ائمہ اربعہ اما م کعبہ کی نظر میں
قافلہ حق ، جولائی، اگست، ستمبر 2007ء
مئی 2007ء کے آخری ایام میں حرم مکی کے خطیب و امام حضرت الشیخ عبد الرحمن السدیس حفظہ اللہ تعالیٰ جامعہ اشرفیہ کی دعوت پرپاکستان تشریف لائے۔ حضرت شیخ موصو ف کو اللہ رب العزت نے جو سوز آواز ،درد دل ،دعاؤں میں آہ و فغاں ،حسن تلاوت ،علم و عمل اور حرم پاک کی نسبت عظیم سے نوازا ہے وہ بہت ہی کم بندگان خدا کو نصیب ہوتی ہے۔
باسیانِ وطن عزیز کے لئے یہ نسبت ہی کیا کم تھی کہ الشیخ موصوف مرکز تجلیات ربانی ،مولد محبوب کبریا ،اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بنائے ہوے کعبۃ اللہ مسجد حرام کے امام ہیں۔
چنانچہ وطن عزیز کے مسلمانوں نے جب سنا کہ حضرت الشیخ وطن عزیز میں تشریف لارہے ہیں تو گویا خوشی سے جھوم اٹھے۔ اپنے محبوب امام کی اقتدا میں ایک نماز ادا کرنے کی غرض سے راتوں کی نیند قربان کی اور نماز فجر میں بعد از عشاء ہی جا ئے نماز پر جوق در جوق جمع ہونا شروع ہوگئے۔ حتی کہ مقام نماز پر تل رکھنے کی جگہ بھی نہ رہی اور میلوں تک فرزندان توحید کی صفیں لگ گئیں۔
شیخ موصوف کی آمد پر ہر طبقہ نے اپنے مزاج کے مطابق محبت و چاہت کا اظہار کیا ،گلی کوچوں کو بینرز وغیرہ سے سجایا گیا۔ کوئی تو فرط محبت و جذبہ ایمان سے سرشار تھا اور کچھ وہ بھی قابل رحم لوگ تھے جو خود ساختہ فرائض نمک حلالی کی ادائیگی میں کوشاں تھے۔
امام کعبہ کی پاکستان تشریف آوری سے جہاں بے شمار اہل ایمان کو راحت قلبی اور انتہائی محبت حاصل ہوئی وہاں کئی راز سربستہ بھی آشکا را ہوئے۔ کھلی آنکھوں سے دیکھنے والوں نے دیکھ کر اور کانوں سے روئی نکال کرسننے والوں نے امام حرم کی زبانی سن کر جان لیا کہ دور حاضر کے فتنہ پر ور غیر مقلدین نے ائمہ حرمین پر جو بے وجہ کی تہمتیں تھونپی ہوئی تھیں وہ سب رافضی عقیدہ تقیہ کی کرشمہ سازیاں ہیں۔ امام حرم نے نماز ِفرض ادا کرتے ہوئے ہاتھ سینہ پر رکھنے کی بجائے نا ف پر رکھ کر اپنے حنبلی مذہب کی ترجمانی کی۔
3جون 2007ء پنجاب ہاؤ س اسلام آباد میں دیے گئے خطبہ میں ائمہ کرام کی تقلید پر جو کچھ فرمایا و ہ ہر صاحب فراست کے لئے درس عبرت ہے۔ مگر افسوس کہ ضدی اور ہٹ دھرم غیرمقلدین نے امام کعبہ کی نصحیت کو تو کیا قبول کرنا تھا الٹا دھوکے بازی اور دین کے نام پر دجل بازاری کو گرم کرتے ہوئے امام حرم پر ایسا بدترین الزام عائد کیا جس کا شیخ سدیس کے فرشتوں کو بھی علم نہ ہو گا۔ چنانچہ تقیہ بازی کے سابقہ ریکارڈ توڑتے ہوے امام حرم پر بلکہ تمام ائمہ حرمین پر یہ الزام عائد کیا کہ وہ کسی خاص مسلک یا فقہی مذہب سے تعلق نہیں رکھتے ،گویا وہ پاکستان کے غیرمقلدین کی طرح لا مذہب ہیں۔
چنانچہ جماعۃ الدعوۃ کے ترجمان ہفت روزہ اخبار غزوہ جلد نمبر 6، تاریخ 16تا 20جمادی الاولی 1428ھ آخری رنگین صفحہ پر محمد بن صالح مغل کا مضمون ’’امام کعبہ الشیخ عبد الرحمن السدیس، حالات زندگی پر ایک نظر ‘‘ کے تحت لکھا ہے:
’’دیگر ائمہ حرم کی طرح امام الشیخ عبد الرحمن السدیس کا تعلق بھی کسی خاص فرقے یا فقہی مذہب سے نہیں، نہ وہ کسی خاص امام کے مقلد ہیں۔فرقوں اور فقہی مذاہب سے بالاتر ہونے کے باعث ان کو پور ی دنیا میں غیرمتنا زع حیثیت حاصل ہے۔ ‘‘
قارئین کرام یقین جانیے دنیا میں جھو ٹ بولنے والوں کی کمی نہیں مگر ایسے جھوٹ بولنے والے کمیاب لوگ ہی ہوں گے جن کے جھوٹ کو ریت کی دیوار بھی نصیب نہ ہو سکے۔غزوہ کی یہ عبار ت سامنے رکھ کر ذرا آپ امام حرم شیخ سدیس ہی کا بیان جو انہوں نے 3جون کو پنجاب ہاؤس اسلام آباد میں کیا وہ ملاحظہ فرمائیں ،ائمہ مجتہدین کا تذکر ہ فرماتے ہوئے انہوں نے فرمایا
امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ،اما م مالک رحمۃ اللہ علیہ ،امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ ،امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ یہ تمام حضرات کتاب وسنت کا اتباع کرنے والے تھے اور تمام مسلمانوں پر ان کا ادب واحترام لازم ہے اور ان کی رہنمائی میں قرآن وسنت پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ امام کعبہ نے اپنے خطبہ میں ائمہ کرام کی توہین و تحقیر کرنے والے اوران کا تذکر ہ بے ادبی سے کرنے والوں کو جاہل ،بے وقوف اورکم عقل قرار دیتے ہوئے اپنی روش سے باز رہنے کی تلقین کی۔
امام کعبہ نے اجتہادی اختلافات کو برحق قرار دیتے ہوئے فرما یا کہ اس طرح کے اجتہادی اختلافات پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور سے چلتے آرہے ہیں مگر ایسے اجتہادی اختلافات پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی ناراضگی کا اظہا ر نہیں فرمایا۔ چنانچہ انہوں نے اس سلسلے میں حوالہ دیا کہ نبی اکر م صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ایک ہی مسئلہ کے مختلف فقہی پہلؤوں پر بیک وقت عمل کرتے تھے۔
بنوقریظہ کے ساتھ جنگ کے لئے جاتے ہوئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو حکم دیا کہ جلد ی وہاں پہنچو اور عصر کی نماز وہیں ادا کرو۔ بعض صحابہ کرام نے اس حکم کی تعمیل کرتے ہوئے تاخیر ہونے کے باوجو بنو قریظہ میں پہنچ کرنماز ادا کی جبکہ بعض نے راستہ میں قضاء ہوجانے کے خوف سے وہاں پہنچنے سے پہلے ادا کرلی۔ یہ مسئلہ بارگاہ نبوت میں پیش ہوا تو آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو بھی کچھ نہ فرمایا بلکہ دونوں کی تصویب فرمائی اور فرمایا کہ مجتہدبھی جب اجتہاد کرتا ہے اگر اس کا اجتہاد درست ہو تو اللہ تعالیٰ اسے دو اجر اور اگر خدانخواستہ درست نہ ہو تو ایک اجر ضرور عطا فرماتے ہیں۔وہ ہر حال میں ماجو ر ہے کسی طور پر بھی مطعون نہیں۔
ائمہ مجتہدین نے مسائل میں قرآن و سنت کی روشنی میں اجتہا د کیا اور پور ی امت مسلمہ ہر دور میں ائمہ اربعہ کی تقلید میں قرآن و سنت پر عمل پیر ا رہی ہے اور آج بھی عمل کر رہی ہے لہذا ائمہ کرام کی گستاخی اور بے ادبی سے اجتناب ضروری ہے او ر ان کی بے ادبی ہلا کت ،تباہی اور بربادی دنیوی و اخروی خسران کا موجب ہے۔ امام کعبہ نے مشہور مورخ ابن عساکر کا قول پیش کر کے اشارہ کیا کہ ائمہ مجتہدین کی گستاخی کرنے والا سوء خاتمہ کا شکا ر ہوجاتا ہے۔
قارئین کرام! اب ذرا غیر مقلد محسنوں کے اورامام حرم کے خطبہ کو سامنے رکھ کر غور فرمائیں کہ جو اس قدر دیدہ دلیری سے عوام الناس کودھوکہ و فریب میں مبتلا کرتےہوں، ان پر کہاں تک اعتماد کیا جا سکتاہے۔غیر مقلدین کا ائمہ حرمین کو لامذہب قرار دینا بدترین جھوٹ ہے۔ سچ یہ ہے کہ سعود ی عرب کا سرکا ری مذہب حنبلی ہےاور ائمہ حرمین فروعات میں امام احمد بن حنبل کی تقلید کرتے ہیں۔
آج تک کسی امام حرم نے ائمہ اربعہ کی تقلید کرنے کو نہ توحرام قرار دیا اور نہ ان میں سے کسی کی تقلید کو ترک کرنے کا حکم دیا۔ جبکہ غیر مقلدین ائمہ اربعہ میں سے کسی کی تقلید کرنے کو شرک قرار دیتے ہیں جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ائمہ حرمین چونکہ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے مقلد ہیں لہذا وہ مشر ک ہیں۔
یہ موقع پرست غیر مقلدین عارضی منافع حاصل کرنے کے لئے اپنے آپ کو سعودیہ میں حنبلی اور سلفی کہتے ہیں اور وطن عزیز میں دن رات سلف کو بر ا بھلا اور ان کے مقلدین کو مشرک کہتے ہیں۔ جس کی وجہ سے عوام کا بہت بڑا طبقہ گمراہی کی دلدل میں پھنس چکا ہے۔ اللہ تعالی سب کو اس فتنے سے محفوظ فرمائیں۔
آمین یا رب العلمین
والسلام
محمد الیاس گھمن