">سوئے حرم
قافلہ حق، اکتوبر، نومبر، دسمبر 2011ء
خالقِ کائنات نے انسا ن پر جو عبادات لاز م فرمائی ہیں ان میں سے ’’حج ‘‘ ایک پر لطف عبادت ہے۔ یہا ں عا بد اپنے معبود کے اس گھر کی طرف رخت ِسفر باندھتا ہے جس کے لئے خود محبوب خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے رخت سفر باندھا ہے۔ جیسے محب اپنے محبوب کے اشارے پر دیوانہ وار احکام کی بجا آوری کیلئے اپنے آرا م وسکو ن کو قر بان کر دیتا ہے یہی حال اس بیت اللہ کے زا ئر کا ہو تا ہے۔
دو چادریں پہن کر محبوب کی رضا کے حصول کیلئے بیت اللہ کی طرف رواں دواں ہو تا ہے، اپنے محبوب خا لق ومالک کا نام لینا اس کا مشغلہ بن جاتا ہے ،عاشقا نہ انداز میں’’ لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدا ئیں بلند کرتا ہے، اٹھتے بیٹھتے نشیب وفراز غرض ہر مقام پر اس تلبیہ کی صدا ئیں لگا کر اپنے عشق ومحبت کا اظہار کر تا ہے، مسجد حرا م میں پہنچ کر جب نگاہ کعبۃ اللہ کی عمارت پر ڈا لتا ہے تو بے اختیار آ نکھو ں سے آنسو چھلک پڑتے ہیں،تلبیہ ختم کرکے نگاہ اسی مرکزِ تجلیات پر مرکوز کر لیتا ہے ،تلاش محبوب میں دیارِ محبوب کے چکر پر چکر لگا نا اس کا کا م بن جا تا ہے۔
کبھی حجر اسود کو بوسہ دے رہا ہو تا ہے تو کبھی صفا مرویٰ کے در میا ن حکمِ محبوب سے سعی کرتا دکھائی دیتا ہے۔ مزدلفہ ومنیٰ میں ارکا ن کی ادا ئیگی میں مشغول رہتا ہے۔ سر کشی اور نا فر مانی پر ابھا رنے والے شیطان کو کنکریاں مار کر اس بات کا اظہا ر کرتا ہے کہ خا لقِ کائنات کے احکامات کی تعمیل سے رو کنے والے لعین کی سزا یہی ہے۔
ٍ میدا ن عر فات میں منا جات کا عالم وصالِ محبوب سے کچھ کم نہیں ہوتا۔ اپنی رازونیاز کی باتیں کرتا اور اپنے دلی احوال کو با ری تعا لیٰ کے سامنے پیش رکھتا ہے گو یا زبانِ حال سے کہہ رہا ہوتا ہے:
مالی سوی قرعی لبابک حیلۃ
فلان رددت فای باب اقرع
اس سفر میں مدینہ طیبہ کی زیارت کا شرف بھی حاصل ہو تا ہے، روضہ رسول علی صا حبہا الصلوۃ و السلام کی زیارت کی نیت سے سفر کر کے عشقِ رسول کا عجب اظہار ہو تا ہے۔ وہا ں پہنچ کر درود وسلام کا تحفہ پیش کر نا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خد مت میں شفا عت کی در خواست پیش کر نا اس کا محبوب ترین مشغلہ بن جاتا ہے۔اپنے محبوب رسول جنا ب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی زیا رت کر کے بموجبِ حدیث شفاعت کا مستحق بن جا تا ہے۔
رو ضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کر نے والا شخص یہ بخو بی جا ن لیتا ہے کہ چند عا قبت نا اندیش لو گ جو حیات الانبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کے عقیدے کو کفر وشرک سے تعبیر کرتے ہیں ان کے قول کی کیا وقعت ہے؟اگر انبیاء علیہم السلا م کو قبر میں حیاۃو سماع حاصل نہیں تو عرب وعجم کے مسلمان کیوں یہا ں درود وسلام کا ہدیہ پیش کرتے ہیں ؟ اگر سعودی حکومت والے بھی اسی باطل عقیدے کے قائل ہو تے کہ انبیاء علیہم السلا م کو قبر میں حیاۃو سماع حاصل نہیں تو روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ اشعار نہ جا نے کب کے ختم کر دئیے جا تے۔
یا خیر من دفنت بالقاع اعظمہ
فطاب من طیبہن القاع والاکم
نفسی الفداء لقبر انت ساکنہ
فیہ العفاف وفیہ الجود والکرم
سعودی حکو مت سے ریال در آمد کرنے والے کا ش ان سے ان کا عقیدہ بھی لے لیتے۔ سعودی حکومت والوں کا اس با رے میں جو نظریہ ہے ان کے علماء و فقہاء کی ان تصریحات سے معلوم ہو جاتا ہے:
1: امام احمد بن حنبل رحمۃاللہ علیہ:
آپ نے اپنی مشہور زمانہ کتاب مسند احمد بن حنبل میں یہ حدیث مبارک ذکر فرمائی ہے۔
عن انس قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مررت لیلۃ اسری بہ علی موسیٰ فرأیتہ قائماً یصلی فی قبرہ۔
مسند احمد بن حنبل ، رقم الحدیث12231
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا معراج کی رات میرا گزر حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ہوا، میں نے دیکھا کہ آپ علیہ السلام اپنی قبر میں کھڑے نماز پڑھ رہے ہیں۔
2: علا مہ ابن تیمیہ فرماتے ہیں:
ولکن کا ن الدا خل یسلم علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم لقولہ ما من احد یسلم علی الا رد اللہ علی رو حی حتیٰ ارد علیہ السلام، وھذا السلام مشروع لمن کان ید خل الحجرۃ
فتاویٰ ابن تیمیۃ کتا ب الزیا رۃ: ج:27:ص:145
تر جمہ: لیکن رو ضہ رسول میں دا خل ہو نے والا آپ کی ذات گرا می پر سلا م بھیجے کیو نکہ حضور علیہ ا لصلوٰۃ والسلام نے فر مایا ہے جو آ دمی مجھ پر سلا م کرے تو اللہ تعالیٰ میری رو ح کو وا پس لو ٹا تے ہیں یہا ں تک کہ میں اس کے سلا م کا جواب دیتا ہو ں اور یہ سلام کر نا اس آدمی کیلئے مشروع ہے جو حجرہ اقدس میں داخل ہو۔
3: علامہ ابن قیم الجوزیہ رقمطراز ہیں:
واذا کا ن ھذا فی الشہداء کا ن الانبیاء بذلک احق واولیٰ مع انہ ، قد صح عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم ان الارض لا تا کل اجساد الانبیاء …وقد اخبر بانہ ما من مسلم یسلم علیہ الا رد اللہ علیہ رو حہ حتیٰ یرد علیہ السلا م الی غیر ذلک
کتاب الرو ح لابن قیم، المسئلۃ الرابعہ ص:42
تر جمہ: جب یہ حیاۃ شہدا ء پا ئی جا تی ہے تو ابنیا ء علیہم السلام میں تو بدرجہ اولیٰ پا ئی جا ئے گی۔ مزید یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حد یث ثا بت ہے کہ زمین انبیاء علیہم السلام کے جسموں کو نہیں کھا تی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد بھی فرمایا ہے کہ کوئی بھی مسلما ن آپ صلی اللہ علیہ وسلم (کی قبر) پر سلام کر تا ہے تو اللہ تعا لیٰ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی روح لو ٹا دیتے ہیں اور نبی علیہ السلام اس کا جواب دیتے ہیں اس کے علا وہ بھی کئی احا دیث اس با رے میں مروی ہیں۔
4۔ شیخ عبداللہ بن محمد بن عبدالوہاب فرماتے ہیں،
والذی نعتقد ان رتبۃ نبیناصلی اللہ علیہ وسلم اعلی مراتب المخلوقین علی الاطلاق وانہ صلی اللہ علیہ وسلم حی فی قبرہ حیٰوۃ مستقرۃ ابلغ من حیٰوۃ الشھدا ء المنصوص علیھا فی التنزیل اذ ھو افضل منھم بلا ریب وانہ صلی اللہ علیہ وسلم یسمع من یسلم علیہ
اتحاف النبلا ء ، ص: 415
ترجمہ: ہمارا اعتقاد یہی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مرتبہ تمام مخلوقات سے علی الاطلاق اعلیٰ ہے اور یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر مبارک میں دائمی طور پر زندہ ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حیات شہداء کی حیات سے جو قرآن پاک میں منصوص ہے بہت بالا ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے بلا ریب افضل ہیں۔اور آپ روضہ ء اطہر میں سلام عرض کرنے والوں کے سلام کوخود سنتے ہیں۔
4: شیخ محمد بن عبد الوہاب وسیلہ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبا رک کی زیارت کر نے کے جواز کے قائل ہیں۔
عقیدۃ الشیخ محمد بن عبدالوہاب السلفیہ ، ج:1، ص:325، تاریخ وہابیت ،ص:157
لہذا حر مین کے مبا رک سفر میں جہا ں انورات بیت اللہ سمیٹ کے آ ئیں وہا ں خناس کے وساوس سے بھی ضرور بچیں۔
والسلام
محمد الیاس گھمن