سوال 21:ولادت مبارکہ کا تذکرہ

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
سوال 21:ولادت مبارکہ کا تذکرہ

اَلسُّؤَالُ الْوَاحِدُ وَ الْعِشْرُوْنَ:
أَ تَقُوْلُوْنَ اِنَّ ذِکْرَ وِلَادَتِهٖ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ مُسْتَقْبَحٌ شَرْعًا مِّنَ الْبِدْعَاتِ السَّيِّئَةِ الْمُحَرَّمَةِ أَمْ غَيْرَ ذٰلِكَ؟
اکیسواں سوال:
کیا آپ اس بات کے قائل ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کا تذکرہ شرعاً قبیح، بدعت سیئہ و حرام ہے؟ یاآپ کا نظریہ کچھ اور ہے؟
اَلْجَوَابُ:
حَاشَا أَنْ يَّقُوْلَ أَحَدٌ مِّنَ الْمُسْلِمِيْنَ فَضْلًا أَنْ نَّقُوْلَ نَحْنُ إِنَّ ذِکْرَ وِلَادَتِهِ الشَّرِيْفَةِ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ بَلْ وَ ذِکْرَ غُبَارِ نِعَالِهٖ وَ بَوْلِ حِمَارِهٖ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ مُسْتَقْبَحٌ مِّنَ الْبِدْعَاتِ السَّيِّئَةِالْمُحَرَّمَةِ فَالْأَحْوَالُ الَّتِيْ لَهَا أَدْنٰى تَعَلُّقٍ بِرَسُوْلِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ ذِکْرُهَا مِنْ أَحَبِّ الْمَنْدُوْبَاتِ وَ أَعْلٰى الْمُسْتَحَبَّاتِ عِنْدَنَا سَوَآءٌ کَانَ ذِکْرُ وِلَادَتِہِ الشَّرِيْفَةِ أَوْ ذَکْرُ بَوْلِهٖ وَ بَرَازِہٖ وَ قِيَامِهٖ وَ قُعُوْدِهٖ وَ نَوْمِهٖ وَ نَبْهَتِهٖ کَمَا هُوَ مُصَرَّحٌ فِي رِسَالَتِنَا الْمُسَمَّاةِ بِالْبَرَاهِيْنِ الْقَاطِعَةِ فِي مَوَاضِعَ شَتّٰى مِنْهَا وَ فِي فَتَاوٰى مَشَايِخِنَا رَحِمَهُمُ اللهُ تَعَالٰى کَمَا فِي فَتَاوٰى مَوْلَانَا الْمُحَدِّثِ السَّهَارَنْفُوْرِيِّ تِلْمِيْذِ الشَّاهْ مُحَمَّدْ إِسْحَاقْ الدِّهْلَوِيِّ ثُمَّ الْمُهَاجِرِ الْمَكِّيِّ نَنْقُلُهُ مُتَرْجَمًا لِتَكُوْنَ نُمُوْنَۃً عَنِ الْجَمِيْعِ ۔
جواب:
خدا کی پناہ! ہم تو کیا کوئی مسلمان بھی ایسا نہیں کہہ سکتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت کا ذکر بلکہ آپ کے نعلین کے غبار اور سواری کے بول کا تذکرہ قبیح، بدعت سیئہ یا حرام ہے بلکہ ہمارا نظریہ تو یہ ہے کہ وہ تمام احوال جن کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات با برکات سے ادنیٰ سا تعلق بھی ہے ان کا تذکرہ کرنا ہمارے نزدیک انتہائی پسندیدہ اور اعلیٰ درجہ کا مستحب ہے خواہ ذکر ولادت شریفہ ہو یا آپ کے بول و براز، نشست و برخاست اور بیداری و خواب کا تذکرہ ہو جیسا کہ ہماری کتاب ”براہین قاطعہ“ میں کئی مقامات پر صراحتاً موجود ہے اور ہمارے مشائخ کے فتاویٰ مثلاً مولانا احمد علی سہارنپوری شاگرد رشید شاہ محمد اسحاق دہلوی ثم الہاجر المکی کے فتاویٰ میں مذکور ہے۔ ہم اس جگہ مولانا احمد علی سہارنپوری علیہ الرحمۃ کا فتویٰ عربی میں ترجمہ کر کے نقل کرتےہیں تاکہ پتہ چل جائے کہ اس بارے میں ہمارے اسلاف کا کیا عقیدہ ہے۔
سُئِلَ هُوَ رَحِمَهُ اللهُ تَعَالٰى عَنْ مَجْلِسِ الْمِيْلَادِ بِأَيِّ طَرِيْقٍ يَّجُوْزُ وَ بِأَيِّ طَرِيْقٍ لَّا يَجُوْزُ؟
فَأَجَابَ بِأَنَّ ذِکْرَ الْوِلَادَةِ الشَّرِيْفَةِ لِسَيِّدِنَا رَسُوْلِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ بِرِوَايَاتٍ صَحِيْحَةٍ فِيْ أَوْقَاتٍ خَالِيَةٍ عَنْ وَظَائِفِ الْعِبَادَاتِ الْوَاجِبَةِ وَ بِكَيْفِيَّاتٍ لَّمْ تَكُنْ مُخَالِفَةً عَنْ طَرِيْقَةِ الصَّحَابَةِوَ أَهْلِ الْقُرُوْنِ الثَّلَاثَةِ الْمَشْهُوْدِ لَهَا بِالْخَيْرِ وَ بِالْاِعْتِقَادَاتِ الَّتِیْ مُوْهِمَةٌ بِالشِّرْكِ وَالْبِدْعَةِ وَ بِالْآدَابِ الَّتِيْ لَمْ تَكُنْ مُخَالِفَةً عَنْ سِيْرَةِ الصَّحَابَةِ الَّتِي هِيَ مِصْدَاقُ قَوْلِهٖ عَلَيْهِ السَّلَامُ "مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي1وَ فِي مَجَالِسَ خَالِيَةٍ عَنِ الْمُنْكَرَاتِ الشَّرْعِيَّةِ مُوْجِبٌ لِّلْخَيْرِ وَ الْبَرَکَةِ بِشَرْطِ أَنْ يَّكُوْنَ مَقْرُوْنًا بِصِدْقِ النِّيَّةِ وَ الْإِخْلَاصِ وَ اعْتِقَادِ کَوْنِهٖ دَاخِلًا فِي جُمْلَةِ الْأَذْکَارِ الْحَسَنَةِ الْمَنْدُوْبَةِ غَيْرِ مُقَيَّدٍ بِوَقْتٍ مِّنَ الْأَوْقَاتِ فَإِذَا کَانَ کَذٰلِكَ لَا نَعْلَمُ أَحَدًا مِّنَ الْمُسْلِمِيْنَ أَنْ يَّحْكُمَ عَلَيْهِ بِکَوْنِهٖ غَيْرَ مَشْرُوْعٍ أَوْ بِدْعَةٍ إِلٰى آخِرِ الْفَتْوٰى۔
مولانا رحمہ اللہ تعالیٰ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی ولادت کے تذکرہ کی مجلس کے متعلق سوال کیا گیا کہ یہ کس طریقے سے جائز ہے اور کس طریقے سے ناجائز؟ تو مولانا نے جواب دیا: ”سیدنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت شریفہ کا ذکر خیر و برکت کا باعث ہے جبکہ صحیح روایات کو ایسے اوقات میں بیان کیا جائے جن میں کوئی عبادت واجب نہ ہو، ان کیفیات کے ساتھ ہو جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ان اہل قرونِ ثلاثہ کے طریقے کے خلاف نہ ہوں جس کے خیر ہونے کی گواہی جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے، ایسے عقائد کا بیان ہو جن سے شرک اور بدعت کا خدشہ نہ ہو، ان آداب کو بجا لایا جائے جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی اس سیرت کے مخالف نہ ہوں جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان ”مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي“ کی مصداق ہے اور یہ مجالس منکرات شرعیہ سے پاک بھی ہوں بشرطیکہ ذکرِ ولادت صدقِ نیت، اخلاص اور اس عقیدہ سے کیا جائے کہ یہ بھی جملہ اذکار حسنہ میں سے ایک ذکر حسن ہے جو کسی خاص وقت کے ساتھ مخصوص نہیں۔ جب ذکرِ ولادت اس طرح ہو گا تو ہمارے خیال میں کوئی مسلمان بھی اس کے غیر مشروع یا بدعت ہونے کا فتوی نہ دے گا۔“ فتویٰ کی عبارت یہاں ختم ہوئی۔
فَعُلِمَ مِنْ هٰذَا أَنَّا لَا نُنْكِرُ ذِکْرَ وِلَادَتِهِ الشَّرِيْفَةِ بَلْ نُنْكِرُ عَلٰى الْأُمُوْرِ الْمُنْكَرَةِ الَّتِي انْضَمَّتْ مَعَهَا کَمَا شَفَتُّمُوْهَا فِي الْمَجَالِسِ الْمَوْلُوْدِيَّةِ الَّتِيْ فِي الْهِنْدِ مِنْ ذِکْرِ الرِّوَايَاتِ الْوَاهِيَّةِ وَالْمَوْضُوْعَةِ وَ اخْتِلَاطِ الرِّجَالِ وَ النِّسَاءِ وَ الْإِسْرَافِ فِي إِیْقَادِ الشُّمُوْعِ وَ التَّزْيِيْنَاتِ وَ اعْتِقَادِکَوْنِهٖ وَاجِبًا بِالطَّعْنِ وَ السَّبِّ وَ التَّكْفِيْرِ عَلٰى مَنْ لَمْ يَحْضُرْ مَعَهُمْ مَجْلِسَهُمْ وَ غَيْرِهَا مِنَ الْمُنْكَرَاتِ الشَّرْعِيَّةِ الَّتِيْ لَا يَكَادُ يُوْجَدُ خَالِيًا مِنْهَا فَلَوْ خَلَا مِنَ الْمُنْكَرَاتِ حَاشَا أَنْ نَّقُوْلَ اِنَّ ذِکْرَ الْوِلَادَةِ الشَّرِيْفَةِ مُنْكَرٌ وَّ بِدْعَةٌ۔
وَکَيْفَ يُظَنُّ بِمُسْلِمٍ هٰذَا الْقَوْلُ الشَّنِيْعُ فَهٰذَا الْقَوْلُ عَلَيْنَا أَيْضًا مِّنَ افْتِرَاءَتِ الْمَلَاحِدَةِ الدَّجَّالِيْنَ الْكَذَّابِيْنَ- خَذَلَهُمُ اللهُ تَعَالٰى بَرًّا وَّ بَحْرًا وَّ سَهْلًا وَّ جَبَلًا.
اس فتویٰ سے معلوم ہوا کہ ہم حضور علیہ السلام کی ولادت شریفہ کے تذکرہ کے منکر نہیں بلکہ ان ناجائز امور کے منکر ہیں جو ا س طرح کی مجالس میں شامل ہو گئے ہیں جیسا کہ ہندوستان کی مجالسِ مولود میں آپ نے خود دیکھا ہے کہ موضوع اور من گھڑت روایات بیان کی جاتی ہیں، مردوں عورتوں کا اختلاط ہوتا ہے، چراغاں اور دوسری زیب و زینت پر فضول خرچی کی جاتی ہے، اس مجلس کو واجب سمجھا جاتا ہے اور جو شخص اس میں شریک نہ ہو اس پہ طعنے کَس کے کفر کا فتویٰ لگایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی بے شمار منکرات ہیں جن سے شاید ہی کوئی مجلس خالی ہو۔ اگر کسی مجلس میں یہ منکرات نہ ہوں تو اللہ کی پناہ کہ ہم یوں کہیں کہ ولادت شریفہ کا ذکر کرنا ناجائز اور بدعت ہے۔
نیز کسی مسلمان کے بارے میں کیسے گمان کیا جا سکتا ہے کہ اس نے ایسی بری بات کی ہے؟خلاصہ یہ ہے کہ یہ بات بھی جھوٹے ملحددجال لوگوں کی طرف سے ہم پر بہتان ہے۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو رسوا کرے اور خشکی و تری اور نرم و سخت زمین میں ان پر غضب فرمائے۔
---
حاشیہ:
1: جامع الترمذی: باب ما جاء فی افتراق الامۃ