انوکھی تدبیر

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
انوکھی تدبیر
…………حافظ محسن شریف، شیخوپورہ
وہ بازار میں لوگوں کو اپنی جھوٹی کہانیاں سنا کر جمع کرتا جب کافی لوگ جمع ہوجاتے تو وہ سرِعام داماد نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نعوذ باللہ یہودی کہتا۔ یہ ایک دبلا پتلا متعصب قسم کا آدمی تھا جو حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے خصوصی بغض رکھتا تھا۔ لوگ اس کواس ذلیل حرکت سے منع کرتے لیکن وہ روز شرارت سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو یہودی کہتا۔ لوگ اس کوقبیلہ کا سردارہونے کی وجہ سے بزور طاقت روک نہ سکے۔ کوفہ شہر کے سب لوگ اس کی بری حرکت سے تنگ تھے۔ وہ اس کو بھر پور انداز سے سمجھانے کی کوشش کرتے لیکن وہ کسی کی بات پہ کان نہ دھرتا اور زیادہ شدت سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو بُرا بھلا کہتا گویا کہ وہ اس اپنا مذہبی فریضہ گردانتا ہو۔
اس کی حرکت سے تنگ آکر بالآخر شہر کے معزز لوگوں نے ایک میٹنگ کا انعقاد کیا۔ رات کے وقت سب لوگ اس میٹنگ میں مدعو تھے۔ میٹنگ کا مقصد اس متعصب سردار کو اس کی حرکت سے باز رکھنے کا لائحہ عمل طے کرنا تھا۔
ساتھیو !میں تو کہتا ہوں مارمار کر اس کا بھرکس نکال دیا جائے۔صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین ہمارے ایمان کا حصہ ہیں۔ ہم صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی مزید گستاخیاں برداشت نہیں کرسکتے، کونے سے ایک نکلتے ہوئے قد والا نوجوان بولا۔ ہاں! یہ بالکل ٹھیک کہتا ہے ہمیں ایسا ہی کرنا چاہیے۔ اگر صحابہ کی عظمت کی خاطر ہمیں مل کر اس سردار کے قبیلے سے جنگ بھی کر نا پڑی تو ہم تیار ہیں۔ اس سردار کوہم سبق سکھا کے رہیں گے۔ سب بیک آواز ہو کر بولے اور نوجوان کی بات کی تائید کرنے لگے۔
لیکن میرے دوستو! اس مسئلے کو خون خرابہ کےبغیر حل کرنا چاہیے۔ ہو سکتا ہے وہ سردار دوبارہ سمجھانے سے سمجھ جائے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو بُرا بھلا کہنے سے باز آجائے۔یہ آواز ایک جہاندیدہ بوڑھے کی تھی۔ سب لوگ اس بوڑھے کی بات کی طرف متوجہ ہوئے ، لیکن یہ بھی تو دیکھیں نا، اس کو کتنی بار سمجھایا ہے لیکن مجال ہے اس کے کان پہ جوں تک رینگی ہو۔ یہ مسئلہ تو سختی سےہی حل ہوتا نظر آتا ہے۔ ایک درمیانی عمر کے شخص نے کہا تو سارے اس کی بات کی تائید کرنے لگے۔
میرے دوستو ! اس سردار کو ایک موقع اور دینا چاہیے ہمارے شہر میں ایک بہت بڑے عالم ہیں ، ہم ا ن سے ساری بات عرض کرتے ہیں ، مجھے امید ہے کہ وہ اس متعصب سردار سمجھانے کےلیے کوئی انوکھی تدبیر ضرور نکال لیں گے۔ بوڑھے نے معنیٰ خیز نظروں سے سب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
اوہ!ہاں اس بات کی طرف تو ہمارا ذہن گیا ہی نہیں، ضرور اس عالم سے یہ بات کہنی بات چاہیے ان شاء اللہ خون خرابے کے بغیر سردار کا مسئلہ حل ہوجائےگا۔ حاضرین مجلس میں سے ایک شخص نے یہ بات کہی تو سب نے اس کی تائید کی۔
اگلے دن وہ سب ایک وفد کی صورت میں ایک معمولی سے مکان کے باہر کھڑے تھے۔ ایک آدمی نے آگے بڑھ کر دستک دی۔ دستک کی آواز سنتے ہی ایک نورانی چہرے والے عالم باہر تشریف لائے۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ: باہر آتےہی عالم نے وفد سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا۔ وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ : وفد نے جواب دیا۔ جی خیریت؟ آپ لوگ سارے اکھٹے ہوکر آئے ہیں؟ عالم نے حیرت اور تجسس سے وفد سے سوال کیا۔
جی ہاں! اے مسلمانوں کے امام ہم سب خیریت سے ہیں ، آپ سے ایک کام ہے اس کام کے سلسلے میں آپ کی خدمت میں حاضرہوئے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ آپ ہمارا مسئلہ حل کر دیں گے۔ پھر وفد نے سردار کی ساری بات بتادی۔
ان دنوں سردار اپنی ایک بیٹی کےلیے رشتہ ڈھونڈ رہا تھا۔ وہ عالم وفد کی ساری بات سن کر متعصب سردار کے گھر تشریف لےگئے۔ سردار آپ کو دیکھ کر بہت خوش ہوا اور اپنے گھر لے گیا اور آنے کی وجہ پوچھی۔ عالم : میں آپ کی بیٹی کے لیے ایک رشتہ لے کر آیا ہوں، لڑکا نہایت شریف ، صاحبِ حیثیت، حافظِ قرآن، نہایت سخی اور عبادت گزار ہے اور خوفِ خدا خوب رکھتا ہے، صوم وصلوٰۃ کا پابند ہے اور بڑا باحیا ہے۔ یہ کہہ کر وہ عالم خاموش ہوگئے۔
سردار : حضرت آپ نے لڑکے کے انتے اوصاف گنوا دئیے بخدا یہ تو بہت اعلیٰ اوصاف والا ہے۔ اگر اس سے تھوڑا کم ہوتا ہمیں تب بھی منظور تھا۔ جلدی کیجئے ہمیں اس لڑکے سے ملوائیے ہمیں یہ رشتہ منظور ہے۔
عالم: لیکن۔۔۔ ۔۔۔
لیکن کیا؟ سردار جھٹ سے بولا۔
لیکن وہ لڑکا مذہباً یہودی ہے ، عالم نے آہستگی سے جواب دیا۔ کیا کیا؟
یہ سنتے ہی سردار ایک دم اُچھلا اورشدت سے رشتہ کا انکار کرتے ہوئے کہنے لگا نہیں چاہیے ہمیں ایسا رشتہ۔ کیا آپ ایک یہودی سے میری بیٹی کا نکاح کروانا چاہتے ہیں؟بخدا میں کبھی بھی ایسا نہیں کروں گا۔ سردار نے ایک ہی سانس میں کئی باتیں کہہ ڈالیں۔
عالم نے جب دیکھا کہ میری تدبیر سے اب وہ اس نکتہ پر آگیا جس پہ وہ لانا چاہتے تھے۔ تو بڑے پیار سے فرمایا جب تمہیں اپنی بیٹی کےلیے ایک یہودی کا رشتہ نامنظور ہے تو حبیب کبریا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جان سے زیادہ عزیز پیاری بیٹیوں کےلیے ایک یہود ی کا انتخاب کیسے کر سکتے ہیں؟
اب اس سردار کا ماتھا ٹھنکا ، وہ اپنے کےلیے نہایت پشیماں ہوا اور توبہ و استغفار کرنےلگا، معذرت کرتے ہوئے کہنے لگا ، اے مسلمانوں کے امام! آ پ نے بڑے اچھے انداز میں مجھے یہ نکتہ سمجھا دیا۔ اب میں ہمیشہ کےلیے اس سے باز رہوں گا اور آ پ سے وعدہ کرتا ہوں آئندہ کبھی حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو بُرا بھلا نہیں کہوں گا۔
اس طرح اس عالم کی انوکھی تدبیر سے ایک متعصب سردار حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو توہین کرنے سے ہمیشہ ہمیشہ کےلیے تائب ہو گیا ، جس کو سارے لوگ مل کر بھی منع نہ کر سکتے تھےاور یہ مسئلہ بغیر کسی خون خرابے ، لڑائی جھگڑے کےحل ہو گیا۔
آپ جانتی ہیں وہ عالم کون تھے؟ ہم آپ کو بتائے دیتے ہیں وہ عالم اپنے دور کے بہت بڑے فقہیہ ، بہت بڑے محدث ، بہت بڑے متقی اور پرہیز گار ، خدا رسیدہ انسان سیدنا امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمہ اللہ تھے۔
آپ کی پیدائش میں صحیح قول کے مطابق 80 ہجری میں پیدا ہوئے ، جلیل القدر صحابہ کرام کے براہ راست شاگرد بنے ، اس لیے آپ کو تابعی کہا جاتا ہے۔ آپ بڑے عقل وفہم والے تھے۔ اللہ تعالیٰ نےان سےدین کی تدوین کام لیا ، فقہ اسلامی کو سب سے پہلے مرتب کیا اور آج بھی ان کے پیروکاروں کی تعداد دیگر اماموں کے مقابلے میں 70گنا زیادہ ہے۔ بڑے بڑے نامور فقہاء علماء اور محدثین ان کے شاگرد ہیں۔ امام صاحب کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا تھا اور وہ ہر پیچیدہ پیچیدہ مسئلہ کو اپنی خداداد فقاہت اور صلاحیت سے فوراً حل کر دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ امام صاحب رحمہ اللہ کی قبر پر کروڑ بار رحمتیں نازل فرمائے۔ (آمین)