والدین کی رضا

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
والدین کی رضا
پیر ذوالفقار احمد نقشبندی
دیہاتی علاقے میں بوڑھے ماں باپ تھے، اللہ نے بڑھاپے میں ان کواولاد عطا کر دی بچے کوانہوں نے پڑھایا،بچہ ذ ہین تھا،حتی کہ وہ بچہ پڑھ لکھ کرانجینئر بن گیا۔اب جب وہ انجینئر بنا تو شہرکے اندراس کوبڑی اچھی نوکری مل گئی،کوٹھی مل گئی، کارمل گئی۔ اس نے ماں باپ کوکہا،جی آئیں ! میرے ساتھ شہرمیں آئیں ۔
ماں باپ چونکہ دیہات میں رہنے کے عادی تھے، رشتے داریاں وہیں تھیں اورآزادفضاتھی اوروہ اس ماحول میں ایڈجسٹ ہوچکے تھے۔ وہ کچھ د ن توشہر میں رہے لیکن رشتہ داروں کی خوشی غمی میں باربار گاﺅں جانا پڑتاتھا۔توماں باپ نے کہاکہ بیٹے!ہم سے بار باریہ سفر نہیں ہوتے، ہمیں آپ وہیں دیہات میں رہنے دو ۔آپ نے اگر رہناہے توآپ شہرمیں رہ لو، آتے رہنا،ہم سے ملتے رہنا۔
چنانچہ اس طرح بیٹے نے شہر میں رہنا شروع کردیا۔ کچھ عرصے کے بعد اس نے سوچا کہ بھئی اب ہرطرح سے میں ایڈجسٹ توہوہی چکاہوں تومجھے شادی کروالینی چاہیے۔ شہر کے ایک بڑے معززگھرانے کی ایک خوبصورت اورخوب سیرت لڑکی کاپتہ چلا اس نے ان کی طرف نکاح کا پیغام بھیجا۔ ماں باپ سے پوچھا؛ ماں باپ نے کہاکہ بیٹے!زندگی آپ نے گزارنی ہے جہاں آپ خوش ہوں گے ہم بھی وہیں خوش ہوں گے۔ اس کی شادی بھی ہوگئی۔
اب شادی کے بعد یہ اپنی بیوی کوگھر لے کرآیاتوبیوی کچھ عرصہ تو اس کے ماں باپ کوملنے دیہات میں جاتی رہی پھرجب بچوں کے سلسلے شروع ہوجاتے ہیں توآناجانا مشکل ہوجاتا ہے ماں باپ اس بچہ کو کہتے ہیں کہ آپ ہمارے پاس ہفتے میں ایک دفعہ آکرمل جایاکرو۔
یہ ایک دفعہ ملنے چلاجاتاہے اب بندہ ہے، کئی دفعہ پلاننگ کرتاہے کہ میں دو گھنٹے میں آجاﺅں گااوردوگھنٹے کی جگہ چھ گھنٹے لگ جاتے ہیں توجب اس طرح ذرادیرہونی شروع ہوئی تو بیوی کوبھی برالگاوہ پھربولناشروع ہوگئی۔جیسے عورتوں کی ایک لینگویج ہوتی ہے اب یہ نوجوان شریف النفس تھا۔اپنی بیوی کوسمجھاتاوہ بھی امیرگھرانے کی تھی، اورآگے سے بات کوبڑھادیتی تھی،خواہ مخواہ کابحث مباحثہ آپس میں ہوجاتا، اوریہ ہرہفتے کامسئلہ ہوتا۔ دو چارسال گزرے تواب بیوی جوتھی وہ ماں باپ کے پاس جانے سے الرجک ہوگئی۔ جب یہ جانے لگتاتووہ ہنگامہ کردیتی یہ پریشان کہ وہاں نہ جاﺅں توماں باپ ناراض اوراگرجاﺅں تویہاں بیوی ناراض۔ سوچتاتھاکہ میں کیسے اس مصیبت سے جان چھڑاﺅں ؟
اتنے میں اس کوسعودی عرب سے ایک جاب آفر آگئی۔ بہت معقول پیکج تھا۔ اس نے ماں باپ کوجاکر بتایاکہ مجھے تو سعودی عرب میں نوکری مل رہی ہے۔ ماں باپ بڑے خوش ہوئے، بیٹے! ہمارااللہ حافظ ہے تم اس دیس میں جاﺅ گے، اللہ کاگھردیکھوگے،بیٹے ہمارے لیے یہی خوشی کافی ہے۔ ماں باپ نے اجازت دے دی۔
یہ بیوی بچوں کولے کرمکہ مکرمہ آگیا۔اس زمانے میں ٹیلی فون توزیادہ ہوتے نہیں تھے۔ بس حج اور عمرے پرجولوگ آتے تھے انہی کے ذریعے پیغام رسانی ہوتی تھی یاکوئی چیز ایک دوسرے کوپہنچادی جاتی تھی۔ چنانچہ یہ نوجوان شروع میں ان کے لیے خرچہ بھی بھیجتارہااورکبھی کبھی صحت خوشی کے پیغام بھی بھیجتارہا،لیکن تیرہ سال یہ وہیں پررہااپنے والدین کی طرف واپس نہ آ سکا نیک تھا، ہرسال حج کرتاتھا۔
ایک مرتبہ حج کے دوسرے تیسرے دن یہ مطاف میں کھڑاتھا۔ بیت اللہ کے سامنے زاروقطارورہاتھا۔ کسی اللہ والے نے دیکھا، پوچھانوجوان!کیاہوا؟کہتاہے کہ مجھے تیرہ سال ہو گے ہیں ، ہردفعہ حج کرتاہوں لیکن حج کے دون تین دن کے بعد میں خواب دیکھتاہوں کہ کوئی کہنے والاکہتاہے تیراحج قبول نہیں اورمیں پریشان ہوں کہ پتہ نہیں کون سی مجھ سے ایسی غلطی ہوئی ہے کہ میراحج اللہ کی بارگاہ میں قبول ہی نہیں ؟ وہ اللہ والے تھے بندے کی نبض پہچانتے تھے، انہوں نے دوچارباتوں میں گیس کرلیا کہ اس نے تیرہ سال سے ماں باپ کوشکل ہی نہیں دکھائی ان کے پاس گیاہی نہیں توصاف ظاہرہے کہ بوڑھے ماں باپ اس پرخفاہوں گے۔ انہوں نے بات سمجھائی کہ بیٹے!جاﺅ!ماں باپ زندہ ہیں ان کی خیرخبر لو،پھرواپس آنا۔
خیریہ آیا اور اس نے آکرفوراًاپنی ٹکٹ بک کروالی۔بیوی نے کچھ آئیں بائیں شائیں کرنے کی کوشش کی، مگریہ نوجوان بھی سیریس تھا۔ اس نے اس کوبھی شیر کی آنکھیں دکھائیں ۔ جب بیوی نے دیکھاکہ یہ بہت سیریس نظرآتاہے توچپکے سے ڈرکے مارے بھیگی بلی بن کربیٹھ گئی۔
خیراس نے تیاری کی اور واپس اپنے ملک آیا، اب جب اپنے گاﺅں کے قریب پہنچا تو اس نوجوان کویہ بھی پتہ نہیں تھا کہ میرے ماں باپ اس وقت زندہ بھی ہیں یانہیں ؟ اب یہ سوچ رہا ہے کہ پتہ نہیں میرے ماں باپ کس حال میں ہیں ؟ تیرہ سال گئے ہوئے ہوگئے تھے۔ اس کوایک ایک نودس سال کالڑکاملا۔ اس نے اس سے پوچھاکہ وہ فلاں بڑے میاں کاکیاحال ہے؟
اس نے بتایاکہ وہ بڑے میاں توچھ مہینے ہوئے فوت ہوگئے، البتہ وہ بوڑھی عورت ابھی زندہ ہے، گھرمیں ہے اوربڑی بیمارہے۔ میں نے سناہے کہ ان کاایک بیٹاہے جوسعودی عرب گیاہواہے پتہ نہیں وہ کیسانامعقول بیٹاہے جواپنے ماں باپ کی خبرہی نہیں لیتا۔بچہ بات کرکرے چلاگیالیکن اس نوجوان کے دل کی تارکوچھیڑگیا اب ا س کواحساس ہوا۔ اوہو؛ دنیاسے چلے گئے میں نے آخری وقت میں ان کی شکل ہی نہیں دیکھی۔ اب تو امی مجھ سے ناراض ہوں گی اور امی میراچہرہ ہی نہیں دیکھے گی، امی مجھے گھرے سے نکال دے گی، میرے ساتھ بات ہی نہیں کرے گی،اب یہ سوچ رہا ہے کہ میں امی کوکیسے مناﺅں گا؟ مغموم دل سے گھر کی طرف جارہاتھا۔بالآخر جب اس نے گھر کے دروازے پرپہنچ کردیکھاتودروازہ کھلاہواتھاکواڑملے ہوئے تھے اس نے آہستہ سے دروازہ کھولا اندرداخل ہوا، کیادیکھتاہے کہ صحن میں چارپائی کے اوپر اس کی بوڑھی بیماروالدہ لیٹی ہوئی ہے۔ ہڈیوں کاڈھانچہ تھی وہ چارپائی کے ساتھ لگی ہوئی تھی۔ اس کوخیال آیاکہ کہیں امی سونہ رہی ہو تومیں پہلے آہستہ آہستہ چلتے ہوئے قریب جاتاہوں ۔ چونکہ اس کی والدہ کی آنکھوں پر موتیا آ چکا تھا، جب وہ دبے پاﺅں بالکل قریب پہنچاتو حیران ہواکہ اس کی والدہ کے اس وقت ہاتھ اٹھے ہوئے تھے اوروہ کچھ الفاظ کہہ رہی تھی گویااللہ سے دعامانگ رہی تھی اس نے جب قریب ہوکر سناتو ماں یہ الفاظ کہہ رہی تھی یا اللہ میرا خاوند دنیاسے چلا گیاہے میراایک ہی بیٹاہے میرامحرم ہے اللہ اسے بخیریت واپس پہنچادیناتاکہ اگر میری موت آئے تو مجھے قبر میں اتارنے والاکوئی تومیرامحرم موجود ہو۔ ماں یہ دعائیں مانگ رہی ہے اور بیٹاسمجھتاہے کہ ماں مجھے دیکھنابھی گورانہیں کرے گی۔ اس نے جب ماں کے یہ الفاظ سنے اس نے فورا کہا امی میں آگیاہوں توماں چونک اٹھی آواز سنتے ہی بولی میرے بیٹے آگئے؟ جی امی!میں آگیاہوں ۔ ماں کہنے لگی: بیٹے ذراقریب ہونامیں تمہاری شکل تودیکھ نہیں سکتی مجھے اپنابوسہ ہی لینے دومجھے اپنے جسم کی خوشبوسونگھنے دویہ ماں کی محبت ہوتی ہے۔ خیر!بیٹادوچاردن وہاں رہا اللہ کی شان ماں بیمارتھی، چنددنوں میں فوت ہوگئی۔ اس نے اپنی والدہ کودفنایاکفنایااوراس ذمہ داری سے فارغ ہوکر، کچھ عرصے بعد یہ واپس مکہ مکرمہ آگیا۔
کہتے ہیں اگلے سال جب حج کاموقع آیااس نے حج کے دسرے دن پھر خواب دیکھاجس شخص کودیکھتاتھااس نے دیکھاکہ وہی ہے اور اس سے وہ کہہ رہاہے اللہ نے تیرے اس حج کوبھی قبول کرلیااورتیرے پچھلے حجوں کوبھی قبول کرلیا۔
جب ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک سے اللہ رب العزت بندے کے عملوں کوقبول کرلیتے ہیں اوراس کے ساتھ رحمتوں کامعاملہ کرتے ہیں تونوجوانوں کوچاہیے کہ گھروں میں نہ آپس میں الجھیں ۔ نہ ماں باپ کی بے قدری کریں ۔ ماں باپ شفقتوں والامعاملہ کریں ، اولاد خدمت کامعاملہ کرے۔ سب محبت پیارکے ساتھ رہیں لڑائی جھگڑے سے بچیں یہ فساد ہے اورواللہ لایحب الفساداللہ تعالیٰ فساد کوپسند نہیں فرماتے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں نیک بن کراورایک بن کرزندگی گزارنے کی توفیق عطافرمائے۔