تین محبوب بندے
اللہ تعالیٰ اپنے جن بندوں سے پیار فرماتے ہیں ان کی نشانیاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر فرما دی ہیں اللہ تعالیٰ ہمیں وہ اوصاف اپنانے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنے محبوب بندوں میں شامل فرمائے ۔ اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے مبغوض )ناپسندیدہ (بندوں کی علامات بھی ذکر فرما دی ہیں تاکہ انسان اپنے آپ کو ان برے اوصاف سے بچا ئے اور اللہ کے ناپسندیدہ افراد میں شامل ہونے سے خود کو محفوظ کر سکے۔
عَنْ أَبِي ذَرٍّرَضِیَ اللُہ عَنْہ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ثَلاَثَةٌ يُحِبُّهُمُ اللَّهُ وَثَلاَثَةٌ يُبْغِضُهُمُ اللَّهُ فَأَمَّا الَّذِينَ يُحِبُّهُمُ اللَّهُ فَرَجُلٌ أَتَى قَوْمًا فَسَأَلَهُمْ بِاللَّهِ وَلَمْ يَسْأَلْهُمْ بِقَرَابَةٍ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُمْ فَمَنَعُوهُ فَتَخَلَّفَ رَجُلٌ بِأَعْيَانِهِمْ فَأَعْطَاهُ سِرًّا لاَ يَعْلَمُ بِعَطِيَّتِهِ إِلاَّ اللَّهُ وَالَّذِي أَعْطَاهُ وَقَوْمٌ سَارُوا لَيْلَتَهُمْ حَتَّى إِذَا كَانَ النَّوْمُ أَحَبَّ إِلَيْهِمْ مِمَّا يُعْدَلُ بِهِ نَزَلُوا فَوَضَعُوا رُءُوسَهُمْ فَقَامَ أَحَدُهُمْ يَتَمَلَّقُنِي وَيَتْلُو آيَاتِي وَرَجُلٌ كَانَ فِي سَرِيَّةٍ فَلَقِيَ العَدُوَّ فَهُزِمُوا وَأَقْبَلَ بِصَدْرِهِ حَتَّى يُقْتَلَ أَوْ يُفْتَحَ لَهُ وَالثَّلاَثَةُ الَّذِينَ يُبْغِضُهُمُ اللَّهُ: الشَّيْخُ الزَّانِي وَالفَقِيرُ الْمُخْتَالُ وَالغَنِيُّ الظَّلُومُ.
جامع الترمذی ، الرقم: 2568
ترجمہ: حضرت ابوذر غِفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تین طرح کے لوگوں سے اللہ تعالیٰ محبت جبکہ باقی تین طرح کے لوگوں سے اللہ تعالیٰ نفرت فرماتے ہیں۔ جن سے اللہ تعالیٰ محبت فرماتے ہیں ان میں سے پہلا وہ شخص ہے جو ایسی قوم میں رہتا ہو جس قوم کے پاس کوئی شخص رشتہ داری اور قرابت داری کی بنیاد پر نہیں بلکہ محض اللہ کا واسطہ اور قسم دے کر کچھ مانگنے آیا ہو اور وہ قوم ایسے شخص کو دینے سے انکار کر دے اور یہ شخص علیحدگی میں اُس مانگنے والی کی اس طرح مدد کرے کہ اللہ تعالیٰ اور مانگنے والے کے علاوہ کسی کو اس بات کا پتہ نہ چلنے دے۔ دوسرا وہ شخص جو کسی ایسے قافلے میں شریک سفر ہو کہ وہ قافلے والے سفر کی تھکاوٹ کی وجہ سے رات کو سو جائیں اور یہ شخص اللہ کی طرف متوجہ ہو کر آہ و زاری اور کلام اللہ )قرآن کریم(کی تلاوت میں مشغول ہوجائے ۔ تیسرا وہ شخص جو ایسے لشکر میں شامل ہو جس کو میدان کارزار میں شکست ہو گئی ہو لیکن یہ شخص بھاگنے کے بجائے سینہ سپر ہو کر آگے بڑھے یا تو قتل کر دیا جائے یا پھر فتح و نصرت اس کے قدم چوم لے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نمائندہ خدا ہیں، آپ کی بعثت کا مقصد مخلوق خدا کو خدائے ذوالجلال کی پسند اور ناپسند سے باخبر کرنا ہےیعنی مخلوق خدا کے سامنے اللہ کی خوشی اور ناراضگی کے کاموں اور باتوں کو واضح کر دیں تاکہ انسانیت اللہ کو راضی اور خوش کرنے والے کام کرے اور اللہ کو ناراض کرنے والے کاموں سے بچ سکے۔
پہلا محبوب بندہ:
وہ ہے جو چپکے سے کسی حاجت مند کی ضرورت کو پورا کرے ۔ جب کچھ لوگ بیٹھے ہوں اور کوئی شخص ان کے پاس آئے اور رشتہ داری اور قرابت داری کا واسطہ دینے کے بجائے اللہ کی ذات کا واسطہ دے ۔ لیکن لوگ اس کی بات پر کان نہ دھریں اور اس کی ضرورت پوری کرنے سے عملا انکار کر دیں اسی دوران ایک شخص وہاں سے اٹھے اور چپکے سے ضرورت مند کی ضرورت کو پورا کر دے باقی لوگوں کو اس کا پتہ نہ چلے تو ایسا شخص اللہ کا محبوب ہے ۔
ایک تو چپکے سے صدقہ دینا بہت بڑی نیکی ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ اس نے اللہ رب العزت کے نام کا احترام کرتے ہوئے ضرورت مند کی ضرورت کو پورا کیا ہے یہ دلیل ہے کہ اس کے دل میں محبوب حقیقی یعنی اللہ تعالیٰ کے نام کی عظمت بہت زیادہ ہے ۔ ظاہر ہے جو اللہ کے نام سے محبت کرتا ہے اللہ بھی اس کو اپنا محبوب بنا لیتے ہیں ۔
اس شخص کا یہ عمل اللہ کی بارگاہ میں محبوبیت و مقبولیت اس لیے بھی پا لیتا ہے کیونکہ اس شخص نے یہ نیکی کرتے وقت دو بڑے گناہوں سے خود کو بچا لیا ہے ۔ ایک تو ضرورت مند کی عزت نفس کو مجروح نہیں کیا بلکہ علیحدگی میں اسے دیا اور دوسرا قوم کی دل آزاری بھی نہیں مجلس میں بیٹھ کر قوم کو نیچا نہیں دکھایا اور نہ ہی انہیں شرمندہ و رسوا کیا ہے ۔ چونکہ اس شخص کا یہ عمل خالصتاً اللہ کو راضی کرنے کے لیے ہے اس لیے ایسے شخص کو اللہ کے ہاں محبوبیت کا مقام نصیب ہوتا ہے ۔
دوسرا محبوب بندہ:
وہ ہے جو چپکے سے اللہ کی عبادت کرے۔ جب قافلے والے سفر کی تھکان کی وجہ سے میٹھی نیند سو جائیں اور یہ سفر کی تھکاوٹ کے باوجود ، نیند کو قربان کر کے ، خواہش نفس کو روند کر نماز تہجد اور تلاوت قرآن کا اہتمام کرتا ہے یعنی مشقت کے ساتھ عبادت کرتا ہے تو یہ عبادت اللہ کے ہاں اسےمقام محبوبیت تک پہنچا تی ہےاور یہ مخلوق خدا کی نظروں میں محبوب بن جاتا ہے۔
تیسرا محبوب بندہ:
وہ ہے جو اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے تن تنہا لڑتا رہے۔ جب لشکر والے دشمن کی فوج سے شکست کھانے کے بعد پیٹھ دکھا کر بھاگ رہے ہوں ایسے وقت میں یہ شخص ہمت نہ ہارے اور سینہ سپر ہو کر دشمن کے مقابلے میں جان لڑا دے اور مسلسل دشمن سے مقابلہ کرے اس دوران یا تو قتل ہو جائے اور شہادت کا درجہ حاصل کر لے یا پھر فتح و نصرت سے ہمکنار ہو جائے ۔ دونوں صورتوں میں کامیابی ہی کامیابی ہے۔ اس بات کا صحیح طور پر اندازہ صرف وہ لوگ کر سکتے ہیں جو میدان کارزار میں داد شجاعت دے چکے ہوں ۔ جب لشکر والے اپنی جان بچا کر بھاگ رہے ہوں اور اس کو اپنے سامنے اپنی موت نظر آ رہی ہو اس کے باوجود بھی یہ شخص دین اسلام کی سربلندی اور دشمنان دین کو مٹانے کے لیے میدان میں ڈٹا رہے تو یہ اس کے اخلاص کی علامت ہے ۔ اسی اخلاص کی بدولت وہ اللہ کے ہاں مقام محبوبیت پالیتا ہے ۔
زمین و آسمان میں محبوبیت:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِیَ اللُہ عَنْہُ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِنَّ اللَّهَ إِذَا أَحَبَّ عَبْدًا دَعَا جِبْرِيلَ فَقَالَ : إِنِّي أُحِبُّ فُلاَنًا فَأَحِبَّهُ قَالَ : فَيُحِبُّهُ جِبْرِيلُ ثُمَّ يُنَادِي فِي السَّمَاءِ فَيَقُولُ : إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ فُلاَنًا فَأَحِبُّوهُ فَيُحِبُّهُ أَهْلُ السَّمَاءِ قَالَ ثُمَّ يُوضَعُ لَهُ الْقَبُولُ فِي الأَرْضِ۔
صحیح مسلم، باب اذا احب اللہ عبدا، الرقم: 6798
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب اللہ رب العزت کسی بندے سے محبت فرماتے ہیں تو جبرائیل علیہ السلام سے فرماتے ہیں میں فلاں بندے سے محبت کرتا ہوں آپ بھی محبت کریں ۔ حضرت جبرائیل اس سے محبت شروع کر دیتے ہیں اور آسمان میں اعلان کرتے ہیں کہ فلاں بندے سے اللہ تعالیٰ محبت کرتے ہیں (اے آسمان والو( تم بھی اس سے محبت کرو آسمان والے محبت شروع کرتے ہیں اور زمین والوں میں اس کو مقبول بنا دیا جاتا ہے ۔
دنیا سے حفاظت:
عَنْ قَتَادَةَ بْنِ النُّعْمَانِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِذَا أَحَبَّ اللَّهُ عَبْدًا حَمَاهُ الدُّنْيَا كَمَا يَظَلُّ أَحَدُكُمْ يَحْمِي سَقِيمَهُ المَاءَ۔
جامع الترمذی، باب ماجاء فی الحمیۃ، الرقم: 2036
ترجمہ: حضرت قتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ رب العزت جب کسی بندے سے محبت فرماتے ہیں تو اس کو دنیا میں دل لگانے سے روکے رکھتے ہیں جیسا کہ تم لوگ بیمار بندے کو )بیماری کے بڑھ جانے کے خوف سے ( پانی سے روکتے ہو ۔
نرمی کا معاملہ:
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ الله رَضِیَ اللُہ عَنْہُ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللّٰہَ إِذَا أَحَبَّ أَھْلَ بَیْتٍ أَدْخَلَ عَلَیْھِمُ الرِّفْقَ۔
من الفوائد الغرائب الحسان لابی بکر الابھری، الرقم: 18
ترجمہ: حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ رب العزت جب کسی گھر والوں سے محبت فرماتے ہیں تو ان کے معاملات میں نرمی شامل فرما دیتے ہیں ۔
اللہ کریم ہمیں اپنے محبوب بندوں میں شامل فرمائے۔
آمین بجاہ محبوب رب العالمین صلی اللہ علیہ وسلم
والسلام
محمدالیاس گھمن
جامعہ مدینۃ العلم ، فیصل آباد
جمعرات ،27 جون ، 2019ء