قربانی کا جذبہ

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
قربانی کا جذبہ
…………مولانا محمد کلیم اللہ
میری قوم دکھوں کی ماری ہوئی ہے، آئے دن کے الم ناک واقعات ،جان لیوا سانحے اور حادثات نے اس کے ہونٹوں سے مسکراہٹوں کو چھین لیا ہے، کمر توڑ مہنگائی، اشیاء ضروریہ کی ارزانی،آئے روز حد سے تجاوز کرتی لوٹ کھسوٹ نے جینے کا لطف چھین لیا ہے۔بلکہ اب یوں کہنے دیجیے کہ صبح وشام کی قتل و غارت گری دہشت گردی اور بربریت نے اس سے مرنے کا ڈھنگ بھی چھین لیا ہے، وطن عزیز کا ہر شہری خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگا ہے تسلسل کے ساتھ کتنے واقعات ایسے رونما ہورہے ہیں صبح کو ہنستے مسکراتے گھر سے خواتین نوجوان بچے بوڑھے نکلتے ہیں سر ِشام اسی گھر میں ان کے سر کٹے ، مسلہ کیے ہوئے لاشے پہنچتے ہیں صبح کو جو گھر خوشیوں کا گہوارہ تھا شام کو ماتم کدے کی شکل میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ وطن عزیز کو اندرونی سازشیں بیرونی قوتیں بالخصوص مغربی استعمار کے کچل کر رکھ دیا ہے سیاست اور مذہب دونوں کے نام پر ہونے والی فرقہ واریت نے اس وطن کے تمام شہروں کا سکون نابود کردیا ہے وہاں نیک دل محب وطن حکمرانوں کی بھی نیندیں اڑادی ہیں۔
محرم الحرام کے مبارک ایام میں ہونے والے خونیں حوادثات نے وطن عزیز کے استحکام کو دولخت کر کے رکھ دیا ہے ،ہر آنکھ پر نم اور ہر دل پر غم ہے، ماؤں بہنوں کی سرد آہیں ،ان کی سسکیاں، مظلوموں اور بے کسوں کی فریادوں نے عرش عُلیٰ کو ہلادیا ہے۔ ہمیں اس پر دکھ ہےاوربے حد دکھ ہے۔ یہ سچ ہے کہ آج ہم اس مبارک عمل کی حقیقت سے دور ہوتے جا رہے ہیں جس کو چھوڑ دینے سے ذلت مسلط کردی جاتی ہے۔ ہماری اخلاقی حالت بھی قابل رحم ہے ، ہمارے معاملات بھی غیر شرعی ہوتے جارہے ہیں ، ہماری خوشیوں اور غموں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ نہیں دِکھتا۔عبادات میں ہماری صورتحال انتہائی پتلی ہے۔ ان سب کے باوجود ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ ہم مسلمان ہیں، ہم حسینی مزاج بھی رکھتے ہیں، اہل بیت کرام اور اصحاب پیغمبر کے نقوش تابندہ سے ہماری تاریخ جگمگا رہی ہے۔ ہم مصائب میں واویلا اور ہائے ہائے کرنے کی بجائے کربلا کے شہداء کے وارث بنتے ہوئے رجوع الی اللہ کرتے ہیں،کشت و خون کی وادیوں میں کتاب اللہ کی تلاوت سے زبانوں کو تر رکھتے ہیں ، اپنے دلوں کو ثبات بخشتے ہیں اور جب مصائب کے پہار ٹوٹ پڑیں تو ہم صبر واستقلال اور جرات و عزیمت کا نمونہ بن جاتے ہیں ہم اپنے بڑوں کی تعلیمات کو اپناتے ہیں ،ان کی ہدایات کی ناقدری کرکےانہیں فراموش نہیں کرتے۔
میرے وطن کی زرخیز مٹی سے ابھی بھی ایسے کو نپلیں پروان چڑھ رہی ہیں جو یہ کہتی ہیں اور سچ کہتی ہیں کہ ایسے حالات میں ہمیں اپنے اکابر کے حکم پر کان دھرنے چاہییں اگر ان کا حکم ہو کہ صبر کرو تو اپنے جذبات کی قربانی دے دیں اور اگر ان کا حکم عزیمت کو اختیار کرنے کا ہو تو پھر ہم اپنی جان کی قربانی دے دیں۔ ہمیں اپنے سفر کی طرف گامزن رہنا ہے ہم نےمل کر اس وطن کو امن اور سکون کا گہوارہ بنانا ہے ہم نے اس کی سلامتی اور اس کے بقا کے استحکام کے لیے دور تک جانا ہے۔
ہم حکومت وقت سے اس بات کا پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ہر مسالک اور مذاہب کے لوگوں کو اس بات کا پابند کرے کہ وہ اپنی عبادات کو اپنی عبادت گاہوں میں ادا کریں۔ ظالموں اور قاتلوں کو جلد قوم کے سامنے لا کر قرار واقعی سزا دے کر عوام کو سچا اور کھرا انصاف مہیا کریں۔مقتولین کے ورثاء سے اظہار ہمدردی کریں اور آئندہ کے لیے امن و امان قائم کرنے کے لیے مضبوط لائحہ عمل تیار کریں کہ ملک میں قتل وغارت گری اور ہر طرح کی دہشت گردی ختم ہوسکے۔