جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جن زمانوں کے خیراورتمام زمانوں سے بہتر ہونے کی خبر دی ہے وہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہ، تابعین اورتبع تابعین کازمانہ ہے۔امام بخاری حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے آپ علیہ السلام کاارشاد نقل کرتے ہیں:خَيْرُ أُمَّتِي قَرْنِي ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ. (صحیح البخاری: ج1ص362، باب فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ و سلم الخ)
ترجمہ: تمام زمانوں میں سے بہترمیرازمانہ ہے، پھر وہ جواس کے ساتھ ملا ہے ، پھر وہ جو اس کے ساتھ ملا ہے۔
حضرت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی کی چشم دیدگواہ ہیں، ان کی راست گفتاری اورصدق مقال پران کی زندگی کا ایک ایک لمحہ شاہد ہے جس طرح انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی کودیکھا اسی پر ہمیشہ کاربند رہے، اسی طرح حضرات تابعین رحمہ اللہ نے بھی حضرت صحابہ رضی اللہ عنہ سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اقوال واعمال کولیا اورپوری زندگی کے لیے راہِ عمل بنا لیا۔ تراویح کے بارے میں جس طرح حضرات خلفاء راشدین کاعمل تھا کہ بیس رکعت پڑھتے اورحکم دیتے رہے دیگر صحابہ کرام اورتابعین عظام وغیرہ بھی بیس رکعت ہی پڑھتے پڑھاتے رہے۔ ذیل میں ان شخصیات میں سے چند کاعمل پیش کیا جاتاہے کہ انہوں نے بیس رکعت تراویح ہی پڑھی اورپڑھائی ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود:
مشہورقدیم الاسلام صحابی ہیں۔ ان کو یہ سعادت حاصل تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے نعلین مبارک اٹھاتے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے دعادی تھی کہ اے اللہ اسے دین کی سمجھ عطا فرما۔ ان کے بارے میں حضرت زید بن وھب فرماتے ہیں:کَانَ عَبْدُاللّٰہِ بْنُ مَسْعُوْدٍ یُصَلِّیْ بِنَا فِیْ شَہْرِ رَمْضَانَ فَیَنْصَرِفُ وَ عَلَیْہِ لَیْلٌ، قَالَ الْاَعْمَشُ:کَانَ یُصَلِّیْ عِشْرِیْنَ رَکْعَۃً وَیُوْتِرُ بِثَلَاثٍ۔ (قیام اللیل للمروزی ص157)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رمضان میں ہمیں تراویح پڑھاتے تھے اورگھرلوٹ جاتے توابھی رات باقی ہوتی تھی۔حدیث کےراوی اعمش فرماتے ہیں کہ آپ رضی اللہ عنہ بیس رکعت تراویح اورتین رکعات وترپڑھتے تھے۔
فائدہ:اس روایت کی مکمل سند عمدۃ القاری شرح البخاری للعلامۃ العینی میں موجود ہے، افادۃً نقل کی جاتی ہے:
رواه محمد بن نصر المروزي قال أخبرنا يحيى بن يحيى أخبرنا حفص بن غياث عن الأعمش عن زيد بن وهب قال كان عبد الله بن مسعود ۔ (عمدۃالقاری ج8 ص 246 باب فضل من قام رمضان)
اور یہ سند امام بخاری اور امام مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔
حضرت ابی بن کعب:
آپ جلیل القدر صحابی ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں سب سے بڑا قاری ہونے کالقب عطافرمایا۔ آپ کے بارے میں حضرت حسن بصری رحمہ اللہ حضرت عبدالعزیز بن رفیع رحمہ اللہ سے روایت کرتے ہیں:کان ابی بن کعب یصلی بالناس فی رمضان بالمدینۃ عشرین رکعۃ ویوتربثلاث۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج2ص285 کم یصلی فی رمضا ن من رکعۃ)
ترجمہ: حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ رمضان میں لوگوں کوبیس رکعت تراویح اورتین رکعت وتر پڑھاتے تھے۔
اس کی سند صحیح ہے اورتمام راوی ثقہ اورقابل اعتماد ہیں۔
شبہ :
آل حدیث نے لکھا: عبد العزیز بن رفیع کی حضرت ابی بن کعب سے ملا قات ثا بت نہیں ، لہذا یہ روایت منقطع ہے ۔ (مقدار قیام رمضا ن از زئی غیر مقلد ص76)
جواب :
امام عبد العزیز بن رفیع م 130ھ صحا ح ستہ کےراوی ہیں اور خیر القرو ن کے ثقہ محدث ہیں ۔ (تقریب التہذیب: ص389)
اور جمہور محدثین خصوصاً عند الاحناف خیر القرو ن کا ارسال وانقطا ع مضر صحت نہیں۔ (تفصیل گزر چکی ہے) پس اعترا ض با طل ہے ۔
حضرت عطاء بن ابی رباح:
آپ مشہورجلیل القدرتابعی ہیں۔ حضرت ابن عباس، حضرت ابن عمرو، حضرت ابن عمر، حضرت معاویہ وغیرہ کے شاگرد ہیں، دوسوصحابہ رضی اللہ عنہم کی زیارت کی ہے۔ (تہذیب ج4ص488)
آپ فرماتے ہیں:
ادرکت الناس وھم یصلون ثلاثاوعشرین رکعۃ بالوتر۔ (مصنف ابن ابی شیبہ: ج2ص285)
ترجمہ: میں نے لوگوں(صحابہ وتابعین) کوبیس رکعت تراویح اورتین رکعت وتر پڑھتے پایاہے۔
فائدہ: اس روایت کی سند بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔
امام ابراہیم النخعی:
مشہور فقیہ اور اہل کوفہ کے نامور مفتی ہیں۔ امام شعبی فرماتے ہیں کہ میں نے آپ سے بڑا عالم نہیں دیکھا۔ (تہذیب التہذیب: ج1ص168)
آپ فرماتے ہیں:ان الناس کانوا یصلون خمس ترویحات فی رمضان. (کتاب الآثار بروایۃ ابی یوسف: ص41 باب السہو)
ترجمہ: لوگ رمضان میں پانچ ترویحے (بیس رکعت)پڑھتے تھے۔
اس روایت کی سند بخاری اور مسلم کی شرط کے مطابق ہے۔
چند شبہات کا ازالہ:
بعض غیر مقلدین نےاس روایت پر چند شبہات کئے ہیں۔ان کے جوابات پیشِ خدمت ہیں تاکہ موصوف کا مبلغِ علم معلوم ہو جائے۔
شبہ نمبر1:
یوسف بن ابی یوسف کی توثیق نا معلوم ہے ۔
جوا ب :
اولاً:۔۔۔۔اصول حدیث کا قاعدہ ہے کہ جب کتا ب کی نسبت صاحب کتا ب کی طرف مشہور ہوتو نیچے کے راوی دیکھنے کی ضرور ت نہیں پڑتی ۔علامہ ابن حجر لکھتے ہیں :لان الکتاب المشہور الغنی بشہرتہ عن اعتبار الاسناد مناا لی مصنفہ۔ (النکت لابن حجر ص56)
ترجمہ: جو کتاب مشہور ہو (کہ فلاں مصنف کی ہے) تو اس کی شہرت ہمارے اور مصنف کتاب کے درمیان سند دیکھنے سے بے نیاز کر دیتی ہے۔
لہذا تو ثیق کا سوال باطل ہے ۔
ثانیاً:۔۔۔۔الجواہر المضیئہ میں علامہ قرشی نے ان کے حالات لکھے ہیں جن سے ان کا فقیہ ہونا معلوم ہوتاہے اور فقیہ ہونا تو ثیق ہے۔ ( الجواہر المضیئہ ص438۔439)
شبہ نمبر 2:
قاضی ابو یوسف پر جر ح کی گئی ہے ۔
جواب :
اولاً:۔۔۔۔ یہ جرح مردود ہے، اس لئے کہ امام ابو حنیفہ سے ان کی مدح و ثنا ء اور تو ثیق ثابت ہے کہ جب ایک بار امام ابو یوسف بیما ر ہو ئے اور امام ابو حنیفہ عیادت کے لیے آئے تو فر ما یا :’’ان یمت ھذا الفتی فھو اعلم من علیھا واوما الی الارض ‘‘
[اگر یہ جوان فوت ہو گیا تو علم کانقصا ن ہو گا کیو نکہ یہ زمین پر اعلم ہے ]
ثانیاً:۔۔۔۔۔ائمہ جرح وتعدیل اور محدثین نے آپ کو حافظ الحدیث ،اثبت فی الحدیث،صا حب السنۃ ،افقہ الفقہاء، سید الفقہاء ،ثقۃ وغیرہ فر ما یا ہے۔ (حسن التفاضی من سیرۃ الامام ابی یو سف القاضی للعلامۃ الکوثری )
لہذا ان پر جرح باطل ہے۔
سیدنا شتیر بن شکل:
نامور تابعی ہیں ،حضرت علی رضی اللہ عنہ کے شاگردوں میں سے ہیں۔ نیز حضرت عبداللہ بن مسعود ،حضرت ام حبیبہ ،حضرت حفصہ سے بھی روایت لی ہے۔ (تہذیب التہذیب: ج3ص138)
آپ کے بارے میں روایت ہے :
عَنْ شُتَيْرِ بْنِ شَكَلٍ : أَنَّهُ كَانَ يُصَلِّي فِي رَمَضَانَ عِشْرِينَ رَكْعَةً وَالْوِتْرَ. ( مُصنف ابن أبي شيبۃ: ج2ص 285باب كم يصلي فِي رَمَضَانَ مِنْ رَكْعَةٍ)
ترجمہ: حضرت شتیر بن شکل لوگوں کورمضان میں بیس رکعت تراویح اور(تین رکعت) وتر پڑھاتے تھے۔
فائدہ: اس روایت کی سند حسن درجہ کی ہے۔
سیدنا ابو البختری:
آپ حضرت ابن عباس ،حضرت ابن عمر ،حضرت ابوسعید وغیرہ کے شاگرد ہیں اہل کوفہ میں اپنا علمی مقام رکھتے تھے۔ (تہذیب ج2ص679)
آپ کے بارے میں روایت ہے:عَنْ أَبِي الْبَخْتَرِيِّ : أَنَّهُ كَانَ يُصَلِّي خَمْسَ تَرْوِيحَاتٍ فِي رَمَضَانَ وَيُوتِرُ بِثَلاَثٍ. ( مُصنف ابن أبی شیبۃ: ج2ص 285باب كم يصلی فِی رَمَضَانَ مِنْ رَكْعَۃٍ.)
رمضان میں پانچ ترویحے یعنی بیس رکعات تراویح اور تین وتر پڑھتے تھے۔
فائدہ: اس روایت کی سند حسن درجہ کی ہے۔
سیدنا سویدبن غفلہ:
آپ مشہور تابعی ہیں حضرت ابوبکر ،حضرت عمر ،حضرت عثمان ،حضرت علی،حضرت ابن مسعود اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زیارت کی ہے اور ان سے روایت لی ہے.(تہذیب التہذیب: ج3ص107)
آپ کے بارے میں ابو الخصیب روایت کرتے ہیں:كَانَ يَؤُمُّنَا سُوَيْدُ بْنُ غَفَلَةَ فِى رَمَضَانَ فَيُصَلِّى خَمْسَ تَرْوِيحَاتٍ عِشْرِينَ رَكْعَةً. (السنن الكبرى للبیھقی ج2ص496 باب مَا رُوِىَ فِى عَدَدِ رَكَعَاتِ الْقِيَامِ فِى شَهْرِ رَمَضَانَ)
ترجمہ: حضرت سوید بن غفلہ ہمیں رمضان میں پانچ ترویحے یعنی بیس رکعت تراویح پڑھاتے تھے۔
سیدنا ابن ابی ملیکہ:
مشہور تابعی ہیں، تیس صحابہ کی زیارت سے مشرف ہوئے۔ (تہذیب التہذیب: ج4ص559)
ترجمہ: حضرت ابن ابی ملیکہ ہمیں رمضان میں بیس رکعت پڑھاتے تھے۔
فائدہ: اس کی سند بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔
سیدنا سعید بن جبیر:
آپ کبار تابعین میں سے ہیں ،حضرت ابن عباس ،حضرت ابن زبیر، حضرت ابن عمر، حضرت عدی بن حاتم وغیرہ سے روایت لی ہے۔ اہل کوفہ میں علمی مقام رکھتے تھے۔حجاج بن یوسف نے ظلماً قتل کیا تھا۔ ( تہذیب التہذیب: ج2ص625)
آپ کے بارے میں اسماعیل بن عبدالمالک فرماتے ہیں:
كان سعيد بن جبير يؤمنا في شهر رمضان فكان يقرأ بالقراءتين جميعا يقرأ ليلة بقراءة بن مسعود فكان يصلي خمس ترويحات۔ (مصنف عبدالرزاق: ج4ص204باب قیام رمضان)
ترجمہ: حضرت سعید بن جبیر رحمہ اللہ رمضان کے مہینے میں ہماری امامت کرواتے تھے آپ دونوں قرأ تیں پڑھتے تھے ایک رات ابن مسعودرضی اللہ عنہ کی قرأت (اوردوسری رات حضرت عثمان کی قرأت )آپ رحمہ اللہ پانچ ترویحے(یعنی بیس رکعت)پڑھتے تھے۔
سیدنا علی بن ربیعہ:
آپ مشہور تابعی ہیں۔حضرت علی ،حضرت مغیرہ بن شعبہ ،حضرت سمرہ بن جندب جیسے جلیل القدر صحابہ کے شاگرد ہیں ۔حدیث میں قابل اعتماد ہستی تھے۔ (تہذیب التہذیب: ج4ص596)
حضرت سعید بن عبیدرحمہ اللہ آپ کے بارے میںفرماتے ہیں: أَنَّ عَلِيَّ بْنَ رَبِيعَةَ كَانَ يُصَلِّي بِهِمْ فِي رَمَضَانَ خَمْسَ تَرْوِيحَاتٍ وَيُوتِرُ بِثَلاَثٍ. ( مصنف ابن ابی شیبہ: ج2ص285 باب کم یصلی فی رمضان من رکعۃ )
ترجمہ: حضرت علی بن ربیعہ رحمہ اللہ رمضان میں پانچ ترویحے(یعنی بیس رکعت) اور تین وتر پڑھایاکرتے تھے۔
فائدہ: اس کی سند حسن درجہ کی ہے۔
سیدنا حارث:
عَنِ الْحَارِثِ رَحِمَہُ اللہ أَنَّهُ كَانَ يَؤُمُّ النَّاسَ فِي رَمَضَانَ بِاللَّيْلِ بِعِشْرِينَ رَكْعَةً وَيُوتِرُ بِثَلاَثٍ ۔ ( مصنف ابن ابی شیبہ ج2ص285 باب کم یصلی فی رمضان من رکعۃ)
ترجمہ: حضرت حارث رحمہ اللہ لوگوں کورمضان کی راتوں میں بیس رکعت تراویح اورتین وتر پڑھاتے تھے۔
شاگردانِ علی المرتضیٰ:
سیدنا عبدالرحمن بن ابی بکر، سعید بن ابی الحسن اور عمران العبدی رحمہم اللہ یہ تینوں حضرت علی کے شاگردوں میں سے تھے۔ یونس رحمہ اللہ سے روایت فرماتے ہیں:ادرکت مسجد الجامع قبل فتنۃ ابن الاشعث یصلی بھم عبدالرحمن بن ابی بکروسعید بن ابی الحسن وعمران العبدی کانوا یصلون خمس تراویح۔ (قیام اللیل للمروزی: ص158)
ترجمہ: میں نے ابن الاشعث کے فتنہ سے پہلے جامع مسجد بصرہ میں دیکھا کہ حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر، حضرت سعید بن ابی الحسن اورحضرت عمر ان عبدی رحمہ اللہ لوگوں کوپانچ ترویحے(بیس رکعت)پڑھاتے تھے۔
خلاصہ روایات:
ان روایات سے یہ بات واضح ہوگئی کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اورتابعین کرام رضی اللہ عنہ رمضان مبارک میں بیس رکعت تراویح پڑھتے تھے۔