سوال 12:شیخ محمد بن عبدالوہاب کے بارے میں

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
سوال 12:شیخ محمد بن عبدالوہاب کے بارے میں

اَلسُّؤَالُ الثَّانِيْ عَشَرَ:
قَدْ کَانَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ النَّجْدِيُّ يَسْتَحِلُّ دِمآءَ الْمُسْلِمِيْنَ وَ أَمْوَالَهُمْ وَ أَعْرَاضَهُمْ وَ کَانَ يَنْسُبُ النَّاسَ کُلَّهُمْ إِلَی الشِّرْكِ وَ يَسُبُّ السَّلَفَ، فَكَيْفَ تَرَوْنَ ذٰلِكَ؟ وَ هَلْ يَجُوْزُ تَكْفِيْرُ السَّلَفِ وَ الْمُسْلِمِيْنَ وَ أَهْلِ الْقِبْلَةِ أَمْ کَيْفَ مَشْرَبُكُمْ؟
بارھواں سوال:
محمد بن عبدالوہاب نجدی مسلمانوں کی جان و مال اور آبرو کو حلال سمجھتا تھا، تمام لوگوں کو مشرک کہتا تھا اور سلف کی شان میں گستاخی کرتا تھا۔ اس کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ اور کیا آپ لوگ اسلاف، عام مسلمان اور اہلِ قبلہ کی تکفیر کو جائز سمجھتے ہیں؟ یہ بتائیں کہ اس بارے میں آپ کا کیا موقف ہے؟
اَلْجَوَابُ:
اَلْحُكْمُ عِنْدَنَا فِيْهِمْ مَا قَالَ صَاحِبُ الدُّرِّ الْمُخْتَارِ1"وَ خَوَارِجُ هُمْ قَوْمٌ لَهُمْ مَنَعَةٌ خَرَجُوْا عَلَيْهِ بِتَأوِيْلٍ یَرَوْنَ أَنَّهٗ عَلٰى بَاطِلٍ؛ کُفْرٍ أَوْ مَعْصِيَةٍ تُوْجِبُ قِتَالَهٗ بِتَأوِيْلِهِمْ وَ يَسْتَحِلُّوْنَ دِمآئَنَا وَ أَمْوَالَنَا وَ يَسُبُّوْنَ نِسَآئَنَا " إِلٰى أَنْ قَالَ: "وَحُكْمُهُمْ حُكْمُ الْبُغَاةِ" ثُمَّ قَالَ: "وَ إِنَّمَا لَمْ نَكْفُرْهُمْ لِكَوْنِهٖ عَنْ تَأوِيْلٍ وَ إِنْ کَانَ بَاطِلًا " وَ قَالَ الشَّامِيُّ2فِيْ حَاشِيَتِهٖ
جواب:
ہمارے نزدیک ان کا وہی حکم ہے جو صاحبِ در مختار نے تحریر فرمایا ہےکہ” خوارج ایسی شوکت والی جماعت ہے جنہوں نے تاویل کی بنیاد پر امام کے خلاف بغاوت کی تھی، یہ لوگ امام کو باطل یعنی کفر یا ایسی معصیت کا مرتکب سمجھتے تھے جو اِن کی اپنی تاویل کے مطابق قتال کا باعث ٹھہری تھی۔ یہ لوگ ہماری جان ومال کو حلال سمجھتے ہیں اور ہماری عورتوں کو قیدی بناتے ہیں۔“ آگے فرماتے ہیں: ”ان کا حکم باغیوں والا ہے۔“ مزید فرماتے ہیں: ” ہم ان کی تکفیر صرف اس لیے نہیں کرتے کہ (ان کا) یہ فعل تاویل کی وجہ سے ہے اگرچہ تاویلِ باطل ہی سہی۔“ علامہ شامی علیہ الرحمۃ اس کے حاشیہ میں فرماتے ہیں:
کَمَا وَقَعَ فِيْ زَمَانِنَا فِيْ اَتْبَاعِ عَبْدِ الْوَهَّابِ الَّذِيْنَ خَرَجُوْا مِنْ نَجْدٍ وَ تَغَلَّبُوْا عَلَى الْحَرَمَيْنِ وَ کَانُوْا يَنْتَحِلُوْنَ مَذْهَبَ الْحَنَابِلَةِ لٰكِنَّهُمُ اعْتَقَدُوْا أَنَّهُمْ هُمُ الْمُسْلِمُوْنَ وَ أنَّ مَنْ خَالَفَ اعْتِقَادَهُمْ مُشْرِکُوْنَ وَ اسْتَبَاحُوْا بِذٰلِكَ قَتْلَ أَهْلِ السُّنَّةِ وَ قَتْلَ عُلَمَآئِهِمْ حَتّٰى کَسَّرَ اللهُ شَوْکَتَهُمْ3
”جیسا کہ ہمارے زمانہ میں عبدالوہاب کے پیروکاروں سے سر زد ہوا ہے کہ یہ لوگ نجد سے نکل کرحرمین شریفین پر زبردستی مسلط ہوئے، خود کو حنبلی المذہب کہتے تھے مگر ان کا عقیدہ یہ تھا کہ بس وہی مسلمان ہیں اور جو لوگ اُن کے عقیدہ کے خلاف ہوں وہ مشرک ہیں۔ اسی وجہ سے انہوں نے اہل السنۃ کے علماء وعوام کے قتل کو مباح سمجھ رکھا تھا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی شوکت کو توڑ کے رکھ دیا۔“
ثُمَّ أَقُوْلُ: لَيْسَ هُوَ وَ لَا أَحَدٌ مِّنْ أَتْبَاعِهٖ وَ شِيْعَتِهٖ مِنْ مَشَايِخِنَا فِيْ سِلْسِلَةٍ مِن سَلَاسِلِ الْعِلْمِ مِنَ الْفِقْهِ وَ الْحَدِيْثِ وَ التَّفْسِيْرِ وَ التَّصَوُّفِ وَ أَمَّا اسْتِحْلَالُ دِمَاءِ الْمُسْلِمِيْنَ وَ أَمْوَالِهِمْ وَ أَعْرَاضِهِمْ فَإِمَّا أَنْ يَكُوْنَ بِغَيْرِ حَقٍّ أَوْ بِحَقٍّ فَإِنْ کَانَ بِغَيْرِ حَقٍّ فَإِمَّا أَن یَكُوْنَ مِنْ غَيْرِ تَأوِيْلٍ فَكُفْرٌ وَ خُرُوْجٌ عَنِ الْإِسْلَامِ وَ إِنْ کَانَ بِتَأوِيْلٍ لَّا يَسُوْعُ فِي الشَّرْعِ فَفِسْقٌ وَ أَمَّا إِنْ کَانَ بِحَقٍّ فَجَائِزٌ بَلْ وَاجِبٌ وَّ أَمَّا تَكْفِيْرُ السَّلَفِ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ فَحَاشَا أَنْ نُّكَفِّرَ أَحَدًا مِنْهُمْ بَلْ هُوَ عِنْدَنَا رِفْضٌ وَّ ابْتِدَاعٌ فِي الدِّيْنِ وَ تَكْفِيْرُ أَهْلِ الْقِبْلَةِ مِنَ الْمُبْتَدِعِيْنَ فَلَا نُكَفِّرُهُمْ مَا لَمْ يُنْكِرُوْا حُكْمًا ضَرُوْرِيًّا مِنْ ضَرُوْرِيَاتِ الدِّيْنِ فَإِذَا ثَبَتَ إِنْكَارُ أَمْرٍ ضَرُوْرِيٍّ مِنَ الدِّيْنِ نُكَفِّرُهُمْ وَنَحْتَاطُ فِيْهِ وَ هٰذَا دَأبُنَا وَ دَأبُ مَشَايِخِنَا رَحِمَهُمُ اللهُ تَعَالٰى.
اس کے بعد میں کہتا ہوں کہ عبدالوہاب اور اس کا کوئی پیروکار یا اس کے گروہ کا کوئی فرد ہمارے کسی سلسلہ مشائخ میں نہیں ہے، نہ فقہ، حدیث اور تفسیر کے علمی سلسلوں میں اور نہ ہی تصوف کے سلسلہ میں۔
باقی رہا مسلمانوں کی جان، مال اور آبرو کو حلال سمجھنا تو اس کی دو صورتیں ہیں یہ ناحق ہو گا یا حق۔ اگر ناحق ہے تو بھی دو صورتیں ہیں بغیر کسی تاویل کے ہو تو یہ کفر اور خروج عن الاسلام ہے اور اگر تاویل کے ساتھ ہے تو پھر دوصورتیں ہیں اگر ایسی تاویل ہے جو شرعاً جائز نہیں تو فسق ہے اور اگر تاویل بر حق ہے تو پھر جائز بلکہ واجب ہے۔ رہا اسلاف اہلِ اسلام کو کافر کہنا تو ہم ان میں سے کسی کو کافر کہتے ہیں نہ سمجھتے ہیں بلکہ ہمارے نزدیک یہ رفض اور دین میں اختراع ہے۔ ہم تو اہلِ بدعت کو بھی جو اہل قبلہ ہیں، جب تک وہ ضروریاتِ دین میں سے کسی ضروری حکم کا انکار نہ کریں، کافر نہیں کہتے۔ ہاں جب (ان سے) دین کے کسی ضروری حکم کا انکار ثابت ہو جائے تو ہم انہیں کافر سمجھیں گے۔ ہم اس معاملہ (فتویٰ تکفیر) میں بہت احتیاط سے کام لیتے ہیں۔ یہی ہمارا اور ہمارے تمام مشائخ رحمہم اللہ کا طریقہ ہے۔
____________________________________
محمد بن عبدالوہاب اور ہمارا موقف
محمد الیاس گھمن
کسی بھی شخص کے بارے میں رائے دو وجوہات میں سے کسی ایک وجہ سے قائم ہوتی ہے:
۱: اس شخص کے عقائد ونظریات اوراعمال ومسائل کی وجہ سے جو خود اس کی تحریر یا تقریر میں ہوں۔
۲: اس شخص کے ان عقائد ونظریات اور اعمال ومسائل کی وجہ سے جو دوسروں کی تحریر یا تقریر میں اس شخص کے بارے میں ہوں۔
اول وجہ درست ہے جبکہ دوسری وجہ غلط ہے۔ ہاں اگر کسی شخص کے بارے میں دوسروں کی تحریر وتقریر سے کوئی رائے قائم ہوجائےاور پھر اسی شخص کی تحریر وتقریر اس کے خلاف مل جائے تو اپنی رائے بدل دینی چاہیے۔ اس پر دو واقعات بطور دلیل پیش خدمت ہیں
واقعہ نمبر1:
امام عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ حج کے لیے تشریف لے گئے۔ مدینہ منورہ میں آپ کی ملاقات امام محمد باقر رحمۃ اللہ علیہ سے ہوئی تو انہوں نے امام صاحب سے فرمایا: کیا آپ وہی شحص ہیں جنہوں نے میرے نانا کی احادیث کی قیاس کے ذریعے مخالفت کی ہے؟
امام صاحب نے جواب دیا: اللہ کی پناہ کہ میں ایسا کام کروں۔آپ تشریف رکھیں میں کچھ عرض کرتا ہوں، کیونکہ آپ ہمارے لیے محترم ومکرم ہیں۔ امام باقر تشریف فرماہوئے تو امام صاحب نے فرمایا کہ میں آپ سے تین سوالات کرتا ہوں، آپ مجھےان کا جواب عنایت فرمائیں۔
سوال نمبر1: مرد زیادہ کمزور ہے یا عورت؟
امام باقر نے جواب دیا: عورت۔
امام صاحب نے فرمایا: میراث میں مرد کو کتنا حصہ ملتا ہے اور عورت کو کتنا؟
جواب دیا: عورت کا حصہ مرد کے حصے کا نصف ہوتا ہے۔
امام صاحب نے فرمایا: اگر میں قیاس کر کے کہتا تو یوں کہتا کہ مرد کو ایک حصہ ملے گا اور عورت کو دو حصے، کیونکہ عورت مرد سے کمزور ہے۔
سوال نمبر2: نماز افضل ہے یاروزہ؟
امام باقر نے جواب دیا: نماز۔
امام صاحب نے فرمایا: اگر میں قیاس کرکے کہتا تو یوں کہتا کہ حائضہ عورت حیض سےفارغ ہونے کےبعد نماز کی قضا کرے گی، روزے کی قضانہیں کرے گی۔
سوال نمبر3: پیشاب زیادہ نجس ہے یا منی؟
امام باقر نے جواب دیا: پیشاپ۔
امام صاحب نے فرمایا: اگر میں قیاس کرکےکہتا تو یوں کہتا کہ منی کے خارج ہونے سے غسل واجب نہیں ہوتا بلکہ پیشاب کے خارج ہونے سے غسل واجب ہوتا ہے۔ معاذاللہ میں حدیث کی مخالفت نہیں کرتا بلکہ حدیث کے مطابق ہی مسئلہ بتاتا ہوں۔
چنانچہ امام باقر کھڑے ہوئے اور امام ابوحنیفہ کی پیشانی پر بوسہ دیا۔4
واقعہ نمبر2:
جب مولوی احمد رضاخان صاحب نے علماء اہل السنۃ والجماعۃ دیوبند کی عبارات قطع و برید کر کے علمائے حرمین کو پیش کیں تو ان حضرات کی رائے علماء دیوبند کے بارے میں منفی قائم ہو گئی تھی لیکن جب علماء دیوبند کی اپنی تحریر سامنے آئی تو ان حضرات کی رائے تبدیل ہوکرمثبت ہوگئی۔
بس یہی صورت شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں ہوئی جس کی وضاحت کےلیے علماء اہل السنۃ والجماعۃ دیوبند کی چند عبارات ملاحظہ فرمائیں۔
مولانا محمد منظور نعمانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
”میں نے بچپن میں ہی وہابیوں کے متعلق خطرناک باتیں سن رکھی تھی کہ یہ گستاخ رسول اور اولیاء کی ولایت کے منکر ہوتےہیں۔ جب میں مدرسہ میں داخل ہوا تو میرے اساتذہ کو لوگ وہابی کہتے مگر جو باتیں میں نے وہابیوں کے متعلق سن رکھی تھیں وہ ان میں موجود نہ تھیں۔ پھر میرے ایک استاد نے محمد بن عبد الوہاب کی ایک کتاب "کتاب التوحید" کا تذکرہ کیا۔ اس کے بعد میں نے شیخ محمد بن عبد الوہاب، ان کے صاحبزادوں اور تلامذہ کی کتب کا مطالعہ کیا جس کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ محمد بن عبد الوہاب کا مسلک وموقف حافظ ابن تیمیہ اور حافظ ابن قیم وغیرہ سے ملتا ہے اور توحید کی دعوت اور شرک کی تردید میں شیخ کا وہی طرز ہے جو تقویۃ الایمان میں شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ کا ہے۔ مگر شیخ کے مزاج میں کچھ شدت ہے، تحقیق کے بعد مجھے یہ بھی معلوم ہوا کہ جس طرح ہمارے ملک میں قبرپرستوں،تعزیہ پرستوں اور بدعات وخرافات کو اپنا دین بنالینے والوں کی طرف سے حضرت شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ کے خلاف طرح طرح کی افتراء پر دازیاں کرکے عام مسلمانوں کو ان سے متنفر کرنے کی کوششیں کی گئی تھیں (جن کا سلسلہ اب تک جاری ہے) یہی معاملہ شیخ محمد بن عبد الوھاب نجدی کے ساتھ بھی ہوا ہے۔یہ پروپیگنڈہ پورے کرہ ارض پر ہونے لگا اور خاص طور سے حجاز پاک شیخ محمد بن عبدالوھاب اور ان کی جماعت کے خلاف اس پروپیگنڈے کا مرکز بن گیا اور وہاں سے اُن کے متعلق ایسی باتیں مشہور ہونے لگیں جن کو سن کر ہر مسلمان نہ صرف یہ کہ ان سے متنفر ہو بلکہ ان کو دنیابھر کے کافروں سے بدتر قسم کا کافر سمجھے اور چونکہ حج ادا کرنے کے لیے سارے عالَم اسلام کے مسلمانوں کی حرمین شریفین میں حاضری ہوتی تھی، اس لیے ان وہابیوں نجدیوں کے خلاف وہاں جو باتیں عام طور سے مشہور تھیں، کہی اور لکھی جاتی تھیں وہ ان حاجیوں کے ذریعہ سارے عالمِ اسلام میں پہنچتیں اور پھیل جاتی تھیں پھر ہر علاقہ میں موجود ان کے دشمن اس پر حاشیہ آرائی بھی کرتے تھے۔ یہ پروپیگنڈہ اتنا سخت تھا کہ اس سے بعض علماء بھی متاثر ہوئے اور علماء دیوبند میں سے بھی بعض حضرات نے غلط شہرت کی وجہ سے بعض باتیں لکھ دیں جن میں مولانا خلیل احمد سہارنپوری بھی شامل تھے لیکن جب حقیقت حال واضح ہوئی تو حضرت نے وہابیوں کے بارے میں اپنی اچھی رائے کا اظہار کیا۔“5
حضرت سہارنپوری رحمۃ اللہ علیہ کی پہلی رائے محمد بن عبد الوہاب کے متعلق غلط شہرت کی بنا ء پر تھی۔ جب آپ سن1344ھ میں مدینہ منورہ تشریف لے گئے تو شیخ محمد بن عبدالوہاب کے سلسلہ کے مشہور عالم شیخ عبداللہ بن بلیہد سے کئی مرتبہ ملاقات ہوئی۔ تفصیلی احوال سامنے آنے کے بعد نجدی جماعت کے متعلق مولانا سہارنپوری نے جو اپنی رائے کا اظہار کیا وہ حضرت کے ایک مکتوب میں موجود ہے۔ فرماتے ہیں۔
”قاضی القضاۃ شیخ عبداللہ بن بلیہد جن کا مکان میرے مکان کے قریب ہی ہے، اُن سے اکثر ملاقات ہوتی رہتی ہے اور دینی مسائل میں گفتگو بھی ہوتی ہے، بڑے عالم ہیں، مذہب اھل السنۃ والجماعۃ رکھتےہیں، ظاہر حدیث پر جیسا کہ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کا طریق ہے عمل کرتے ہیں، شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور شیخ الاسلام ابن قیم کی کتابوں کو زیادہ محبوب اور پیش نظر رکھتے ہیں، ہمارے علماء کے نزدیک بھی یہ دونوں بزرگ بڑے مرتبہ کے عالم ہیں۔ بدعات اور محدثات سے نہایت متنفر ہیں، توحید ورسالت کو اپنے ایمان کی جڑ قرا دے رکھا ہے۔ الغرض میں نے جہاں تک خیال کیا اہل السنۃ کے عقائد سے ذرا بھی انحراف نہیں اور اکثر اہل نجد قرآن شریف پڑھے ہوئے ہیں، کثرت سے حفاظ ہیں، صلوٰۃ باجماعت کے نہایت پابند ہیں، آج کل مدینہ منورہ میں سخت سردی کا زمانہ ہے۔ مگر اہل نجد صبح کی نماز میں پابندی کے ساتھ آتے ہیں..... بہر حال اس قوم کی حالتِ دینی نہایت اطمینان بخش دیکھی ہے“6
اسی طرح آپ نے ایک اور مکتوب حضرت گنگوہی علیہ الرحمۃ کے نواسے حافظ محمد یعقوب گنگوہی علیہ الرحمۃ کے نام لکھا۔ حافظ یعقوب صاحب نے حضرت سہارنپوری کو خط لکھا جس میں ”ابن سعود کی وہابی حکومت“ کے متعلق دریافت کیا۔ آپ نے ایک تفصیلی مکتوب لکھا جس میں یہ بھی ہے:
”میرے خیال میں یہ حکومت اس زمانہ کے اعتبار سے نہایت دیندار واقع ہوئی ہے اور نیک نیتی کے ساتھ کام کررہی ہے، جس قدر بڑے بڑے کام ہوئے ہیں کوئی بھی میرے نزدیک ایسا نہیں جس میں دین کا پہلو نہ ہو اور بعضے امور صغار جس میں کچھ فروگزاشت ہورہی ہے جہاں تک میں غور کرتا ہوں اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت کے پاس لائق منتظم دیندار آدمی نہیں، اس وجہ سے بعض انتظامات میں کوتاہی ہورہی ہے۔ اپنی ذات سے سلطان ابن سعود نہایت دیندار، حکیم، متحمل مزاج واقع ہوا ہے مگر ایک آدمی جب تک کہ اس کے ہاتھ پیر نہ ہوں کیا کرسکتا ہے، امن کی حالت تو یہ ہے کہ ایک ایک دو دو اونٹ مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ اور ینبوع اور جدہ کے درمیان آجارہے ہیں کسی کو کوئی شکایت پیدا نہیں ہوئی، جہاں تک شکایت کا خیال کیا جارہا ہے اس کا مبنیٰ قبّہ شکنی ہے جس کو جُہّال نے روافض کے ساتھ مل کر اپنا دین وایمان قرار دے رکھا ہے، میرے نزدیک اُن کا انہدام یقینا واجب ہے اور حکومت نے بھی علماء مدینہ سے استفتاء کرکے جب یہاں کے علماء نے جواز کا فتویٰ دے دیا ہے اس وقت انہدام کی جرات کی ہے، مولوی صاحب نے جو آپ کو یہ لکھا کہ حکومت سے جو توقعات تھیں ویسی نہ نکلیں، معلوم نہیں کہ ان کے کانوں میں کیا باتیں پہنچائی گئیں؟ میری طرف سے مولوی صاحب کو لکھ دیجیوکہ میرا جو وہاں خیال تھا اور وہ یہاں پہنچ کر اور حالات دیکھ کر میں کچھ زیادہ احسان کی نظر سے حکومت کے رنگ ڈھنگ دیکھ رہاہوں۔7
ان مکتوبات سے معلوم ہوا کہ حضرت سہارنپوری رحمۃ اللہ علیہ نے المہند میں جو کچھ لکھا تھا اس رائے کی بنیاد غلط شہرت پر تھی، جب خود حقائق دیکھے تو رائے تبدیل ہوگئی۔
احمد رضا خان نے حسام الحرمین میں علماء دیوبند کی عبارات میں قطع وبرید کر کے حرمین کے علماء کے سامنے پیش کیا اور ان کو یہ بتایا کہ یہ لوگ وہابی ہیں۔ چونکہ اس وقت فضاء وہابیوں سے نفرت کی تھی تو انہوں نے فتویٰ دیا۔ حضرت مدنی رحمہ اللہ نے الشہاب الثاقب میں دیوبند اور وہابیوں کے مابین عقائد میں فرق کو تفصیل سے بیان کیا اور چند ایسی باتیں بھی لکھ دیں جو شہرت کا درجہ حاصل کرچکی تھی۔ کچھ عرصہ بعد جب لوگوں نے حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ کی اس عبارت کو بنیاد بناکر سعودی حکومت کی مخالفت کی تو آپ نے اپنا وضاحتی بیان یوں دیا:
”مجھ کو اس امر کے اعلان کرنے میں ذرہ پس وپیش نہیں کہ میری وہ تحقیق جس کو میں بخلاف اہل نجد رجوم المدنیین اور الشہاب الثاقب میں لکھ چکا ہوں اُس کی بنا اُن کی کسی تالیف وتصنیف پر نہ تھی بلکہ محض افواہوں یا ان کے مخالفین کے اقوال پر تھی، اب اُن کی معتبر تالیف بتا رہی ہے کہ ان کا خلاف اہل السنۃ والجماعۃ سے اس قدر نہیں جیسا کہ ان کی نسبت مشہور کیا گیا ہے، بلکہ چند جزوی امور میں صرف اس درجہ تک ہے کہ جس کی وجہ سے اُن کی تکفیر،تفسیق یا تضلیل نہیں کی جاسکتی۔8
قطب الاقطاب حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
”محمد بن عبد الوہاب کے مقتدیوں کو لوگ وہابی کہتے ہیں۔ ان کے عقائد عمدہ تھے اور ان کا مذہب حنبلی تھا۔ البتہ ان کے مزاج میں شدت تھی مگر وہ اور ان کے مقتدی اچھے تھے۔ مگر ہاں جو حد سے بڑھ گئے ان میں فساد آ گیا اور عقائد سب کے متحد ہیں۔ اعمال میں فرق حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی کا ہے۔“9
(ہماری وضاحتی عبارت ختم ہوئی۔ محمد الیاس گھمن)
_______________________
حاشیہ:
1: آپ کا نام محمد بن علی بن محمدالحصنی ہے۔ علاء الدین الحصکفی کے نام سے معروف ہیں۔ 1025 ہجری میں دمشق میں پیدا ہوئے۔ اپنے دور کے مفتی، فقیہ، مفسر، محدث اور نحوی تھے۔ آپ کی کتب میں الدر المختار فی شرح تنویر الابصار، الدر المنتقیٰ شرح ملتقی الابحر، افاضۃ الانوار علی اصول المنار وغیرہ شامل ہیں۔ 1088 ہجری میں دمشق میں وفات پائی۔
2: محمد امین بن عمر بن عبد العزیز بن احمد، ”ابن عابدین الشامی“ کے نام سے معروف ہوئے۔ 1198ہجری میں دمشق میں پیدا ہوئے۔ آپ کی کتب میں الابانۃ عن اخذ الاجرۃ عن الحصانۃ، اَعلام الاِعلام باحکام الاقرار العام، تحریر العبارۃ، رد المحتار حاشیۃ الدر المختار وغیرہ شامل ہیں۔ آپ نے 1252 ہجری میں دمشق ہی میں وفات پائی اور مقبرہ باب صغیر میں مدفون ہوئے۔
3: الدر المختار مع رد المحتار: ج6 ص400 کتاب الجہاد. باب البغاۃ.ط دار المعرفۃ بیروت لبنان
4: عقود الجمان: ص264، 265 باب سادس عشر
5: ملخص از مقدمہ شیخ محمد بن عبدالوہاب اور ہندوستان کے علماءحق
6: اکابر کے خطوط ص11،12
7: شیخ محمد بن عبد الوہاب اور ہندوستان کے علماء حق ص45، 46
8: شیخ محمد بن عبد الوہاب اور ہندوستان کے علماء حق ص93
9: فتاویٰ رشیدیہ: ص293