دعا کی ضرورت
اللہ تعالیٰ ہی سے اپنی تمام تر حاجات اور ساری ضروریات )خواہ ان کا تعلق دنیا سے ہو یا آخرت سے (مانگنا شریعت میں ”دعا“ کہلاتا ہے۔ اللہ رب العزت ہی حاجت روا اور مشکل کشا ہیں،اللہ کے علاوہ نہ تو کوئی حاجت روا ہے اور نہ ہی مشکل کشا،صرف وہی ذات ہمیں فائدہ پہنچا سکتی ہے اور نقصان سے بچا سکتی ہے، ہم سب اس کے مملوک اور وہ ذات ہم سب کی مالک ہے،ہم سب اس کے در کےفقیر اور محتاج ہیں وہ غنی اور وھاب ذات ہے، ہم مانگنے والے اور وہ دینے والا ہے۔ الغرض ہم بندے ہیں اور وہ آقا ہے۔ اس کریم ذات کا محض اتنا کرم ہی کافی ہے کہ وہ ہم جیسے نالائق، غیر مستحق بلکہ مستحقِ سزا و عقاب لوگوں کواپنی نعمتوں سے نواز رہا ہے لیکن یہاں تک معاملہ صرف کرم کا ہے۔
کرم کی انتہاء:
کرم کی انتہاء دیکھیےجو اس سےدعا نہ مانگے وہ اس سے ناراض ہو جاتا ہے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ لَمْ يَسْأَلِ اللهَ يَغْضَبْ عَلَيْهِ۔
جامع الترمذی، باب ماجاء فی فضل الدعاء، حدیث نمبر 3295
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اللہ سے )دعا(نہیں مانگتا تو اس پر اللہ ناراض ہو جاتے ہیں۔
یہ دستورِ دنیا کے بالکل برعکس ہے کیونکہ دنیا والوں سے مانگو تو ناراض اور نہ مانگو تو خوش ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود اگر ہم اس ذات سے اپنی حاجات و ضروریات کو پورا کرنے کی دعا نہ مانگیں تو بتائیے ہم سے زیادہ بے عقل اور کون ہو گا؟اس لیے ہمیں اپنی ضروریات کے حل کےلیے دعا ءکی ضرورت کو سمجھنے کی زیادہ ضرورت ہے۔
اللہ سےمانگنے کی چند وجوہات:
چند اہم وجوہات ایسی ہیں جن کا تقاضا ہے اللہ تعالیٰ ہی سے دعا مانگنی چاہیے:
1 … رحمان و رحیم:
اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ۔
سورۃ الفاتحہ، آیت نمبر 2
ترجمہ: ) اللہ تعالیٰ (بے حد مہربان نہایت رحم کرنے والا۔
جو بے رحم ہو اس سے کچھ نہیں مانگا جاتا، رحم کرنے والے سے ہی مانگا جاتا ہے۔ اللہ کی ذات تو دنیا و آخرت میں بے حد رحم کرنے والی ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ دعا صرف اسی سے ہی مانگی جائے جو بے حد رحم کرنے والا ہے۔
2 … قدرت کاملہ:
إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 20
ترجمہ: بے شک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھنے والے ہیں۔
جس ذات سے مانگنا ہے اس کے لیے قدرت والا ہونا بھی ضروری ہے اگر اس کی قدرت ہی نہ ہو تو دعائیں کیسے قبول ہو سکتی ہیں؟ مرادیں کیسے پوری کرے گا؟ اس لیے یہ بھی ضروری ہے کہ دعا اس سے کی جائے جس کو ہر کام کی مکمل قدرت ہو اور وہ ذات سوائے اللہ رب العزت کے اور کسی کی نہیں۔
3 … قبولیت:
وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ۔
سورۃ البقرۃ، آیت 186
ترجمہ: )اے میرے پیغمبر(!جب میرے بندےآپ سے میرے بارے میں سوال کریں تو )آپ فرمادیں کہ ( میں قریب ہوں، جب کوئی دعا کرنے والا مجھ سے دعا کرتا ہے تو میں قبول کرتا ہوں۔
اللہ تعالیٰ سے مانگنے کے لیے کہیں جانا نہیں پڑتا بلکہ وہ ذات تو شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے اس کو پکاریں تو وہ ذات سنتی بھی ہے اور قبول بھی کرتی ہے۔
4 … الحی القيوم:
اَللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ
سورۃ البقرۃ، آیت 255
ترجمہ: صرف اللہ تعالیٰ ہی معبود برحق ہیں ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہنے والا ہے۔
بے جان اور کمزور کسی کو کیا دے سکتا ہے اور ایسا زندہ جس کو ہروقت مرنے کا دھڑکا لگا رہتا ہوں وہ کسی کی حاجت روائی کیسے کر سکتا ہے اس لیے دعا اس ذات سے مانگنی چاہیے ہمیشہ سےہے اور ہمیشہ کے لیے ہے، اور وہ صرف اللہ کی ذات ہے۔
5 … غنی کریم:
إِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ
سورۃ النمل، آیت نمبر 40
ترجمہ: بے شک میرا رب عنایت کرنے والا ہے اور کرم کرنے والا ہے۔
جو خود کسی کا محتاج ہو اس سے کیا مانگنا؟ مانگنا تو اس ذات سے چاہیے جو تمام خزانوں کا مالک ہو اور کسی کا محتاج نہ ہو۔ اس لیے دست دعا بھی اس کے سامنے دراز کرنا چاہیے۔ غنی کے ساتھ ساتھ اس کا کریم ہونا بھی ضروری ہےکریم کا مقابل بخیل ہوتا ہے بخیل سے کچھ نہیں مانگا جاتا اور مانگ بھی لیا جائے تو بخیل نہیں دیتا اگر دے بھی دے تو ضرورت سے کم دیتا ہے۔ کریم وہ ذات ہے جو استحقاق کے بغیر بھی نواز دے۔
6 … مُختارِ کل:
وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَيَخْتَارُ
سورۃ القصص، آیت نمبر68
ترجمہ: تیرا پروردگار جس کو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور اختیارات کا مالک ہے۔
اللہ تعالی کی ذات مُختار کل ہے۔ تمام تر اختیار ات اس کے پاس ہیں اس لیے مانگنے کے لیے اسی ذات کے سامنے ہاتھ پھیلانے چاہییں جس کے پاس تمام اختیارات ہوں اور جو خود مختار نہ ہو بلکہ کسی اور کا پابند ہو تو وہ مختار کل نہیں ہو سکتا۔ نہ تو اللہ کے علاوہ کوئی مختارِ کل ہے اور نہ ہی کسی اور سے مافوق الاسباب مانگنا جائز ہے۔
7 … الغفور الرحیم:
إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ
سورۃ الزمر، آیت نمبر 53
ترجمہ: بے شک وہی معاف کرنے والا،رحم کرنے والا ہے۔
انسان خطا کا پُتلا ہے۔ شیطان، نفس یا ماحول سے مغلوب ہو کر بالآخر گناہ کر بیٹھتا ہےسوائے انبیاء کرام علیہم السلام کے کوئی بھی انسان گناہوں سے معصوم نہیں اس لیے اس سے گناہ کا ہوجانا خلاف عقل نہیں۔ گناہ کے بعد معافی کےلیے ضروری ہے کہ یہ ایسی ذات کے سامنے ہاتھ پھیلائے جو معاف کرنے والی ہو اور وہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے۔
8 …سمیع علیم:
إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
سورۃ الحجرات، آیت نمبر1
ترجمہ: بے شک اللہ ہر کسی کی ہر بات سننے والا اور جاننے والا ہے۔
جس سے دعا مانگی جا رہی ہو وہ اس کو سن بھی سکتا ہواور جانتا بھی ہو کہ کیا مانگا جا رہا ہے؟اور جو مانگا جا رہا ہے وہ دینا بھی ہے یا نہیں؟ اس لیےایسی ذات سے دعا مانگنے کا حکم ہے جو سنتی بھی اور جانتی بھی ہے۔ سننے کے مفہوم میں بہت زیادہ وسعت ہے ہر کسی کی ہر وقت سنے اور علم کے مفہوم میں بھی بہت وسعت ہے کہ ہر کسی کی ہر زبان کی ہر بات کو جانے بلکہ اس میں بھی مزید وسعت ہے کہ وہ یہ بھی جانتا ہو کہ کسے، کس وقت، کیا اور کیسے دینا ہے؟ اور کسے، کب، کیا اور کون سی چیز نہیں دینی؟ مذکورہ بالا آیات قرآنیہ کی روشنی میں یہ بات بخوبی سمجھ میں آتی ہے کہ ہمیں دعا مانگنے کی ضرورت کیوں ہے؟ اور یہ کہ دعا کس سے مانگنی ہے؟ صرف اللہ تعالیٰ ہی سے دعا مانگنے کی کون سی وجوہات ہیں؟
ان شاء اللہ آئندہ چند اقساط میں دعا سے متعلقہ دیگر اہم امور پر بات ہوگی جس میں دعا مانگنے کا حکم،کیفیت دعا، دعا کے درجات، دعا کے اسباب، قبولیت دعا کے اوقات، جن افراد کی دعا قبول ہوتی ہے ان کی نشاندہی، مختلف مواقع پر مانگی جانے والی مسنون دعائیں، دعا میں کیا مانگ سکتے ہیں اور کیا نہیں، خود مانگنا اور دوسروں سے دعا کی درخواست کرنا، وسیلہ کے ساتھ دعا کرنا اور بغیر وسیلہ کے مانگنا، انفرادی اور اجتماعی دعا، کن مواقع پر ہاتھ اٹھا کر مانگی ہے کہاں نہیں، زبان سے اور دل سے دعا مانگنا، دعائے برکت اور دعائے مغفرت میں شریعت کی اعتدال والی تعلیم، وغیرہ۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے در کا محتاج بنائے رکھے۔
آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم
والسلام
محمد الیاس گھمن
خانقاہ حنفیہ، سکندر ٹاؤن ، پشاور
جمعرات، 11جنوری، 2018ء