رَمَضان ٹرانسمیشن

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
رَمَضان ٹرانسمیشن
اللہ تعالیٰ کےکرم کی بہار رمضان المبارک کی صورت میں آیا ہی چاہتی ہے، دنیا بھر میں بسنے والے وابستگان اسلام بالخصوص اہلیانِ پاکستان اس مقدس مہینے کا استقبال نہایت عقیدت و احترام سے کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں حصول تقویٰ جیسی کیفیت سے ان کے سینے معمور ہو جاتے ہیں، فلسفہ صیام درحقیقت حصول تقویٰ ہی ہے، تقویٰ؛ خدا خوفی کو کہتے ہیں یہ ایسی صفت ہے جس کو اپنانے سے انسان کی دنیا بھی سدھر جاتی ہے اور آخرت بھی سنور جاتی ہے۔
لیکن ہماری بدقسمتی دیکھیے کہ ایک مخصوص طبقہ جس کو قرآن نے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب کی وعید سنائی ہے:
إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَن تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ۔
سورۃ النور، آیت نمبر 19
ترجمہ: بے شک وہ لوگ جو ایمان والوں میں برائی پھیلانے کو پسند کرتے ہیں ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے اور اللہ جانتا ہے تم نہیں جانتے۔
وہ اس مقدس مہینے میں بھی فحاشی و عریانی کو فروغ دینے سے باز نہیں آتا، رمضان ٹرانسمیشن کے نام پر تزکیہ کے مہینے کو لغویات میں برباد کرتا ہے، شعائر اسلامی کی روح کا مذاق اڑاتا ہے، سحر و افطار کی بابرکت ساعات کوناچ گانے، لہو ولعب اور کھیل تماشے کی نذر کر دیتا ہے اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے ہم بحیثیت قوم اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم الشان نعمت کی ناقدری بلکہ اس سے بدسلوکی کے مرتکب بن جاتے ہیں۔
ماہ مبارک میں ٹی وی چینلز پرجس طرح اسلامی شعائر کے تقدس کی دھجیاں بکھیری جاتی ہیں،دین اسلام کے احکامات اور مقرر کردہ عبادات کے ساتھ ایسا کھلواڑ کیا جاتا ہے کہ روح تک کانپ اٹھتی ہے،غیر اخلاقی رسوم و رواج، غیر شائستہ گفتگو، غیر اسلامی اور غیر آئینی رجحانات کو جنم دینے والے غیر فطری مناظر، طبلہ سارنگی کی تھاپ پر نیم برہنہ جسم تھرکتے ہیں تو ثناء خوان تقدیس مشرق کے سر شرم سےجھک جاتے ہیں۔اس لیے ٹی وی چیلنجز پر ایسے بے ہودہ پروگرام دیکھنا حرام ہیں، بھرپور کوشش کریں کہ ٹی وی سے دور رہیں اور رمضان المبارک کی عبادات میں مصروف رہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ آئینِ پاکستان کو بھی بری طرح مجروح کیا جاتا ہے۔ آئینِ پاکستان کے آرٹیکل نمبر31کے مطابق ریاست نہ صرف اس بات کی پابند ہے کہ وہ لوگوں کو ان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی اسلام کے بنیادی اصولوں اور اساسی تصورات کے مطابق گزارنے میں ان کی مدد کرے گی بلکہ وہ ایسے اقدامات کرنے کی بھی پابند ہے جس سے لوگ قرآن و سنت کی روشنی میں زندگی کا مفہوم سمجھ سکیں۔
مسلمان ہونے کے ناتے ہمیں اسلامی احکامات و تصورات کا علم ہونا ضروری ہے اسی طرح پاکستانی ہونے کے ناتے ہمیں اپنے آئین کا علم ہونا بھی ضروری ہے، مجموعی طور پر ہمارا آئین ملک کی نظریاتی سرحدات وتصورات کا محافظ ہے۔ اس میں ذرہ برابر شک کی گنجائش نہیں کہ اگر ریاست اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کرنا شروع کر دے تو ملک میں جرائم کی شرح کافی حد تک کم ہوجائے گی۔
اس حوالے سے اسلام آباد ہائیکورٹ کے ایک فاضل جج محترم جناب شوکت عزیز صدیقی نے ٹی وی چینلز کے ذریعے ان غیر اسلامی رجحانات کو روکنے کا بیڑا اٹھایا۔انہوں نے کہا کہ کوئی ٹی وی چینل رمضان المبارک میں اذان نشر نہیں کرتا لیکن اذان کے اوقات میں چینلز ناچ گانا اور اشتہارات چلاتے ہیں، یہاں تک کہ پی ٹی وی نے بھی اذان نشر کرنا بند کردی ہے،اگر ایسے ہی چلنا ہے تو پھر پاکستان کے نام سے” اسلامی جمہوریہ“ ہٹا دیں۔
انہوں نے کہا کہ رمضان میں کسی ٹی وی چینل پر کوئی نیلام گھر اور سرکس نہیں ہوگا۔مزید ان کا کہنا تھا کہ رمضان ٹرانسمیشن میں سرکس لگتے رہے تو پابندی لگا دیں گے۔انہوں نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کے لیے اذان سے بڑی بریکنگ نیوز کوئی نہیں۔ ہر چینل کے لیے پانچ وقت کی اذان نشر کرنا لازم ہوگا۔ کسی کو بھی اسلام کا تمسخر اڑانے کی اجازت نہیں دیں گے۔
رمضان ٹرانسمیشن اور مارننگ شوز کے ضابطہ اخلاق پر عمل درآمد کے کیس کی سماعت کرتے ہوئے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ اسلامی تشخص اور عقائد کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اس فیصلہ میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے پانچ وقت کی اذان کے ساتھ ساتھ یہ بھی لازم قرار دیا کہ افطاری سے پانچ منٹ قبل کوئی اشتہار نہیں چلے گا بلکہ اس وقت صرف دعا کی جائے گی اور درود شریف پڑھا جائے گا۔
پیمرا کی ہدایات کے مطابق ٹی وی چینلز پابند ہوں گے کہ اداکاروں گلوکاروں کو روپ بدلا کر نیا اسلامی رول دینے کی بجائے دین سے متعلق صرف اُنہی لوگوں کو مدعو کیا جائے گا جو دین کی روح سے واقف ہوں گے اور مستند علم رکھتے ہوں گے۔
ان ہدایات میں یہ بھی کہا گیا کہ اشتہارات کی ترتیب دیتے وقت رمضان المبارک کے تقدس کو ملحوظ خاطر رکھا جائے، پروگراموں و اشتہارات میں ملبوسات کا خاص خیال رکھا جائے گا، موضوعات کا چناؤ مبارک مہینہ کی مناسبت سے کیا جائے گا، غیرشائستہ، نازیبا اور پرتشدد مناظر نشر کرنے سے گریزکیا جائے گا۔
محترم قارئین! پیمرا کے وضع کردہ ضابطہ اخلاق کے ’’بنیادی اصولوں ‘‘ میں سب سے پہلا اصول ہی اسلامی اقدار کا تحفظ ہے۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل 19 میں جہاں میڈیا کی آزادی کی بات کی گئی ہے وہاں یہ بھی طے کر دیا ہے کہ اسلام کی شان و شوکت کے خلاف کوئی بات نہیں کی جا سکتی۔
اسی طرح آرٹیکل 32 کے تحت حکومت کا یہ فرض بنتاہے کہ وہ اسلامی اخلاقی معیارات کی پابندی کو فروغ دے۔ اس لیے ہمارے میڈیا کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ سماجی ا قداران کا تعلق خواہ مذہب سے ہو یا اخلاق سے ہرگز پامال نہیں کی جا سکتیں۔
عوام الناس کی طرف سے فاضل جج کے فیصلے کی بے پناہ پذیرائی اور ان کو خراج تحسین پیش کرنا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ اسلامیانِ پاکستان میں وہ اسلام پسندی کی چنگاری دبی ضرور ہے مگر بجھی نہیں۔
مسلمان عملی طور پر کتنا ہی کمزور کیوں نہ ہو وہ لیکن وہ اپنے عقائد و نظریات اور شعائر اسلامی پر کسی طرح سمجھوتہ نہیں کرسکتا۔ اس لیے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا یہ فیصلہ ہر محب اسلام محب وطن پاکستانی کے دل کی آواز بن چکا ہے۔
والسلام
محمد الیاس گھمن
خانقاہ حنفیہ، کراچی
جمعرات، 17 مئی، 2018ء