جماعۃ الدعوۃ کی دستخطی مہم یا دعوتی مہم
قافلہ حق ، جنوری، فروری، مارچ 2007ء
جن دنوں میں حکومت پاکستان نے تحفظ خواتین بل کے نام سے اسمبلی سے ایک قانون پاس کیا ،تو اس حکومتی غیر شرعی قانون کے خلاف اسمبلی کے اندر اور باہر شدید قسم کا احتجاج کیا گیا اور یہ احتجاج کرنا عوام کا آئینی حق ہے۔
یہ احتجاج اجتماعی طور پر بھی ہو ا اور انفرادی طور پر بھی۔ ہر وہ انسان جس کے دل میں اسلام کی محبت ہے اور وہ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے اسباب پر گہری نگاہ رکھتا ہے اس نے حکومت پاکستان کے اس اقدام کو مناسب نہیں سمجھا۔ اس احتجاج کے لئے مستقل طور پر کئی فورم بنائے گئے جن میں پاکستان کی مذہبی قیادت کا بنایا ہو ا تحفظ حدود اللہ کے نام سے فور م بڑا نمایاں ہے۔
جہاں پاکستان کی بہت بڑی خوش قسمتی ہے کہ یہاں منبر ومحراب آزاد ہیں اور یہ ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا دنیا کا واحد ملک ہے، وہیں ابھی تک اس ملک میں ایک بہت بڑی بدقسمتی یہ بھی ہے کہ اس ملک میں کچھ تعداد ایسے حضرات کی بھی ہے جو ایسے اجتماعی کاموں میں اجتماعیت کو مضبوط کرنے کے بجائے ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بنا کر اجتماعیت کو نقصان پہنچانا ہی دینی خدمت سمجھتے ہیں اور ایسے لوگوں کی ان حرکات کو دیکھ کر اس بات پر یقین ہو جاتا ہے کہ یہ لوگ ہمارے خیر خواہ نہیں بلکہ کسی اور کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔ ایسے ہی حضرات میں سر فہرست نام مسلمانوں کی اجتماعی طاقت کو نقصان پہنچانے والی جماعت ’’جماعۃ الدعوۃ‘‘کا ہے۔
میرے اس دعویٰ کو جاننے کے لئے حالیہ دنوں میں تحفظ نسواں کے خلاف چلنے والی اجتماعی تحریک پر غور کریں تو بات باآسانی سمجھ آسکتی ہے۔ ہمارے ملک پاکستان میں اس وقت چار بڑے مذہبی اتحاد موجود ہیں۔
1۔ مجلس عمل جو کہ پاکستان میں مذہبی سیاسی جماعتوں کا اتحاد ہے۔
2۔ متحدہ جہاد کونسل کے نام سے جو کہ جہاد کشمیر میں شامل جماعتوں کا اتحاد ہے۔
3۔ اتحاد تنظیمات مدارس جو کہ مختلف وفاقوں کا اتحاد ہے۔
4۔ تحفظ حدود اللہ ،جو کہ حدود اللہ کے تحفظ کے لئے تحریک چلانے والی مذہبی قیادت کا اتحاد ہے۔
تحفظ نسواں بل کے نام پر پاس ہونے والے قانون کے خلاف احتجاج ہوا اور خوب ہوا۔ مگر سوال یہ ہے کہ جماعۃ الدعوۃ نے کن مقاصد کے تحت گذشتہ دنوں چاروں اتحادوں سے الگ تھلگ تحفظ خواتین کے خلاف دستخطی مہم شروع کررکھی ہے؟ اگر جماعۃ الدعوۃ اس احتجاج میں مخلص تھی تو پھر کسی بڑے اتحاد کا حصہ بن کر احتجاج کرلیتی۔جس کا بہت بڑا فائد ہ یہ ہوتا کہ دستخطی مہم میں شریک افراد کی تعداد مزید بڑھ جاتی۔ مگر پھر یہ پاکستان میں عموماًاور بیرون ملک خصوصاًکیسے یہ تاثر دیتے کہ ہماری تعداد کتنی ہے؟ اس کے لئے بہترین طریقہ وہی تھا جو اس دستخطی مہم کے نام سے مہم شروع کرکے کیا گیا۔
1۔ جس سے جماعت کا تعارف بھی ہوگیا کہ ہماری تعداد دن بدن بڑھ رہی ہے۔
2۔ بیرونی دنیا میں فارموں کے نام پر پتے اکٹھے کر کے اپنی تعداد کو زیادہ ظاہر کرنے کا موقع بھی مل گیا۔
یہ دو فائدے اگرچہ جماعۃ الدعوہ کو ذاتی اور جماعتی طور پر مل گئے ہیں مگر امت مسلمہ کو اجتماعی طور پر دو بڑے نقصان اٹھانے پڑے۔
1۔ امت مسلمہ کی اجتماعیت کو متاثر کیا اور یہی غیر مقلدین کا اصل مشن ہے جس کے لئے انگریز نے ان کو وجود بخشاہے۔
2۔ اتحاد کی صور ت میں جو احتجاج کروڑوں تک پہنچ سکتا تھا اس کو کروڑوں سے گھٹا کر ہزاروں افراد تک لایا گیا۔
قارئین ! فیصلہ آپ فرمائیں کہ کیا یہ تحفظ حدود اللہ کی خدمت ہے؟ یا غیر شعوری طریقے سے بیرونی اشارہ پراس جمہوری طرز حکومت کی تائید ہے کہ اس قانون کی مخالفت کرنے والی تعداد تو ہزاروں افراد کی ہے مگر حمایت کرنے والے یا غیر جانب دار رہنے والوں کی تعداد کروڑوں کی ہے۔
والسلام
محمد الیاس گھمن