مساکین سے محبت

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
مساکین سے محبت
اللہ تعالیٰ کے آخری سچے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے عرش الہٰی کے سات خزانوں کا ذکر ایک حدیث مبارک میں فرمایا ہے ۔
عَنْ أَبِى ذَرٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: أَمَرَنِي خَلِيْلِيْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسَبْعٍ: أَمَرَنِي بِحُبِّ الْمَسَاكِيْنِ وَالدُّنُوِّ مِنْهُمْ وَأَمَرَنِي أَنْ أَنْظُرَ إِلَى مَنْ هُوَ دُوْنِي وَلاَ أَنْظُرَ إِلَى مَنْ هُوَ فَوْقِى وَأَمَرَنِي أَنْ أَصِلَ الرَّحِمَ وَإِنْ أَدْبَرَتْ وَأَمَرَنِي أَنْ لَّا أَسْأَلَ أَحَداً شَيْئاً وَأَمَرَنِي أَنْ أَقُوْلَ بِالْحَقِّ وَإِنْ كَانَ مُرًّا وَأَمَرَنِي أَنْ لَّا أَخَافَ فِي اللّهِ لَوْمَةَ لاَئِمٍ وَأَمَرَنِي أَنْ أُكْثِرَ مِنْ قَوْلِ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ فَإِنَّهُنَّ مِنْ كَنْزِ تَحْتَ الْعَرْشِ۔
مسند احمد، الرقم: 21415
ترجمہ: حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مجھے میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے سات چیزوں کا حکم دیا :
1: مساکین سے محبت کرنے اور ان سے قربت اور تعلق بڑھانے کا ۔
2: حیثیت میں اپنے سے کم درجے والے پر نظر رکھنے کا اور خود سے برتر حیثیت والے شخص پر نظر نہ رکھنے کا ۔
3: رشتہ داروں سے تعلقات جوڑے رکھنے کا اگرچہ وہ لاپرواہی کیوں نہ برتیں۔
4: اللہ کے علاوہ کسی سے کچھ نہ مانگنے کا ۔
5: حق بات کہنے کا اگرچہ کسی کو اچھی نہ بھی لگے۔
6: دینی احکامات پر عمل کرتے وقت ملامت کرنے والوں کہ پرواہ نہ کرنے کا
7: کثرت کے ساتھ لا حول ولا قوۃ الا باللہ پڑھنے کا ۔
)اور فرمایاکہ (یہ باتیں عرش کے نیچے پائے جانے والے خزانے ہیں۔
مسکین کسے کہتے ہیں؟:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ أَنّ رَسُوْلَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ‏‏قَالَ: لَيْسَ الْمِسْكِينُ بِهَذَا الطَّوَّافِ الَّذِيْ يَطُوْفُ عَلَى النَّاسِ ‏‏‏‏‏‏فَتَرُدُّهُ اللُّقْمَةُ وَاللُّقْمَتَانِ ‏‏‏‏‏‏وَالتَّمْرَةُ وَالتَّمْرَتَانِ ‏‏‏‏‏‏قَالُوْا:‏‏‏‏ فَمَا الْمِسْكِينُ يَا رَسُوْلَ اللَّهِ؟‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ الَّذِيْ لَا يَجِدُ غِنًى يُغْنِيهِ ‏‏‏‏‏‏وَلَا يُفْطَنُ لَهُ فَيُتَصَدَّقَ عَلَيْهِ ‏‏‏‏‏‏وَلَا يَسْأَلُ النَّاسَ شَيْئًا.
صحیح مسلم، باب المسکین الذی لا یجد غنیً، الرقم: 2393
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسکین وہ نہیں جو لوگوں کے قریب قریب گھومتا پھرتا رہے اور ان سے ایک دو لقمہ یا ایک دو کھجور لے کر لوٹ جائے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے عرض کی کہ یارسول اللہ پھر مسکین کون ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کے پاس خرچ کرنے کے لیے اتنا مال نہ ہو جس سے وہ اپنی بنیادی ضروریات پوری کر سکے اور نہ لوگ اسے ضرورت مند سمجھتے ہوں کہ اس کو صدقہ دیں اور نہ ہی وہ خود لوگوں سے کچھ مانگتا ہو ۔
روحانی فوائد ثمرات:
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طبقے سے محبت اور تعلق بنانے اور برقرار رکھنے کا حکم دیا ہے ان سے دلی محبت رکھنا ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا اور ان کی خوشی و غم میں شریک ہونے میں سوائے اللہ کی رضا کے بہت کم کوئی اور غرض ہو سکتی ہے اور محض اللہ کو راضی کرنے کےلیے کوئی عمل کرنا ہی اخلاص کہلاتا ہے ۔ مساکین سے محبت اور تعلق بڑھائے رکھنے میں ، غرور ، تکبر سے حفاظت ہوتی ہے،دل کی سختی دور ہوتی ہے ، مال و دولت اور دنیا کی محبت جیسی روحانی بیماریوں سے نجات ملتی ہے ۔ اور ان کے ساتھ بیٹھنے سے تواضع ، انکساری اور دنیا کی بے ثباتی جیسی نعمتیں حاصل ہوتی ہیں۔
عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَجُلًا شَكَا إِلٰى رَسُوْلِ اللّهِ صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَسْوَةَ قَلْبِهِ فَقَالَ: اِمْسَحْ رَأْسَ الْيَتِيْمِ وَأَطْعِمِ الْمِسْكِينَ۔
مسند احمد ،مسند ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ ، الرقم: 9018
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےپوچھا کہ میں اپنی سخت دلی کو ختم کرنے کےلیے کیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا کہ یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرا کرو اور مسکین کو کھانا کھلایا کرو۔
مساکین کے حقوق کی ادائیگی:
مسکین ؛ہمارے معاشرے کا وہ مظلوم طبقہ ہے کہ جن کی طرف بالکل توجہ نہیں دی جاتی ، یہ خود کسی سے مانگتے نہیں اور لوگ ان کو ضرورت مند خیال نہیں کرتے وہ غربت ، افلاس اور تنگدستی کی چکی میں پستے رہتے ہیں ۔ اسی وجہ سے شریعت نے اس کی طرف باربار توجہ دلائی ہے کہ ان کا خوب خیال رکھا جائے۔
یَسْأَلُوْنَكَ مَاذَا يُنفِقُوْنَ قُلْ مَا أَنفَقْتُمْ مِّنْ خَيْرٍ فَلِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِيْنَ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِ وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللّهَ بِهِ عَلِيْمٌ۔
سورۃ البقرۃ ، رقم الآیۃ: 215
ترجمہ: وہ لوگ آپ سے یہ پوچھتے ہیں کہ )اللہ کو خوش کرنے کے لیے( کیا خرچ کریں؟آپ ان سے کہہ دیجیے کہ جو مال بھی تم خرچ کرو وہ والدین ، قریبی رشتہ دار ، یتامیٰ ، مساکین اور مسافروں کے لیے ہونا چاہیے اور تم بھلائی کا جو کام بھی کرو اللہ اس کو خوب اچھی طرح جاننے والا ہے۔
اللہ کی رضا اور کامیابی کا حصول:
فَاٰتِ ذَا الْقُرْبَىٰ حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيْلِ ذٰلِكَ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ يُرِيْدُوْنَ وَجْهَ اللّهِ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۔
سورۃ الروم، رقم الآیۃ: 38
ترجمہ: تم قریبی رشتہ داروں ، مسکینوں اور مسافروں کو ان کا حق دو ۔ اللہ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے والوں کے لیے یہی بہتر ہے اور وہی کامیاب ہونے والے ہیں۔
مساکین کی حق تلفی کی سزا:
جیسے مساکین کے حقوق کی ادائیگی پر اللہ کی رضا اور کامیابی نصیب ہوتی ہے اور انسان جنت کا مستحق ٹھہرتا ہے بالکل اسی طرح مساکین کی حق تلفی کرنے سے اللہ ناراض ہوتے ہیں اور انسان دوزخ کا ایندھن بنے گا ۔
مَا سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ قَالُوْا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِينَ۔
سورۃ المدثر، رقم الآیۃ: 42 تا 44
ترجمہ: )جنتی ؛ جہنمیوں سے پوچھیں گے(تمہارے کس عمل نے تمہیں دوزخ میں ڈالا؟ وہ کہیں گے کہ ہم نمازی نہیں تھےاور مساکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے ۔
بدتر دعوت ولیمہ:
عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُوْلُ: بِئْسَ الطَّعَامُ طَعَامُ الْوَلِيْمَةِ يُدْعٰى إِلَيْهِ الْأَغْنِيَاءُ وَيُتْرَكُ الْمَسَاكِيْنُ۔
صحیح مسلم، باب شر الطعام طعام الولیمۃ ، الرقم: 3510
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:بدتر دعوت ولیمہ وہ ہے جس میں صرف مال دار لوگوں کو بلایا جائے اور مساکین کو نہ بلایا جائے ۔
نوٹ: اس حدیث مبارک کو سامنے رکھ کر جب پورے معاشرے پر نظر دوڑائی جاتی ہے تو بہت کم ایسے ولیمے دکھائی دیتے ہیں جن کو اچھا ولیمہ کہا جا سکے ۔
ام المساکین :
ام المومنین سیدہ زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا مساکین کی ضروریات کو پورا کرنے میں اتنی مشہور تھیں کہ آپ کا لقب ”ام المساکین“ پڑ گیا تھا۔ عام طور پر چونکہ خواتین کا دل دنیا کے مال و دولت میں مردوں کی نسبت زیادہ پھنسا ہوا ہوتا ہے انہیں اس سے سبق حاصل کرنا چاہیے کہ ہماری آئیڈیل خواتین امہات المومنین رضی اللہ عنہن میں مساکین کی ضروریات پورا کرنے کا کس قدر اہتمام تھا ہمیں بھی انہی کے نقش قدم پر چلنا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ مردوں کو بھی اس سے زیادہ سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے کہ فطری طور پر عورت میں مال و زر سے محبت مردوں سے زیادہ ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود وہ مساکین کی ضروریات کا کس قدر خیال فرماتی تھیں تو ہمیں بھی مساکین کی ضروریات پوری کرنا کا احساس کرنا چاہیے ۔
ابو المساکین:
حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ مساکین سے بے حد محبت فرماتے، اس وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو ابو المساکین کا لقب عطا فرمایا۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ …كَانَ جَعْفَرٌ يُحِبُّ الْمَسَاكِينَ‏‏‏‏ وَيَجْلِسُ إِلَيْهِمْ‏‏‏‏ وَيُحَدِّثُهُمْ وَيُحَدِّثُونَهُ. ‏‏‏‏‏‏فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَكْنِيهِ بِأَبِي الْمَسَاكِينِ .
جامع الترمذی، باب مناقب جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ، الرقم: 3766
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے …حضرت جعفر بن طیار رضی اللہ عنہ مسکینوں سے محبت فرماتے تھے ، ان کے پاس بیٹھتے ، ان سے باتیں کرتے اور ان کی باتیں سنتےاسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو ابو المساکین کا لقب دیا۔
خوفِ خدا کی علامت:
غریب پروری او رمساکین کی دیکھ بھال کرنا ایسے عمدہ اوصاف ہیں کہ قرآن کریم نے بطور خاص ان کی تعریف کی ہے۔
وَیُطعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّ یَتِیمًا وَّ اَسِیْرًا اِنَّمَا نُطعِمُکُمْ لِوَجْہِ اللٰہِ لَا نُرِیْدُ مِنْکُمْ جَزَآءً وَّ لَا شُکُوْرًا اِنَّا نَخَافُ مِنْ رَّبِّنَا یَوْمًا عَبُوْسًا قَمْطَرِیْرًا۔
سورۃ الدھر،رقم الآیۃ: 8 تا 10
ترجمہ : اور اللہ کی محبت میں مسکین، یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں (اور ان سے کہتے ہیں کہ) ہم تمہیں صرف اللہ کی خاطر کھلا رہے ہیں۔ ہم تم سے نہ کوئی بدلہ چاہتے ہیں نہ شکریہ۔ ہمیں تو اپنے رب سے اس دن کے عذاب کا خوف لاحق ہے جو سخت مصیبت کاطویل ترین دن ہو گا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا:
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بابرکت ذات کائنات کی تخلیق کی وجہ اور اس کا مقصود ہے لیکن اس کے باوجود آپ دنیا و آخرت میں مساکین کے ساتھ رہنے کی دعا فرماتے تھے۔
عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ اللَّهُمَّ أَحْيِنِي مِسْكِينًا وَأَمِتْنِي مِسْكِينًا وَاحْشُرْنِي فِي زُمْرَةِ الْمَسَاكِينِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ۔
جامع الترمذی ،باب ماجاء ان فقراء المہاجرین یدخلون الجنۃ ، الرقم: 2275
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے )دعا مانگتے ہوئے( فرمایا: اے اللہ! مجھے مسکینی کی حالت میں زندہ رکھ اور مسکینی کی حالت میں دنیا سے اُٹھانا اورقیامت کے دن مسکینوں کے گروہ میں میرا حشر فرمانا۔
مساکین چالیس سال قبل جنت میں :
فَقَالَتْ عَائِشَةُ لِمَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ إِنَّهُمْ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ قَبْلَ أَغْنِيَائِهِمْ بِأَرْبَعِينَ خَرِيفًا يَا عَائِشَةُ لَا تَرُدِّي الْمِسْكِينَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ۔
جامع الترمذی ،باب ماجاء ان فقراء المہاجرین یدخلون الجنۃ ، الرقم: 2275
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی : آپ ایسی دعا کیوں مانگ رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسکین لوگ مالدار لوگوں سے چالیس سال پہلے جنت میں داخل ہوں گے۔اے عائشہ کسی بھی مسکین کو خالی ہاتھ نہ بھیجنا اس کے لیے خواہ تمہیں کھجور کا ایک ٹکڑا ہی کیوں نہ دینا پڑے ۔
قُربِ الہٰی کا ذریعہ:
يَا عَائِشَةُ أَحِبِّي الْمَسَاكِينَ وَقَرِّبِيهِمْ فَإِنَّ اللَّهَ يُقَرِّبُكِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ۔
جامع الترمذی ،باب ماجاء ان فقراء المہاجرین یدخلون الجنۃ ، الرقم: 2275
ترجمہ: اے عائشہ !مساکین سے محبت کرو اور ان کے قریب رہو اس کی وجہ سے اللہ تمہیں قیامت والےدن اپنے قرب سے نوازیں گے۔
چند فقہی مسائل:
مساکین کی ضروریات کو پورا کرنا شریعت کی نگاہ میں اتنی اہم عبادت اور معاشرتی فریضہ ہے مثلاً:
1: اگر ایک شخص روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتا تو اسے حکم ہے کہ وہ فدیے کے طور پر ایک مسکین کو کھانا کھلائے۔
2: اگر روزہ رکھ کر توڑ دیا ہے اس کے کفارے میں )علی الترتیب( ساٹھ مساکین کو کھانا کھلانا ہے۔
3: اگر کوئی بغیر احرام سے میقات سے گزرا تو شریعت حکم دیتی ہے کہ وہ مساکین کو کھانا کھلائے ۔
4: اگر کسی نے قسم توڑ دی تو شریعت حکم دیتی ہے کہ وہ دس مسکینوں کو کھانا کھلائے یا ان کو پہننے کے لیے کپڑے مہیا کرے۔
5: اگر کسی نے اپنی بیوی سے ظہار کر لیا یعنی اس سے کہا کہ تو مجھ پر ایسے ہے جیسے میری ماں )یا بہن یا کوئی اور محرم خاتون( اب بغیر کفارہ ادا کیے اس شخص کا اپنی بیوی کے پاس جانا جائز نہیں شریعت کہتی ہے کہ وہ کفارے کے طور پر )علی الترتیب(ساٹھ مسکینوں کو دو وقت کا کھانا کھلائے۔
نیز زکوٰۃ اور صدقات وصول کرنے میں مساکین کو شریعت ترجیحی بنیادوں پر حیثیت دیتی ہے ۔
ایک معاشرتی ستم:
ہمارے اردگرد بہت سارے مساکین موجود ہیں ہمیں ان کی مدد کرنی چاہیے،مستحق بچوں کی تعلیمی کفالت ، بچوں اور بچیوں کی شادیاں ،مقروضوں کی معاونت ، بیماروں کا علاج ، بے گھروں کی رہائش وغیرہ جیسے امور میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں نیک اعمال کرنے اور برے کاموں سے بچنے کی توفیق نصیب فرمائے۔
آمین بجاہ النبی الامی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم
والسلام
محمدالیاس گھمن
خانقاہ چشتیہ ، شاہ عالم سلنگور ، ملائیشیا
جمعرات ،4 اپریل، 2019ء