بوڑھی اماں جی

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
بوڑھی اماں جی !!!
…………اُنَیسہ جاوید ، کشمور
تہذیب بیٹا:جی اماں!
بیٹا !یہ میری دواؤں کی پرچی ہے بھائی باہر جارہے ہیں تو دے دینا اس کو کل سے کھانسی نے جینا عذاب کر کے رکھا ہے ،اوپر سے بہو نے بھی یہ کہا ہے کہ رات کو منا بے چین ہوتا ہے آپ کی کھانسی کی آواز سن کر۔
اماں آپ خود کیوں نہیں دیتیں بھائی کو اپنے دواؤں کی پرچی؟ مجھے بڑا غصہ آتا ہے جب وہ اپنی ہزار مجبوریاں سناتے ہیں بیگم کو خوش کرنے کے لیے۔بھابھی الگ سے باز کی طرح ان کے گرد چکر کاٹتی ہیں جیسے ہم کوئی بھیک مانگ رہے ہیں بھائی سے۔ آپ کا حق ہے اماں !بیٹا ہے وہ آپ کا، آپ بنا ڈرے خود کہیں انہیں۔۔۔
بیٹا !بھائی اگر تمہیں کچھ کڑوا کہے گا تو تم ذرا دیر کو دکھی ہوگی غصہ کر کے دل ہلکا کر لو گی۔ لیکن بیٹا!اس نے مجھے کچھ کہا تو نہ جانے وہ الفاظ کہاں جا کے لگیں کتنی گہرائی میں اتریں اور ڈرتی ہوں بیٹا! میرے لعل پہ عرش والے کو طیش نہ آجائے ، میرا دل کب چاہے گا کے میرا بیٹا اس کی دربار میں شرمندہ ہو اور گناہ گار ٹھہرایا جائے ؟
نہ بیٹانہ !وہ مجبور ہے دَور ہی ایسا ہے،بیوی بچوں کی ذمےداری ،گھر انے کی تعلیم۔ کیا کچھ نہیں کرنا پڑتا میرے چاند کو؟۔ مجھے شرم آتی ہے جب میں اپنی دوائیوں کا بوجھ اس پر ڈالتی ہوں۔ پَر مجبور ہوں کیا کروں؟اب تو ویسے بھی جانے کا وقت قریب ہے اگر گھر والوں کے آرام میں خلل کا ڈر نہ ہوتا تو میں اپنی بیماری کو اپنے بیٹے پر ظاہر ہی نہ کرتی۔
اماں پلیز! ایسی باتیں تو نہ کریں !خدا کے لئے !آپ سدا سلامت رہیے !آپ ہی سے تو برکت ہے ان نادانوں کے گھر میں۔میں نے لاڈ اور ڈر سے اماں کی گود میں سر رکھ دیا۔
ماں آہ ماں! اس عمر میں آکے اتنی کمزور لاچار اور مجبور ہوجائے گی کبھی سوچا بھی نہ تھا۔میں سوچنے لگی کہ والدین اولاد کے لیے نہ وقت دیکھتے ہیں نہ موسم۔ نہ پیسہ نہ مجبوری اور جب وہ برائے نام خود کو بڑا سمجھنے لگتے ہیں تو یہی والدین ان سے بات کرنے سے کتراتے ہیں کتنی بدنصیب ہے یہ اولاد۔ جنت کے ہوتے ہوئے بھی محروم اور ماں کو آج بھی یہ ڈر ہے کہ کہیں اوپر والا نہ طیش میں آجائے۔
بھائی بھائی!رکیں کام ہے مجھے آپ سے۔ہاشم بھائی نے پیچھے مڑ کر جلدی میں کہا کہ بولو!بھابی صاحبہ کے کان بھی اس طرف مڑ گئے کہ کہیں ہم بھائی سے سونے کا پہاڑ نہ مانگ لیں۔بھائی یہ اماں کی دواؤں کی پرچی ہے واپسی میں لیتے ہوے آئیے گا۔ بھائی کے چہرے پہ کئی رنگ آئے اور گذر گئے۔
تہذیب! ابھی پچھلے مہینے ہی تو یہ دوائیاں لایا تھا میں، اوپر سے اتنی مہنگی ہیں، پورا بجٹ ہی آوٹ ہوجاتا ہے۔اماں کو بولو کسی سرکاری اسپتال میں دکھائیں جا کر۔ ان پرائیوٹ اسپتال والوں کا تو دماغ خراب ہے معمولی کھانسی پر اتنے خرچے۔ مجھے اور خرچے کیا کم ہیں؟ تمہاری بھابھی کی بہن کی شادی ہے اسی مہینے۔ روشان کی سالگرہ آ رہی ہے گٹار کی فرمائش کر رہا ہے، اور میری ساس عمرے سے لوٹ رہی ہیں ،دنیا داری بھی نبھانی ہے ،دینا دِلانا ہے کہاں سے پورا کروں آخر؟ابھی کچھ دن رہنے دو اتنی ضروری بھی نہیں ہیں یہ دوائیاں۔ تھوڑی بچت ہوئی تو لے آؤں گا۔بھائی اپنے اہم خرچوں کا رونا رو کر چلے گئے۔بھابھی دبے ہونٹوں میں مسکرا کر کام میں لگ گیئں۔
دروازے کے پیچھے سے ماں کی ایک دبی ہوئی سسکی سنائی دی اور عرش ہل گیا نہ جانے یہ سسکی اپنے لعل کی پریشانیوں کی تھی یا اپنے لاچار اور بے بس ہونے کی؟