پہلی بات
ماہنامہ بنات اہلسنت، جنوری2010ء
یہ سب کچھ جو آپ دیکھ رہی ہیں …دنیا کی نیرنگیاں ،زرق برق ملبوسات خوب صورت محلات ،ماڈرن بنگلے ،کانچ کے برتن ،رنگارنگ تقریبات ،جشن کے نام پر خوشیاں ،غم غلط کر نے کے لیے مئے نوشی مینا وجام وسبو،حسن کے مقابلے ،نام ونمود ،شہرت ،غیر فطری مزین راستے ،غلط خطوط پر منصوبہ بندیاں ،پھیکی مسکراہٹیں ، کھوکھلے دعوے ،بے حیثیت باتیں ،جھوٹی محبتیں وغیرہ۔ یہ کوئی نئی بات تھوڑی ہے یہ تو اسلام کے پہلے بہت پہلے معاشرہ کا قانون اور دستور تھیں۔
اس دور میں عورت کا وجود محض ایک کھلونے کے اور کچھ بھی نہیں تھا عورت معاشرہ میں نہ صرف یہ کہ مظلوم تھی بلکہ سماجی ومعاشرتی عزت وتوقیر اور ادب واحترام سے بھی محروم تھی۔ عورت کا وجود دلہن کے سفید ماتھے پر سیاہ جھومر کے مترادف تھا یونانی ،ایرانی تہذیبیں اور ثقافتیں اس کو ثانوی حیثیت دینے کے لیے بھی تیار نہ تھیں۔
یہی وجہ تھی کہ یونانی فلاسفوں نے عورت کو ’’شجرہ مسمومہ‘‘یعنی ایک زہر آلود درخت قرار دے کر عام خیال میں مرد سے کئی گنا زیادہ معیوب ،بدکردار ،آوارہ اور ترش وتلخ گوباور کیا۔ رومی تہذیب نے عورت کا کیا مقام بتلایا ہے ہسٹری کی بکس میں آج بھی دھندلے سے الفاظ گلکاریاں کررہے ہیں کہ ’’عورت کے لیے کوئی روح نہیں بلکہ عذابوں کی صورتوں میں سے ایک صورت ہے۔‘‘ فارسی تمدن بھی اس سے ملتا جلتاتھا اس میں بھی عورت کی وہی زبوں حالی تھی۔
بہنو!ہندی معاشرہ تو آپ سے دور نہیں ویدوں کے احکام کے مطابق: ’’عورت مذہبی کتاب کو چھو بھی نہیں سکتی۔ ‘‘ویسٹر مارک ہندی معاشرے کی منظر کشی اپنی کتابWawes of the history of the Hindus میں یوں کرتا ہے: اگر کوئی عورت کسی متبرک بت کو چھو لے تو اس بت کی الوہیت اور تقدس تباہ ہوجاتا ہے لہٰذااس کو پھینک دینا چاہیے۔ ‘‘
عیسائی تصورات اور نظریات عورت کے بارے میں کیا تھے ؟ایک جھلک دیکھیے: ’’576ء میں فرانسیسیوں نے ایک کانفرنس بلوائی جس میں پوپ اوربڑے بڑے پادریوں نے شرکت کی ،کانفرس کے انعقاد کا سبب یہ سوال تھا کہ ’’عورت میں روح ہے یا نہیں ‘‘اسی کانفرس میں ایک پادری نے تو یہاں تک کہہ ڈالا کہ عورت کا شمار بنی نوع انسانی میں بھی نہیں بالآخر کانفرنس اس نتیجے تک جا پہنچی کہ عورت صنفِ انسانی سے تعلق رکھتی ہے مگر صرف دنیاوی زندگی میں مرد کی خدمت کرنے کے لیے روزِ آخرت تمام عورتیں غیر جنس جانداروں کی اشکال میں ظہور پذیر ہونگی۔ “
لیکن جب اسلام آیا اور ہدایت کا نیر تاباں جلوہ فگن ہوا ،قرآن کا آفتاب عالم تاب چمکاتو یونانی تہذیب سے لے کر نصرانی ثقافت تک تمام کلچر اور تمام تہذیبیں پاش پاش ہوگئیں۔ سارے تمدن دھڑام سے نیچے آگرے۔ اسلام ساری انسانیت کے لیے احترام کا دستور لایا۔ عورت کو وہ مقام بخشا کہ جس کی مثال کسی مذہب اور کسی دین میں نہیں ملتی حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد کہ ’’بیٹی ،بیٹی ہوتی ہے خواہ کافر کی بھی کیوں نہ ہو۔ ‘‘توقیر عورت کے لیے سب سے بڑا اعزاز ہے اسلام نے آکر عورت کو بے جا غلامی ،ذلت اور ہتک آمیز رویوں سے نجات دی اسلام صنف نازک کے لیے نوید صبح بن کر آیا اور عورت کے لیے احترام کا پیامبر ثابت ہوا اب اگر یہی عورت اگر ماں بن جائے تو اس کے قدموں میں جنت کو لاکر بسا دیا بیٹی ہوتو نعمت عظمیٰ اگر رشتہ بہن کا ہوتو احترام کا پیکر اور اہلیہ ہوتو اس کو جنت کی حوروں کی بھی سردار قرار دیا۔
بات دور نہ چلی جائے مختصراًیہ کہ اسلام نے عورت کو وقار بخشا ،عزت بخشی ، حیا بخشی،شرف بخشا۔ اب ہمارے لیے دو راستے ہیں ایک خدا کی لازوال نعمتوں کا، خوشیوں کا ، مسرتوں کا اور دوسرا اس کے برعکس۔ قیامت کے دن کچھ چہرے خوب حسین تر ہونگے ،چمکدار ہوں گے ،ہنستے مسکراتے ہوں گے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وضاحت فرمائی ہے کہ یہ چمکدار چہرے والے ’’اھل السنۃ ‘‘ہونگے۔
تو اے بنات ِاہل السنۃ !تمہیں پھر وہی بھولاسبق یاد کرنا ہوگاجس کو پڑھ کر تم فضل وکمال کے اوجِ ثریا تک جاپہنچو۔ اللہ تعالیٰ تمہیں ازواج مطہرات اور بنات رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے اور امت کی عظمت رفتہ کی بحالی میں اپنا کردار ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ اس رسالے کو سامنے لانے کا مقصد اسلام کی بیٹیوں کے اخلاق و اعمال اور عقائد کی اصلاح اور آنے والی نسلوں کی تربیت کے لیے ان کو تیار کرنا اور ان کو اس عظیم ذمہ داری کا احساس دلانا ہے جو خلاق عالم نے ازل سے ان کی تقدیر میں لکھ دی تھی۔ اے بنات اہل السنۃ! اس عظیم مقصد کو آگے بڑھانے اور گھر گھر تک اس آواز کو پہنچانے کے لیے ہم سب کو مل کر اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ ماہنامہ بنات اہل السنۃ کی پوری ٹیم کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھنا اور اس کے پیغام کو ہر مسلمان بہن تک پہنچانے کی لیے ہمہ وقت تیاررہنااور جو بن پڑے اس سے دریغ نہ کرنا۔ اللہ تمہارا حامی و ناصر ہو۔
محمد الیاس گھمن
تہنیتی خطوط
ماہنامہ بنات اہلسنت فروری 2010ء
ماہنامہ بنات اہل السنۃ کا پہلا شمارہ جونہی چھپ کرمارکیٹ میں آیا تو ہاتھوں ہاتھ ہی نکل گیا۔ کئی مقامات سے آرڈر بک کروائے گئے لیکن ہم شمارہ نہ بھیج سکے وجہ یہی تھی کہ ہمارے ہاں بھی ختم ہو چکا تھا۔قارئین اور قاریات کی کالز ،میسجزاور ای میلز ہمیں موصول ہورہے تھے جن میں ماہنامہ کے اجراء پر تہنیتی پیغامات بھی تھے اور اپنے اپنے علاقے میں اس شمارہ کو تقسیم کرنے کے عزائم، مختلف مشورے اور رسالے کی بہتری کے متعلق اظہار خیال بھی تھا۔
قارئین اور قاریات کی ایک کثیر تعداد نے اس مبارک اقدام پر ماہنامہ کی پوری ٹیم کو دل سے دعائیں دیں اور کہا کہ ’’وقت کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر خواتین کے لیے اس طرح کی سعی اور کاوش ایک امر مستحسن ہے جس سے نہ صرف یہ کہ خواتین فائدہ اٹھا سکتیں ہیں بلکہ مردحضرات بھی اس سے مستفید ہوسکتے ہیں۔ ‘‘
ہمیں جتنے خطوط موصول ہوئے ہیں اورجتنی ای میلز اور کالز آئی ہیں ان کی تعداد بتاؤں تو اکثر قارئین ورطۂ حیرت میں پڑ جائیں گے۔یہاں ہم ان خطوط میں سے دو کے جواب پر ہی اکتفاء کرتے ہیں، باقی حضرات کا بھی بہت بہت شکریہ جنہوں نے مختلف امور کی نشان دہی کی اور قابل قدر مشوروں سے نوازا، اللہ رب العزت ان سب کے اخلاص میں مزید ترقی عطافرمائے۔
کراچی سے ایک قاریہ نے لکھا ’’بنات اہل السنۃ کا شمارہ پہلی دفعہ نظر سے گزراشروع سے لے کر آخر تک پڑھا مضامین عمدہ تھے لیکن کچھ باتیں آپ کو بتلانا ضروری تصور کرتی ہوںجو میرے خیال میں رسالے میں مزید بہتری کے لیے از حد ضروری ہیں:
پہلی بات:
یہ کہ رسالے کا نام اگر کسی اچھے سے کاتب سے کتابت کرالیا جائے تو بہترہوگا کیونکہ آج کل یہ چیز سب سے زیادہ ضروری ہے اور پھر اس کو مستقل طور پر ہی استعمال کیا جائے باربار تبدیل نہ کیا جائے۔
دوسری بات:
جو میں سمجھتی ہوں وہ یہ ہے کہ اس کے صفحات کو بھی ذرا بڑھا دیا جائے اور بجائے 32کے 50ہوجائیں تو مفیدتر بن جائے گاکیونکہ مہینے میں ایک بار خریدنا ہوتا ہے تو ہم بجائے 15روپے کے کچھ زیادہ بھی اد ا کرسکتی ہیں لہذاصفحات کو بڑھا دینا بھی میرے خیال میں ضروری ہے۔
تیسری بات:
یہ ہے کہ مضامین ذرا تفصیلاًہوں تو بات واضح طورپرسمجھ میں آتی ہے ورنہ ایک ڈیڑھ صفحے کا مضمون پڑھنے سے بعض دفعہ بہت سی ایسی باتیں اجمال کی صورت دھار لیتی ہیں جو یقیناًتفصیل کی مٖحتاج ہوا کرتی ہیں۔
چوتھی بات:
یہ ہے کہ ہم اکثر رسائل اور ناول خرید تے رہتے ہیں کچھ ایسے مضامین بھی ان میں شامل ہوتے ہیں مثلاًناقابل فراموش واقعات اور سلسلہ وار کہانیاںوغیرہ لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ ان میں اکثریا تو بالکل جھوٹی ہوتی ہیں اور بعض معلوم تو سچی ہوتیں ہیں لیکن اخلاقی اعتبار سے ان کا ذکر نامناسب ہوتاہے اس تناظر میں اگر آپ بھی سچی آپ بیتیوں کا اہتمام کریں تو آپ کے رسالے کی مقبولیت کی سطح اور بھی بلند ہوجائے گی۔ ‘‘
مری سے ایک قاریہ لکھتی ہیں:
آپ نے میرے مضمون کو شامل اشاعت کیا اس پر میں آپ کا شکریہ ادا کرتی ہوں۔ میں نے چندباتیں آپ سے کہنی تھیں امید ہے آپ اس پر ضرور توجہ دیں گے۔ جناب مدیر صاحب!پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ نے ہم خواتین کے لیے اس طرح کے میگزین کا اہتمام فرما کر ایک بہت ہی اچھا کا م کیا ہے جو یقینا آج کی بھولی بھٹکی انسانیت کے لیے صراط مستقیم ہے۔
ہمارے علاقوں میں مختلف NGO's ہیں جو دین کے نام پر لادینی پھیلارہی ہیں، عیسائی مشنری بہت تیزی سے کام کررہی ہے اوٹ پٹانگ اورمن گھڑت واقعات عام ہورہے ہیں جن میں انبیاء علیہم السلام ،ملائکہ مقربین اورامت کی برگزیدہ شخصیات کے تشخص کو مجروح کیا جاتاہے اور پھر غضب یہ کہ ایسی خرافات کو دینی کتب قرار دے کر سربازار مفت تقسیم کیا جارہا ہے جن کو پڑھ کر یہ تصور پیدا ہوتا ہے کہ آج کے مغرب زدہ انسان اور انبیاء علیہم السلام میں صرف زمانے کا فرق ہے اورمعاشرتی طور پر وہ بھی آزاد تھے اور ہم بھی آزاد۔
میرے خیال میں ایک سلسلہ شروع کیا جائے جس میں سابقہ انبیاء اور امتوں کے احوال کے ساتھ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے احوال، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بنات اورصحابیات کے احوال بھی ضرور ہوں اس کے ساتھ ساتھ ماضی قریب وبعید میں نیک بخت خواتین کے واقعات بھی شامل اشاعت کیے جائیں تاکہ لوگ اصل حقائق سے آشناہوں اور موجودہ پھیلائی جانے والی لادینیت کا راستہ رک سکے۔
سب سے پہلے تو میں ادارہ کی طرف سے آپ لوگوں کا شکر گزار ہوں جنہوں نے ہماری اس محنت کو قدر کی نگاہ سے دیکھا اور پھر اس میں جو کمزوریاں تھیں ان کی طرف بھی توجہ دلائی یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی بھی نظام کو بہتر کرنے کے لیے جب تک کمزور پہلووں پر توجہ نہ دی جائے اور ان کے ازالے کی کوشش نہ کی جائے تب تک اس نظام میں ڈسپلن (Discipline) پیدا نہیں ہوسکتا۔ ہماری جن قاریات اور قارئین نے اس میں بہتری لانے کے لیے ہمیں اپنے قیمتی مشوروں سے نوازا ن سب کا بہت بہت شکریہ !
کتابت اور صفحات کی زیادتی کے بارے ادارہ کا فیصلہ بھی آپ کو نظر آجائے گا جو کہ اسی شمارے میں آپ ملاحظہ فرمالیں گی۔ باقی رہی یہ بات کہ مضامین کتنے طویل ہوں اس کے بارے میں فی الحال میں اتناہی کہہ سکتاہوں کہ مضامین آپ لوگوں نے ہی بھیجنے ہوتے ہیں۔ یہ معاملہ مضمون نگارحضرات کی خدمت میں پیش کردیا جائے گا کہ مضمون کم از کم اڑھائی تین صفحات پر مشتمل ہو۔
اسی ضمن میں ایک بات کہتا چلوں کہ تمام وہ لوگ جو ہمیں مضامین ارسال کرتے ہیں وہ اس بات کا ضرور خیال کریں کہ سیاسی تبصروں ، لچراورفضول باتوں پر مشتمل مضامین ہرگز ہرگز شامل اشاعت نہیں ہوتے۔ سچی آپ بیتیوں اور حکایات کا مستقل سلسلہ شروع کیا جارہا ہے جس میں آپ ہمیں اپنے ساتھ بیتے ہوئے زندگی کے ناقابل فراموش واقعات لکھ سکتے ہیں البتہ اس بارے میں ادارہ کا فیصلہ حتمی ہوگا کہ کس کو شامل اشاعت کیا جائے اور کس کو نہیں۔
مری سے جس قاریہ نے ہمیں خط لکھا اوراس خط میں اپنے علاقے کی صورتحال سے آگاہ کیا،اس سے کہیں زیادہ ہم ملکی سطح پر اس جیسے واقعات آئے دن سن رہے ہیں NGO'sاور عیسائی مشنری نے جس تیزی سے مسلمانوں کے خلاف اقدام کیے ہیں اور آج بھی کررہی ہے یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔
لیکن صرف اتنا کہہ لینے سے معاملہ حل نہیں ہوجاتا بلکہ اس کے لیے کچھ اور بھی کرنا پڑتا ہے اور سب سے اہم چیز یہ ہے کہ ہم مسلما ن اپنے عقائد ونظریات کو سمجھیں اگر وہ حوادث زمانہ کی وجہ سے کمزور ہوگئے ہوں یا تغیر وتبدل کاشکار ہوچکے ہوں تو ان کی درستگی کی جائے اور کوئی لمحہ ضائع کیے بغیراپنے عقائد ونظریات میں پختگی لائی جائے۔
اس کے لیے ہم سب کو دین کی تعلیم سے آگاہی حاصل کرنا ہوگی خود بھی قرآن کریم کی تعلیمات حاصل کرنا ہوں گی اور دوسروں کو بھی ان سے آگاہ کرنا ہوگا۔ جب تک ہم قرآن سے دور ہوں گے اور سنت نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دور ہوں گے اس وقت تک تبدیلی زمانہ کے خواب دیکھنا بس ’’خواب‘‘ ہی ہوں گے۔ اس کا ایک آسان حل یہ ہے کہ ہمیں ان بزرگوں کی زندگیوں کا مطالعہ کرنا چاہیے جو قرآن وسنت کے جاننے والے تھے اور پابند صوم وصلوۃ تھے ان کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا ہوگا تب جاکر ہم ان فتنوں سے بچ سکتے ہیں ورنہ فتنوں کے اس دور میں اپنے دین کی حفاظت کرنا بہت مشکل ہے۔
آپ کے مشوروں کو ہم قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ادارہ ان پر غور وخوض بھی کررہا ہے ان شاء اللہ ایک مضبوط لائحہ عمل ترتیب دے کر ان تمام پہلوؤں پر بڑی سنجیدگی اورمتانت سے عمل کیا جائے گا۔ ہم امید رکھتے ہیں کہ امت کی بیٹیاں اس عظیم مشن میں ہمارا ساتھ ضرور دیں گی اوراس رسالہ کو عام کریں گی جو اہل السنۃ کے عقائد ونظریات کا امین اوراس دور میں خواتین اسلام کے لیے ہدایت کا زینہ ہے۔بنات اہل السنۃکی پوری ٹیم کو اپنی دعوات صالحات میں فراموش نہ کیجیے گا!
والسلام
محمد الیاس گھمن