سوال 20:حفظ الایمان کی عبارت پر شبہ کا جواب

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
سوال 20:حفظ الایمان کی عبارت پر شبہ کا جواب

اَلسُّؤَالُ الْعِشْرُوْنَ:
أَ تَعْتَقِدُوْنَ أَنَّ عِلْمَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ يُسَاوِيْ عِلْمَ زَيْدٍ وَ بَكْرٍ وَ بَهَائِمَ أَمْ تَتَبَرَّؤُوْنَ عَنْ أَمْثَالِ هٰذَا؟ وَ هَلْ کَتَبَ الشَّيْخُ اَشْرَفْ عَلِيْ التَّهَانَوِيُّ فِي رِسَالَتِهٖ "حِفْظِ الْإِيْمَانِ" هٰذَا الْمَضْمُوْنَ أَمْ لَا؟ وَ بِمَ تَحْكُمُوْنَ عَلٰى مَنِ اعْتَقَدَ ذٰلِكَ؟
بیسواں سوال:
کیا آپ کا یہ عقیدہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا علم زید، بکر اور چوپاؤں کے علم کے برابر ہے؟ یا اس قسم کے غلط نظریات سے آپ بری ہیں ؟ اور کیا شیخ اشرف علی تھانوی نے اپنے رسالہ ”حفظ الایمان“ میں یہ مضمون لکھا ہے یا نہیں؟ اور جو شخص یہ عقیدہ رکھے آپ کے نزدیک اس کا کیا حکم ہے؟
اَلْجَوَابُ:
أَقُوْلُ وَ هٰذَا أَيْضًا مِّنَ افْتِرَاءَاتِ الْمُبْتَدِعِيْنَ وَ أَکَاذِيْبِهِمْ قَدْ حَرَّفُوْا مَعْنَى الْكَلَامِ وَ أَظْهَرُوْا بِحِقْدِهِمْ خِلَافَ مُرَادِ الشَّيْخِ مُدَّ ظِلُّهُ فَقَاتَلَهُمُ اللهُ أَنّٰى يُؤْفَكُوْنَ قَالَ الشَّيْخُ الْعَلَّامَةُ التَّهَانَوِيُّ فِي رِسَالَتِهِ الْمُسَمَّاةِ بِحِفْظِ الْإِيْمَانِ وَ هِيَ رِسَالَةٌ صَغِيْرَةٌ أَجَابَ فِيْهَا عَنْ ثَلَاثَةٍ سُئِلَ عَنْهَا، الْأُوْلٰى مِنْهَا فِي السَّجْدَةِ التَّعْظِيْمِيَّةِ لِلْقُبُوْرِ وَ الثَّانِيَّةُ فِي الطَّوَافِ بِالْقُبُوْرِ وَ الثَّالِثَةُ فِيْ إطْلَاقِ لَفْظِ "عَالِمِ الْغَيْبِ" عَلٰى سَيِّدِنَا رَسُوْلِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ۔
جواب:
میں کہتا ہوں کہ یہ بات بھی اہل بدعت کا ایک بہتان اور جھوٹ ہے کہ ان لوگوں نے کلام کے معنی بدل ڈالے اور کینہ و بغض کی بناء پر حضرت تھانوی مدظلہ کی مراد کے خلاف ظاہر کیا۔ اللہ ان لوگوں کو ہلاک کرے، یہ کہاں پلٹے جا رہے ہیں! اصل بات یہ ہے کہ شیخ علامہ تھانوی نے ایک چھوٹے سے رسالہ” حفظ الایمان“ میں تین سوالوں کے جوابات دیے ہیں جو آپ سے پوچھے گئے تھے: پہلا سوال قبروں کو سجدہ تعظیمی کرنے سے متعلق تھا، دوسرا سوال قبروں کا طواف کرنے سے متعلق تھا اور تیسرا سوال یہ تھا کہ سیدنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات کو ”عالم الغیب“ کہنا جائز ہے یا نہیں؟
فَقَالَ الشَّيْخُ مَا حَاصِلُهُ: إِنَّهُ لَايَجُوْزُ هٰذَا الْإِطْلَاقُ- وَ إِنْ کَانَ بِتَأوِيْلٍ- لِكَوْنِهٖ مُوْهِمًا بِالشِّرْكِ کَمَا مُنِعَ مِنْ إِطْلَاقِ قَوْلِهِمْ"رَاعِنَا" فِي الْقُرْآنِ وَ مِنْ قَوْلِهِمْ "عَبْدِيْ" وَ "اَمَتِيْ" فِي الْحَدِيْثِ - أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ فِي صَحِيْحِهٖ- فَإِنَّ الْغَيْبَ الْمُطْلَقَ فِي الْإِطْلَاقَاتِ الشَّرْعِيَّةِ مَا لَمْ يَقُمْ عَلَيْهِ دَلِيْلٌ وَّ لَا إِلٰى دَرْکِهٖ وَ سِيْلَةٌ وَّ سَبِيْلٌ فَعَلٰى هٰذَا قَالَ اللهُ تَعَالٰى: ﴿قُلْ لَا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَ الْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللهُ﴾1﴿وَ لَوْ کُنْتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ﴾2وَ غَيْرَ ذٰلِكَ مِنَ الْآيَاتِ
شیخ تھانوی کے جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ ”عالم الغیب“ کہنا جائز نہیں گو تاویل ہی سے کیوں نہ ہو کیونکہ اس میں شرک کا وہم ہوتا ہے جیسا کہ اسی وہم کی وجہ سے قرآن کریم میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ”رَاعِنَا“ کہنے سے اور صحیح مسلم کی حدیث میں غلام اور باندی کو ”عَبْدِیْ“ اور ”اَمَتِیْ“ کہنے سے منع کیا گیا ہے۔ اصل میں بات یہ ہے کہ اصطلاحِ شریعت میں مطلق غیب وہی ہوتا ہے جس پہ کوئی دلیل نہ ہو اور وہ بغیر کسی واسطہ و وسیلہ کے حاصل ہو۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ”اے پیغمبر! کہہ دو کہ اللہ کے سوا آسمانوں اور زمین میں کسی کو بھی غیب کا علم نہیں ہے“ نیز ارشاد ہے کہ: ” اگر مجھے غیب کا علم ہوتا تو میں خوب بھلائیاں جمع کر لیتا۔“ اس کے علاوہ اور کئی آیات موجود ہیں۔
وَ لَوْ جُوِّزَ ذٰلِكَ بِتَأوِيْلٍ يَلْزَمُ أَنْ يَّجُوْزَ إِطْلَاقُ الْخَالِقِ وَالرَّازِقِ وَ الْمَالِكِ وَ الْمَعْبُوْدِ وَ غَيْرِهَا مِنْ صِفَاتِ اللهِ تَعَالٰى الْمُخْتَصَّةِ بِذَاتِهٖ تَعَالٰى وَ تَقَدَّسَ عَلَی الْمَخْلُوْقِ بِذٰلِكَ التَّأوِيْلِ وَ أَيْضًا يَلْزَمُ عَلَيْهِ أَنْ يَصِحَّ نَفْيُ إِطْلَاقِ لَفْظِ "عَالِمِ الْغَیْبِ" عَنِ اللهِ تَعَالٰى بِالتَّأوِيْلِ الْآخَرِ فَإِنَّهُ تَعَالٰى لَيْسَ عَالِمَ الْغَيْبِ بِالْوَاسِطَةِ وَ الْعَرْضِ، فَهَلْ يَأذَنُ فِي نَفْيِهٖ عَاقِلٌ مُّتَدَيِّنٌ حَاشَا وَ کَلَّا۔
نیز اگر کسی تاویل کے ذریعے آپ علیہ السلام کو عالم الغیب کہنا جائز سمجھا جائے تو لازم آئے گا کہ اللہ تعالیٰ کی صفاتِ مخصوصہ مثلاً خالق، رازق، مالک، معبود وغیرہ کا اطلاق بھی اسی تاویل کے ذریعے مخلوق پر صحیح ہو۔ نیز لازم آتا ہے کہ دوسری تاویل کی وجہ سے اللہ تعالیٰ سے عالم الغیب ہونے کی نفی کرنا درست ہو اور وہ تاویل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بالواسطہ اور بالعرض عالم الغیب نہیں۔ تو کیا کوئی عقلمند دیندار شخص اس تاویل کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے عالم الغیب ہونے کی نفی کو جائز کہہ سکتا ہے؟ اللہ کی پناہ، ہرگز نہیں۔
ثُمَّ لَوْ صَحَّ هٰذَا الْإِطْلَاقُ عَلٰى ذَاتِهِ الْمُقَدَّسَةِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ عَلٰى قَوْلِ السَّائِلِ فَنَسْتَفْسِرُ مِنْهُ: مَاذَا أَرَادَ بِهٰذَا الْغَيْبِ؟ هَلْ أَرَادَ کُلَّ وَاحِدٍ مِن أَفْرَادِ الْغَيْبِ أَوْ بَعْضَهُ أَيَّ بَعْضٍ کَانَ فَاِنْ أَرَادَ بَعْضَ الْغُيُوْبِ فَلَااخْتِصَاصَ لَهُ بِحَضْرَةِ الرِّسَالَةِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ فَإِنَّ عِلْمَ بَعْضِ الْغُيُوْبِ - وَ إِنْ کَانَ قَلِيْلًا– حَاصِلٌ لِزَيْدٍ وَ عَمْرٍو بَلْ لِّكُلِّ صَبِيٍّ وَ مَجْنُوْنٍ بَلْ لِّجَمِيْعِ الْحَيْوَانَاتِ وَ الْبَهَائِمِ لِأَنَّ کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمْ يَعْلَمُ شَيْئًا لَّا يَعْلَمُ الْآخَرُ وَ يَخْفٰى عَلَيْهِ فَلَوْ جَوَّزَ السَّائِلُ إِطْلَاقَ عَالِمِ الْغَيْبِ عَلٰى أَحَدٍ لِّعِلْمِهٖ بَعْضَ الْغُيُوْبِ يَلْزَمُ عَلَيْهِ اَنْ يُّجَوِّزَ إِطْلَاقَهٗ عَلٰى سَائِرِ الْمَذْکُوْرَاتِ وَ لَوِ الْتَزَمَ ذٰلِكَ لَمْ يَبْقَ مِنْ کَمَالَاتِ النُّبُوَّةِ لِأَنَّهُ يَشْرُكُ فِيْهِ سَائِرُهُمْ وَ لَوْ لَمْ يَلْتَزِمْ طُوْلِبَ بِالْفَارِقِ وَ لَنْ يَّجِدَإِلَيْهِ سَبِيْلًا اِنْتَهٰى کَلَامُ الشَّيْخِ التَّهانَوِيْ۔
پھر یہ کہ اگر بقولِ سائل حضور علیہ السلام کو عالم الغیب کہنا درست ہے تو ہمارا اس سے سوال یہ ہے کہ اس غیب سے آپ کی مراد کیا ہے؟ یعنی غیب کی ہر ہر چیز کا علم یا بعض مغیبات کا علم چاہے وہ جو بھی ہوں۔ اگر بعض غیب مراد ہو تو اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت تو باقی نہ رہی کیونکہ بعض غیب کا علم اگرچہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو زید، عمرو بلکہ ہر بچے اور دیوانے بلکہ تمام حیوانات اور چوپاؤں کو بھی حاصل ہے کیونکہ ہر شخص کو کسی نہ کسی ایسی بات کا علم ہے جو دوسروں کو معلوم نہیں ہوتی۔ تو اگر سائل کے نزدیک بعض غیب جاننے کی وجہ سے کسی کو عالم الغیب کہنا جائز ہے تو لازم آتا ہے کہ وہ مذکورہ بالا تمام چیزوں پر عالم الغیب کے اطلاق کو جائز قرار دے۔ اور اگر سائل اس اطلاق کو درست سمجھتا ہے تو پھر ”عالم الغیب“ ہونا حضور علیہ السلام کے کمالاتِ نبوت میں سے نہ رہے گا کیونکہ اس صفت میں سب شریک ہوجائیں گے اور اگر سائل اس اِطلاق کو درست نہیں سمجھتا تو پوچھا جائے گا کہ اس فرق کی کیا وجہ ہے ؟ یقیناً سائل کبھی بھی وجہ فرق بیان نہ کر سکے گا۔ شیخ تھانوی کا کلام مکمل ہوا۔
فَانْظُرُوْا- يَرْحَمْكُمُ اللهُ- فِي کَلَامِ الشَّيْخِ لَنْ تَجِدُوْا مِمَّا کَذَ بَ الْمُبْتَدِعُوْنَ مِنْ أَثْرٍ فَحَاشَا أَنْ يَّدَّعِيَ أَحَدٌ مِّنَ الْمُسْلِمِيْنَ الْمُسَاوَاةَ بَيْنَ عِلْمِ رَسُوْلِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ وَ عِلْمِ زَيْدٍ وَّ بَكْرٍ وَّ بَهَائِمَ بَلِ الشَّيْخُ يَحْكُمُ بِطَرِيْقِ الْإلْزَامِ عَلٰى مَنْ يَّدَّعِيْ جَوَازَ إِطْلَاقِ عَالِمِ الْغَيْبِ عَلٰى رَسُوْلِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ لِعِلْمِهٖ بَعْضَ الْغُيُوْبِ أَنَّهُ يَلْزَمُ عَلَيْهِ أَنْ يُّجَوِّزَ إِطْلَاقَهٗ عَلٰى جَمِيْعِ النَّاسِ وَ الْبَهَائِمِ.
محترم قارئین!- اللہ آپ پر رحم کرے- آپ شیخ تھانوی کا کلام ملاحظہ فرمائیں، اس میں اہلِ بدعت کے جھوٹ کا نشان تک آپ کو نہ ملے گا- اللہ کی پناہ- یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کوئی مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علم کو زید، بکر اور چوپاؤں کے علم کے برابر سمجھے بلکہ شیخ تھانوی تو الزامی طور پہ فرما رہے ہیں کہ جو آدمی بعض غیب جاننے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم الغیب کہنا جائز سمجھتا ہے تو اس پر لازم آتا ہے کہ وہ تمام انسانوں اور چوپاؤں کو عالم الغیب کہنا بھی جائز سمجھے۔
فَأَيْنَ هٰذَا مِنْ مُّسَاوَاةِ الْعِلْمِ الَّتِي يَفْتَرُوْنَهَا عَلَيْهِ فَلَعْنَةُ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِيْنَ وَ نَتَيَقَّنُ بِأَنَّ مُعْتَقِدَ مُسَاوَاةِ عِلْمِ النَّبِيِّ عَلَيْهِ السَّلَامُ مَعَ زَيْدٍ وَّ بَكْرٍ وَّ بَهَائِمَ وَ مَجَانِيْنَ کَا فِرٌ قَطْعًاوَّ حَاشَا الشَّيْخِ دَامَ مَجْدُهُ اَنْ يَّتَفَوَّهَ بِهٰذَا وَ اِنَّهُ لَمِنْ عَجَبِ الْعَجَائِبِ.
کہاں یہ اصل حقیقت اور کہاں وہ علمی برابری جس کا بہتان اہلِ بدعت نے حضرت تھانوی پر باندھا ہے،جھوٹوں پر خدا کی لعنت ہو۔ ہمارا تو پختہ یقین ہے کہ جو شخص حضور علیہ السلام کے علم کو زید، بکر، چوپاؤں اور مجنونوں کے علم کے برابر سمجھے وہ قطعی طور پر کافر ہے۔ خدا کی پناہ کہ شیخ تھانوی دام مجدہ ایسی بے ہودہ بات فرمائیں۔ یہ تو بڑی ہی عجیب بات ہے۔
---
حاشیہ:
1: النمل: 65
2: الاعراف: 188