محرم الحرام کا مہینہ
)شرعی حیثیت، احکامات ، سوگ کا حکم، شادی کا حکم(
……مفتی محمد راشد ڈَسکوی ﷾
نئے ہجری سال کی ابتداء:
’’زمانہ ‘‘مدینہ منورہ کے طرف ہجرتِ نبوی ﷺسے لے کر اب تک ایک صدی اور چار سو پینتیس سال کا سفر طے کر چکا ہے، چودہ سو چھتیسواں سال شروع ہو چکا ہے، محرم الحرام اسلامی تقویم ہجری کاپہلا مہینہ ہے ،کتنے ہی پڑھے لکھے ،دیندار لوگ ایسے ہیں، جنہیں اسلامی تقویم کا علم ہی نہیں، ان سے اسلامی مہینوں کے نام معلوم کر لیں وہ آپ کو نہیں سنا سکیں گے، ان سے روزانہ کی اسلامی تاریخ معلوم کی جائے تو وہ نہیں بتلا پائیں گے، جب کہ اس کے برخلاف شمسی تقویم، اس کے مہینوں کے نام اور تاریخ ہرکسی کومعلوم ہوتی ہے۔ کسی بھی دن کسی سے بھی پوچھ لیں کہ آج کیا تاریخ ہے تو فورا بتا دیں گے، جب جب شمسی سال کے پہلے مہینے جنوری کی ابتدا ہوتی ہے تو’’نیوائیرنائٹ ‘‘پر وہ خوشیاں بھی مناتے ہیں، خوب ہلّہ گلّہ کرتے ہیں، گویا اس طریقے سے وہ نئے سال کاآغاز کرتے ہیں؛ اس مقام پر ہم نے غور وفکر یہ کرنا ہے کہ ’’نیو ائیر‘‘کی اس طرز پر ابتدا ہم نے کہاں سے لی؟ ! ہمارے لیے تو ’’نیو ’’نیوائیر‘‘ کی ابتداء محرم الحرام کے بابرکت مہینہ سے شروع ہوتی ہے، اور چونکہ ہم مسلمان زندگی گزارنے کے طور طریقوں کے معاملے میں مستقل ایک کامل تہذیب کا مالک ہیں اس لیے ہمیں اپنی زندگی کی راہ ورسم میں کسی کے سامنے ہاتھ پھیلا کر بھکاری پن اختیار کرنا مسلمان کی مسلمانیت کے خلاف ہی ہمیں کسی کے در پر جھکنے کی ضرورت ہی کیا ہے ہم تو خود ساری دنیاکوتہذیب وشائستگی کے آداب وطریقے سکھانے والے ہیں۔
نئے مہینے کے استقبال کا اسلامی طریقہ:
تو ’’نئے سال ‘‘کی ابتداء ہو یا ’’نئے مہینے ‘‘کی، شریعت میں جب بھی یہ (’’نئے سال ‘‘ یا ’’نئے مہینے ‘‘کا) لفظ بولا جائے گا اس سے مراد اسلامی مہینہ ہی ہوگا نہ کہ شمسی مہینہ، چنانچہ اس مہینے کی ابتداء کا مسنون طریقہ شریعت کی طرف سے صرف یہ سامنے آتا ہے کہ مہینے کے اختتام پر نئے مہینے کے چاندکو دیکھنے کا اہتمام کیا جائے، یہ عمل مسنون ہے، اور جب چاند نظر آجائے تو نیاچاند دیکھنے کی دعا بھی پڑھی جائے، یہ بھی مسنون ہے، اس مسنون طریقے کے ہی اپنانے میں اور دعاؤں کا اہتمام کرنے میں برکت، حفاظت اورثواب ہے، ہمیں فضول قسم کی رسومات اور خرافات سے بچتے ہوئے اسی کااہتمام کرکے سچے مسلمان اور محب النبی ﷺ ہونے کاثبوت دیناچاہئے؛ امام ابن السنی نے مہینہ کی ابتداء کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت وعادت شریفہ کایوں ذکرفرمایاہے”
:إن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان إذا رأی الھلال قال:’’اللھم اجعلہ ھلال یمنٍ و برکۃٍ‘‘
(عمل الیوم واللیلۃ لابن السني، ص:۵۹۶، رقم الحدیث: ۶۴۱(
ترجمہ: حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب پہلی رات کے چاند کو دیکھتے تو یوں دعا مانگتے: اے اللہ! ہمارے لیے اس چاند کوخیرو برکت والا بنادے۔
ہمیں بھی مہینے کی ابتدا ء اُسی طرح کرنی چاہیے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ تھا؛ تاکہ برکتیں اور رحمتیں حاصل ہوں؛ چہ جائیکہ! ہم رسوم و بدعات اور نوحہ خوانی سے ابتداء کریں۔
اسلامی کیلنڈر استعمال کرنے کی اہمیت:
دوسری بات یہ کہ ہمیں چاہیے ہم اسلامی تقویم ہجری کے استعمال کی عادت ڈالیں، اپنے روز مرہ کے استعمال میں اس تقویم کو سامنے رکھیں، اگرچہ! دوسری تقویمات ، تاریخوں اورکلینڈروں کااستعمال گناہ نہیں ہے، شرعاً اس کے اختیار کرنے میں بھی ممانعت نہیں ہے، لیکن شمسی تقویم کا ایسا استعمال کہ ہم اسلامی تقویم کو بالکلیہ بھلا ہی بیٹھیں، یہ کسی طرح درست نہیں ، اس لیے کہ اسلامی تقویم ہجری کی حفاظت بھی مسلمانوں کافرض ہے اوراس کے استعمال میں ثواب ہے، جس سے محروم نہیں ہوناچاہیے، نیز! اپنی شناخت اور اپنے امتیاز کو باقی رکھنابھی ایک غیرت مند مسلمان کے لئے بڑی اہمیت رکھتاہے۔
اس معاملے میں اس کی بہترشکل یہ ہے ہم قمری تاریخ کے استعمال کوترجیحی بنیادوں پر دوسری تقویم کے مقابلے میں استعمال کریں، خدا نخواستہ اگر سب مسلمان اسلامی تقویم ہجری کو چھوڑ بیٹھیں اور بھلا دیں تو سب کے سب اللہ کے مجرم ٹھہریں گے، اس لیے کہ اسلام کی بہت ساری عبادات کا تعلق وربط اسی تقویم کے ساتھ ہے،
حکیم الأمت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ رقمطرازہیں:
’’۔۔۔ البتہ چونکہ احکام شرعیہ کامدار حسابِ قمری پرہے،اس لیے اس کی حفاظت ’’فرض علی الکفایہ‘‘ ہے، پس اگرساری امت دوسری اصطلاح کواپنا معمول بنالیوے، جس سے حسابِ قمری ضائع ہوجاوے؛ (تو)سب گنہگار ہوں گے اوراگر وہ محفوظ رہے تودوسرے حساب کااستعمال بھی مباح ہے؛ لیکن خلافِ سنتِ سلف ضرور ہے اورحسابِ قمری کابرتنا بوجہ اُس کے فرض کفایہ ہونے کے لابُدَّ افضل واحسن ہے ‘‘
(بیان القرآن،سورۃ التوبۃ:۳۶، ۳/۱۳۱، مکتبہ رحمانیہ، لاہور(
اسلامی سال کے اس پہلے مہینے کی اللہ کے ہاں بڑی قدر ہے، یہ عظمت والے مہینوں میں سے ہے، تاریخی روایات کے مطابق اس مہینے میں بہت سے عظیم الشان واقعات پیش آئے،احکامات کے اعتبار سے صحیح اور مستند احادیث سے جو امور سامنے آتے ہیں وہ صرف دو ہیں:
ماہِ محرم الحرام میں پہلا حکم :
اس ماہِ مبارک میں مطلقاً کسی بھی دن روزہ رکھنا رمضان کے بعد سب سے افضل روزہ شمار ہوتا ہے، نیز!نو اور دس محرم یا دس اور گیارہ محرم کا روزہ رکھنا اور بھی زیادہ فضیلت کی چیز ہے، چنانچہ صحیح مسلم کی حدیث میں واردہے
افضل الصّیام بعد رمضان، شہر اللہ المحرم، وافضل الصّلاۃ بعد الفریضۃ صلوۃ اللیل.
(صحیح مسلم،کتاب الصوم، باب فضل صوم المحرم، رقم الحدیث: ۲۰۲ (
ترجمہ: رمضان کے روزوں کے بعد سب سے افضل اللہ کے مہینہ محرم کے روزے ہیں ،اور فرض نماز کے بعد سب سے افضل رات کی نماز(تہجد)ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
حین صام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوم عاشوراء، وأمر بصیامہ، قالوا: یا رسول اللہ! إنہ یوم تُعظِّمہ الیہود والنصاری؟ فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : ’’فإذا کان العام المقبل إن شاء اللہ صُمنا الیوم التاسع، قال: فلم یأت العام المقبل، حتی توفی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ “
(صحیح مسلم، کتاب الصیام، باب: أيّ یوم یصام في عاشوراء؟ (
ترجمہ: جب حضرت رسول اللہ ﷺ نے عاشوراء کے دن خود روزہ رکھا، اورحضرات صحابہ کوروزہ رکھنے کاحکم فرمایا؛ تواِس پرحضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا، کہ اے اللہ کے رسول ! اس دن کی تویہود ونصاری بھی تعظیم کرتے ہیں؟ (غالباً یہ عرض کرنا مقصود ہو گا کہ روزہ رکھ کر تو ہم نے بھی اس دن کی تعظیم کی ، گویا ہم ایک عمل میں ان کی مشابہت اختیار کرنے لگے )، تواِس پرآ پ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’اگر اللہ نے چاہا تو اگلے سال ہم نویں تاریخ کوبھی روزہ رکھیں گے‘‘۔ (اس طرح سے مشابہت کاشبہ باقی نہیں رہے گا)حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما فرماتے ہیں: کہ اگلاسال آنے سے پہلے ہی آ پ ﷺ کا وصال ہوگیا۔
فقہی مسئلہ:
اسی وجہ سے فقہاء کرام فرماتے ہیں : صرف عاشوراء کا روزہ نہ رکھا جائے، بلکہ اس کے ساتھ ۹ یا ۱۱ محرم کاروزہ بھی ملا لیا جائے؛ تاکہ یہود کے ساتھ مشابہت سے بچ سکیں، اس نبوی تعلیم سے یہ بات سمجھ لینا چنداں مشکل نہیں کہ کسی کارِخیر میں بھی یہود سے مشابہت یا موافقت کو حضرت رسول اللہ ﷺنے پسند نہیں فرمایا؛ چہ جائیکہ ! دوسری عادات یا معاملات میں ان سے مشابہت کوقبول کرلیاجائے !
صحیح مسلم کی ہی ایک اور روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ قریش بھی زمانہ جاہلیت میں عاشورا کا روزہ رکھتے تھے:
’’عن عائشۃ رضي اللہ عنہا قالت: کانت قریش تصوم عاشوراء في الجاہلیۃ، وکان رسول اللہ ﷺ یصومہ، فلما ھاجر إلی المدینۃ صامہ وأمر بصیامہ، فلما فرض شھر رمضان، قال: من شاء صامہ، ومن شاء ترکہ۔‘‘
(صحیح مسلم، کتاب الصیام، باب صوم عاشوراء، رقم الحدیث:۱۱۲۵(
ترجمہ: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں قریش روزہ رکھتے تھے اور جناب رسول اللہ ﷺ بھی روزہ رکھتے تھے، جب آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی، تو وہاں بھی عاشوراء کاروزہ رکھا اورحضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوبھی روزہ رکھنے کاحکم فرمایا، پھر جب ماہِ رمضان میں روزہ رکھنے کی فرضیت کاحکم آیا، توآپ ﷺنے لوگوں کو اختیار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’جوچاہے عاشوراء کاروزہ رکھے، جوچاہے نہ رکھے۔‘‘
حدیث مبارک سے معلوم ہواکہ ہجرت سے قبل بھی حضورﷺکی اپنی عادت شریفہ روزہ رکھنے کی تھی اورہجرت کے بعد دوسروں کوبھی تاکید فرمائی تھی۔
ماہِ محرم الحرام میں دوسراحکم :
عاشورا کے دن اپنے اہل وعیال پر کھانے پینے یا کسی بھی اعتبار سے وسعت کرنا،اس کی خاص فضیلت واردہے؛ چنانچہ حضرت ابن مسعود،حضرت ابوسعید الخدری،حضرت ابوہریرہ اورحضرت جابر رضی اللہ عنہم سے منقول ہے کہ جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’من وسَّع علی عیالہ في یوم عاشوراء، وسع اللہ علیہ السنۃ کلہا۔‘‘
( شعب الإیمان للبیہقي، کتاب الصیام، صوم التاسع والعاشر: ۳/۳۶۵(
ترجمہ: جوشخص عاشوراء کے دن اپنے گھروالوں پرخرچ کرنے میں وسعت ،فراخی کرے گا، اللہ تعالی ساراسال اس پر(رزق) میں وسعت فرمائے گا۔
اگرچہ اس حدیث کی اسنادی حیثیت پرکلام ہے؛ مگرمحدثین کی تصریحات کے مطابق ایسی روایات جو مختلف طرق سے مروی ہوں ، ان کی مختلف اسناد کی وجہ سے ان میں قوت پیداہوجاتی ہے؛ اس لیے اس کو فضائل میں بیان کرنے پر کوئی بڑا اشکال باقی نہیں رہتا۔
امام بیہقی رحمہ اللہ اس مضمون کی روایات ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں۔
’’ھذہ الأسانید وإن کانت ضعیفۃ، فہي إذا ضم بعضہا إلی بعض، اخذت قوۃ. واللہ اعلم‘‘
(شعب الإیمان للبیہقي، کتاب الصیام، ۳/۳۶۵(
”اگرچہ ان روایات کی سندوں میں ضعف ہے، لیکن ان میں مجموعی طور پر اتنی بات ضرور پائی جاتی ہے کہ ان اسانید کو ملا لیا جائے تو قوّت کی شکل بن جاتی ہے۔ ‘‘
علامہ سخاوی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب’’ المقاصد الحسنۃ‘‘ میں اسی بات کو اختیار کیا ہے۔
(في بیان کثیر من الأحادیث المشتہرۃ علی الألسنۃ، رقم الحدیث: ۱۱۹۱، ص: ۴۹۴(
ماہِ محرم سے متعلق دو موضوع احادیث
ایک مخصوص طبقہ فکر کی طرف سے اس ماہِ مبارک میں کچھ موضوع اور من گھڑت روایات بھی علی الاعلان بیان کی جاتیں ہیں اور ان کا خوب چرچا کیا جاتا ہے، حالانکہ احادیث نبویہ ﷺ میں اس بات کا ذکر موجود ہے کہ جناب نبی اکرم ﷺ کی طرف کسی ایسی بات کی نسبت کرنا جو آپ ﷺ نے بیان نہیں فرمائی، بہت بڑا جرم ہے، ایسے شخص کے لیے جہنم کی وعید ہے، جیسا کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’من کذب عليّ متعمدًا فلیتبوء مقعدہ من النار۔‘‘
(المقاصد الحسنۃ في بیان کثیر من الاحادیث المشتہرۃ علی الألسنۃرقم الحدیث:۳، ۱/۱۰ (
ترجمہ: ’’جس نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ بولا، تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔‘‘
اس لیے اس ’’جرم‘‘کے ارتکاب سے باز رہنابہت ضروری ہے، ان من گھڑت روایات میں سے ایک یہ ہے:
’’ ما من عبد یبکي یوم قتل الحسین، إلا کان یوم القیامۃ مع أولی العزم من الرسل۔‘‘
(عمل الیوم واللیلۃ لابن السني، ص: ۵۹۶، رقم الحدیث: ۶۴۱(
ترجمہ: ’’جو شخص بھی شہادت حسین کے دن (ان کے غم میں )روئے گا، قیامت کے دن وہ اولو العزم رسولوں کے ساتھ ہو گا۔‘‘
اورایک دوسری روایت یہ ہے۔
من صام تسعۃ أیام من أول المحرم بنی اللہ لہ قبۃ في الھواء میلا في میل لھا أربعۃ أبواب.‘‘
(عمل الیوم واللیلۃ لابن السني، ص: ۵۹۶، رقم الحدیث: ۶۴۱ (
ترجمہ: ’’جس نے پہلی محرم سے نو دن کے روزے رکھے،اللہ اس کے لیے ہوا میں ایک خیمہ بنائیں گے، جو ایک میل چوڑا اور ایک میل لمبا ہوگااور اس کے چار دروازے ہوں گے۔‘‘
واضح رہے کہ ان جیسی بے بنیاد اور جھوٹی روایات کو بیان کرنا یا ان پر یقین کرنا کسی صورت میں جائز نہیں ہے اس لیے ان اور ان جیسی بہت سی روا یات اور افسانوی باتیں جو محرم الحرام کے آتے ہی عام کی جاتی ہیں کہ جن کی کوئی فنی شہادت اور ثبوت نہیں ہوتا ان سے پورے اہتمام سے نہ صرف بچا جائے بلکہ ان کے بیان کرنے والے کے اس بیان کو رد کرنے کی بھی از حد ضرورت ہے۔
محرم الحرام میں سوگ کرنے کا حکم:
ایک اور چیز جس کا رواج عام طور پر بہت زیادہ ہو چکا ہے کہ یہ مہینہ غم کا مہینہ ہے، اس مہینے میں خوشی نہیں منانی چاہیے، کیوں؟! اس لیے کہ اس مہینے میں نواسۂ رسول حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے خاندان کے چھوٹوں اور بڑوں کو ظالمانہ طور پر نہایت بیدردی سے شہید کر دیا گیا، ان کے ساتھ اظہار ہمدردی کے لیے غم منانا، سوگ کرنا اور ہر خوشی والے کام سے گریز کرنا ضروری ہے، سوچنا تو یہ ہے کہ ہمیں اس بارے میں شریعت کی طرف سے کیا راہنمائی ملتی ہے؟؟!!
اس بارے میں سب سے پہلے علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ کا ایک قول ملاحظہ کرتے ہیں: ’’ہر مسلمان کے لیے مناسب یہ ہے کہ اس کو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ غمگین کر دے، اس لیے کہ وہ مسلمانوں کے سردار اور اہلِ علم صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے تھے، آپ جناب رسول اللہ ﷺ کی سب سے افضل لختِ جگر کے بیٹے، یعنی: آپ ﷺ کی نواسے تھے، آپ عبادت کرنے والے، بڑے بہادر اور بہت زیادہ سخی تھے، لیکن آپ کی شہادت پر روافض جس انداز سے رنج وغم کا اظہار کرتے ہیں، وہ کسی صورت میں مناسب نہیں ہے، بلکہ ان کی یہ حرکات بناوٹی اور ریاکاری سے تعلق رکھتی ہیں، آپ کے والد(حضرت علی کرم اللہ وجہہ) آپ سے زیادہ افضل تھے، اُن کو چالیس ہجری، سترہ رمضان، جمعہ کے دن ، جب کہ وہ اپنے گھر سے نمازِ فجر کے لیے تشریف لے جا رہے تھے، شہید کر دیا، لیکن روافض ان کے قتل کے دن کو اس طرح ماتم نہیں کرتے جس طرح حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے دن ماتم کرتے ہیں۔
اسی طرح حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اہلِ السنت والجماعت کے نزدیک حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے افضل ہیں، جنہیں 46 ہجری عید الاضحیٰ کے دن انہی کے گھر میں شہید کر دیا گیا، لیکن روافض ان کے قتل کے دن کو بھی اس طرح ماتم نہیں کرتے، جس طرح حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے دن ماتم کرتے ہیں۔
اسی طرح حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ان دونوں حضرات (حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہما) سے افضل ہیں، جن کو مسجد کے محراب میں نماز کی حالت میں جب کہ وہ قراء ت کر رہے تھے، شہید کر دیا گیا، لیک روافض ان کے قتل کے دن کو اس طرح ماتم نہیں کرتے جس طرح حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے دن ماتم کرتے ہیں۔ اسی طرح حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ ان تینوں حضرات سے افضل تھے، لیکن روافض ان کی وفات کے دن اس طرح ماتم نہیں کرتے، جس طرح حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے دن ماتم کرتے ہیں۔
اور جناب نبی اکرم ﷺ جو دنیا وآخرت میں بنی آدم کے سردار ہیں ، ان کی وفات کے دن بھی یہ روافض اس طرح ماتم نہیں کرتے، جس طرح یہ…… رافضی حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے دن کرتے ہیں۔‘‘
(البدایۃ والنھایۃ، سنۃ إحدی وستین، في الإخبار بمقتل الحسین بن علي رضي اللہ عنہ (
اس قول کو ملاحظہ کرنے سے ڈھونگ کوسمجھنا آسان ہو جاتا ہے، اس کے بعد سمجھنا چاہیے کہ ’’شہادت ‘‘کا مرتبہ خوشی کا ہے یا غم اور سوگ کا ؟؟!!تعلیماتِ نبویہ ﷺ سے تو یہ سبق ملتا ہے کہ شہادت کا حصول تو بے انتہاء سعادت کی بات ہے۔
حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کا شوق شہادت:
یہی وجہ تھی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ مستقل حصولِ شہادت کی دعا مانگا کرتے تھے۔
(صحیح البخاری، کتاب فضائل مدینہ،رقم الحدیث: ۱۸۹۰، ۳/۲۳، دارطوق النجاۃ(
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا شوق شہادت:
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ جنہیں بارگاہِ رسالت سے سیف اللہ کا خطاب ملا تھا، وہ ساری زندگی شہادت کے حصول کی تڑپ لیے ہوئے قتال فی سبیل اللہ میں مصروف رہے، لیکن اللہ کی شان انہیں شہادت نہ مل سکی، تو جب ان کی وفات کا وقت آیا تو پھوٹ پھوٹ کے رو پڑے کہ میں آج بستر پر پڑا ہوا اونٹ کے مرنے کی طرح اپنی موت کا منتظر ہوں۔
(البدایہ والنھایہ، سنۃ احدی وعشرین، ذکر من توفی احدی وعشرین: ۷/۱۱۴ (
جناب رسول اللہ ﷺ کا شوق شہادت:
شہادت تو ایسی عظیم سعادت اور دولت ہے، جس کی تمنا خود جناب رسول اللہ ﷺنے اپنے لیے کی اور امت کو بھی اس کی ترغیب دی، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے جس میں حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’میں چاہتا ہوں کہ میں اللہ کے راستے میں جہاد کروں، پھر شہید کر دیا جاؤں، (پھر مجھے زندہ کر دیا جائے) پھر میں اللہ کے راستے میں جہاد کروں اور شہید کر دیا جاؤں،(پھر مجھے زندہ کر دیا جائے) پھر میں اللہ کے راستے میں جہاد کروں اورپھر شہید کر دیا جاؤں۔‘‘
(صحیح مسلم، کتاب الامارۃ، رقم الحدیث: ۴۹۶۷(
الغرض یہاں تو صرف یہ دکھلانا مقصود ہے کہ شہادت تو ایسی نعمت کا جس کے حصول کی شدت سے تمنا کی جاتی تھی، یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس پر افسوس اور غم منایا جائے، اگر اس عمل تو صحیح تسلیم کر لیا جائے توپھر ہمیں بتلایا جائے کہ پورے سال کا ایسا کون سا دن ہے جس میں کسی نہ کسی صحابئ رسول کی شہادت نہ ہوئی ہو، کتب تاریخ اور سیر کو دیکھ لیا جائے، ہر دن میں کسی نہ کسی کی شہادت مل جائے گی، جس کا مقتضی یہ ہے کہ اس دن کو اظہارِ غم اور افسوس بنایا جائے۔
نیز! اس بات کو بھی دیکھا جائے کہ جناب رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ طیبہ میں بھی تو کئی عظیم اور نبی ﷺ کی محبوب شخصیات کو شہادت ملی، لیکن کیا ہمارے پیارے نبی ﷺ نے بھی ان کی شہادت کے دن کو بطور یادگار کے منایا؟؟!! نہیں؛ بالکل نہیں، تو پھر کیا ہم اپنے نبی ﷺ سے زیادہ غم محسوس کرنے والے ہیں؟؟!!
خدا را ہم اپنے اعمال کا جائزہ لیں اور اس قسم کی شیطانی اور گمراہ کن رسومات واعمات سے بچانے کی مکمل کوشش کریں۔
شرعاًسوگ کرنے کا حکم:
شرعاً سوگ کرنے کی صرف چند صورتیں ہیں اور وہ بھی عورتوں کے لیے:
1)
مطلقہ بائنہ کے لیے صرف زمانہ عدت میں
2)
جس عورت کا شوہر فوت ہو جائے، اس کے لیے صرف زمانہ عدت میں
3)
کسی قریبی رشتے دار کی وفات پر صرف تین دن۔
اس کے علاوہ کسی بھی موقعہ پر عورت کے لیے سوگ کرنا جائز نہیں ہے ، اور سوگ کا مطلب یا طریقہ یہ ہے کہ وہ اس عرصہ میں زیب وزینت اور بناؤ سنگھار نہ کرے، زینت کی کسی بھی سورت کو اختیار نہ کرے، مثلا: خوشبو لگانا، سرمہ لگانا، مہندی لگانا اور رنگ برنگے خوشنما کپڑے وغیرہ پہننا، اس کے علاوہ کوئی صورت اپنانا مثلا: اظہارِ غم کے لیے سیاہ لباس پہننا یا بلند آواز سے آہ وبکا اور سیاہ لباس وغیرہ پہنناجائز نہیں۔نیز! مرد وں کے لیے تو کسی صورت میں سوگ کی اجازت نہیں ہے تو پھر محرم کے شروع ہوتے ہی سوگ کے نام پر عملی طور پر یرغمال بنا لینا کیا معنی رکھتا ہے ؟
محرم الحرام میں شادی کرنے کا حکم:
اوپر ذکر کی گئی تفصیل کے مطابق اس ماہِ مبارک میں سوگ کرنا بالکلیہ بے اصل اور دین کے نام پر دین میں زیادتی ہے، جس کا ترک لازم ہے، لہٰذا جب سوگ جائز نہیں ہے تو پھر شرعاً اس مہینے میں میں شادی کرنے کی کوئی ممانعت نہیں ہے، بلکہ عجیب بات تو یہ ہے کہ امیر المؤمنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا سے شادی اسی ماہِ مبارک میں ہوئی۔
(تاریخ مدینۃ الدمشق لابن عساکر، باب ذکر بنیہ وبناتہ علیہ الصلاۃ والسلام وأزواجہ(
اس مہینے میں شادی نہ ہونے کا مطلب یہ بنتا ہے کہ اس مہینے میں نحوست ہے جب کہ شرعاً یہ بات بالکل بے اصل اور بے بنیاد ہے، بلکہ یہ عقیدہ یا ذہن رکھنا ہی گناہ ہے، اللہ تعالیٰ کی جانب سے کسی دن یا زمانے میں کسی قسم کی نحوست نہیں رکھی گئی۔
اکابرین مفتیانِ عظام کے فتاویٰ میں اس کی تصریحات موجود ہیں، ذیل میں فتاوی رحیمیہ سے اسی مسئلے کا جواب نقل کیا جاتا ہے:
الجواب: ماہ محرم کو ماتم اور سوگ کا مہینہ قرار دینا جائز نہیں، حدیث میں ہے کہ عورتوں کو ان کے خویش واقارب کی وفات پر تین دن ماتم اور سوگ کرنے کی اجازت ہے اور اپنے شوہر کی وفات پر چار ماہ دس دن سوگ منانا ضروری ہے، دوسرا کسی کی وفات پر تین دن سے زائد سوگ منانا جائز نہیں ، حرام ہے، آنحضرت ﷺ کا فرمان ہے:
’’لا یحل لامرأۃ تؤمن باللہ والیوم الآخر إن تحد علی میت فوق ثلٰث لیال إلا علٰی زوج أربعۃ أشھر وعشراً۔‘‘
ترجمہ: ’’جو عورت خدا اور قیامت کے دن پر ایمان رکھے، اس کے لیے جائز نہیں کہ کسی کی موت پر تین رات سے زیادہ سوگ کرے، مگر شوہر اس سے مستثنیٰ ہے کہ اس کی وفات پر چار ماہ دس دن سوگ کرے۔‘‘
(صحیح بخاري، باب: تحد المتوفی عنھا أربعۃ أشھر وعشراً إلخ(
ماہ مبارک محرم میں شادی وغیرہ کرنا نامبارک اور ناجائز سمجھنا سخت گناہ اور اہل سنت کے عقیدے کے خلاف ہے، اسلام نے جن چیزوں کو حلال اور جائز قرار دیا گیا ہو، اعتقادا ی اعملا ان کو ناجائز اور حرام سمجھنے میں ایمان کا خطرہ ہے، مسلمانوں کو چاہیے کہ روافض سے پوری احتیاط برتیں، ان کی رسومات سے علیحدہ رہیں، ان میں شرکت حرام ہے۔’’مالابد منہ‘‘ میں ہے: ’’مسلم تر اتشبہ بہ کفار وفساق حرام۔ ‘‘
یعنی: مسلمانوں کو کفار وفساق کی مشابہت اختیار کرنی حرام ہے۔
(ص: ۱۳۱(