فلسفۂ ِقربانی

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
فلسفۂ ِقربانی
اللہ تعالیٰ کے نام پر خود قربان ہونا اور اس کے نام پر قربانی دینا اس کا تعلق عقل سے کم محبت سے زیادہ ہے ۔ اللہ ہمیں اپنی محبت اور معرفت عطا فرمائے ۔ قربانی کے دن قریب ہیں اس موقع پر ملک پاکستان کے ایک قومی اخبار ”روزنامہ ایکسپریس“ نے مجھ سے تفصیلی انٹرویو لیا اور پورا رنگین صفحہ اس پر شائع کیا لاکھوں لوگوں نے اسے پڑھا ۔ میری خواہش ہے کہ وعظ و نصیحت کے قارئین تک اس کا خلاصہ پیش کروں ۔
قربانی کی تاریخی حیثیت:
اقوام عالم کی تاریخ پر نظر ڈالنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ہر قوم میں قربانی کا تصور کسی نہ کسی شکل میں موجود رہا ہے، ہزاروں سال پہلے جب انسان اپنے حقیقی خالق و مالک کو بھول چکا تھا اورعناصر ، ہیاکل ، ستاروں بلکہ اپنے ہاتھوں سے تراشے ہوئے بتوں اور دیوتاؤں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے یا ان کے نام کی نذر و نیاز مانتے ہوئے جانور وغیرہ کو ذبح کر کے ان کے سامنے رکھ دیتا تھا یا پہاڑوں پر چھوڑ دیتا اور یہ عقیدہ رکھتا کہ اب دیوتا اور بت مجھے آفات و حادثات سے محفوظ رکھیں گے۔ قربانی کا یہ تصور یونہی چلتا رہا ، آج سے تقریباً چار ہزار سال پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آپ کے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام نے قربانی کا حقیقی مقصد اور صحیح فلسفہ دنیا کے سامنے پیش کیا ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مختصر حالات:
حضرت ابراہیم علیہ السلام پر اللہ کی طرف سے بڑی بڑی آزمائشیں آئیں اور آپ سب آزمائشوں میں کامیاب و کامران ہوئے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی مسلسل امتحانات میں گزری:

جس گھرانے میں آنکھ کھولی وہ شرک کا گڑھ تھا۔

آپ کے والد آزر اپنی قوم کے مذہبی پیشوا تھے ، بت بنانے اور بیچنے کا پیشہ تھا اور انہی بتوں کے سامنے سجدہ ریز بھی ہوتے تھے۔

آپ علیہ السلام نے اپنے والد کو تبلیغ کی کہ وہ بتوں کی عبادت چھوڑ دیں اور آپ کا لایا ہوا دین حق قبول کر لیں۔ انہوں نے بجائے حق قبول کرنے کے الٹا حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جان سے مارنے کی دھمکی دی اور گھر سے نکال دیا۔

کچھ عرصہ بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے قوم کے بت خانے میں جا کر بڑے بت کے علاوہ تمام بتوں کو توڑ ڈالا، جس کی پاداش میں آپ کو نمرود جیسے ظالم و جابر بادشاہ کے دربار میں لایا گیا آپ نے نمرود کے سامنے جرأت و بے باکی سے کلمہ حق بلند کیا جس کا منطقی نتیجہ یہی ہوا کہ آپ علیہ السلام کو آگ کے الاؤ میں جھونک دیا گیا ۔

اللہ رب العزت نے آپ کے لیے آگ کے اس چخے کو گلستان بنایا،آپ بالکل صحیح سالم آگ سے باہر تشریف لائےاتنی بڑی حقیقت کو دیکھ کر اب چاہیے تو یہ تھا کہ لوگ آپ پر ایمان لاتے اور آپ کی دعوت کو قبول کرتے لیکن بدنصیبی غالب آجائے تو قوموں کے اچھے مقدر مغلوب ہو جاتے ہیں۔

آپ علیہ السلام عراق کو چھوڑ کر ملک شام تشریف لے گئے ۔

یہاں سے فلسطین چلے گئے اور وہیں مستقل طور پر قیام گزیں ہوگئے اور یہیں اپنی نبوت کی تبلیغ فرماتے رہے۔

کچھ عرصہ بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی اہلیہ حضرت سارہ کے ہمراہ مصر تشریف لے گئے جہاں بادشاہ مصر نے آپ کی اہلیہ کی خدمت کےلیے حضرت ہاجرہ کو پیش کیا۔ یہ وہ وقت تھا کہ ابھی حضرت سارہ سے آپ کی کوئی اولاد پیدا نہیں ہوئی تھی۔

بعد ازاں آپ مصر سے واپس فلسطین لوٹے آپ کی اہلیہ حضرت سارہ نے آپ کا نکاح حضرت ہاجرہ سے کرایا۔

آپ کی عمر عزیز بڑھاپے کی دہلیز تک پہنچی تو آپ علیہ السلام نے اللہ کے حضور اولاد کی دعا مانگی : رب ھب لی من الصالحین۔ اے اللہ مجھے نیک اولاد عطا فرما۔ اللہ نے آپ کی دعا کو قبول فرمایا اور حضرت ہاجرہ سے آپ کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام پیدا ہوئے اور ان کی ولادت کے کچھ عرصہ بعد حضرت سارہ کے بطن سے حضرت اسحاق علیہ السلام پیدا ہوئے ۔

پھر ایک اور آزمائش آپ پریہ آئی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ اپنی بیوی ہاجرہ اور فرزند اسماعیل کو وادی بے آب و گیاہ مکہ مکرمہ میں چھوڑ آؤ! آپ نے اللہ کے حکم پر لبیک کہتے ہوئے حضرت ہاجرہ اور اپنے کمسن فرزند اسماعیل کو مکہ مکرمہ میں چھوڑ دیا۔

بچے کو بھوک پیاس ستاتی تو ماں بے چین ہو کر قریب کی دو پہاڑیوں صفا اور مروہ پر پانی کی تلاش میں دوڑتی رہیں۔واپس لوٹیں یہ دیکھ کر حیران رہ گئیں کہ حضرت اسماعیل کے قدموں تلے ایک چشمہ جاری ہو چکا ہے ، جسے زمزم کہا جاتا ہے ۔
کب ، کہاں اور کیسے؟:
حضرت ہاجرہ اور اسماعیل علیہما السلام کو مکہ مکرمہ میں رہتے ہوئے کافی عرصہ بیت چکا تھا اس دوران حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خواب میں دکھایا گیا کہ وہ اپنے بیٹے اسماعیل کو ذبح کر رہے ہیں اور یہ بات آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ نبی کا خواب بھی ”وحی“ ہوا کرتا ہے چنانچہ اللہ رب العزت کے حکم کی تعمیل کے لیے پھر فلسطین سے مکہ مکرمہ روانہ ہوئے ۔
خلیل و ذبیح کا مکالمہ:
حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے بیتے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے مابین جو گفتگو ہوئی ہے، قرآن کریم کی روشنی میں اسے ملاحظہ فرمائیں :
حضرت ابراہیم علیہ السلام: اے میرے بیٹے !میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ تجھے ذبح کر رہا ہوں ، اس بارے تیرا کیا خیال ہے ؟
حضرت اسماعیل علیہ السلام: اے میرے ابو!جس کام کا آپ کو اللہ کی طرف سے حکم دیا گیا ہے آپ وہ کام کر گزرئیے ۔ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے ۔
غور کیجیے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے گفتگو کا ایسا طرز اختیار نہیں کیا جس سے خوف و ہراس اور وحشت ٹپکتی ہو بلکہ فکری اور ذہنی طور پر اللہ کے نام پر جان قربانی کرنے کی خوبصورت انداز میں ترغیب دی ہے تاکہ جب اللہ احکم الحاکمین کے حکم پر عمل پیرا ہوا جائے تو اس میں بیٹا مجبور و لاچار نہ ہو بلکہ تسلیم و رضا کا پیکر نظر آئے اور ہر عبادت میں یہی مقصود ہوا کرتا ہے۔
اب آئیے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے جواب کی طرف اگر اس میں غور کیا جائے تو یہ بات نکھر کر سامنے آ تی ہے کہ حضرت اسماعیل اتنی بڑی قربانی دینے کےلیے اتنی چھوٹی سی عمر میں تیار ہوئے واقعتاً چھوٹی عمر میں بڑا کمال ہے لیکن حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اسے اپنی ذات کی طرف منسوب نہیں ہونے دیا بلکہ اسے محض اللہ کی عطا سمجھا اور مشیئتِ ایزدی پر صبر کرنے والوں کی قطار میں خود کو کھڑا کر دیا ۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے فیصلہ سنایا میں اللہ کے اس حکم پر دل و جان سے راضی ہوں اور یہ راضی ہونا محض لفظوں تک ہی محدود نہیں بلکہ ذبح ہونے کو بھی تیار ہوں ۔
جذبۂ خلیل اور صبر ذبیح:
باقی پدرانہ شفقت کی وجہ سےآپ اس سوچ میں بھی نہ پڑئیے کہ شاید میرا یہ فیصلہ ہنگامی یا وقتی ہوگا میں ”قربانی کا فلسفہ“ خوب اچھی طرح جانتا ہوں کہ اپنی جان تک کو اللہ کی راہ میں قربان کرنا درحقیقت قربانی ہے اس حقیقت پر عمل کرنے کے لیے میرے ذاتی ارادہ کو دخل نہیں بلکہ یہ سب کچھ اللہ کی مشیئت اور ارادہ سے ہی ممکن ہے چونکہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے اس لیے میں بھی صبر کروں گا تاکہ اللہ کی معیت مجھے بھی نصیب ہو جائے۔ معلوم ہوا کہ جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اللہ کے حکم پر اپنے لخت جگر کو قربان کرنے کا جذبہ پختہ تھا اسی طرح حضرت اسماعیل علیہ السلام کا اللہ کے نام پر قربان ہو جانے کا ارادہ بھی مصمم تھا یہ اس لیے کہ دونوں باپ بیٹا ”فلسفۂ قربانی“ کی حقیقت کو سمجھ چکے تھے ۔
صبر ذبیح سے زیادہ صبر خلیل:
حضرت اسماعیل علیہ السلام نے تو اللہ تعالیٰ کے نام پر خود قربان ہونے کے لیے پیش کیا اس لیے ان کا جذبہ تو واضح طور پر سمجھ میں آتا ہے جبکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا جذبہ قربانی سمجھنے کے لیے ایک دوسری حقیقت کو سمجھنا ہوگا وہ یہ کہ باپ کےلیے اولاد کی قربانی پیش کرنا اپنے آپ کو ذبح کر لینے سے زیادہ مشکل ہوتا ہے، یہ وہ قلبی کیفیت اور دلی احساس ہے جس کو سمجھا تو جا سکتا ہے لیکن الفاظ میں سمجھایا نہیں جا سکتا ۔دنیا کا ہر باپ اس بات کو اچھی طرح سمجھتا ہے کہ اولاد کی محبت کیا ہوتی ہے؟ اس لیے قرآن کریم نے اولاد کو )فتنہ (باعثِ آزمائش کہا ہے ۔ اس بنیاد پر یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کا جذبۂ قربانی بھی قابلِ صد ستائش ہے اور ان کا صبر وضبط بھی مثالی ہے لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ”جذبۂ قربانی“ اس سے بڑھ کر قابل تحسین اور ان کا صبر بے مثال ہے ۔ انسان اپنے آپ کو قربان کر سکتا ہے لیکن لخت جگر نرم و نازک اور معصوم گردن پراپنے ہاتھوں سے چھری چلانا ، نہ چلے توبار بار چھری کو تیز کر کے چلانا اس سے بھی زیادہ مشکل ہے ۔
سنتِ ابراہیمی:
یہ کام اعصاب شکن ، مشکل اور بہت صبر آزما تھاجب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے صدق نیت کے ساتھ اس پر عمل کر کے دکھایا تو اللہ رب العزت نے بچے کے عوض ایک دنبہ وہاں بھیج دیا اور فرمایا کہ آپ امتحان میں کامیاب ہوچکے ہیں ۔ اس کے بعد یہ عمل شریعت میں اس قدر پسندیدہ اور مقبول ہوا کہ اسے ”سنتِ ابراہیمی“ کے مبارک الفاظ سے یاد کیا جانے لگا۔ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اخلاص کی ایسی مضبوط دلیل ہے جو تاقیامِ قیامت قائم رہے گی۔
قربانی کی حیثیت:
عَنْ زَیْدِ ابْنِ اَرْقَمَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ اَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! مَا ھٰذِہِ الاَضَاحِیُّ قَالَ سُنَّۃُ اَبِیْکُمْ اِبْرَاہِیْمَ عَلَیْہِ السَّلَامُ قَالُوْا فَمَا لَنَا فِیْھَا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ بِکُلِّ شَعْرَۃٍ حَسَنَۃٌ قَالُوْا فَالصُّوْفُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ بِکُلِّ شَعْرَۃٍ مِنَ الصُّوْفِ حَسَنَۃٌ•
سنن ابن ماجہ، باب ثواب الاضحیہ، الرقم: 3127
ترجمہ: حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے سوال کیا: یارسول اللہ!یہ قربانی کیا ہے؟ (یعنی قربانی کی حیثیت کیا ہے؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے )روحانی ( باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت (اور طریقہ) ہے۔صحابہ رضی اللہ عنہم نےعرض کیا کہ ہمیں قربانی کے کرنے سے کیا ملے گا؟ فرمایا ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے (پھر سوال کیا) یارسول اللہ!اُون (کے بدلے میں کیا ملے گا) فرمایا: اُون کے ہر بال کے بدلے میں نیکی ملے گی۔
قربانی کی اہمیت:
قربانی والی عبادت ان چیزوں میں سےایک ہے جو اسلام کی علامت اور شعائر ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم مدینہ منورہ کے دس سالہ قیام میں ہر سال قربانی فرماتے رہے اور آپ کے بعد صحابۂِ کرام،تابعین، تبع تابعین، ائمہ مجتہدین،مفسرین ، محدثین ، اسلاف اور اکابر، غرض پوری اس وقت سے لے کر آج دن تک امت کا متوارث، متواتر اور مسلسل عمل بھی قربانی کرنے کا چلا آ رہا ہے۔
قربانی پر قرآن کریم اور احادیث مبارکہ موجود ہیں جس سے اس کی اہمیت واضح ہوتی ہے ۔ قرآن کریم میں ہے:
وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا لِيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَى مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ فَإِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ فَلَهُ أَسْلِمُوا وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِينَ۔
سورۃ الحج، رقم الآیۃ: 34
ترجمہ: اور ہم نے ہر اُمت کےلئے قربانی اس غرض کےلئے مقرر کی ہے کہ وہ ان مویشیوں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں عطا فرمائے ہیں، لہٰذا تمہارا خدا بس ایک ہی خدا ہے،چنانچہ اُسی کی فرماں برداری کرو، اور خوشخبری سنادو اُن لوگوں کو جن کے دل اللہ کے آگے جھکے ہوئے ہیں۔
اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی اس کی اہمیت یوں بتلائی گئی ہے :
عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَاعَمِلَ آدَمِیٌ مِنْ عَمَلٍ یَوْ مَ النَّحْرِ اَحَبَّ اِلَی اللّٰہِ مِنْ اِھْرَاقِ الدَّمِ اَنَّہْ لَیَأ تِیْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِقُرُوْنِھَا وَاَشْعَارِھَا وَاَظْلاَفِھَا وَاِنَّ الدَّمَ یَقَعُ مِنَ اللّٰہِ بِمَکَانٍ قَبْلَ اَنْ یَّقَعَ مِنَ الْاَرْضِ فَطِیْبُوْا بِھَا نَفْساً•
جا مع الترمذی با ب ما جاء فی فضل الاضحیہ،الرقم: 1413
ترجمہ: ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: عید الاضحیٰ کے دن کوئی نیک عمل اللہ تعالیٰ کے نز دیک قربانی کا خون بہانے سے محبوب اور پسندیدہ نہیں اور قیامت کے دن قربانی کا جانور اپنے بالوں، سینگوں اور کھروں سمیت آئے گا اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کےہاں شرفِ قبولیت حاصل کر لیتا ہے، لہذا تم خوش دلی سے قربانی کیا کرو۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا اُنْفِقَتِ الْوَرَقُ فِیْ شَئْیٍ اَفْضَلُ مِنْ نَحِیْرَۃٍ فِیْ یَوْ مِ الْعِیْدِ•
سنن الدارقطنی ،با ب الصید والذبائح ، الرقم: 4815
ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:اللہ تعالیٰ کے ہاں کسی خرچ کی فضیلت اس خرچ سے ہرگز زیادہ نہیں جو بقرعید والے دن قربانی پر کیا جا ئے ۔
فائدہ: ان کے علاوہ بھی متعدد احادیث قربانی کی فضیلت، وجوب، اہمیت کے بارے کتب حدیث میں موجود ہیں ۔
اسلامی دنیا میں قربانی کی شرح :
ایک اندازے کے مطابق آبادی کے لحاظ سے اس وقت اسلامی دنیا کا
1.
پہلا اور بڑا ملک انڈونیشیا ہے جس کی کل آبادی تقریباً ساڑھے 25 کروڑ ہے اور اس میں سے 1 کروڑ 8 لاکھ 40 ہزار لوگ ہر سال قربانی کرتے ہیں۔
2.
دوسرے نمبر پر وطن عزیز پاکستان ہے۔ آبادی قریباً 20 کروڑ اور ہر سال 1 کروڑ 22 لاکھ کے لگ بھگ لوگ قربانی کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔
3.
تیسرے نمبر پر بنگلہ دیش ہے جس کی آبادی تقریباً 15 کروڑ 14 لاکھ ہے اور 80 لاکھ 72 ہزار بنگالی ہر سال قربانی کرتے ہیں۔
4.
چوتھے نمبر پر مصر ہے جس کی آبادی تقریباً 8 کروڑ 5 لاکھ 24 ہزار ہے اور 62 لاکھ 23 ہزار لوگ ہر سال قربانی کرتے ہیں۔
5.
پانچویں نمبر پر ترکی ہے جس کی کل آبادی تقریباً 7 کروڑ 46 لاکھ ہے اور 48 لاکھ 20 ہزار لوگ ہر سال قربانی کرتے ہیں۔
6.
چھٹے نمبر پر الجیریا ہے جس کی کل آبادی تقریباً 3 کروڑ 48 لاکھ ہے اور 4 لاکھ 12 ہزار لوگ قربانی کرتے ہیں۔
7.
ساتویں نمبر پر مراکو ہے جس کی کل آبادی تقریباً 3 کروڑ 23 لاکھ ہے اور 8 لاکھ 40 ہزار لوگ قربانی کرتے ہیں۔
8.
آٹھویں نمبر پر عراق ہے جس کی کل آبادی تقریباً 3 کروڑ 11 لاکھ ہے اور 4 لاکھ 72 ہزار لوگ قربانی کرتے ہیں۔
9.
نویں نمبر پر سوڈان ہے جس کی کل آبادی تقریبا 3 کروڑ 8 لاکھ ہے اور یہاں 2 لاکھ 54 ہزار لوگ قربانی کرتے ہیں۔
10.
دسویں نمبر پر افغانستان ہے جس کی کل آبادی تقریباً 2 کروڑ 90 لاکھ ہے اور 2 لاکھ 10 ہزار لوگ قربانی کرتے ہیں۔
11.
گیارہویں نمبر پر ازبکستان ہے جس کی کل آبادی تقریباً 2 کروڑ 68 لاکھ ہے اور 1 لاکھ لوگ 60 ہزار لوگ قربانی کرتے ہیں۔
12.
بارہویں نمبر پر سعودی عرب ہے جس کی کل آبادی تقریباً 2 کروڑ 54 لاکھ ہے لیکن حج کی وجہ سے سب سے زیادہ قربانی ہوتی ہے۔تقریباً 1 کروڑ 50 لاکھ 30 ہزار لوگ قربانی کرتے ہیں۔
13.
تیرہویں نمبر پر ملک شام ہےجس کی کل آبادی 2 کروڑ 8لاکھ ہے اور 1 لاکھ کے لگ بھگ لوگ قربانی کرتے ہیں۔اسی طرح یمن کی کل آبادی بھی 2 کروڑ 8 لاکھ ہے جس میں سے 80 ہزار لوگ قربانی کا فریضہ ادا کرتے ہیں۔
14.
چودہویں نمبر پر ملائیشیا ہے جس کی کل آبادی 1 کروڑ 70 لاکھ ہے اور 95 ہزار لوگ قربانی کرتے ہیں۔
اسی طرح فلسطین، لیبیا، اردن، جبوتی، موریطانیہ، تاجکستان، آذربائیجان، ترکمانستان، قازقستان، قطر، بحرین، عمان اور متحدہ عرب امارات جیسے درجنوں ممالک ہیں جن میں کثیر تعداد میں قربانی کا فریضہ ادا کیا جاتا ہے بلکہ بعض غیر مسلم ممالک میں بھی موجود مسلمان قربانی کرتے ہیں جیسےہمارا ہمسایہ ملک ہندوستان ہے وہاں 1 کروڑ سے زائد لوگ قربانی کرتے ہیں۔
قربانی کے بجائے رفاہی کام:
رفاہ عامہ میں روٹی کپڑا اور مکان ہے۔ اسی رفاہ عامہ میں عید کے دنوں میں غریبوں کو قربانی کے جانور کا گوشت دے دیا جائے تو اس میں کیا حرج ہے؟ یقیناً یہ بھی رفاہ عامہ ہی ہے ۔ لیکن اگر اس سے ہٹ کر بھی دیکھا جائے تب بھی قربانی میں عام لوگوں بالخصوص غریبوں کا بہت نفع ہے ۔ قربانی والے عمل کا حکم دے کر شریعت یہ ہرگز نہیں کہتی کہ رفاہِ عامہ کے مفید کاموں کو نہ کیا جائے ،انسانیت کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اسلام کی تعلیمات موجود ہیں اس کے لیے زکاۃ ، صدقہ الفطر، عشر اور دیگر وجوبی صدقات کا مستقل ایک نظام ہے جس کے تحت انسانیت کی فلاح وبہبود ، غریب ومساکین اور ناداروں پر خرچ کیا جاتا ہے ،اس لیے شریعت یہ کہتی ہے کہ دس ذوالحجہ سے لے کر بارہ ذوالحجہ کی شام تک جس شخص پر قربانی کرنا واجب ہےاس کے لیے قربانی چھوڑ کر اس رقم کا صدقہ کرنا بالکل جائز نہیں ہے، ہاں! جس شخص پر قربانی کرنا واجب نہیں ہے اس کے لیے ان دنوں میں یا صاحب ِ نصاب لوگوں کے ان دنوں میں قربانی کرنے کے ساتھ ساتھ یا سال کے دیگر ایام میں مالی صدقہ کرنا یقیناً بہت زیادہ ثواب کی چیز ہےلیکن اس لیے قربانی والے عمل کی قربانی دینا درست نہیں ۔
قربانی کے معاشی فوائد:
سب سے پہلے تو یہ عقیدہ رکھنا چاہیے کہ اللہ کی ذات حکیم و خبیر ہے اس کا کوئی حکم فائدے سے خالی نہیں اس کی ایک مثال اسی قربانی والے حکم سے سمجھی جا سکتی ہے وہ اس طرح کہ اس کے مختلف مراحل ہیں ۔ جیسا کہ
جانور پالنااس میں لاکھوں انسان سال بھر مصروف رہ کر برسرِ روزگار بنتے ہیں۔
اسی طرح چارہ خریدنایہ کاروبار بھی انتہائی نفع بخش ہے زمیندار کو بھی فائدہ ہے اسی طرح دکاندار اور خریدار کو بھی ۔
جانوروں کی دیکھ بھال کے لیے ملازم رکھنا کہ غریب اور متوسط طبقے کے ہزاروں افراد اس ذریعے سے مالی فائدہ اٹھاتے ہیں۔
ساتھ میں دودھ کا نظام کہ ڈیری فارم، دودھ خریدنے اور بیچنے والی کمپنیاں اسی طرح مستقل طور پر ہوٹلوں اور گھروں کی ضرورت کا پورا ہونا۔
جانوروں کو باندھنے کے لیے رسیوں اور زنجیروں کا کاروبار۔
جانوروں کے چارے کے لیے برتنوں کا کاروبار ۔
قربانی کے ایام میں ان کی منڈیوں میں منتقلی کے لیے ٹرانسپورٹ کا وسیع نظام کہ جس میں ٹرانسپوٹرز سے لے کر منڈی کے منشی تک فائدہ اٹھاتے ہیں۔
گاڑیوں میں جانور لادنے اور اتارنے والے لوگ روزی کماتے ہیں۔
اسی طرح ان دنوں میں جانور بیچنے کے نتیجے میں مالی منافع کا بڑھنا ، قصابوں کی اجرت بھی اسی نظام کا حصہ ہے۔
پچھلے سال قصابوں کی دی جانے والی اجرت 23 ارب کے قریب ہے۔
کھال دینے میں ضرورت مندوں بالخصوص مدارس دینیہ کی مالی امداداور غرباء مساکین اور رفاہی و سماجی اداروں میں گوشت کی فراہمی کو یقینی بنانا۔
اسی طرح قربانی کی کھالوں سے بہت سے لوگوں کا کاروبار زندگی وابستہ ہوتا ہے جیسے ان کو نمک لگا نے والے ، ان کو خشک کرنے والے، پھر یہ سب چمڑے کی فیکٹریوں اور کارخانوں میں لایا جاتا ہے جہاں گرم لباس ، کوٹ ، خیمے ، جیکٹس ، بیگ اور دیگراشیاء کی بناوٹ جو چمڑے اور کھال کے بل بوتے ہی کارآمد ہوتے ہیں
اگر قربانی کا عمل ختم ہو جائے تو لیدر انڈسٹری کی 30 فیصد مصنوعات ختم ہو جائیں سال کے ان تین دنوں میں لیدر انڈسٹری اپنا 30 فیصد میٹریل قربانی کے جانوروں کی کھالوں سے حاصل کرتی ہے۔
یہاں تک کہ آلائشوں کو اٹھانے والے بھی اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں، آنتیں وغیرہ بیچی جاتی ہیں جس سے موم بتیاں و دیگر پراڈکٹس تیار ہوتی ہیں ۔
آج دنیا بھر میں یہ نعرہ لگایا جا رہا ہے کہ ہمیں ایڈ نہیں ٹریڈ چاہیے یعنی امداد نہیں صاحب روزگار بنانے کی ضرورت ہے اور قربانی کے ان دنوں میں لاکھوں کروڑوں لوگ صاحب روزگار بن رہے ہوتے ہیں اب یہ سمجھیں کہ دنیا جہان کا کوئی ایسا شخص جس میں انصاف نام کی کوئی چیز پائی جاتی ہو اور تعصب نہ ہو تو وہ کسی صورت بھی قربانی کے بجائے رفاہی کام میں پیسہ خرچ کرنے کی بات نہیں کر سکتا ۔
قربانی کا پیغام:
قربانی ہمیں یہ پیغام دیتی ہے کہ ہمارے دلوں میں یہ احساس اور فکر پیدا ہوجائے کہ اللہ کا حکم ہر چیز پر مقدم ہے ہماری ساری کامیابیوں کا مدار اللہ کے احکام کو ماننے پر ہے اگرچہ وہ ہماری طبیعت ،عقل اور سماج کے خلاف ہی کیوں نہ معلوم ہو رہا ہو۔ اس میں حکمتیں اور مصلحتیں نہ تلاشی جائیں بلکہ بے چوں وچرا اس پر صدق دل سے عمل کیا جائے ۔ حدیث مبارک میں ہے کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنی خواہشات کو میرے دین کے تابع نہ کردے۔ دوسرا اہم پیغام یہ ہے اپنے اندر جذبۂِ ایثارپیدا کریں اسی کی بدولت دنیا میں امن و امان قائم ہو گا۔
عیدوالے دن:
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عید والے دن )عید گاہ کی طرف آنے اور جانے والا (راستہ بدل لیتے تھے ۔ اس لیے جس راستے سے عید گاہ کی طرف جائیں مناسب ہے کہ واپسی میں وہ راستہ تبدیل کر لیا جائے۔ حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر کی نماز کے لیے تشریف لے جاتے تو کچھ کھا پی کر جاتے اور عید الاضحیٰ کے دن نماز عید پڑھنے تک کچھ نہیں کھاتے تھے۔
بعض لوگ اس دن عید سے پہلے اپنے اوپر کھانے پینے کو حرام کر لیتے ہیں اور روزہ دار کی طرح کچھ نہیں کھاتے پیتے ، یہ نظریہ غلط ہے ۔
اللہ کریم تمام مسلمانوں کو عید کی خوشیاں نصیب فرمائے۔
آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم
والسلام
محمدالیاس گھمن
خانقاہ حنفیہ، مرکز اھل السنۃ والجماعۃ ، سرگودھا
جمعرات ،8 اگست ، 2019ء