن حمدان المحرسی.... م1368ھ
(7) شیخ محمد العزیز الوزیر التونسی.... م1338ھ
(8) شیخ محمدمکی البرزنجی
(9) شیخ محمدالسوسی الخیاری
(10) شیخ احمدبن المامون البلغیش.... م1348ھ
(11) شیخ محمد توفیق
(12) شیخ موسی کاظم بن محمد
(13) شیخ احمد محمد خیر الحاجی العباسی
(14) شیخ ابن نعمان محمد منصور
(15) شیخ معصوم احمدسید
(16) شیخ عبداللہ القادربن محمد بن سودہ العرسی ولیہ
(17) شیخ محمد یٰسین
(18) شیخ ملا عبد الرحمٰن
(19) شیخ محمود عبدالجواد
(20) شیخ احمد بساطی
(21) شیخ محمد حسن سندی
(22) شیخ احمد ابن احمد اسعد
(23) شیخ عبد اللہ
(24) شیخ محمد بن عمر الفلانی
(25) شیخ احمد ابن محمد خیر الشنقیظی المالکی المدنی
علماء مصر (الجامع الازہر):
(1) حضرت شیخ سلیم البشری
(2) شیخ محمد ابراہیم القایانی
(3) شیخ سلیمان العبد
علماء دمشق:
(1) شیخ سید محمد ابو الخیر ابن عابدین بن علامہ احمد بن عبد الغنی حسینی نقشبندی
(2) شیخ مصطفیٰ بن احمد الشطی الحنبلی
(3) شیخ محمود بن رشید العطار
(4) شیخ محمد البوشی الحموی
(5) شیخ محمد سعید الحموی
(6) شیخ علی بن محمد دلال الحموی
(7) شیخ محمد ادیب الحوارانی
(8) شیخ عبد القادر
(9) شیخ محمدسعید
(10) شیخ محمد سعید لطفی حنفی
(11) شیخ حضرت فارس بن محمد
(12) شیخ مصطفی الحداد
گویا یہ کتاب ان اکابر ین کی تصدیقات کے بعد علماء اھل السنۃ والجماعۃ دیوبند کی متفقہ تحریر ہے۔ اب جو شحص خود کو علماء اہل السنۃ والجماعۃ دیوبند کی طرف منسوب کرتا ہے تو ضروری ہے کہ وہ اس کتاب میں موجود تمام نظریات وعقائد کو تسلیم کرے۔ بعض حضرات نے المہند علی المفند پر اعتراضات کیے ہیں۔ ان کے اعتراضات کے جوابات بھی” المہند علی المفند پر اعتراضات کا تحقیقی جائزہ“ کے نام سے دیے جا چکے ہیں اور اس کتاب کے کئی ایڈیشن اب تک شائع ہو چکے ہیں۔
حسام الحرمین کے مستقل جوابات بھی ہمارے اکابر علماء دے چکے ہیں۔ مثلاً
[۱]: مولانا محمد مرتضیٰ حسن چاند پوری (م1371ھ)
[۲]:” الشہاب الثاقب“ از مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ (م1377ھ)
[۳]:” فیصلہ کن مناظرہ“ از مولانامنظوراحمدنعمانی (م1417ھ)
[۴]:” عباراتِ اکابر” از مولانا محمد سرفراز خان صفدر (م 1430ھ)
مرکز اہل السنۃ والجماعۃ سرگودھا میں سالانہ دورہ تحقیق المسائل منعقدہ شعبان المعظم 1437ھ مطابق مئی 2016ء میں علماء و طلبہ ء کو اور ملائشیاء میں بمقام اسواجا سنٹر بانگی سلنگور 2015ء میں اور مظاہر العلوم شاہ عالم سلنگور 2016ء میں سبقاً یہ کتاب پڑھائی گئی تو ملک و بیرون ملک سے علماء کا یہ تقاضا ہوا کہ یہ کتاب علماء کرام سبقاً پڑھنا چاہتے ہیں ان تقاضا کر نے والے علماء کی خاطر” المہند علی المفند“ کو از سر نو شائع کرنے کا ارادہ ہوا تو مناسب سمجھا کہ:
[۱]: اس کے شروع میں” المہند علی المفند“ کا پس منظر لکھ دیا جائے۔
[۲]: عربی عبارت پر اعراب لگادیے جائیں۔
[۳]: آسان عام فہم اردو ترجمہ کردیا جائے۔
[۴]:متن میں ذکر کردہ آیات کا نمبر اور سورت کا نام اور احادیث کی تخریج کر دی جائے۔
[۵]:جن کتب کی عبارات پیش کی گئی ہیں ان کتب کے بارے میں ضروری معلومات فراہم کر دی جائیں۔
[۶]: جن شخصیات کا ذکر کیا گیا ہے ان کے مختصر حالات بھی پیش کر دیے جائیں۔
[۷]:موجودہ دور کے چند علماء اہل السنۃ والجماعۃ دیوبند کی تصدیقات بھی تحریر کردی جائیں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس محنت کو قبول فرمائیں اور امت کی رہنمائی کا ذریعہ بنائیں۔ میری، میرے والدین، میرے اساتذہ اور میرے تمام متعلقین کی نجات کا ذریعہ بنائیں اور ہم سب کے لیے صدقہ جاریہ بنائیں۔
آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم.
محتاج دعا
 
محمدالیاس گھمن
مظاہر العلوم، شاہ عالم، سلنگور، ملائیشیاء
24 ربیع الاول 1438ھ مطابق 23 دسمبر 2016ء