کیا یہی آزادی ہے؟

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
کیا یہی آزادی ہے؟
ماہنامہ فقیہ، اکتوبر 2012ء
ایک بار پھر پورے عالمِ اسلام کو ایک دلآزار فلم نےسراپا احتجاج بنا دیا۔ دنیا بھر کے مسلمان اپنے جذبات کا اظہار کر رہے ہیں جو ایک طرف آزادی رائے کا نعرہ لگانے والے ان وحشیوں کے منہ پر ایک طمانچہ ہے جو آئے روز اسلام اور پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ناموس پر حملہ آور ہوتے ہیں اور دوسری طرف یہی مظاہرے مسلمانوں کے ایمانی جذبات کا مظہر ہیں کہ دنیا کا کوئی بھی مسلمان خواہ وہ کسی بھی علاقہ سے تعلق رکھتا ہو،جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی شانِ اقدس میں کسی قسم کی گستاخی کو برداشت نہیں کر سکتا۔نائن الیون کی گیارھویں برسی کے موقع پر جاری ہونے والی اس گستاخانہ فلم Innocence of Muslim کا رائٹر اور پروڈیوسر امریکی ریاست کیلی فورنیا سے تعلق رکھنے والا ایک امریکی یہودی سام باسل ہے۔ 52 سالہ اس ملعون کا کہنا ہے:”میری یہ فلم ایک سیاسی فلم ہے، جو اسلام اور مسلمانوں کے منافقانہ چہرے کو بے نقاب کرتی ہے،اسلام ایک سرطان ہے جس کے خلاف ہمیں اپنی بساط کے مطابق کوشش کرنی چاہیے۔“
اسلام کے خلاف یہ زہریلی زبان اور انتہائی نفرت انگیز جذبات کا سلسلہ عرصہ درازسے جاری ہے۔ نائن الیون کے بعد مسلمانوں کے خلاف جاری ہونے والی جنگوں کو امریکی صدر نے ”صلیبی جنگوں“ کا نام دیا، ڈنمارک کے ایک ملعون نے گستاخانہ خاکے شائع کر کے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا، ایک عیسائی پادری ٹیری جونز نے قرآن مجید کو ایک بناوٹی عدالت میں بطور مجرم کھڑا کر کے سزا سنائی جسے ایک اور ملعون نے یوں پورا کیا کہ قرآن مجید کو جلا ڈالا، فلمMessage میں مسلمانوں کی قابل قدر شخصیات کو سکرین پر فلما کر توہین آمیز جملے ان کی شان میں کہے گئے۔قرآن کریم اور احادیث مبارکہ کے خلاف توہین انگیز تحریرات لکھی گئیں،سلمان رشدی جیسے ملعون شاتمِ رسول کو وائٹ ہاوس بلوا کر خصوصی پروٹوکول سے نوازا گیا اور اسی سلسلہ کی ایک کڑی یہ توہین آمیز فلم ہے۔جب ان شر انگیز سلسلہ وار اقدامات پر نظر ڈالی جاتی ہے توہر کڑی کے پیچھے مغربی لابی کار فرما نظر آتی ہے جو آزادی رائے کے نام پر دوسروں کی دل آزاری پر تلی ہے، جن کے نزدیک بے حمیتی، بے غیرتی اور بزدلی کو تحمل، برداشت اور احترامِ رائے کے معنی پہنائے گئے ہیں، جن کے ہاں غیرت و حمیت اور خود مختاری کو انتہاء پسندی اور بنیاد پرستی کا نام دیا جاتا ہے۔
اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسا کوئی سنجیدہ و مؤثر قدم اٹھایا جائےجس کی وجہ سے آئے روز مسلمانوں کی دل آزاری نہ ہو،خود ساختہ آزادی رائے کا یوں بے دریغ استعمال نہ کیا جائےجو اشتعال انگیزی کا سبب نہ بنے۔مسلم حکمرانوں کو چاہیے کہ اس سلسلہ میں اپنا کردار ادا کریں۔ نیز اقوامِ متحدہ کو اس سلسلہ میں ٹھوس قدم اٹھانا چاہیےجس سے انسانیت کے عظیم معلمین حضرات انبیاء کرام علیہم السلام خصوصاً خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کی حفاظت ایک بین الاقوامی قانون بن جائےاوران برگزیدہ ہستیوں کی ناموس پر کیچڑ اچھالنے والوں کو عبرت ناک سزا دی جا سکے۔
والسلام
محمد الیاس گھمن