قسطنطنیہ کی فتح

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
قسطنطنیہ کی فتح
…………ابن ساقی
شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی اپنے سفر نامے کی روداد پر مبنی کتاب” جہانِ دیدہ“ میں لکھتے ہیں:سلطان محمد فاتح رحمہ اللہ کا شمارتاریخ اسلام کے اولو العزم مجاہدین اور نامور فاتحین میں ہوتا ہے۔یہ مدبر حکمران خلافت عثمانیہ کا خلیفہ تھا۔مسند خلافت سنبھالتے ہی سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ پر حملے کی تیاریاں شروع کردیں۔ قسطنطنیہ اس زمانے میں بازنطینیوں کا سب سے مضبوط شہر تھا اور ناقال تسخیر سمجھا جاتا تھا۔ فاتح سے پہلے بھی کئی حکمران قسطنطنیہ فتح کرنے کی کوشش کرچکے تھے، مگر انہیں ناکامی ہوئی۔ قسطنطنیہ درہ باسفورس، بحیرہ مرمرہ اور گولڈن ہارن نامی سمندر میں گھرا ہوا تھا صرف اس کے مشرقی جانب خشکی تھی۔اس لیے اس پر کامیاب حملوں کے لیے ایک طاقتور بحری بیڑہ ناگزیر تھا۔
سلطان فاتح نے 140 کشتیوں پر مشتمل ایک بحری بیڑہ تیار کیا، نیز قسطنطنیہ کی مضبوط دیواروں کو توڑنے کے لیے پیتل کی ایک ایسی توپ تیا رکی جس کے برابر اس وقت روئے زمین کوئی اور توپ نہ تھی۔ اس توپ سے ڈھائی فٹ قطر کا وزنی گولہ ایک میل دور پھینکا جا سکتا تھا۔ان تیاریوں کے بعد سلطان نے قسطنطنیہ کے مشرقی خشکی والے جانب سے شہر کا محاصرہ کرلیا مگر قسطنطنیہ کی جنوبی دیوار اوربندر گاہ کا محاصرہ کرنا بھی ضروری تھا۔قسطنطنیہ کا محل وقوع کچھ ایسا تھا کہ یہاں کی بندرگاہ تک پہنچنے کے لیے گولڈن ہارن نامی سمندر سے گزرنا پڑتا تھا، لیکن اہل قسطنطنیہ نے اس سمندر کے راستے پر لوہے کی ایک ایسی زنجیر باندھ رکھی تھی کہ کوئی جہاز گولڈن ہارن میں داخل نہ ہو سکتا تھا۔ سلطان فاتح کی خواہش و کوشش یہی تھی کہ کسی طرح اس کے کچھ جہاز آبنائے باسفورس کے گولڈن ہارن میں داخل ہو جائیں، تاکہ شہر پر بندرگاہ کے راستے سے بھی حملہ کیا جاسکے، مگر ایسا ممکن نہیں تھا۔اہل قسطنطنیہ نے گولڈن ہارن کے دہانے پر آہنی زنجیریں باندھ رکھی تھیں اور ان کے حفاظت ومدافعت کے لیے ان کے بحری جہاز اور توپیں بھی وہاں موجود تھیں۔
سلطان فاتح نے اس صورت حال پر غور وفکر کرکے ایک ایسا فیصلہ کیا ، جو دنیا کی عسکری تاریخ کا سب سے منفرد، یادگار اور زندہ جاوید فیصلہ بن گیا۔ تدبیر یہ تھی کہ بحری جہازوں کو دس میل خشکی پر چلا کر گولڈن ہارن تک پہنچایا جائے۔یہ دس میل سخت ناہموار اور دشوار گزار راستوں پر مشتمل تھا، مگر سلطان کی عالی ہمتی دیکھیں کہ اس نے یہ عجوبہ صرف ایک رات میں کر دکھایا۔ اس نے خشکی کے راستے پر لکڑی کے تختے بچھوائے، ان کو چکنا اور ملائم کرنے کے لیے ان پر چربی ملوائی اور پھر 70 جہازوں کو باسفورس سے یکے بعد دیگرے ان تختوں پر چڑھادیا۔ ہر کشتی میں دو ملاح تھے۔ ہوا کی مدد لینے بادبان کھول دیے گیے۔ان جہاز نما کشتیوں کو رات کے اندھیرے میں بیل اور آدمی تختوں پر کھینچتے رہے اور بالآخر صبح سے پہلے یہ تمام جہازنماکشتیاں چربی کے تختوں پر سفر کرتے گولڈن ہارن کے بالائی علاقے تک پہنچ گئیں۔
دشمن کو خبر ہی نہیں ہوئی کہ سلطان فاتح راتوں رات اپنی 70 کشتیاں اور بھاری توپ خانہ لے کر گولڈن ہارن اتار چکا ہے۔پھر سلطان نے قسطنطنیہ کی بندرگا ہ محاصرہ کرکے ایک فیصلہ کن جنگ لڑی، جس میں بالآخر قسطنطنیہ فتح ہوا، سلطان فاتح کا خشکی پر جہاز چلانا اتنا حیرت انگیز ہے کہ مغربی مورخ بھی حیران ہوتے ہیں۔ نامور تاریخ دان ”ایڈورڈگبن“ نے تو اس واقعہ کو معجزہ قرار دیا ہے۔الغرض یہ مسلمانوں کی شاندار تاریخ کی جھلک دکھاتا ہے، جب کبھی ہم دریاؤں میں گھوڑے دوڑادیتے تھے تو کبھی خشکیوں پر جہاز چلا دیتے تھے۔