سود اور سودی نظام
……… عمرفاروق راشد
پائے رفتن نہ جائے ماندن۔ امت مسلمہ اس وقت جن بحرانوں کا شکار ہے، ان میں نظام سرمایہ داری کا شکنجہ سر فہرست ہے۔ اہل اسلام کا بچہ بچہ سودی قرض میں جکڑا جا چکا۔ سودی بینکوں نے ایسا جال بچھایا کہ کسی اسلامی ریاست کے پنپنے کی گنجائش باقی نہیں رہی۔ امیر ’’امیر تر‘‘ اور غریب ’’غریب تر‘‘ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے اس وقت دنیا کی آدھی دولت پر صرف 85افراد کا قبضہ ہے۔ ایک طرف غریب عوام سے نچوڑے گئے سرمائے سے فلک بوس عمارتیں ، افسروں کی شاہ خرچیاں اور ساہوکاروں کی دکان چمک رہی ہے تو دوسری جانب انہی عوام کا فراہم کردہ سرمایہ ان کے خلاف استعمال ہو رہا ہے۔ سودی بینک عوام کو 8 فیصد سود دیتے، جبکہ خود 12 فیصد رکھتے ہیں دکان دار سود کو لاگت میں شمار کر کے عوام سے وصول کرتے ہیں پھر مہنگائی کا بے قابو جن ان سے وہ آٹھ فیصد بھی چھین لیتا ہےیوں ایک مفلوج معاشرہ وجو د میں آتا ہے ایک ایسا سماج تشکیل پاتا ہے جس کی حالت جاں بلب مریض جیسی ہوتی ہے ساہوکار اور بڑے بڑے سرمایہ دار ہر لمحہ عوام کو موت کے قریب کر رہے ہیں۔
تصویر کے دوسرے رخ میں ہم مسلمان ہیں۔ ہم اسلام کے مثالی ، شفاف اور انتہائی منصفانہ نظام معیشت سے منہ پھیرے ہوئے ہیں۔ اس وقت پوری دنیا کی 90فیصد تجارت سودی بینکاری پر مبنی ہے۔ پاکستان کے تقریبا 99فیصد تاجر سود میں مبتلا ہیں۔ اسلامی]غیر سودی ] بینکوں کی طرف رجحان نہ ہونے کے برابر ہے۔ سود کے معاشی اور اخروی نقصانات سے افسوس ناک حد تک ناواقفیت ہے۔ گزشتہ دنوں اس کا ایک بدترین مظاہرہ دیکھا گیا۔ وزیر اعظم نے بزنس یوتھ لون اسکیم کا اعلان کیا تو ابتدائی پیشکش میں ہی درخواستوں اور فارموں کا تانتا بندھ گیا۔ سمیڈا کی ویب سائٹ سے 56لاکھ97ہزارافراد نے اسکیم کے بارے میں معلومات ڈاؤن لوڈ کیں جبکہ سمیڈا کے ٹیلیفون سنٹر میں6 ہزار 115افراد نے فون کرکے معلومات حاصل کیں۔ علاوہ ازیں درخواستیں جمع کروانے والے اور سودی اسکیم کا شرمناک استعمال کرنے والوں کی ایک ہوش ربا تعداد اس کے علاوہ ہے۔ سمجھنے کی بات یہ ہے ان میں سے سودی قرضہ کس کو ملتا ہے اور کس کو نہیں؟ مگر کیا یہ سب لوگ کسی نہ کسی درجے میں سودی معاملے کا حصہ نہیں بن گئے تھے؟
سودی معاملہ کس قدر بھیانک اور ایک مسلمان کی شان سے کتنا بعید تر ہے۔ ذیل کی آیات و احادیث پر ایک نظر ڈالیے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سود کھانے والے پر، سود کھلانے والے پر، سودی معاملات کا حساب کتاب کرنے والے پر اور سودی معاملے میں گواہی دینے پر لعنت فرمائی۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ گناہ اور وبال میں یہ سب برابر کے شریک ہے۔
(صحیح مسلم)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس رات مجھے معراج ہوئی، میرا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جن کے پیٹ ایسے تھے جیسے اژدھوں سے بھر پور گھر اور اژدھے پیٹوں سے باہر دکھائی دیتے تھے۔ میں نے کہا: یہ کون لوگ ہیں؟ جبریل علیہ السلام نے جواب دیا:یہ سود خور ہیں۔
(احمد، ابن ماجہ)
سود کی مذمت بیان کرتی ایک ایسی آیت جسے سن کر کسی بھی درد مند پر لرزہ طاری ہو جائے۔ فرمایا گیا: مسلمانو! اگر تم ایمان رکھتے ہو تو اللہ سے ڈرو اور جو سود لوگوں کے ذمے باقی ہے، اسے چھوڑ دو اور اگر ایسا نہیں کرو گے تو اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ لڑنے کے لیے تیار ہو جاؤ۔ (سورۃ البقرۃ)ایمان کی کمزوری نے کیا دن دِکھائے ہیں کہ اللہ پاک کی باتوں پر سے بالکل ہی یقین اٹھ گیا۔ شیطان کی باتوں پر ایسا ایمان لے آئے کہ سو فیصد نقصان دیکھ کر بھی اس سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ اللہ تعالی نے فرمایا: ’’اللہ سود کو گھٹاتا اور خیرات کو بڑھاتا ہے۔‘‘(سورۃ البقرۃ)یہ بات اٹل ہے کہ سود کی الائش جہاں بھی ہو گی یقیناً نقصان کا باعث ہوگی۔
جیک ویٹا کر ایک معروف بزنس مین تھا۔ اس نے 31کروڑ ڈالر کی لاٹری جیت لی۔ یہ سود تھا، سوگھٹنا شروع ہوگیا۔ زندگی سے سکون ختم ہوا، بیوی نے طلاق لے لی۔ بے شمار مقدموں میں مطلوب ہوا۔ بالآخر 2007ء میں وہ دنیا سے چل بسا۔ موت کے بعد اس کی بیوی نے کہا: کاش! میں اس ٹکٹ کو پہلے دن ہی پھاڑ ڈالتی۔
ایک اور سود زدے کا احوال جانیے۔ لیوک پیٹرڈ ، ویلز کا رہائشی تھا۔ اس نے قومی بانڈ اسکیم میں13لاکھ پاؤنڈ جیت لیے۔ فضول خرچی کی لت پڑ گئی۔ اپنی ہر خواہش پوری کرنے کے لیے اس نے کوئی کسر اٹھانہ رکھی۔ سود کی رقم جہاں سے آئی تھی، وہیں پہنچ گئی۔ پھر وقت آیا کہ لیوک پیٹرڈ کو ایک میکڈونلڈ کے ٹیبل صاف کر کے پیٹ کی آگ بجھانا پڑی۔
کیا یہ ساری صورت حال آج کے مسلمانوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی نہیں؟اس سے بھی بڑھ کر افسوسناک بات یہ ہے کہ آج کے تاجر نے اللہ کے ساتھ اس اعلان جنگ کو ہلکا سمجھ لیا۔ چند فیصد نفع یا نقصان دیکھ کر ڈھیر ہو جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں عروس البلاد کراچی کی ایک بڑی تاجر ایسوسی ایشن کے صدر یہ گلہ کرتے نظر آئے کہ غیرسودی بینکوں کی طرف ہمارے رجحان نہ کرنے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمیں ان کے منافع کے تناسب پر تحفظات ہیں۔ گویا انہیں سود گوارا ہے، سودے میں کمی قابل قبول نہیں۔
اس وقت علما پر بڑی ذمہ داری یہ عائد ہوتی ہے کہ سود اور اس کی تباہیوں سے عوام الناس کو آگاہ کریں۔ شعور و آگہی کی کمی نے سود کے عذاب کی گھٹا ہم پر طویل کر دی ہے۔ اگر علما اپنے اس منصبی فریضے کو پورا کریں تو یقیناً اہل اسلام اس بڑے بحران سے نجات پا جائیں۔ دوسری جانب خود تاجر برادری ذرا ہٹ کر سوچنے کی کوشش کرے۔ وہ ایک بزنس مین نہیں، ایک مسلمان تاجر کی حیثیت میں سوچنے کی کوشش کرے۔ کیا آپ کو اپنے چند فیصد نفع کے مقابلے میں اللہ سے جنگ سستی لگتی ہے؟ العیاذ باللہ۔ علمائے کرام اور تاجر برادری ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر نکلیں۔ سود، سودی بینکاروں اور عالمی ساہوکاروں کا تعاقب کریں۔ غیرسودی بینکاری کو اختیار کریں۔ اسے فروغ دے کر اسلام کے معاشی نظام کی برکات سے لطف اندوز ہوں۔