بیوی سے حُسنِ سلوک

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
بیوی سے حُسنِ سلوک
اہلیہ مفتی شبیر احمد
بعض شوہر اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ شادی کے نتیجہ میں انہیں مفت کا ایک نوکر نہیں بلکہ ایک غلام ہاتھ آگیا ہے۔ نوکر تو ذرا سختی کرنے پر ملازمت چھوڑ کر جا بھی سکتا ہے اور وہ بغیر تنخوا ہ کے ایک د ن بھی کام نہیں کرے گا جب کہ بیوی بیچاری نہ تنخواہ دار ہے اور نہ ہی آسانی سے ظالم شوہر سے آزادی حاصل کر سکتی ہے۔ ایسے شوہر بیویوں سے توقع رکھتے ہیں کہ گھریلو کام کاج کے علاوہ وہ ان کی کاروبار کے سلسلہ میں بھی مدد کریں۔شوہروں کی دکانوں پر سیلز گرل کی حیثیت سے کھڑی ہو یا کمائی کے ذرائع کو بڑھانے کے لیے دوسری ملازمتیں کریں۔ ایسا وہ پردہ میں رہ کرتو ہر گزنہ کر سکیں گی اور اگر حجاب سے باہر نکلتی ہیں تو شریعت کے قوانین کی خلاف ورزی ہو گی۔ فی زمانہ میاں اور بیوی میں اختلافات کی خلیج حائل ہونے اور بچوں کی اخلاقی بد حالی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ بیوی کو اس کے قدرتی گھریلو کا م کاج کے ماحول سے نکال کر اسے غیر فطرتی کاموں میں لگا دیا جائے۔ سیلز گرل کی حیثیت سے دکان کے کاونٹر پر کھڑے ہونا یا کمانے کے لیے باہر کسی ملازمت پر جانا یہ عورت پر غیر قدرتی اور انصاف کے منافی سختی ہے جو شوہر اس کے ساتھ روا رکھتا ہے۔ عورت سے ایسی مشقتیں لینا حرام ہے۔ مزید براں یہ اس کی قدرتی جسمانی ساخت اور ذہنی صلاحیتو ں کے منافی ہے کہ وہ مرد اور عورت دونوں کے فرائض انجام دے۔ شریعت نے معاشیات کی تمام ترذمہ داری شوہر کے کندھوں پر ڈالی ہے۔ اگر وہ بیوی سے اس امر کی توقع رکھے کہ اخراجات کی مدمیں بھی وہ اس کی مدد کرے تو یہ اس کا ظالمانہ فعل ہوگا۔ اگر بیوی ایسے ظلم اورنا انصافی کی شکار ہو گی تو اس کی جسمانی اور ذہنی صلاحیتوں پر بہت برا اثر پڑے گا۔ بچے بھی لاپرواہی کی بھینٹ چڑھ جائیں گے گھر کی دیکھ بھال بھی متاثر ہوگی۔ شرم ہوگی۔ شرم و حیاکا پردہ بھی چاک ہوگا اور اسلامی قانون کی بھی خلاف ورزی ہوگی۔ ایسے گھروں پر اللہ تعالیٰ کا قہر نازل ہوتا ہے۔ خاندان مختلف اقسام کے مصائب میں گھر جاتا ہے کاروبار اور گھر سے برکت رخصت ہو جاتی ہے۔ مفت کے ملازم کو کاروبار میں ملوث کرنے سے فائدہ تو کیا پہنچتا گھر اور کاروبار کی تباہی ضرور ہوجاتی ہے اللہ تعالیٰ کی حکم عدولی کرنے کے بعد ایک مسلمان کیونکر کامیاب و کامران ہوسکتا ہے؟ اگر گھر کے حالات بہت ہی دگرگوں ہوں اور شوہر کی قلیل آمدن اس بار کو اٹھانے کی متحمل نہ ہو اور بیوی کو بھی کوئی اعتراض نہ ہو تو وہ اسلامی پردہ کی پاسداری میں رہ کر کوئی ایسا کام کر سکتی ہے جس سے آمدن میں خاطر خواہ اضافہ ہو جائے۔ لیکن اگر شوہر اسے ملازمت کرنے کے لیے حکم دے تو وہ صاف انکار کر سکتی ہے۔ یہ اس کا حق ہے۔ شوہر اسے مجبور نہیں کر سکتا۔ شریعت کی رو سے اس کا خاوند کی ایسی حرام ہدایات کو تسلیم کرنے سے انکار ہی کر دینا بہتر ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان :”اگر خالق کی نافرمانی ہوتی ہو تو مخلوق پر کسی دوسرے کی فرمانبرداری نہیں ہے۔“دوسرے الفاظ میں کوئی ہدایت یا خواہش جو اللہ تعالیٰ کے قانون سے متصادم ہو تسلیم نہیں کی جاسکتی۔ ایسے احکامات شوہر کی جانب سے ہوں یا والدین کی طرف سے۔ اگر بیوی شوہر کے غیر قانونی اور غیر اخلاقی حکم کو ماننے سے انکار کر دے تو اس پر برسنے سے پہلے یہ سوچ لے کہ اس کی خفگی بیوی کے خلاف نہیں درحقیقت اللہ تعالیٰ کے احکامات کے خلاف ہے۔ ایک اور مشقت کاکام ہے جو بعض شوہر حضرات اپنی بیویوں سے لیتے ہیں۔ ان کادائرہ احباب خاصا وسیع ہوتا ہے اور بعض اوقات کارو باری ضرورت کے تحت بھی بہت سے مہمانوں کی گھر پر پر تکلف دعوتیں کرتے رہتے ہیں اور کھانوں کی تیاری بیوی کی ذمہ داری۔ مہمان گھر میں اللہ تعالیٰ کی رحمت ہیں ان کے ساتھ حسن سلوک اسلامی تعلیمات کا حصہ ہے۔ بلاشبہ ایک اچھی بیوی مہمانوں اور دوستوں کی ضیافت کے سلسلہ میں شوہر کی مدد کرسکتی ہے۔لیکن اگر دعوتوں اور ضیافتوں کا سلسلہ طول پکڑ جائے ، دوست احباب کا ان کے گھر میں آنا جانا اس کثرت سے ہو کہ ان کا تا نتا بندھارہے اور بیوی سے یہ امید رکھی جائے کہ وہ سب کے لیے کھانے تیار کرے اور انہیں پیش کرے ، یہ اس پر سراسر ظلم ہو گا۔ اگر بیوی اپنا زیادہ وقت باورچی خانے میں لوگوں کے لیے کھانے تیار کرنے میں صرف کرے گی تو اس کے اعصاب پر بہت برا اثر پڑے گا۔ کھانے پکانا برتن نکال کر میز پر چننا، کھانا کھا چکنے کے بعد برتنوں کو سمیٹنا ، دھونا اور پھر الماریوں میں رکھنا۔ بعض گھروں میں جہاں یہ روزانہ کا معمول ہوتا ہے بیوی ایسی غلامانہ روش سے مظلومیت کی نچلی سطح تک پہنچ جاتی ہے۔ اگر بیوی اس نا انصافی کے خلاف آواز بلند کرتی ہے تو خاوند یا تو ایک کان سے سنتا اور دوسرے کان سے نکال دیتا ہے یا غصہ میں بھڑک اٹھتا ہے۔ شوہر کو یہ علم ہونا چاہیے کہ اسے بیوی سے ایسے کام لینے کا کوئی حق نہیں ہے۔ بعض بیویاں مہمانو ں کی خدمت کرکے اور انہیں کھلا پلا کر خوش ہوتی ہیں لیکن شوہر کو یہ احساس بہر صورت ہو نا چاہیے کہ بیوی سے ایسے کام لینا اس کا شرعی حق نہیں ہے۔ شوہر کے دوست احباب اور مہمانوں کے لیے کھانے پکانا بیوی کے فرائض میں شامل نہیں ہے۔ اگر وہ شوہر کی محبت میں ایسا کرتی ہے تو بجا ورنہ بیوی کو اس کام کے لیے مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ اگر بیوی ان کی انجام دہی سے انکار کر دے جسے وہ خود بوجھ اور مشکل سمجھتی ہے تو اس پر خفا ہونا درست نہ ہوگا۔ شوہر کو چاہیے کہ ایسی متواتر ضیافتوں کے لیے کھانے پکانے اور پیش کرنے کا کوئی اور مناسب انتظام کرے کیونکہ ضیافتیں کرنا تو اس کا روز کا معمول ہے اور بیوی کے بس میں نہیں کہ اتنا بوجھ برداشت کر سکے خاوند بیوی سے ایک اور مشقت بھی لیتا ہے۔ وہ ہے اپنے والدین کی خد مت ایک بیوی شوہر کی محبت سے مجبور ہو کر اپنی مرضی سے تو شوہر کے والدین کی خدمت کر سکتی ہے مگر اس کے لیے اس پر کو ئی شرعی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔ بعض عورتیں اپنے شوہروں کے بیمار ، ضعیف اور اپاہج والدین کی ہر وقت کی تیماداری کرنے پر رضامند نہیں ہوتیں اور نہیں چاہتیں کہ انہیں بیوی کی بجائے نرسوں میں تبدیل کردیا جائے۔ سسرالی رشتہ داروں کی خدمت کرنا نکاح کے فرائض اور ذمہ داریوں میں شامل نہیں ہے اگر بیوی ان کی خدمت کرنے سے معذرت خواہ ہے تو شریعت کی طرف سے شوہر کو اس بات کاحق نہیں پہنچتا کہ وہ بیوی کو اس کے لیے مجبور کرے۔ شوہر کو یہ امید نہیں رکھنی چاہیے کہ بیوی اس کے والدین کی ہر آواز پر بھاگی بھاگی آئے گی اور ان کی ہر خدمت انجام دے گی۔ ایک شخص کی منکوحہ ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ عورت پر وہ کام بھی فرض کردیے جائیں جو شریعت نے شوہر کے حقوق کی بجاآوری کے لیے اس پر فرض نہیں کئے۔ ایک دوسرے کے حقوق سے لاعلمی حالات کو خراب کرنے کا باعث بنتی ہے۔ جب ایک شوہر کو علم ہو گا کہ شریعت نے اس کے حقوق و فرائض کی کیا اورکہاں تک حد بندی کی ہے تو اسے اپنی غلطی کا احساس ہو جائے گا اور وہ اپنی ہر جائز و ناجائز خواہش اور حکم کو منوانے سے گریز کریگا۔ اگر بیوی شوہر کے والدین کی خدمت سے انکار کرتی ہے یا خاوند کا کوئی اور حکم ماننے سے انکار کرتی ہے تو وہ اس کا برانہ منائے اور نہ ہی اس سے لڑنا جھگڑناشروع کر دے ، وہ کام خواہ معمولی نوعیت کے ہوں اور بیوی کے فرائض میں شامل بھی ہوں۔ اگر شریعت نے عورت پر کوئی ایسا فرض عاید نہیں کیا ہے جو شوہر کے حق کی صورت میں اس پر عائد ہوتا ہو تو شوہر عورت کو اس کی انجام دہی کے لیے مجبور نہیں کر سکتا اس سے غرض نہیں کہ بیوی کے ا نکار سے اسے کس قدر صدمہ پہنچا ہے۔ ذہنی طور پر اسے قبول کر لینا چاہیے اور اپنا رویہ ایسا رکھے جیسے بیوی کے انکار سے اسے کوئی تکلیف نہیں پہنچی۔
جب ایک شوہر پر وقار طریقے سے برداشت کرتا ہے تو بیوی جلدیابدیر شرم محسوس کرے گی۔ عورت کی غلطیوں اور کو تاہیوں کے باوجود اگر شوہر اپنے فرائض خوشدلی سے انجام دے گا اور اس سے کمال محبت کا سلوک روارکھے گا تو بیوی پشیمان ہوگی اور اپنی سمت درست کرے گی۔ قرآن مجید کافرمان ہے : ”اچھائی سے برائی کو دور کرو۔“ایسا نہیں کہ اچھے اطوار کا مظاہرہ صرف دوسروں کے ساتھ روا رکھا جائے۔ اس اصول کو بیوی کے ساتھ تعلقات میں بھی استعمال کرنا چاہیے بلکہ بہتر ہے کہ اچھے اخلاق کو پہلے اپنے گھر، خاندان سے شروع کیا جائے والدین کی خدمت کا فرض بچوں پر ہے، بچوں کی بیویوں پر نہیں۔ بچوں کو چاہیے کہ آپس میں مل جل کر والدین کی خدمت کا فریضہ انجام دیں۔ اگر وہ خود اس فرض کی ادائیگی کے لیے آمادہ نہیں یہ حق نہیں پہنچتا کہ اس فرض کو زبردستی بیویوں کے سر مڑہ دیں۔ ایسا کرنا ناانصافی اور سراسر ظلم ہوگا۔ ایسے بھی شوہر ہیں جو اپنی بیویوں کے ساتھ ظلم کو زیا دتی ہی تصور نہیں کرتے نا انصافی کو برائی سمجھتے ہیں لیکن بیوی کو اس زمرے سے باہر سمجھتے ہیں۔ مرد نے یہ فرض کرلیا ہے کہ بیوی کا کام ہی حکم ماننا، زیر ہو نا اور غلامی کرنا ہے۔ ناانصافی کا تصور شوہر کے نزدیک بیوی پر چسپا ں نہیں ہوتا۔ بیویاں جو اللہ کے نام سے شوہروں کی زوجیت میں دی گئی ہیں ، جوان کو ہر طرح سے آرام پہنچاتی ہیں ، ان کی اور ان کے بچوں کی خدمت کرتی ہیں ، کیا ان پرظلم روا رکھنا کوئی ظلم نہیں ؟ شوہر اس امر سے آگاہ رہیں کہ بیویوں سے ایسے مشقت کے کام لینا جو ان کے طبع نازک پر گراں گزرتے ہوں اور ان کی مرضی کے خلاف ہوں اور نکاح کے فرائض میں ان پر واجب نہ ہوں ، ظلم ہے۔ شوہر ایسی ناانصافیوں کے لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں جواب دہ ہوں گے شوہر اپنی بیویوں پر مختلف طریقوں سے بے رحمی کے ساتھ پیش آنے کے لیے دباوٴ ڈالتے ہیں اور یہ نہیں سمجھتے کہ ان کا ایسا کرنا ظلم ہے۔ اس سلسلے میں مولانا محمد مسیح اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی درج ذیل نصیحت بڑی مناسب ہے۔ ”بہت سے لوگوں میں بیویوں کے ساتھ بے رحمی کا سلوک کرنا عام ہے۔شوہر کئی طریقوں سے ان پر ظلم روارکھتے ہیں۔ وہ بیویوں کو غلام تصور کرتے ہیں۔ شوہر ان کی ذرا ذرا سی غلطیوں کوتاہیوں کو برداشت کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتے وہ اس بات کی بھی توقع رکھتے ہیں کہ پلٹ کر انہیں جواب نہیں دیں گی۔اگر وہ ان کی کسی بات کا جواب دے دیتی ہیں تو ان کا غصہ ناقابل برداشت ہو جاتا ہے۔ نازیبا زبان استعمال کرتے ہیں ، طلاق کی دھمکی دیتے ہیں اور بعض اس بڑے اقدام سے بھی نہیں چوکتے۔“ مبارک ادارہ جسے گھر کہتے ہیں نکاح کے متبرک بندھن کے نتیجہ میں وجود میں آتا ہے۔ بیوی اللہ تعالیٰ کی امانت ہے جو شوہر کی سپردگی میں دی گئی ہے۔ شوہر بلاشبہ بیوی اور خاندان کا سر براہ اور حاکم ہے۔ اگر اس نے امانت کے ساتھ خیانت روا رکھی ہوگی تو قیامت کے روز کیا منہ لے کر اللہ کے سامنے حاضر ہوگا۔ اور امانت بھی وہ جسے اس نے اللہ کے نام پر اپنے فائدہ اور آرام کے لیے لیا تھا۔