دورِ حاضر کی جاہلیت

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
دورِ حاضر کی جاہلیت
رضیہ صدیقی ، سرگودھا
مجموعی طورپر معا شرہ کی قوتِ برداشت جواب دے چکی ہے اور زمانہ جاہلیت کی یادیں تازہ ہو نی لگیں ہیں، ” کبھی گھوڑا آگے بڑھانے پہ جھگڑا،کبھی پا نی پینے پلانے پہ جھگڑا“ والی صورتحال پیدا ہو چکی ہے۔
صبر، حوصلہ ، درگزر، معافی اور برداشت بے معنیٰ سے الفاظ بن کر رہ گئے ہیں، چھوٹی چھوٹی باتیں لڑائیاں بھڑکا رہی ہیں ، معمولی باتوں پر تکرار کا نتیجہ قتل و غارت گری کی صور ت میں سامنے آ رہا ہے۔ چند روپے کی خاطر قیمتی انسانی جانیں ضائع کرنا باعثِ فخر بن چکا ہے ، طیش میں آکر مارا ہو ا ایک تھپڑ دو خاندانوں کی تباہی کا پیغام لا رہا ہے۔ لباس ، شکل و صورت یا خاندان کے متعلق چھو ٹا سا طعنہ دینے سے خون کے فوارے پھوٹ رہے ہیں۔
گلی گلی ،نگرنگر، کوچہ کوچہ، شہر شہر ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر بدلہ لینے کی فضا بن چکی ہے، احترامِ انسانیت میں نما یاں کمی واقع ہو چکی ہے۔ انسان ،انسان کو کچا چبانے پر تلا ہو ا ہے، کرائے کے قاتلوں میں دن رات اضافہ ہو رہا ہے اور انسان کا قیمتی خون بہا نے میں ذرا برابر بھی ہچکچاہٹ کا مظاہر ہ نہیں کیا جارہا ہے۔
بے دریغ انسانی قتل کی وجو ہا ت میں سے ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ لوگوں میں قوتِ برداشت نہیں رہی ، زمانہ جاہلیت میں بھی ایسا ہی ہو تا تھا ایک قبیلہ کی کسی عورت سے انجانے میں کسی دوسرے قبیلہ کے ایک آدمی کی پالتو چڑیا کے انڈے ٹوٹ گئے تو ان دونوں قبیلوں میں چالیس سال تک خانہ جنگی رہی۔
حجر اسود لگانے کا واقعہ یا د کیجیے سب قبائل نے اعلان جنگ کر دیا تھا۔ ہا تھ خون میں ڈبو لئے تھے اور تلواریں نیا موں سے باہر نکا ل لیں تھیں۔ کئی دفعہ ایسا ہو تا ایک قبیلہ کے شاعرنے دوسرے قبیلے کے بارے میں مذمت بھرا ایک شعر کہہ دیا تو ان دونوں قبیلوں میں سا لہا سال خون ریز جنگ ہو تی رہی نہ یہ قبیلہ ہارمان رہا ہے اور نہ وہ قبیلہ ، بلکہ ہر ایک خون بہا نے میں دوسرےسے سبقت لے جانا چاہتا تھا۔
تعصب کی آگ ایک دفعہ بھڑک اٹھتی تو بجھنے کا نام نہ لیتی ، بھری دنیا میں کسی ایک کو نے سے بھی امن و سکون کی صدا بلند نہیں ہوتی تھی۔
دور حاضر کی جاہلیت دیکھئے کہ زمین کی ایک بالشت کے لئے بیٹا باپ کو قتل کر رہا ہے ، بھائی سگے بھائی کو گولیوں سے بھون رہا ہے ،نشے کیلئے پیسے نہ ملنے پر خاوند بیوی کو موت کو گھا ٹ اتا ر رہا ہے ،معمولی سا جھڑ کنے پر فرزند ماں کو قبر کا راستہ دکھا رہا ہے ، عدالتی کا رروائی پڑھ کر دیکھئے کسی مقدمہ میں بھا ئی مدعی ہے اور بھا ئی ہی ملزم ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ بھائی عدالت سے در خواست گزار ہوتا کہ میرے بھائی کو سزائے موت دی جائے۔
کسی مقدمہ میں باپ درخواست گزار ہے کہ میرے بیٹے کو پھانسی پر لٹکایا جائے۔ اگر ایک بھا ئی کے ہاں کچھ دولت آگئی تو دوسرے غریب بھائی پہ تو اس کی نظر نہیں پڑرہی۔ اگر ایک بھا ئی کے ہا ں بیٹا ہیں اور دوسرے بھائی کے پاس بیٹے ہیں اور بیٹوں والے بھا ئی ہر وقت تکبر میں رہتا ہے کہ اگر مجھے میرے بھا ئی نے یا کسی بھی آدمی نے کچھ کہا تو میں اپنے بیٹوں کو للکا ر دو ں گا کہ جا اپنے چچا کو قتل کردو۔ اگر قتل نہ ہو سکے تو اچھی طرح پٹائی کر دینا تاکہ وہ دو بارہ سر اٹھا نہ سکے اور پوری عمر اس کو یاد ہے گاڑھے خون بالکل پتلے ہو گئے۔
رشتہ داری بے قدر ہو چکی ہے خون سفید ہو چکا ہے۔ بھتیجیوں کے سر پر ہا تھ رکھ کر راضی نہیں۔ مسلمان بھائیوں کی غیرت سو چکی ہے ، بہن ، بیٹی کو آدھے لباس میں محفوظ کر کے غیر محرموں سے مو ویاں بنوا تے ہیں ، فوٹو گرافر اپنی شہرت کرانے کیلئے لڑکیوں کی تصویر یں آگے بھی دیتے ہیں۔شادیوں کے موقعوں پر بے حیا ئی کی انتہا کردی جا تی ہے ، ویڈیوبنوانے کے بہانے بہت سارے نا محرموں کو بد نظری کر نے کا موقع ملتا ہے ، اگر کو ئی ایسے کا موں سے منع کرے تواسے حسد کا نام دیا جاتا ہے۔
نئی جوڑی اپنے گھر میں خوشی سے وقت گزار رہی ہو تی ہے اور پھر چاردن کے بعد خاوند کیا دیکھتا ہے کہ اس کی اہلیہ کی تصویریں بازار میں اور ہر لڑکے کے پا س ہیں پھر گھروں میں جھگڑے ہو تے ہیں کہ تمہاری تصویریں فلاں کے پاس کیسے اور فلاں کے پا س کیسے چلی گئیں اور پھر ان ہی جھگڑوں کی وجہ سے طلاق تک کی نوبتیں آجاتی ہیں۔
اورپھر خو د ان باتوں کو نہیں سوچتے کہ ہم نے اپنی شادی سنت کے مطابق کی تھی یا نہیں ؟حیا ختم ہو گئی،بے حیائی کی آندھی آچکی ہے اگر شادی میں یہ نا جائز کا م نہ ہو تے تو یہاں تک نوبت آتی اور نہ ہی برداشت ہے ،اور اس گھناؤنی کیفیت میں ہر گزرتے لمحے کے ساتھ اضافہ ہو تا جارہا ہے۔
سوال یہ ہے کہ یہ کیفیت ختم ہو جائے گی ؟ کیاانسانی کشتی اس بھنور سے نکل سکتی ہے ؟ اور انسانی خون کے پیا سے لو گوں کا کوئی علاج ہو سکتا ہے ؟ اس کیلئے کو ئی نیا نسخہ استعمال کرنے کی ضرورت نہیں اور نہ یہ کوئی نیا نسخہ کا ر آمد ہو سکتا ہے بلکہ اس کے لئے وہی نسخہ استعمال کرنے کی ضرورت ہے جو مجّرب ہے، آزمایا ہو اہے اور وہ نسخہ ہے ” اسلام ،اور صرف اسلام۔ “
اسلام ہی نے پہلے بھی جاہلیت کا خاتمہ کیا تھا اور آج جدید جاہلیت کا خاتمہ بھی اسلام ہی سے ممکن ہے،یہی نسخہ شفاء ہے اور یہی نسخہ ، نسخہ کیمیا ہے۔ جب کبھی اس نسخہ کو اس کی شرائط کے مطابق استعمال کیا گیا اس نے فائدہ ہی دیا اور آئندہ بھی جب اسے اس کی شرائط کے مطابق استعمال کیا جائے گا یہ کائنات انسانی کو فائد ہ ہی بخشے گا۔
جس طرح زمانہ قدیم کی جاہلیت کا علاج اسلام کے پا س موجود تھا اسی طرح زمانہ جدید کی جاہلیت کا علاج بھی اسلام کے پاس موجود ہے؛چونکہ ہم یہاں زمانہ جدید کی جاہلیت کی گوناگوں اقسام میں سے صرف قتل وغارت اور خون ریزی کا ذکر کررہے ہیں اس لئے اس کے متعلق اسلام نے جو عمدہ نسخہ تجویز کیا ہے اور جو تعلیمات دی ہیں ان کا خلاصہ یہاں نقل کر دینا ضروری ہے۔
سب سے پہلے تو یہ ہے کہ زبان پر کنٹرول کیا جائے۔ بے ہو دہ کلام،فحش گوئی ،گالی، الزام تراشی، بہتان طرازی اور طعن و تشنیع سے زبان محفوظ کی جائے۔ اسی طرح کسی کے حسب و نسب،خاندان ،یا شکل و صورت کے متعلق نا زیبا اور نارو ا بات کرنے سے بھی زبان کو روکا جائے، زبان کی بے احتیا طی معاشرے میں کیا گل کھلا رہی ہے؟ایک گالی پہ قتل، ایک طعنے پہ قتل ،ایک الزام تراشی پہ قتل؛ معمول کی با ت ہے۔جب بظا ہر ہلکے نظر آنے والے ان گنا ہوں کے سنگین نتا ئج ہمارے سامنے ہیں تو پھر زبردست ضرورت ہے اس با ت کی کہ زبان کو ان سب چیزوں سے پاک رکھا جائے اور یہ کوئی مشکل کام بھی نہیں۔ ایک چپ سو سکھ۔جو خاموش رہا وہ نجات پاگیا۔
حدیث شریف کا یہ واقعہ ہر وقت قلب وذہن میں رہے ، ایک شخص نے سوال کیا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) میرے لئے سب سے زیادہ خطرناک کون سی چیز ہے ؟ہادئ برحق صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مقدس زبان پکڑ کر فرمایا: ”یہ“
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی ارشاد ہے: انسان جب صبح اٹھتا ہے تو تمام اعضاء زبان سے درخواست کرتے ہیں کہ خداسے ڈرناہم بھی تمہارے ساتھ ہیں اگر تو سیدھیر رہی ہم سلامت رہیں گے اگر تو بھٹک جائے گی تو ہم سب برباد ہو جائیں گے۔
چونکہ خون ریزی دو طرفہ معاملہ ہے اس لئے تو ایک فریق کیلئے نسخہ تھا اگر کوئی اس نسخہ پرعمل نہیں کرتا فحش گوئی ،الزام تراشی، گالی دیتاہے تو اسلام نے دوسرے فریق کیلئے یہ نسخہ دیا ہے کہ اسے دوسرے کی ناروا باتوں پر صبر کرنا چاہئے، قتل انسانی کی مذمت میں قرآن وحدیث کے ارشاد ات ملحوط رکھنے چاہییں۔
قرآن مجید نے ناحق قتل کرنے والے کو پوری انسانیت کا قاتل قراردیا ہے، دنیا میں بھی قتل کی سزا قتل ہے پھا نسی کے پھندے جھولنا آسان کام نہیں،بڑے بڑے بہادر اور خونخوار گھاٹ تک پہنچنے سے پہلے دم تو ڑدیتے ہیں۔ بعض لوگ قتل کر کے اس سزا سے بچ بھی جا تے ہیں کبھی پیسے کے ذریعے کبھی سفارش کے ذریعے اور کبھی کسی اور حربے کے ذریعے لیکن آخرت کی سزاسے بچنا آسان نہیں۔
قارئین!قتل کی بڑھتی ہوئی وار داتیں روکنے کیلئے جہاں زبان کی حفاظت اور خون انسانی کی اہمیت کا خیال کرنا ضروری ہے وہاں معاشرے کے تمام افراد کو چاہیے کہ اپنے اندربرداشت پیداکریں ،تھوڑی سی ادھر سے بات سن کر دوسرے کے کان میں نہ ڈال دیں اور لمحہ بھر میں شعلے کی طرح بھڑک جانا اچھی بات نہیں اس جلد بازی کا نتیجہ اچھا نہیں نکلتا بلکہ ہمیشہ کیلئے پچھتا وا ملتا ہے۔ جذبات کو بھڑکا نے والے معاملات میں صبر،سکون، حوصلہ، برداشت روادری ، معافی ،درگذر اور چشم پوشی سے کام لینا چاہیے اور ذرا اس حدیث مبارک کو بھی دل میں بسا لیجیےگا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جلد بازی شیطان کی طرف سے ہے اور تحمل و بردباری اللہ تعالی کی طرف سے ہے یہ کا م ہو تا تو بہت مشکل ہے مگر ہو تا دور رس نتائج کا حامل ہے۔
اگر چہ زبان میں ہڈی اس لئے نہیں پیدا فرمائی کہ تم لوگوں سے نرمی سے بولو یعنی اچھے اخلاق سے پیش آؤ اور میرے پیا رے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،بد اخلاقی انسان کو ایسے بگاڑ دیتی ہے جیسے سرکہ شہد کو۔
قارئین !آپ خود ہی سرکہ کی کڑواہٹ اور شہد کی مٹھاس کا اندازہ لگائیں بہر حال غصہ کی آگ پر قابو پانا ہی بہتر ہے۔ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے زور آور پہلوان وہ نہیں جو کُشتی میں فریق مخالف کو پچھاڑ ڈالے بلکہ حقیقت میں پہلوان وہ ہے جو غصے کی وقت اپنے آپ کو قا بو میں رکھے۔
حضرت عبداللہ او حضرت اسماء رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ کے بہترین بندے وہ ہیں جن کو دیکھ کر خدا یاد آتا ہے اور بدترین بندے وہ ہیں جو چغلیاں کھاتے ہیں ،دوستوں میں جدائی ڈالنے والے ہیں اور جو اس بات کے طالب اور کوشاں رہتے ہیں کہ پاک دامن بندوں کو گناہ میں ملوث کردیں۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: جو شخص باوجود قدرت کے اپنا غصہ ضبط کرلے اللہ تعالی اسے تمام مخلوق کے ساتھ بلاکر اختیار دے گا کہ جس حور کو چاہے پسند کرلے۔
(تفسیر ابن کثیرج1ص458)
اللہ تعالی ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے اور بات سمجھنے کی توفیق عطافرمائے۔آمین یارب العٰلمین۔ <