انوکھا بندھن

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
انوکھا بندھن
محمد بشارت تبسمؔ
اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے کیا ہی عجیب نعمت ہے ” ماں “لیکن انسان ہے کہ اس نعمت کی قدر اس وقت تک نہیں کرتا جب تک کہ یہ چھن نہ جائے خوش قسمت ہیں وہ لوگ جنہیں ماں جیسی عظیم نعمت نصیب ہو اور وہ اس نعمت کے شکر کا حق ادا کر رہے ہوں انسان تو آخر انسان ہے حیوانوں اور چرند پرند میں بھی ماں اور اولاد کا عجیب ہی رشتہ ہوتا ہے ایک چڑیا جو کہ بنی نوع انسان سے دور بھاگتی ہے لیکن اپنے بچوں کی خاطر وہ بھی کیسے دیوانہ وار سروں پر منڈلا رہی ہے ماں کی عظمت کی تعلیم دیتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کاش میری ماں زندہ ہوتی میں نما ز کی نیت باندھ کر کھڑا ہوتا تو میری ماں مجھے آواز دیتی محمد! تومیں نماز کو چھوڑ کر جواب دیتا لبیک یا امی
لیکن آج آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے مغربی تہذیب ہمارے اندر یوں سرایت کر گئی ہے جیسے ریت میں پانی … مغربی دنیا نے ہم سے ماں کا وقار چھین لیا ہے کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ جب ماں کی قدر ،بہنوں کی نگہداشت کسی معاشرے کا شعار بن جائے تو پھر بیٹے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی طرح کربلا میں کٹ جایا کرتے ہیں پھر ماں کے ایک اشارے پر عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ جیسے فرمانبردار حجاج جیسے سپہ سالار کے سامنے ڈٹ جایا کرتے ہیں پھر دشمن کے عزائم کو خاک آلود کرنے کے لیے ایک آواز پر محمد بن قاسم رحمہ اللہ جیسے نو عمر بیٹے بحیرہ احمر کی موجوں کو چیرتے نظر آتے ہیں پھر ماں کی ایک بات کی لاج رکھنے والا کمسن شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کی صورت میں ہزاروں انسانوں کی ہدایت کا ذریعہ بنتا دکھائی دیتا ہے لیکن افسوس ہے آج کے روشن خیال نوجوان پر جورات گئے تک اپنی خوش گپیوں میں مصروف رہتا ہے اسے نہیں معلوم کہ میری ماں بے چین ہے وہ میرے لیے کھانا گرم کر کے اس انتظار میں ہے کب میرا لخت جگر آئے گا اور میری آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی۔ یہ جوان اگر رات بارہ بجے گھر واپس آتا ہے تو اپنی ماں کو منتظر پاتا ہے لیکن اگر ازراہ شفقت ماں نے پوچھ لیا کہ بیٹا اتنی دیر تک کہاں تھے ؟تو بیٹے کے تیور بدل جاتے ہیں بے دھڑک کہہ اٹھتا ہے کہ تو کون ہوتی ہے مجھ سے پوچھنے والی کاش ! اسے یہ معلوم ہو تا کہ اس مظلوم ماں کے سینے میں جذبات موجیں مار رہے تھے جو یکدم پھول کی پتیوں کی طرح بکھیر دیے گئے کیاہم ماں کو چھوڑ سکتے ہیں ؟؟؟
ایک بچہ اپنےگھر سے دروازے سےنکل کر گلی کے نکر پر پہنچا ہے اچانک اسے کوئی خیال آتا ہے اور وہ سوچوں میں گم ہوجاتا ہے پھر وہ پلٹ کر آتا ہے اور اپنے دروازے کی دہلیز پر سر رکھ کر سو جاتا ہے اس معصوم بچے کو آکر ہوا کیا ہے آخر وہ کون سی بات جس نے اس کو اس پر مجبور کردیا ؟ اصل میں اپنی فطرت کے تحت اس نے گھر میں کوئی شرارت کی ماں نے اسے جھڑکتے ہوئے غصے میں آکر کہا کہ نکل جا یہاں سے اور اوجھل ہوجا میری آنکھوں سے خبردار جو تو نے آئندہ اس گھرم میں قدم رکھا لیکن یہ بچہ دروازے پر کیوں سو گیا ہے ؟
بہر حال کچھ ہی دیر بعد اس کی ماں کسی ضرورت سے دروازئے پر آئی اس کی نظریں دروازے کی دہلیز پر پڑے بچے پر مرکوز ہوئیں دیکھا تو اپنا لخت جگر ہے ماں نے اسے اٹھایا اور امتحاناً اس سے کہا میں نے تجھے کہا نہیں تھا کہ یہاں سے چلا جا پھر کیوں واپس آیا ہے ؟ چل چلا جا یہاں سے اس بچے نے روتے ہوئے معصوم چہرے کے ساتھ کیا خوب جواب دیا کہ ماں جب تو نے مجھے ڈانٹ کر گھر سے نکال دیا تھا تو میں نے عزم کر لیا تھا کہ اب کبھی بھی پلٹ کر نہ آؤں گا چلا جاوٴ ں گا یہ شہر چھوڑ کر کبھی نہیں آؤں گا اب ان در ودیوار کو دیکھنے آخر مجھ میں جان ہے محنت مزدوری کر کے اپنا پیٹ پال لوں گا اور میں نے یہ سوچ کر یہاں سے چل بھی دیا تھا لیکن گلی کے نکر پر پہنچ کر میں نے سوچا کہ میں یہاں سے چلا جاوٴ ں گا محنت کر کے ساری دنیا حاصل کر لوں گا لیکن چہاں سے چلے جانے کے بعد مجھے ماں ہمیشہ کے لیے نہیں ملے گی لہٰذا میں نے سوچا کہ میں ساری دنیا کو گو چھوڑ سکتا ہوں لیکن ماں !!! میں تجھے کبھی نہیں چھوڑ سکتا کبھی بھی۔ تو مجھے مار ،ڈانٹ تجھے اختیار ہے لیکن مجھے اس دروازے پر پڑا رہنے دے کہ تیری آواز تو سن لیا کروں گا کبھی تیری زیارت تو کر ہی لیا کروں گا۔ یہی بچے ہوتے ہیں جو ماؤوں کی خاطر اپنا سب کچھ نثار کردیا کرتے ہیں کیا کوئی غیرت مند جوان اس بات کو گوارہ کر سکتا ہے کہ اس کی ماں تو ظلم وجبر کی چکی میں پس رہی ہو اور وہ دنیا کی رنگ رلیوں میں مزے لے رہا ہو اے خواب غفلت میں ڈوبے ہوئے مسلمانو! آؤ ہم اس بات کو ثابت کردیں کہ ہم ایک غیرت مند ماں کے غیرت مند بیٹے ہیں لہٰذا ہم اپنی گردنوں کو کٹنا تو برداشت کر سکتے ہیں لیکن اپنی ماؤوں کی عصمت کو پامال ہوتا برداشت نہیں کر سکتے اب کی بار جو غلیظ نگاہ ہماری ماؤں بہنوں کی طرف اٹھے گی پھوڑ دی جائے گی ان کی طرف اٹھنے والے این جی اوز کے قدم ہمیشہ کے لیے توڑ دیے جائیں گے۔
کیا ہمارے ہوائی جہاز ائیر ہوسٹس کے بغیر نہیں چل سکتے کیا ہمارے سائن بورڈ ماؤں بہنوں کی تصویروں کے لیے رہ گئے ہیں کیا ہول سیل ڈیلنگ ہمارے مردوں کو نہیں آتی ؟