شکر ادا کریں

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
شکر ادا کریں
اللہ تعالیٰ نے انسانی زندگی کو دومختلف حالات سے مر کب بنایا ہے۔ خوشی اورغمی ۔اسلام دونوں حالات سے متعلق ہماری مکمل راہنمائی کرتاہے ۔اگر خوشی،سکھ اور فراوانی کی نعمت مل جائے تو ہمارا رویَہ کیا ہونا چاہیے؟ اور اگر کبھی بطور آزمائش حالات ناموافق اور ناسازگار ہو جائیں،کسی تکلیف ، دکھ، بیماری اور تنگی کاسامناکرناپڑ جائے تو ہمیں کیاکر ناچاہیے ؟
مومن کا ہر کام خیر ہی خیر ہے:
عَنْ صُهَيْبٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: عَجَبًا لأَمْرِ الْمُؤْمِنِ إِنَّ أَمْرَهُ كُلَّهُ خَيْرٌ وَلَيْسَ ذَاكَ لأَحَدٍ إِلاَّ لِلْمُؤْمِنِ إِنْ أَصَابَتْهُ سَرَّاءُ شَكَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَهُ وَإِنْ أَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَهُ.
صحیح مسلم ،باب المؤمن امرہ کلہ خیر ،الرقم: 7610
ترجمہ: حضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مومن کاحال بھی بہت عجیب ہے اس کی ہر حالت میں بھلائی ہی بھلائی ہے، مزید یہ کہ مومن کے علاوہ یہ بات کسی اور دین کے ماننے والے کو نصیب نہیں اگر اسے سہولت،آسانی اور خوشی حاصل ہوتی ہے تواللہ کا شکر گزار بندہ بن جاتا ہے جو اس کےلیے اجر اور فراوانی ِنعمت کے لحاظ سے خیر ہی خیر ہے اور اگر کبھی ناساز گار حالات سے واسطہ پڑجائے تو امر الٰہی پرصابر برضا رہتا ہے جو اس کے لیے اجر اور معیت ِخداوندی کے لحاظ سے خیر ہی خیر ہے۔
شکر آدھا ایمان ہے :
عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:يَا أَنَسُ الْإِيمَانُ نِصْفَانِ نِصْفٌ شُكْرٌ وَنِصْفٌ صَبْرٌ۔
مسند الشھاب القضاعی، باب الایمان نصفان، الرقم: 159
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایمان دو چیزوں سے مل کر مکمل ہوتا ہے ایک شکر اور دوسرا صبر۔
جسے شکر کی توفیق مل جائے:
عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ أُعْطِيَ أَرْبَعًا أُعْطِيَ أَرْبَعًا وَتَفْسِيرُ ذَلِكَ فِي كِتَابِ اللَّهِ مَنْ أُعْطِيَ الذِّكْرَ ذَكَرَهُ اللَّهُ لِأَنَّ اللَّهَ يَقُولُ: {اذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ} وَمَنْ أُعْطِيَ الدُّعَاءَ أُعْطِيَ الْإِجَابَةَ، لِأَنَّ اللَّهَ يَقُولُ: {ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ} وَمَنْ أُعْطِيَ الشُّكْرَ أُعْطِيَ الزِّيَادَةَ، لِأَنَّ اللَّهَ يَقُولُ: {لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأُزِيدَنَّكُمْ} وَمَنْ أُعْطِيَ الِاسْتِغْفَارَ أُعْطِيَ الْمَغْفِرَةَ، لِأَنَّ اللَّهَ يَقُولُ:{اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا}
المعجم الاوسط للطبرانی ، الرقم: 7023
ترجمہ: حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص کو چار چیزوں کی توفیق نصیب ہوجائے اسے چار نعمتیں عطا کر دی جاتی ہیں۔
1: جسے ذکر اللہ کی توفیق مل جائے اسے یہ نعمت ملتی ہے کہ اللہ کی بارگاہ میں اس کا تذکرہ ہوتا ہےکیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: تم مجھے یاد کرو میں تمہارا تذکرہ کروں گا ۔
2: جسے دعا کرنے کی توفیق مل جائے تو اسے قبولیت والی نعمت مل جاتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: تم مجھ سے دعا مانگو میں اس کو تمہارے حق میں قبول کروں گا ۔
3: جسے شکر کرنے کی توفیق مل جائے اس کو فراوانی و برکت ملتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں ضرور تمہیں بڑھا کر دوں گا ۔
4: جسےاستغفار کرنے کی توفیق مل جائے اسےمغفرت مل جاتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: تم اپنے رب سے اپنے معافی مانگو بے شک وہ بہت زیادہ بخشنے والا ہے ۔
مال کا اثر نظر آنا چاہیے:
عَنْ أَبِي الأَحْوَص عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ الرَّجُلُ أَمُرُّ بِهِ فَلاَ يَقْرِينِي وَلاَ يُضَيِّفُنِي فَيَمُرُّ بِي أَفَأُجْزِيهِ قَالَ: لَا أَقْرِهٗ قَالَ: وَرَآَّنِي رَثَّ الثِّيَابِ فَقَالَ: هَلْ لَكَ مِنْ مَالٍ؟ قُلْتُ: مِنْ كُلِّ الْمَالِ قَدْ أَعْطَانِيَ اللَّهُ مِنَ الإِبِلِ وَالغَنَمِ۔ قَالَ: فَلْيُرَ عَلَيْكَ.
جامع الترمذی، باب ماجاء فی الاحسان والعفو، الرقم: 2006
ترجمہ: حضرت مالک بن نضلۃ الجشمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ایک ایسا شخص ہے جب میں اس کے پاس سے جاتا ہوں تو وہ میری ضیافت نہیں کرتا اور وہ بھی کبھی کبھار میرے ہاں آتا ہے تو کیا میں بھی اس سے اسی طرح کا سلوک کروں؟ آپ نے فرمایا نہیں۔ بلکہ تو اس کی مہمان نوازی کر۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے بدن پر پھٹے پرانے کپڑے دیکھے تو مجھ سے فرمایا:کیا تمہارے پاس مال نہیں ہے؟ میں نے عرض کی کہ اللہ نے مجھے ہر قسم کا مال اونٹ اور بکریاں عطا فرمایا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے اوپر اس مال کا اثر نظر آنا چاہیے۔
شکر ادا کرنے کا طریقہ:
عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : مَنْ لَا يَشْكُرُ النَّاسَ لَا يَشْكُرُ اللَّهَ وَمَنْ لَا يَشْكُرُ الْقَلِيلَ لَا يَشْكُرُ الْكَثِيرَ وَالتَّحَدُّثُ بِنِعْمَةِ اللهِ شُكْرٌ وَتَرْكُهَا كُفْرٌ۔
مسند بزار، الرقم: 3282
ترجمہ: حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جو شخص لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا اور اللہ کا بھی شکر ادا نہیں کرتا اور جو شخص تھوڑے مال پر شکر ادا نہیں کرتا وہ زیادہ مال پر بھی شکر ادا نہیں کرتا۔ اور اللہ کی نعمتوں کا اظہار کرنا شکر جبکہ اظہار نہ کرنا ؛ ناشکری ہے ۔
شکر کی نشانی:
عَنِ الرَّبِيعِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِهِ قَالَ: عَلامَةُ حُبِّ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: كَثْرَةُ ذِكْرِهِ فَإِنَّكَ لَنْ تُحِبَّ شَيْئًا إِلا أَكْثَرْتَ ذِكْرَهُ وَعَلامَةُ الدِّينِ: اَلإِخْلاصُ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ۔ وَعَلامَةُ الْعِلْمِ: خَشْيَةُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَعَلامَةُ الشُّكْرِ: الرِّضَا بِقَضَاءِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ۔
امالی ابن بشران ،الرقم: 1609
ترجمہ: حضرت ربیع بن انس رحمہ اللہ اپنے بعض دوستوں سے یہ بات نقل فرماتے ہیں کہ اللہ سے محبت کی علامت یہ ہے کہ انسان کثرت کے ساتھ اللہ کا ذکر کرے کیونکہ جس سے محبت زیادہ ہوتی ہے اس کا تذکرہ بھی زیادہ ہوتا ہے ۔ اور دین دار ہونے کی نشانی یہ ہے کہ انسان کی نیت خالص اللہ کےلیے ہوجاتی ہے اور عالم ہونے کی نشانی یہ ہے کہ اس میں اللہ کا خوف محبت پیدا ہو جاتا ہے اور شکر گزار بندہ ہونے کی نشانی یہ ہے کہ وہ اللہ کی تقسیم پر دل سے راضی ہو جاتا ہے ۔
شکر گزاری کی اعلیٰ ترین مثال:
عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَلَّى قَامَ حَتَّى تَفَطَّرَ رِجْلَاهُ، قَالَتْ عَائِشَةُ: يَا رَسُولَ اللهِ أَتَصْنَعُ هَذَا وَقَدْ غُفِرَ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَفَقَالَ:يَا عَائِشَةُ أَفَلَا أَكُونُ عَبْدًا شَكُورًا۔
صحیح مسلم ،باب اکثار الاعمال والاجتہاد ، الرقم: 81
ترجمہ: ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز ادا کرتے تو زیادہ دیر قیام فرمانے کی وجہ سے آپ کے پاؤں مبارک پر ورم آجاتے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے آپ سے پوچھا کہ آپ اس قدر عبادت میں مشقت کیوں کرتے ہیں حالانکہ آپ کی بخشش ہو چکی ہے ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عائشہ !تو پھر کیا میں اپنے رب کا شکر گزار بندہ نہ بنوں؟
شکر گزاری کا اجر و ثواب:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:الطَّاعِمُ الشَّاكِرُ بِمَنْزِلَةِ الصَّائِمِ الصَّابِرِ۔
جامع الترمذی، الرقم: 2486
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کھا کر شکر کرنے والا روزہ رکھ کرصبر کرنے والے کی طرح ہے۔
نعمتوں کی برسات :
کیاہم نے کبھی اس بات پرغور کیا ہے کہ ہم ہر وقت خدائی نعمتوں کے بارتلے دبے ہوئے ہیں۔ اُس نے اپنی مخلوقات میں سے ہمیں سب کاسردار انسان بنایا، انسانو ں میں سے ہمیں مسلمان بنایا،اپنے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کاامتی بنایا، ہمیں زندگی گزارنے اور آخرت سنو ارنےکےلیے کتاب ِہدایت دی۔ کتاب ِ ہدایت سمجھانے کےلیے ہمارے اندر ہادی برحق صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا،ہمیں صحابہ واہل بیت رضوان اللہ علیہم اجمعین جیسی مقدس شخصیات نصیب فرمائیں۔ کفر وشر ک سے بچاکر دولتِ اسلام عطاء فرمائی ،رسوم ورواج اور بدعات و خرافات سے ہٹا کرسنت نصیب فرمائی، عقل پر ستی اور گمراہیوں سے دور رکھنے کے لیے اولیاءاور مجتہدین نصیب فرمائے۔ کھیتی باڑی ، کاروبار زندگی اور رہائش کے لیے زمین عطا کی، خوراک کے لیے سبزیاں ،پھل فروٹ ،گوشت اورمختلف کھانے پینے کی مختلف انواع و اقسام کی بےشمار چیزیں مہیاکیں ۔جسم ڈھانپنے کے لیے اچھا اور عمدہ لباس،سفری ضروریات کے لیے سواریاں،معاشرے میں رہنے کےلیےعزت ،جسمانی اعضاء میں تناسب اور نعمت ِحسن، خوشحال زندگی کیلیے اچھے رفیق اور شریک حیات،آل واولاد عطا فرمائے۔آنکھ جیسی نعمت جس سے سارا جہاں حقیقی شکل میں دیکھا جاسکتا ہے ، دماغ جسے صحیح طور پر کام میں لا کر بڑی سے بڑی کامیابیوں کو حاصل کیاجاسکتا ہے، زبان جس سے دلی جذبات اور خواہشات کو اداکیاجاسکتاہے، ہاتھ پاؤں کی سلامتی سے دوسری کی محتاجی ختم فرمائی اور سانس وغیرہ ۔
الغرض کثیر اور عظیم نعمتوں میں ہم ہر رو زاپنی صبح و شام کرتے ہیں، ان کے استعمال کاطریقہ بھی بتلادیاکہ ان عظیم نعمتوں کو غلط طریقے سے استعمال نہ کرنابلکہ صحیح طور پر استعمال کرکے شکر ادا کرو گے تو تمہیں یہ بھی اور دیگر نعمتوں سے مالا مال کردوں گا ۔میر ے احسانات ،انعامات اور اعزازات وصول کرکے میری ناشکری اور ناقدری نہ کرنا، ورنہ تمہیں اس جرم کی سزا میرے عذاب کی صورت میں اٹھانا پڑے گی ۔
معاشرتی المیہ:
ہمارے ہاں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو ہر وقت پریشانی کااظہار کر تے ہیں اپنی کم نصیبی ،لاچاری ، محرومی قسمت کا رونا روتے ہیں بلکہ کچھ تو ایسےبھی ہیں جن کی زبان سے ناشکری کےایسے الفاظ نکلتے ہیں جو انتہا ئی مایوس کن ہوتے ہیں۔
صابر و شاکر بننے کا اصول:
عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ جَدِّهِ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: خَصْلَتَانِ مَنْ كَانَتَا فِيهِ كَتَبَهُ اللَّهُ شَاكِرًا صَابِرًا، وَمَنْ لَمْ تَكُونَا فِيهِ لَمْ يَكْتُبْهُ اللَّهُ شَاكِرًا وَلاَ صَابِرًا، مَنْ نَظَرَ فِي دِينِهِ إِلَى مَنْ هُوَ فَوْقَهُ فَاقْتَدَى بِهِ، وَنَظَرَ فِي دُنْيَاهُ إِلَى مَنْ هُوَ دُونَهُ فَحَمِدَ اللَّهَ عَلَى مَا فَضَّلَهُ بِهِ عَلَيْهِ كَتَبَهُ اللَّهُ شَاكِرًا وَصَابِرًا۔
جامع الترمذی، الرقم: 2512
ترجمہ: حضرت عمرو بن شعیب اپنے دادا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: دو خصلتیں ایسی ہیں جس میں وہ پیدا ہو جائیں اللہ کریم اس کو صابر و شاکر لکھ دیتا ہے پہلی خوبی دین داری کے معاملے میں اپنے سے فائق انسان کی طرف دیکھے اور پھر اس کی اقتداء میں لگ جائے خود بھی نیکی اختیا ر کرے اور اس جیسی نیکیوں کو انجام دینے کی بھر پور کو شش کرے ۔دوسری خوبی اس میں یہ ہو کہ دنیا وی امو ر میں اپنے سے کم تر انسان کو دیکھے پھر اللہ کی طر ف سے ملنے والی زیادہ نعمت کو دیکھے اس پر اللہ کا شکر اداکرے تو ایسے شخص کواللہ پاک صابر وشاکر لکھ دیں گے ۔
شکر کے خوگر:
افسو س صد افسو س کہ ہم اس کے بر عکس زند گی گزار رہے ہیں۔ دنیاوی امور میں اتنے آگے بڑھنے کی تگ ودو میں مسلسل مصروف عمل ہیں کہ حلال و حرام کافرق بھی ختم کربیٹھے ہیں۔ دولت ،دولت اور دولت کے حصول میں انسانی رشتوں کو بھی یکسر نظرانداز کر بیٹھتےہیں ۔ہماری نظریں کبھی بھی اپنے سے چھو ٹے اور کم درجے کے لو گو ں پر نہیں پڑتیں ۔چھوٹے کاروبا ر، چھو ٹے مکانات ، معمو لی غذاؤں سے پیٹ کادوزخ جلانے والوں کی حالت زار ہمیں دیکھنی پڑ بھی جائے تو ہم اسے عبرت کی بجائے حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔اس لیے ہمیں اس انداز سے سو چنے اور غور کرنے کا موقع ہی نہیں مل پاتا کہ ہم خداکاشکر اداکرسکیں۔خداکے وعدہ پر یقین کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصول کو مدِنظر رکھتے ہوئے شکر کرنے کے خوگر بنیں اللہ ظاہری نعمتیں بھی بڑھاویں گے او ر قلبی سکون و راحت بھی نصیب فر مائیں گے ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی نعمتوں کا شکر گزار بندہ بنائے ۔
آمین بجاہ خاتم الانبیاء والمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم
والسلام
محمدالیاس گھمن
خانقاہ حنفیہ ، لودھراں
جمعرات ،14مارچ، 2019ء