سوال 19:ابلیس لعین کا علم

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
سوال 19:ابلیس لعین کا علم
براہین قاطعہ کی عبارت کی وضاحت

اَلسُّؤَالُ التَّاسِعُ عَشَرَ:
أَ تَرَوْنَ أَنَّ إِبْلِيْسَ اللَّعِيْنَ أَعْلَمُ مِنْ سَيِّدِ الْكَائِنَاتِ عَلَيْهِ السَّلَامُ وَ أَوْسَعُ عِلْمًا مِنْهُ مُطْلَقًا؟ وَ هَلْ کَتَبْتُمْ ذٰلِكَ فِيْ تَصْنِيْفٍ؟ مَا تَحْكُمُوْنَ عَلٰى مَنِ اعْتَقَدَ ذٰلِكَ؟
انیسواں سوال:
کیا آپ کا یہ نظریہ ہے کہ شیطان لعین کا علم سید الکائنات علیہ السلام کے علم سے زیادہ اور مطلقاً وسیع تر ہے؟ کیا آپ نے یہ نظریہ اپنی کسی تصنیف میں لکھا ہے؟ اور جس شخص کا یہ عقیدہ ہو آپ کے نزدیک اس کا حکم کیا ہے؟
اَلْجَوَاْبُ:
قَدْ سَبَقَ مِنَّا تَحْرِيْرُ هٰذِهِ الْمَسْأَلَةِ أَنَّ النَّبِيَّ عَلَيْهِ السَّلَامُ أَعْلَمُ الْخَلْقِ عَلَى الْإِطْلَاقِ بِالْعُلُوْمِ وَ الْحِكَمِ وَ الْأَسْرَارِ وَ غَيْرِهَا مِنْ مَّلَكُوْتِ الْآفَاقِ وَ نَتَيَقَّنُ أَنَّ مَنْ قَالَ: " إِنَّ فُلَانًا أَعْلَمُ مِنَ النَّبِيِّ عَلَيْهِ السَّلَامُ" فَقَدْ کَفَرَ. وَ قَدْ اَفْتٰی مَشَايِخُنَا بِتَكْفِيْرِ مَنْ قَالَ: "إِنَّ إِبْلِيْسَ أَعْلَمُ مِنَ النَّبِّيِ عَلَيْهِ السَّلَامُ" فَكَيْفَ يُمْكِنُ أَنْ تُوْجَدَ هٰذِهِ الْمَسْأَلَةُ فِيْ تَألِيْفٍ مَّا مِنْ کُتُبِنَا؟
جواب:
یہ مسئلہ ہم پہلے تحریر کر چکے ہیں کہ نبی علیہ السلام شریعت کے علوم، اس کی حکمتوں اور کائنات کے اَسرار وغیرہ کو تمام مخلوقات سے علی الاطلاق زیادہ جانتے ہیں۔ جو شخص یہ کہے کہ فلاں بندہ نبی علیہ السلام سے بڑا عالم ہے، ہم اس کو بالیقین کافر سمجھتے ہیں اور ہمارے اکابرین اس شخص کے کفر کا فتویٰ دے چکے ہیں جو یہ کہے کہ شیطان لعین کا علم نبی علیہ السلام کے علم سے زیادہ ہے پھر بھلا ایسا عقیدہ ہماری کتابوں میں کیسے ہوسکتا ہے؟
غَيْرَ أَنَّہُ غَيْبُوْبَةُ بَعْضِ الْحَوَادِثِ الجُزْئِيَّةِ الْحَقِيْرَةِ عَنِ النَّبِيِّ عَلَيِهِ السَّلَامُ لِعَدْمِ الْتِفَاتِهٖ إِلَيْهِ لَا تُوْرِثُ نَقْصًا مَّا فِي أَعْلَمِيَّتِهٖ عَلَيْهِ السَّلَامُ بَعْدَ مَا ثَبَتَ أَنَّهُ أَعْلَمُ الْخَلْقِ بِالْعُلُوْمِ الشَّرِيْفَةِ اللَّائِقَةِ بِمَنْصَبِهِ الْأَعْلٰى کَمَا لَا يُوْرِثُ الْاِطِّلَاعُ عَلٰى اَکْثَرِ تِلْكَ الْحَوَادِثِ الْحَقِيْرَةِ لِشِدَّةِ الْتِفَاتِ إِبْلِيْسَ إِلَيْهَا شَرْفًا وَّکَمَالًاعِلْمِيًّا فِيْهِ فَإِنَّهُ لَيْسَ عَلَيْھَا مَدَارُ الْفَضْلِ وَ الْكَمَالِ وَ مِنْ هٰهُنَا لَا يَصِحُّ أَنْ يُّقَالَ: "إِنَّ إِبْلِيْسَ أَعْلَمُ مِنْ سَيِّدِنَا رَسُوْلِ اللهِ صَلَى اللهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ"
ہاں کسی چھوٹے اور معمولی واقعہ کا آپ علیہ السلام سے اس وجہ سے مخفی رہنا کہ آپ نے اس کی طرف توجہ نہیں فرمائی، یہ آپ کے اَعلم ہونے میں ذرہ برابر نقصان دہ نہیں ہو سکتا، جبکہ یہ بات بھی ثابت ہوچکی کہ جو علوم آپ علیہ السلام کے منصبِ اعلیٰ کے مناسب ہیں ان میں آپ ساری مخلوق سے بڑے عالم ہیں۔ جس طرح ابلیس کی بہت زیادہ توجہ کی وجہ سے اسے کئی معمولی واقعات کی اطلاع مل جانے سے اسے کوئی فضیلت اور علمی کمال حاصل نہیں ہو سکتا کیونکہ ایسی چیزوں پر فضل و کمال کا مدار نہیں ہے۔ اس وضاحت سے معلوم ہوا کہ یوں کہنا کہ ”شیطان کا علم ہمارے آقا جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علم سے زیادہ ہے“ ہرگز درست نہیں۔
کَمَا لَا يَصِحُّ أَنْ يُّقَالَ لِصَبِيٍّ عَلِمَ بَعْضَ الْجُزْئِيَّاتِ: "إِنَّهٗ أَعْلَمُ مِنْ عَالِمٍ مُّتَبَحِّرٍ مُّحَقِّقٍ فِي الْعُلُوْمِ وَ الْفُنُوْنِ" الَّذِيْ غَابَتْ عَنْهُ تِلْكَ الْجُزْئِيَّاتُ. وَ لَقَدْ تَلَوْنَا عَلَيْكَ قِصَّةَ الْهُدْهُدِ مَعَ سُلَيْمَانَ عَلٰى نَبِيِّنَا وَ عَلَيْهِ السَّلَامُ وَ قَوْلَهٗ: "أَحَطْتُّ بِمَالَمْ تُحِطْ بِهٖ" وَ دَوَاوِيْنُ الْحَدِيْثِ وَ دَفَاتِرُ التَّفْسِيْرِ مَشْحُوْنَةٌ بِنَظَائِرِهَا الْمُتَكَاثَرَةِ الْمُشْتَهَرَۃِ بَيْنَ الْأَنَامِ وَ قَدِ اتَّفَقَ الْحُكَمَاءُ عَلٰى أَنَّ أَفْلَاطُوْنَ وَ جَالِيْنُوْسَ وَ أَمْثَالَهُمَا مِنْ أَعْلَمِ الْأَطِبَّاءِ بِكَيْفِيَّاتِ الْأَدْوِيَةِ وَأَحْوَالِهَا مَعَ عِلْمِهِمْ أَنَّ دِيْدَانَ النَّجَاسَةِ أَعْرَفُ بِأَحْوَالِ النَّجَاسَةِ وَ ذَوْقِهَا وَ کَيْفِيَّاتِهَا فَلَمْ تَضُرَّعَدْمُ مَعْرِفَةِ أَفْلَاطُوْنَ وَ جَالِيْنُوْسَ هٰذِهِ الْأَحْوَالَ الرَّدِيَّةَ فِي أَعْلَمِيَّتِهِمَا وَ لَمْ يَرْضَ أَحَدٌ مِّنَ الْعُقَلَاءِ وَ الْحُمْقٰى بِأَنْ يَّقُوْلَ: " إِنَّ الدِّيْدَانَ أَعْلَمُ مِنْ أَفْلَاطُوْنَ مَعَ اَنَّھَا اَوْسَعُ عِلْمًا مِّنْ أَفْلَاطُوْنَ بِأَحْوَالِ النَّجَاسَةِ
[مثال نمبر1] جس طرح اگر کسی بچے کو کوئی خاص واقعہ معلوم ہوجائے تو یہ کہنا درست نہیں کہ اس بچے کا علم فلاں جید محقق عالم سے زیادہ ہے جس کو تمام علوم و فنون تو معلوم ہیں مگر اس واقعہ کا علم نہیں۔
[مثال نمبر 2] اور ہم ہدہد کا حضرت سلیمان علیہ السلام کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ بیان کر چکے ہیں اور اس کی یہ بات بھی کہ ”میں نے ایسی معلومات حاصل کی ہیں جن کا آپ کو علم نہیں ہے“۔ حدیث اور تفسیر کی کتابیں اس قسم کی مثالوں سے بھری پڑی ہیں جو عوام میں بھی بہت مشہور ہیں۔
[مثال نمبر3] نیز حکماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ افلاطون، جالینوس وغیرہ بڑے طبیب ہیں جنہیں دوائیوں کی کیفیات اور احوال کا بہت زیادہ علم ہے حبکہ حکماء یہ بھی جانتے ہیں کہ نجاست کے کیڑے نجاست کی حالتوں، ذائقوں اور کیفیات سے زیادہ واقف ہیں۔ تو افلاطون اور جالینوس کا اِن بے وقعت احوال سے واقف نہ ہونا ان کے اَعلم ہونے کو کچھ مضر نہیں اور کوئی عقل مند تو درکنار کوئی احمق بھی یہ نہیں کہے گا کہ کیڑوں کا علم افلاطون کے علم سے زیادہ ہے، حالانکہ یہ بات یقینی ہے کہ کیڑوں کو نجاست کے احوال کا علم افلاطون کی بہ نسبت زیادہ ہے۔
وَ مُبْتَدِعَةُ دِيَارِنَا يُثْبِتُوْنَ لِلذَّاتِ الشَّرِيْفَةِ النَّبَوِيَّةِ عَلَيْهِا اَلْفُ اَلفِ تَحِيَّةٍ وَّ سَلَامٍ جَمِيْعَ عُلُوْمِ الأَسَافِلِ الْأَرَازِلِ وَ الْأَفَاضِلِ الْاَکَابِرِ قَائِلِيْنَ: اِنَّهُ عَلَيْهِ السَّلَامُ لَمَّا کَانَ أَفْضَلَ الْخَلْقِ کَافَّةً فَلَا بُدَّ أَنْ يَّحْتَوِیَ عَلٰى عُلُوْمِهِمْ جَمِيْعِهَا کُلِّ جُزْئِيٍّ جُزْئِيٍّ وَ کُلِّيٍّ کُلِّيٍّ" وَ نحْنُ أَنْكَرْنَا إِثْبَاتَ هٰذَا الْأَمْرِ بِهٰذَا الْقِيَاسِ الْفَاسِدِ بِغَيْرِ نَصٍّ مِّنَ النُّصُوْصِ الْمُعْتَدَّةِ بِهَا أَلَا تَرٰى أَنَّ کُلَّ مُؤْمِنٍ أَفْضَلُ وَ أَشْرَفُ مِنْ إِبْلِيْسَ فَيَلْزَمُ عَلٰى هٰذَا الْقِيَاسِ أَنْ يَكُوْنَ کُلُّ شَخْصٍ مِّنْ آحَادِ الْأُمَّةِ حَاوِيًّا عَلٰى عُلُوْمِ إِبْلِيْسَ وَ يَلْزَمُ عَلٰى ذٰلِكَ أَنْ يَكُوْنَ سُلَيْمَانُ عَلَيْهِ السَّلَامُ عَالِمًابِمَا عَلِمَهُ الْهُدْهُدُ وَ أَنْ يَّكُوْنَ أَفْلَاطُوْنُ وَ جَالِيْنُوْسُ عَارِفِيْنَ بِجَمِيْعِ مَعَارِفِ الدِّيْدَانِ وَالَّلوَازِمُ بَاطِلَةٌ بِأَسْرِهَا کَمَا هُوَ الْمُشَاهَدُ وَ هٰذَا خُلَاصَةُ مَا قُلْنَاهُ فِي الْبَرَاهِيْنِ الْقَاطِعَةِ لِعُرُوْقِ الْأَغْبِيَاءِ الْمَارِقِيْنَ الْقَاصِمَةِ لِأَعْنَاقِ الدَّجَاجِلَةِالْمُفْتَرِيْنَ۔
ہمارے ملک کے اہلِ بدعت نبی کریم علیہ السلام کی ذات بابرکات کے لیے عمدہ و اسفل اور اعلیٰ و ادنیٰ ہر قسم کے علوم ثابت کرتے ہیں اور یوں کہتے ہیں کہ چونکہ آ پ علیہ السلام تمام مخلوق سے افضل ہیں اس لیے لازمی بات ہے کہ آپ علیہ السلام کو ساری مخلوق کے علوم چاہے جزئی ہوں یا کلی، معلوم ہوں گے۔ ہم نے اس علمِ کلی و جزئی کے ثبوت کا محض اس وجہ سے انکار کیا کہ اس کی بنیاد محض قیاسِ فاسد پر ہے، کوئی معتبر نص اس پر موجود نہیں۔ ذرا غور فرمائیے! کہ ہر مسلمان شیطان لعین سے افضل و اشرف ہے تو اس قیاس سے لازم آئے گا کہ ہر امتی بھی شیطان کے ہتھکنڈوں سے آگاہ ہو، یہ بھی لازم آئے گا کہ حضرت سلیمان بھی اس واقعہ کو جانتے ہوں جس کا علم ہدہد کو تھا اور یہ کہ افلاطون اور جالینوس بھی ان معلومات سے واقف ہوں جو کیڑوں کو حاصل ہیں۔ غرض یہ سارے لازم باطل ہیں جیسا کہ مشاہدہ سے یہ بات واضح ہے۔ یہ”براہین قاطعہ“ کی عبارت کا خلاصہ ہے جس نے کند ذہن بد دینوں کی رگیں کاٹ ڈالیں اور دجال و بہتان باز لوگوں کی گردنیں توڑ کر رکھ دیں۔
فَلَمْ يَكُنْ بَحْثُنَا فِيْهِ إِلَّا عَنْ بَعْضِ الْجُزْئِيَّاتِ الْمُسْتَحْدَثَةِ وَ مِنْ اَجْلِ ذٰلِكَ أَتَيْنَا فِيْهِ بِلَفْظِ الْإِشَارَةِ حَتّٰى تَدُلَّ أَنَّ الْمَقْصُوْدَ بِالنَّفْيِ وَ الْإِثْبَاتِ هُنَالِكَ تِلْكَ الْجُزْئِيَّاتِ لَا غَيْرَ لٰكِنَّ الْمُفْسِدِيْنَ يُحَرِّفُوْنَ الْكَلامَ وَ لَا يَخَافُوْنَ مُحَاسَبَةَ الْمَلِكِ الْعَلَّامِ وَ إِنَّا جَازِمُوْنَ أَنَّ مَنْ قَالَ:"إِنَّ فُلَانًا أَعْلَمُ مِنَ النَّبِيِّ عَلَيْهِ السَّلَامُ" فَهُوَ کَافِرٌ کَمَا صَرَّحَ بِهٖ غَيْرُ وَاحِدٍ مِّنْ عُلَمآئِنَا الْكِرَامِ وَ مَنِ افْتَرٰى عَلَيْنَا بِغَيْرِ مَا ذَکَرْنَاهُ فَعَلَيْهِ بِالْبُرْهَانِ خَائِفًا عَنْ مُنَاقَشَةِ الْمَلِكِ الدَّيَّانِ وَ اللهُ عَلٰى مَا نَقُوْلُ وَکِیْلٌ.
چنانچہ براہین قاطعہ میں ہماری بحث صرف بعض جزئی واقعات کے متعلق تھی اس لیے ہم اس میں اشارہ کا لفظ لائے تھے تاکہ معلوم ہوجائے کہ نفی و اثبات سے مقصود صرف یہی جزئیات ہیں، دیگر تمام علوم نہیں لیکن مفسدین کی عادت ہے کہ وہ کلام میں تحریف کرتے ہیں اور خداوند تعالیٰ کے سامنے محاسبہ سے نہیں ڈرتے۔ نیز ہمارا پختہ عقیدہ ہے کہ اگر کوئی شخص اس بات کا قائل ہو کہ فلاں شخص کا علم نبی علیہ السلام کے علم سے زیادہ ہے، تو وہ یقیناً کافر ہے جیسا کہ اس کی صراحت ہمارے کئی علماء کرام کر چکے ہیں۔ تو جو شخص ہمارے اس بیان کے خلاف ہم پر بہتان باندھے تو اس پر لازم ہے کہ مالکِ روزِ جزاء سے ڈرتے ہوئے دلیل بھی بیان کرے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے قول پر وکیل ہے۔