سوال 6: قبر اطہر پر دعا کا طریقہ

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
سوال 6: قبر اطہر پر دعا کا طریقہ

اَلسُّؤَالُ السَّادِسُ:
هَلْ لِلدَّاعِيْ فِي الْمَسْجِدِ النَّبَوِيِّ أَنْ يَّجْعَلَ وَجْهَهٗ إِلَى الْقَبْرِ الشَّرِيْفِ وَ يَسْأَلُ مِنَ الْمَوْلَى الْجَلِيْلِ مُتَوَسِّلًا بِنَبِيِّهِ الْفَخِيْمِ النَّبِيْلِ؟
چھٹا سوال:
کیا مسجد نبوی میں دعا کرنے والے کے لیے یہ صورت جائز ہے کہ وہ قبر مبارک کی طرف منہ کرکے کھڑا ہو اور حضور علیہ السلام کا وسیلہ دے کر اللہ تعالیٰ سے دعا مانگے؟
اَلْجَوَابُ:
اِخْتَلَفَ الْفُقَهَاءُ فِيْ ذٰلِكَ کَمَا ذَکَرَهُ الْمُلَّا عَلِيُّ نِ القَارِيْ رَحِمَهُ اللهُ تَعَالٰى1فِيْ "الْمَسْلَكِ الْمُتَقَسِّطِ" فَقَالَ: "ثُمَّ اعْلَمْ أَنَّهُ ذَکَرَ بَعْضُ مَشَايِخِنَا کَأَبِي اللَّيْثِ وَمَنْ تَبِعَهُ کَالْكِرْمَانِيِّ وَ السُّرُوْجِيِّ أَنَّهٗ يَقِفُ الزَّائِرُ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةِ کَذَا رَوَاهُ الْحَسَنُ عَنْ أَبیْ حَنِيْفَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْہُمَا."
جواب:
اس مسئلہ میں حضرات فقہاء کرام رحمہم اللہ کا اختلاف ہے جیسا کہ حضرت ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب
”اَلْمَسْلَكُ الْمُتَقَسِّط“
میں ذکر کیا ہے، فرماتے ہیں: ”اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ ہمارے بعض مشائخ مثلاً ابواللیث اور ان کی اتباع میں علامہ کرمانی اور علامہ سروجی وغیرہ نے ذکر کیا ہے کہ زیارت کرنے والے کو قبلہ کی طرف منہ کرکے کھڑا ہونا چاہیے جیسا کہ امام حسن نے امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہما سے نقل کیا ہے۔“
ثُمَّ نَقَلَ عَنِ ابْنِ الْهُمَامِ بِأَنَّ مَا نُقِلَ عَنْ أَبِيْ اللَّيْثِ مَرْدُوْدٌ بِمَا رَوٰى أَبُوْ حَنِيْفَةَ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا أَنَّهُ قَالَ: مِنَ السُّنَّةِ أَنْ تَأْتِيَ قَبْرَ رَسُوْلِ اللهِ صَلَى اللهُ عَلَيْهِ وَ سَلَمَ فَتَسْتَقْبِلَ الْقَبْرَ بِوَجْهِكَ ثُمَّ تَقُوْلُ: اَلسَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَ رَحْمَةُ اللهِ وَ بَرَکَاتُهٗ ثُمَّ أَيَّدَهٗ بِرِوَايَةٍأُخْرٰى أَخْرَجَهَا الْمَجْدُ اللُّغَوِيُّ عَنِ ابْنِ الْمُبَارَكِ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا حَنِيْفَةَ يَقُوْلُ: "قَدِمَ أَبُوْ أَيُّوبَ السَّخْتِيَانِيُّ وَ أَنَا بِالْمَدِيْنَةِ فَقُلْتُ: لَأَنْظُرَنَّ مَا يَصْنَعُ فَجَعَلَ ظَهْرَهٗ مِمَّا يَلِي الْقِبْلَةَ وَ وَجْهَهٗ مِمَّا يَلِيْ وَجْهَ رَسُوْلِ اللهِ صَلَّى اللہِ عَلَيْهِ وَ سَلَمَ وَ بَكٰى غَيْرَ مُتَبَاكٍ فَقَامَ مَقَامَ فَقِيْهٍ" ثُمَّ قَالَ الْعَلَّامَةُ الْقَارِيْ بَعْدَ نَقْلِهِ: "وَ فِيْهِ تَنْبِيْهٌ عَلٰى أَنَّ هٰذَا هُوَ مُخْتَارُ الْإِمَامِ بَعْدَ مَا کَانَ مُتَرَدِّدًا فِيْ مَقَامِ الْمُرَامِ." ثُمَّ قَالَ: "اَلْجَمْعُ بَيْنَ الرِّوَايَتَيْنِ مُمْكِنٌ"2إلٰی آخِرِ کَلَامِ الشَّرِيْفِ.
اس کے بعد ملا علی قاری نے علامہ ابن الہمام رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ ابواللیث رحمہ اللہ کی روایت ناقابل قبول ہے کیونکہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے نقل کیا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: سنت یہ ہے کہ جب تمہاری حاضری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر ہو تو قبر مبارک کی طرف چہرہ کرکے اس طرح کہو: اے نبی! آپ پر سلام ہو اور اللہ کی رحمت و برکات نازل ہوں۔ پھر ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی تائید میں دوسری روایت پیش کی ہے جسے مجدد الدین لغوی رحمہ اللہ نے حضرت ابن المبارک رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ ”میں نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب حضرت ابو ایوب سختیانی رحمہ اللہ مدینہ منورہ تشریف لائے تو میں وہیں موجود تھا، میں نے پختہ ارادہ کیا کہ دیکھوں تو سہی آپ کیا کرتے ہیں؟ چنانچہ دیکھا کہ انہوں نے قبلہ کی طرف پشت کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ انور کی طرف اپنا منہ کیا اورایک فقیہ کی شان کے مطابق بغیر کسی تکلف اور تصنع کے روئے ۔“ اس کو ذکر کرنے کے بعد ملا علی قاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہی صورت امام صاحب رحمہ اللہ کے ہاں پسندیدہ ہےاگرچہ اس سے پہلے امام صاحب کو اس بارے میں ترددتھا۔“ ملا علی قاری علیہ الرحمۃ نے یہ بھی کہا ہے کہ ”دونوں روایتوں میں تطبیق ممکن ہے۔“ الخ
فَظَهَرَ بِهٰذَا أَنَّهُ يَجُوْزُ کِلَا الْأَمْرَيْنِ لٰكِنَّ الْمُخْتَارَ أَنْ يَسْتَقْبِلَ وَقْتَ الزِّيَارَةِ مِمَّا يَلِيْ وَجْهَهُ الشَّرِيْفَ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَ سَلَمَ وَ هُوَ الْمَأْخُوْذُ بِهٖ عِنْدَنَا وَ عَلَيْهِ عَمَلُنَا وَ عَمَلُ مَشَايِخِنَا وَ هٰكَذَا الْحُكْمُ فِيْ الدُّعَاءِ کَمَا رُوِيَ عَنْ مَالِكٍ رَحِمَهُ اللهُ تَعَالٰى لَمَّا سَأَلَهُ بَعْضُ الْخُلَفَاءِ3وَ قَدْ صَرَّحَ مَوْلَانَا الْكَنْكُوْهِيُّ فِيْ رِسَالَتِہٖ "زُبْدَۃِ الْمَنَاسِكِ" وَ أَمَّا مَسْئَلَةُ التَوَسُّلِ فَقَدْ مَرَّتْ فِی السُّؤَالِ 3و 4
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ صورتیں تو دونوں جائز ہیں لیکن زیادہ بہتر صورت یہ ہے کہ زیارت کے وقت چہرہ مبارک کی طرف منہ کرکے کھڑا ہونا چاہیے اور یہی ہمارے نزدیک معتبر ہے اور اسی پر ہمارا اور ہمارے مشائخ کا عمل ہے اور یہی حکم دعا مانگنے کا ہے جیسا کہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے بھی یہی بات مروی ہے جب ان سے کسی خلیفہ نے یہی مسئلہ دریافت کیا تھا۔
اس مسئلہ کی صراحت حضرت مولانا گنگوہی رحمہ اللہ نے اپنے رسالہ ”زبدۃ المناسک“ میں کی ہے۔ رہا توسل کا مسئلہ تو وہ سوال نمبر3 اور 4 میں گزر چکا ہے۔
---
حاشیہ:
1: نور الدین علی بن سلطان محمد ہروی حنفی ہرات میں پیدا ہوئے۔ آپ نے کئی کتب تصنیف کیں جن میں مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، شرح شفاء قاضی عیاض، جمع الوسائل شرح شمائل ترمذی، حرز الیمین شرح حصن حصین، شرح الفقہ الاکبر، شرح مناسک الحج، اثمار الجنیۃ فی اسماء الحنفیۃ، سند الامام شرح مسند الامام وغیرہ شامل ہیں۔ 1014ہجری میں مکہ مکرمہ میں وفات پائی۔
2: المسلک المتقسط: ص514 باب زیارۃ سید المرسلین
3: یہ واقعہ خلیفہ منصور کا ہے۔ جب وہ مدینہ منورہ آئے اور امام مالک علیہ الرحمۃ سے دریافت کیا کہ میں قبر نبوی کی زیارت کرتے وقت دعا کرتے ہوئے قبلہ رخ ہوں یا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رخ کروں؟ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیا کہ
”استقبلہ وا ستشفع بہ فیشفعہ اللہ“
اے امیر! آپ کو چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی جانب متوجہ رہیے اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی شفاعت کے طلب گار رہیے، اللہ ان کی شفاعت قبول فرمائے گا۔
الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ للقاضی عیاض المالکی: ج2 ص26 الباب الثالث فی تعظیم امرہ و وجوب توقیرہ