دعائیں قبول کیوں نہیں ہوتیں؟
اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعاؤں کے قبول نہ ہونے کی کئی وجوہات ہیں، جن میں سے بعض کا تعلق بداعمالیوں سےجبکہ بعض کا تعلق اللہ تعالیٰ کی حکمت کے ساتھ ہے، ہمارے اختیار میں گناہ چھوڑنا ہےباقی کا تعلق خالصتاً اللہ تعالیٰ کی حکمت کے ساتھ ہے ان پر راضی رہنا چاہیے،اسی میں بہتری ہے، مایوس ہو کر دعا جیسی عبادت کو چھوڑنا نہیں چاہیے، مسلسل مانگتے رہنا چاہیے۔ چند وجوہات کا ذکر کیا جاتا ہے۔
حرام خوری اور حرام کاری:
حلال اپنی برکات جبکہ حرام کی اپنی نحوست ہوتی ہے، حلال کھانے سے دل میں نورانیت، اللہ کا خوف، اس کی اطاعت کا جذبہ اور دین پر عمل کی طاقت پیدا ہوتی ہے جبکہ حرام کا لقمہ ان نعمتوں سے محروم کر دیتا ہے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ اللَّهَ طَيِّبٌ لَا يَقْبَلُ إِلَّا طَيِّبًا وَإِنَّ اللَّهَ أَمَرَ الْمُؤْمِنِينَ بِمَا أَمَرَ بِهِ الْمُرْسَلِينَ، فَقَالَ:يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُواصَالِحًا إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ وَقَالَ: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ۔ ثُمَّ ذَكَرَ الرَّجُلَ يُطِيلُ السَّفَرَ أَشْعَثَ أَغْبَرَ يَمُدُّ يَدَيْهِ إِلَى السَّمَاءِ يَا رَبِّ يَا رَبِّ وَمَطْعَمُهُ حَرَامٌ وَمَشْرَبُهُ حَرَامٌ وَمَلْبَسُهُ حَرَامٌ وَغُذِيَ بِالْحَرَامِ فَأَنَّى يُسْتَجَابُ لِذَلِكَ۔
صحیح مسلم،باب قبول الصدقۃ من الكسب الطيب، حدیث نمبر 1686
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ تعالیٰ خود بھی پاک ہیں اور )اقوال، اعمال اور اخلاق کی (پاکیزگی کو قبول فرماتے ہیں، اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو اسی بات کا حکم دیتے ہیں جس بات کا اپنے رسولوں کو حکم دیا تھا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اے رسولو!پاکیزہ خوراک کھاؤ اور نیک کام کرو بے شک میں تمہارے کاموں کو خوب اچھی طرح جاننے والا ہوں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ دوسرے مقام پر ارشاد فرماتے ہیں: اے ایمان والو!جو ہم نے جو رزق دیا ہے اس میں سے پاکیزہ مال کھاؤ۔ پھر اس کے بعد ایک شخص کا ذکر فرمایا جو لمبا سفر طے کرتا ہے، اس کی حالت یہ ہے کہ سفر کر کر کے اس کے بال بکھرے ہوئے ہیں، چہرہ خاک آلود ہے اور وہ ہاتھ پھیلا کر کہتا ہے: یاربّ! یاربّ! حالانکہ اس کا کھانا حرام کا ہے، اس کا پینا حرام کا ہے، اس کا لباس حرام کا ہے او رحرام سے اس کی پرورش ہوئی تو پھر اس کی دعا کو کیسے قبول کیا جا سکتا ہے؟
گناہ، جلد بازی اور مایوسی:
شریعت میں جن کاموں سے روکا گیا ہے وہ گناہ ہیں ان سے اللہ ناراض ہوتے ہیں، یہ کہاں کی دانشمندی ہے کہ جس ذات سے مانگنا ہے پہلے اس کی نافرمانی کر کے ناراض کیا جائے اور پھر اس سے مانگا جائے، ایسا کرنا دعا کے آداب کے خلاف ہے پھر مانگنے میں جلدی کرنا اور مایوس ہو کر اللہ سے مانگنا ہی چھوڑ دینا بہت بڑی غلطی ہے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: لاَ يَزَالُ يُسْتَجَابُ لِلْعَبْدِ، مَا لَمْ يَدْعُ بِإِثْمٍ، أَوْ قَطِيعَةِ رَحِمٍ، مَا لَمْ يَسْتَعْجِلْ قِيلَ: يَا رَسُولَ اللهِ، مَا الاِسْتِعْجَالُ؟ قَالَ: يَقُولُ: قَدْ دَعَوْتُ وَقَدْ دَعَوْتُ، فَلَمْ أَرَ يَسْتَجِيبُ لِي، فَيَسْتَحْسِرُ عِنْدَ ذَلِكَ وَيَدَعُ الدُّعَاءَ.
صحیح مسلم، باب یستجاب لاحدکم مالم یعجل، حدیث نمبر 7036
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بندے کی دعا اس وقت تک قبول ہوتی ہے جب تک وہ گناہ کی بات کی دعا نہ کرے اور نہ ہی قطع رحمی کی دعا مانگے اور اس کی دعا اس وقت تک قبول ہوتی رہتی ہے جب تک وہ جلدبازی کا مظاہرہ نہ کرے۔پوچھا گیا: یارسول اللہ)صلی اللہ علیہ وسلم( جلد بازی سے کیا مراد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بندے کا اس طرح کہنا کہ میں نے دعا مانگی )وہ فوراً قبول نہ ہوئی تو ( پھرمیں نے دعا مانگی، لیکن وہ بھی قبول نہیں ہوئی۔پھر وہ دل برداشتہ ہوکر دعا کو چھوڑ دے۔
شرعی ذمہ داریاں پوری نہ کرنا:
عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَتَأْمُرُنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلَتَنْهَوُنَّ عَنْ الْمُنْكَرِ أَوْ لَيُوشِكَنَّ اللَّهُ أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عِقَابًا مِنْهُ ثُمَّ تَدْعُونَهُ فَلَا يُسْتَجَابُ لَكُمْ۔
جامع الترمذی، باب ماجاء فی الامر بالمعروف والنھی عن المنکر، حدیث نمبر 2095
ترجمہ: حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے مروی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے: اس ذات کی قسم جس کے اختیار میں میری جان ہے تم لوگوں کو نیکی کا ضرور حکم کرتے رہو، اور انہیں برائیوں سے روکتے رہو ورنہ عنقریب اللہ تعالیٰ تم پر اپنی طرف سے عذاب نازل کرے گا پھر تم دعا مانگو گے )تو سہی (لیکن اس کو تمہارے حق میں قبول نہیں کیا جائے گا۔
غافل دل کے ساتھ مانگنا:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ادْعُوا اللَّهَ وَأَنْتُمْ مُوقِنُونَ بِالْإِجَابَةِ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ لَا يَسْتَجِيبُ دُعَاءً مِنْ قَلْبٍ غَافِلٍ لَاهٍ۔
جامع الترمذی، باب ماجاء فی جامع الدعوات، حدیث نمبر 3401
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ سے دعا مانگو تو اس کے قبول ہونے کا یقین رکھو! یہ بات اچھی طرح سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ ایسی دعا کو قبول نہیں فرماتے جو غافل اور لاپرواہ دل سے مانگی جائے۔
اللہ تعالیٰ کی حکمت:
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَدْعُو بِدَعْوَةٍ لَيْسَ فِيهَا إِثْمٌ، وَلَا قَطِيعَةُ رَحِمٍ، إِلَّا أَعْطَاهُ اللهُ بِهَا إِحْدَى ثَلَاثٍ: إِمَّا أَنْ تُعَجَّلَ لَهُ دَعْوَتُهُ، وَإِمَّا أَنْ يَدَّخِرَهَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ، وَإِمَّا أَنْ يَصْرِفَ عَنْهُ مِنَ السُّوءِ مِثْلَهَا۔ قَالُوا: إِذًا نُكْثِرُ، قَالَ: اللهُ أَكْثَرُ
مسند احمد، حدیث نمبر11133
ترجمہ: حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جب بھی کوئی مسلمان ایسی دعا کرے جس میں گناہ نہ ہو اور قطع رحمی بھی نہ ہو، تو اللہ ربّ العزت تین باتوں میں سے ایک ضرور اُسے نوازتے ہیں: یا تو اس کی دعا کو اسی طرح جلد قبول فرما لیتے ہیں یا اس کے لئے آخرت میں ذخیرہ کردیتے ہیں اور یا اس جیسی کوئی برائی اس سے ٹال دیتے ہیں۔ صحابہ رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر تو ہم کثرت کے ساتھ دعامانگا کریں گے۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس سے بھی زیادہ عطا ء کرنے والا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ہر حال میں دعا مانگنے والا بنائے اور ہماری دعاؤں کو قبول بھی فرمائے۔
آمین بجاہ النبی الامی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم۔
والسلام
محمد الیاس گھمن
خانقاہ حنفیہ ، مدرسہ علی المرتضیٰ، راولپنڈی
جمعرات، 8 مارچ، 2018ء