سوال 11:مشائخ سے بیعت اور حصول فیض

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
سوال 11:مشائخ سے بیعت اور حصول فیض

اَلسُّؤَالُ الْحَادِيْ عَشَرَ:
وَهَلْ يَجُوزُ عِندَکُمُ الْاِشْتِغَالُ بِأِشْغَالِ الصُّوْفِيَّةِ وَ بَيْعَتُهُمْ؟ وَ هَلْ تَقُوْلُوْنَ بِصِحَّةِ وُصُوْلِ الْفُيُوْضِ الْبَاطِنِيَّةِ عَنْ صُدُوْرِ الْاَکَابِرِ وَ قُبُوْرِهِمْ؟ وَ هَلْ يَسْتَفِيْدُ أَهْلُ السُّلُوْكِ مِنْ رُوْحَانِيَّةِ الْمَشَايِخِ الْأَجِلَّةِ أَمْ لَا؟
گیارھواں سوال:
کیا آپ کے نزدیک صوفیہ کے اَشغال میں مشغول ہونا اور ان سے بیعت ہونا جائز ہے؟ اور کیا آپ لوگ اکابر کے سینوں اور ان کی قبروں سے باطنی فیوض پہنچنے کے قائل ہیں یا نہیں؟ نیز جلیل القدر مشائخ کی روحانیت سے اہلِ سلوک کو فائدہ پہنچتا ہے یا نہیں؟
اَلْجَوَابُ:
يُسْتَحَبُّ عِنْدَنَا إِذَا فَرَغَ الْإِنْسَانُ مِنْ تَصْحِيْحِ الْعَقَائِدِ وَ تَحْصِيْلِ الْمَسَائِلِ الضَّرُوْرِيَّةِ مِنَ الشَّرْعِ أَنْ يُّبَايِعَ شَيْخًا رَّاسِخَ الْقَدَمِ فِي الشَّرِيْعَةِ زَاهِدًا فِي الدُّنْيَا رَاغِبًا فِي الْآخِرَةِ قَدْ قَطَعَ عَقَبَاتِ النَّفْسِ وَتَمَرَّنَ فِي الْمُنْجِيَاتِ وَتَبَتَّلَ عَنِ الْمُهْلِكَاتِ کَامِلًا مُّكَمِّلًا وَّ يَضَعَ يَدَهٗ فِيْ يَدِهٖ وَ يَحْبِسَ نَظَرَهٗ فِيْ نَظَرِهٖ وَ يَشْتَغِلَ بِأَشْغَالِ الصُّوْفِيَّةِ مِنَ الذِّکْرِ وَ الْفِكْرِ وَ الْفَنَاءِ الْكُلِيِّ فِيْهِ وَ يَكْتَسِبَ النِّسْبَةَ الَّتِيْ هِيَ النِّعْمَةُ الْعُظْمٰى وَ الْغَنِيْمَةُ الْكُبْرَىٰ وَ هِيَ الْمُعَبَّرُ عَنْهَا بِلِسَانِ الشَّرْعِ بِالْإِحْسَانِ، وَأَمَّا مَنْ لَّمْ يَتَيَسَّرْ لَهٗ ذٰلِكَ وَ لَمْ يَقْدِرْ لَهٗ مَا هُنَالِكَ فَيَكْفِيْهِ الْاِنْسِلَاكُ بِسُلُكِهِمْ وَ الْاِنْخِرَاطُ فِيْ حِزْبِهِمْ، فَقَدْ قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ: "اَلْمَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ" 1
جواب:
ہمارے نزدیک مستحب ہے کہ انسان جب عقائد کو درست کر لے اور شریعت کے ضروری مسائل سیکھ لے تو کسی ایسے شیخ سے بیعت ہو جائے جو شریعت میں ثابت قدم ہو، دنیا سے بے رغبت اور آخرت کا طالب ہو، نفس کی گھاٹیاں عبور کر چکا ہو،2باعثِ نجات اعمال میں منہمک ہو، تباہ کن افعال سے گریزاں ہو، نیک کاموں کو کرنے والا اور برے کاموں سے بچنے والا ہو، خود بھی کامل ہو اور دوسروں کو بھی کامل بناسکتا ہو۔ آدمی کو چاہیے کہ ایسے شیخ کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر اپنی رائے کو اس کی رائے پر قربان کر دے اور صوفیاء کے اَشغال میں مشغول ہو جائے یعنی ذکر و فکر بجا لائے اور اس (اشتغال) میں فناء تام حاصل کرے اور اس نسبت کو حاصل کرے جو بہت عظیم نعمت اور بڑی غنیمت ہے جسے شریعت میں ”احسان“ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ہاں جسے یہ نعمت میسر نہ ہو اور وہ اس مقام تک نہ پہنچ سکے تو اس کے لیے ان بزرگوں کے سلسلہ میں داخل اور ان کی جماعت میں شامل ہونا ہی کافی ہے۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”آدمی اسی کے ساتھ ہو گا جس سے اس کو محبت ہو“
"فَهُمُ الْقَوْمُ لَا يَشْقٰى جَلِيْسُهُمْ"3
اور ”وہ ایسے لوگ ہیں جن کے پاس بیٹھنے والا محروم نہیں رہ سکتا۔“
وَ بِحَمْدِ اللهِ تَعَالٰى وَ حُسْنِ إِنْعَامِهٖ نَحْنُ وَ مَشَايِخُنَا قَدْ دَخَلُوْا فِيْ بَيْعَتِهِمْ وَ اشْتَغَلُوْا بِأَشْغَالِهِمْ وَ قَصَدُوْا لِلْإِرْشَادِ وَ التَّلْقِیْنِ وَ الْحَمْدُ لِلهِ عَلیٰ ذٰلِكَ. وَأَمَّا الْاِسْتِفَادَةُ مِن رُوْحَانِيَّةِ الْمَشَايِخِ الْأَجِلَّةِ وَ وُصُوْلُ الْفُيُوْضِ الْبَاطِنِيَّةِ مِنْ صُدُوْرِهِمْ أَوْ قُبُوْرِهِمْ فَيَصِحُّ عَلَی الطَّرِيْقَةِ الْمَعْرُوْفَةِ فِيْ أَهْلِهَا وَ خَوَاصِھَا لَا بِمَا هُوَ شَائِعٌ فِي الْعَوَامِ.
بحمداللہ! اللہ کے فضل و کرم سے ہم اور ہمارے مشائخ ان حضرات کی بیعت میں داخل ہیں، ان کے اشغال بجا لاتے ہیں اور ارشاد و تلقین پر عمل پیرا ہیں۔رہا جلیل القدر مشائخ کی روحانیت سے استفادہ کرنا اور ان کے سینوں اور قبروں سے باطنی فیوض کا پہنچنا تو بے شک یہ صحیح ہے لیکن اس طریق پر جو اس کے اہل اور خواص کو معلوم ہے نہ کہ اس طرز پر جو عوام کے ہاں رائج ہے۔
---
حاشیہ:
1: صحیح البخاری: باب علامۃ الحب فی اللہ عزوجل، صحیح مسلم: کتاب البر و الصلۃ و الآداب. باب المرء مع من احب
2: یعنی اپنے نفس کو اخلاق رذیلہ اور صفاتِ مذمومہ سے پاک کر چکا ہو۔
3: کتاب الاسماء و الصفات للبیہقی: ج1 ص332 باب اسماع جل ثناؤہ کلامہ من شاء من ملائکتہ و رسلہ و عبادہ